“میرے بچے کہاں ڈھونڈتا پھروں میں تجھے۔۔۔ ہمارے بغیر کیسے اکیلا قبر میں سوئے گا تو؟؟؟ تنہا نیند کیسے آئے گی تجھے؟؟؟”
کل رات موبائل فون پر فیس بُک اسکرین اسکرول کرتے ہوئے ان دلخراش الفاظ نے جیسے دل کو جکڑ لیا اور ساتھ لگی معصوم اور پیارے سے بچے کی تصویر پر نگاہیں ساکت ہو کر رہ گئیں… کئی دفعہ چیک کیا کہ شاید کچھ غلط پڑھ لیا ہو لیکن پوسٹ اس بچے کے والد محمد اویس حیدر نے ہی کی تھی-
کیا واقعی اتنا پیارا اور معصوم فرشتہ اب اس دنیا میں نہیں- اور پھر بچے کی موت کی وجہ جان کر صدمہ مزید بڑھ گیا-
دکھ، افسوس، غصہ اور شرمندگی…اس وقت اپنی کیفیت کے اظہار کے لیے درحقیقت میرے پاس کوئی لفظ نہیں فقط…..
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
اللہ معصوم خضر کے والد محمد اویس حیدر اور والدہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
تسلی کے باقی سب الفاظ اس غم کے آگے بے معنی ہیں-
اس المناک حادثے کی وجہ کیا تھی؟
وجہ وہی تھی کہ پتنگ بازی کے شوق نے لاہور میں ایک اور معصوم بچے کی جان لے لی اور گردن پر ڈور پھرنے سے تین سالہ خضر مرتضیٰ موقع پر ہی دم توڑ گیا-
نانی کے گھر سے واپسی پر، اپنے والدین اور بڑی بہن کے ساتھ موٹر سائیکل پر والد سے آگے بیٹھا ہوا، ہنستا بولتا ننھا خضر کب یہ جانتا تھا کہ یہ دنیا بہت ظالم ہے اور اس معصوم کی مسکراہٹ تک کے قابل نہیں-
ابھی حال ہی میں لاہور کے دیال سنگھ کالج کے نوجوان لیکچرار پی ایچ ڈی ڈاکٹر آفتاب احمد کا ہی غم نہیں بھولا تھا جس میں کچھ عرصہ قبل قوم ایک ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ روشن دماغ سے اسی قاتل شوق کی وجہ سے محروم ہو گئی تھی کہ 12 جون، ہفتے کی شب ایک اور معصوم چراغ گل ہو گیا، وہ چراغ جس کی روشنی سے ماں باپ کے گھر کے آنگن میں اجالا تھا-
یہ اور اس جیسے نہ جانے کتنے واقعات ہم سب کے لیے محض ایک خبر بن کر رہ گئے ہیں- نفسا نفسی کے اس دور میں جس طرح آئے دن ایسی خبریں پڑھنے کو مل رہی ہیں تو شاید بے حسی بھی اسی تناسب سے بڑھ رہی ہے- لیکن ان والدین کا سوچیے جن کی عمر بھر کی کمائی اور جن کے جینے کا مقصد اس شوق کی بھینٹ چڑھ گیا؟
حادثہ ہوا اور خبریں لگیں کہ قاتل ڈور نے ایک اور معصوم کی جان لے لی-
لیکن ذرا سوچیے کہ ڈور کیوں قاتل ہوگی؟ اس کی کیا مجال کہ کسی بھی معصوم کی شہہ رگ پر اتنی سفاکی سے کارروائی کر سکے؟
اس ڈور کے پیچھے جو اصل ذمہ دار ہاتھ ہیں وہ کب اپنی ذمہ داری قبول کریں گے؟
اس ڈور کے ذریعے پتنگ کو فضا میں بلند کرنے والوں سے لے کر آرام دہ کرسیوں پر غافل بیٹھے تمام اعلیٰ افسران تک سب لوگ اس حادثے کے ذمہ دار ہیں- ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے اقدامات نہیں کیے ہیں، اقدامات تو کیے ہیں، قوانین بھی نافذ کیے گئے ہیں لیکن ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا- اسی لیے حکومت کی جانب سے پابندی کے باوجود بہت سے علاقوں میں پتنگ بازی کا خونی کھیل اب بھی جاری ہے جس کے نتیجے میں ایسے دلخراش واقعات مسلسل رونما ہو رہے ہیں- ان واقعات کے بعد اس علاقے کے پولیس تھانے سے ایک دو لوگوں کی وقتی معطلی اب محض ایک مزاق بن کر رہ گئی ہے-
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ حکومتی اداروں کی طرف سے پتنگ بازی پر پابندی لگانے کے باوجود بھی اس شوق کو پورا کرنے کے لیے پتنگ بازی کا یہ سب سامان بازار میں کیسے کھلے عام فروخت ہو رہا ہے اور کیسے لوگوں کے اس قاتل شوق کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہو رہا ہے؟ اس سب باتوں کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟
دیکھا جائے تو حکومت کے ساتھ ساتھ میں، آپ، ہم سب بھی تو اس واقعے کے ذمہ دار ہیں- غفلت اور لاپرواہی بھی تو ایک جرم ہے- پتنگ اڑاتے لوگوں کو دیکھ کر محظوظ ہونا بھی ایک جرم ہے اور سب سے بڑھ کر پتنگ اڑاتے لوگوں کو پتنگ اڑاتے دیکھ کر نظر انداز کر کے خاموش آگے بڑھ جانا بھی تو ایک جرم ہے-
یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ قیمتی جانیں واپس تو نہیں آ سکتیں اور تسلی کے چند الفاظ کہہ کر خونی رشتوں کی المناک جدائی کا غم کم نہیں کیا جاسکتا لیکن مؤثر قانون سازی اور فوری سزاؤں سے ان واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے –
اس کے علاوہ میڈیا کے ذریعے مستقل بنیادوں پر مہم چلائی جائے جس میں پتنگ بازی کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصانات کی آگاہی دی جائے- سوشل میڈیا اس وقت سب سے مؤثر اور طاقتور میڈیم بن کر سامنے آیا ہے جس میں معاشرے میں بڑھتی ہوئی کسی بھی برائی پر عوامی ردعمل فوری طور پر سامنے آجاتا ہے- لوگوں کو اس طاقت کا مثبت استعمال کرتے ہوئے پتنگ بازی کی شدت سے مخالفت کرنا ہوگی- پہلا قدم خود اٹھانا ہوگا-
عوام کو بھی اپنی ذمے داری نبھانا ہوگی- اگر ہر شخص اپنے اپنے علاقے اور محلے پر نظر رکھے تو فضا میں بلند ہونے والی ہر پتنگ کی فوری اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دی جا سکتی ہے اگر یہ بھی ممکن نہیں تو کم از کم اس علاقے کے معززین اپنے سماجی دباؤ کارڈ کا مناسب استعمال کر سکتے ہیں تاکہ اس خونی کھیل کی حوصلہ شکنی ہو اور اس کو ہر سطح پر روکا جا سکے- یہ لوگ پتنگ باز نہیں بل کہ سر عام دندناتے ہوئے قاتل ہیں جن کا ہتھیار کوئی بندوق یا تلوار نہیں بل کہ ایک قاتل ڈور ہے-