میں نے اپنی پہلی کار 1993ءمیں خریدی تھی۔ یہ ایک پرانی85ء ماڈل کی سفید گاڑی تھی جسے میں نے ایک اخباری اشتہار کی مدد سے بہادرآباد سے خریدا۔ جس وقت گاڑی خریدی اس وقت گاڑی چلانی آتی نہیں تھی۔ ارادہ یہی تھا کہ خرید لوں گا تو اسی پر چلانا بھی سیکھوں گا۔ بلکہ لوگ پہلی بار اسی طرح کی پرانی اور سستی گاڑی ہی خریدتے تھے تاکہ اسے چلانا سیکھنے کے دوران کہیں ٹھوک دیں تو زیادہ مالی نقصان نہ ہو۔تھوڑا بہت گاڑی چلانا تو میں نے پہلے ہی دوستوں سے سیکھ رکھا تھا، لیکن ابھی اتنی ہمت پیدا نہیں ہوئی تھی کہ گاڑی کو زیادہ ٹریفک میں لے جاؤں۔ اس لئے ہوا یہ کہ کار خریدے ہوئے کئی دن گزرگئے لیکن وہ گھر پہ ہی کھڑی رہی اور میں بدستور موٹر سائیکل ہی چلاتا رہا۔
آخر ایک دن یہ ہوا کہ چھوٹے بھائی حبیب اللہ نے میری غیر موجودگی میں گاڑی باہر نکالی اور اپنی اناڑی ڈرائیونگ کی پریکٹس کرتے ہوئے گاڑی کو زور دار طریقے سے گھر کے آ ہنی دروازے میں دے مارا۔ جب میں گھر پہنچا تو گھر کا ٹیڑھا دروازہ اور گاڑی کا ٹیڑھا بونٹ میرا انتظار کر رہا تھا۔ پہلے تو میں نے بھائی کی خوب خبر لی اور پھر اس فکر میں پڑ گیا کہ اب اس گاڑی کو مرمت کیلئے مین روڈ پر ڈینٹر کے پاس کون لے کر جائے گا؟…. خیر مرتا کیا نہ کرتا۔ خود ہی گاڑی اسٹارٹ کی اور دھڑکتے دل کے ساتھ لرزتا ہوا گاڑی کو آہستہ آہستہ چلاتا ہوا مین روڈ پر لایا اور ٹریفک کے اژدہام میں چلاتا ہوا ڈینٹر کی دوکان تک بھی لے ہی آیا۔
گاڑی کا ڈینٹ تو نکلا ہی،ساتھ ہی میری ڈرائیونگ سے جھجک بھی نکل گئی۔ کچھ ہی عرصے میں اتنا مشاق ہوگیا کہ ایک دن بچوں کو لے کر گاڑی میں کراچی سے ڈیرہ غازی خان تک پہنچ گیا۔یہ گاڑی اگلے دو سال میرے پاس رہی، حتیٰ کہ 1996ءمیں مَیں نے ایک ڈیزل شیراڈ خرید لی۔ ٹوڈور اور سن روف والا یہ اسپورٹس ماڈل ایسا دل کو بھایا کہ پھر اگلے سولہ سال میں اسی گاڑی کو استعمال کرتا رہا اور اس پر ملک کے طول و ارض میں لاتعداد سفر کر ڈالے۔
شیراڈ خریدنے کے اگلے سال 1997ءمیں لاہور اسلام آباد موٹروے تعمیر ہو گئی۔ میری شدید خواہش ہوئی کہ موٹروے پر گاڑی چلاؤں،حالانکہ ابھی موٹروے کا باقاعدہ افتتاح نہیں ہوا تھا۔ لیکن میں چونکہ اس وقت جنگ گروپ میں ملازم تھا اور میرے پاس پریس کارڈ ہوتا تھا اس لئے امید تھی کہ مجھے موٹروے پر گاڑی چلانے کی اجازت مل جائے گی۔چنانچہ میں نے بیوی اور بیٹے کو ساتھ لیا اور گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کراچی سے لاہور اور پھر اسلام آباد پہنچ گیا۔موٹروے کی تعمیر ابھی مکمل نہیں تھی۔ اس کا افتتاح اگلے مہینے تھا اور کوریا کی Daewooکمپنی تیزی سے کام کو تکمیل تک پہنچانے میں مصروف تھی۔ زیادہ تر سیکشن تو مکمل ہوچکے تھے البتہ کہیں کہیں کچھ پلوں کی تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے رکاوٹیں تھیں۔ اسی وجہ سے ابھی اس پر سفر بھی ممنوع تھا، لیکن لوگ کوئی نہ کوئی سورس استعمال کرکے اس پر سفر کررہے تھے۔
اکتوبر کی ایک خنک صبح کو دس بجے میں راولپنڈی سے روانہ ہوا اور چکری روڈ پر ڈرائیو کرتا ہوا چکری انٹرچینج سے موٹروے پر چڑھ گیا۔موٹروے کی تو دنیا ہی اور تھی۔ کہاں پاکستان کی دوسری بے چاری غریبانہ سڑکیں جہاں قدم قدم پر طرح طرح کی رکاوٹیں ، اورکہاں یہ خاموش اور پرسکون وی آئی پی روڈ جہاں دور دور تک نہ کوئی سگنل تھا نہ یوٹرن، نہ کوئی بس اسٹینڈ تھا اور نہ ٹریکٹر ٹرالیاں اور ریڑھے۔ آپ جتنی اسپیڈ بڑھانا چاہیں بڑھا لیں، گاڑی پر سکون انداز سے چلتی رہے گی۔ جہاں جہاں کوئی پل مکمل نہیں تھا وہاں گاڑیاں سڑک سے نیچے کچے میں اتر جاتیں اور چند سو میٹر آگے جاکر پھر موٹر وے پر چڑھ جاتیں۔ ایک دو جگہ ڈائیوو کمپنی کے اہلکاروں نے مجھے مزید آگے جانے سے روکنے کی بھی کوشش کی، لیکن میرے پریس کارڈ دکھانے پر آگے جانے کی اجازت مل گئی۔
موٹروے گاڑی کو تیز رفتار دوڑانے کیلئے آئیڈیل سڑک ہے، لیکن اس دن پتہ نہیں میری گاڑی میں کیا خرابی پیدا ہوگئی کہ میں جتنا چاہے ایکسیلریٹر دباتامگر اسپیڈ پچاس پچپن سے زیادہ نہیں بڑھتی تھی۔ خاصی پریشانی بھی ہوئی، لیکن اس سڑک پر تو دور دور تک کسی بھی قسم کا کوئی میکینک موجود نہیں تھا۔ چنانچہ اسی رفتار پر اکتفا کئے چلتا رہا۔
رفتار کم ہونے کی وجہ سے وقت بھی زیادہ لگ رہا تھا اور خدشہ تھا کہ شام پانچ چھ بجے سے پہلے لاہورنہ پہنچ پائیں گے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد آنے والی رکاوٹیں رہی سہی اسپیڈ کو مزید توڑ دیتیں اور مزید وقت ضائع ہو جاتا۔پوٹھو ہار اور سالٹ رینج کے علاقوں میں راستہ اونچا نیچا اور پہاڑی ہے۔ سالٹ رینج کے اختتام پر موٹروے کلر کہار کی خوبصورت جھیل کے بالکل کنارے پر آجاتی ہے۔ کلر کہار سے تقریباً نصف گھنٹہ اور آگے چلیں تو سالٹ رینج کا اختتام ہو جاتا ہے اور موٹر وے ایک طویل ڈھلوان پر اترتی ہوئی پنجاب کے میدانوں میں داخل ہو جاتی ہے۔
اب سڑک بالکل ہموار اور تیرکی طرح سیدھی ہو جاتی ہے اور راستہ تیزی سے طے ہونے لگتا ہے۔ لیکن میرے گاڑی نے تو شاید آہستہ چلنے کی قسم اٹھا رکھی تھی۔ سست رفتاری سے سفر کرتے کرتے شام کے پانچ بج گئے۔ ابھی موٹروے پر سفری ہدایات اور فاصلوں کی نشاندہی کے بورڈ بھی نہیں نصب کئے گئے تھے اس لئے یہ بھی اندارہ نہیں ہو رہا تھا کہ ہم کہاں تک پہنچے ہیں،کتنا فاصلہ طے کرچکے ہیں اور کتنا باقی ہے۔ اب تو سورج بھی غروب ہونے کے قریب تھا۔ مجھ پر گھبراہٹ طاری ہونے لگی کیونکہ اندھیرے میں اس نامکمل سڑک پر سفر کرنا خطرناک بھی ثابت ہوسکتا تھا ۔میں تو چاہتا تھا کہ بقیہ راستہ بھی جلد از جلد طے کرلوں لیکن گاڑی کی سست روی نے مجبور کر رکھا تھا۔
ابھی اسی پریشانی میں تھا کہ سامنے اچانک پھر سڑک ختم ہونے کے آثار نظر آئے۔ میں نے رفتار کم کردی۔یہاں آگے ڈائیوو کمپنی کا بیریئر لگا ہوا تھا اور چند اہلکار بھی کھڑے تھے۔ایک نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا۔ میں نے بریک لگا دیا۔
”آپ کہاں جا رہے ہیں سر؟“ اس نے گاڑی کے قریب آکر پوچھا۔
”جی لاہور۔“ میں نے جواب دیا اور خالی خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
”آپ کو معلوم ہے ابھی موٹروے پر سفر کی اجازت نہیں۔ آپ آگے نہیں جاسکتے۔“ اس نے خشک لہجے میں کہا۔ میں نے اپنا پریس کارڈ نکال کر اس کے ہاتھ میں دیا جو اس نے ایک نظر دیکھ کر مجھے واپس کر دیا۔
”ٹھیک ہے سر، آپ پریس کے آدمی ہیں، لیکن کیا آپ کے پاس ڈائیوو کمپنی کا جاری کیا ہوا اجازت نامہ موجود ہے۔“ اس نے پوچھا۔ میں کچھ پریشان ہوا۔
”نہیں وہ تو میرے پاس نہیں۔ لیکن میں اسلام آباد سے اسی روڈ پر آ رہا ہوں اور ابھی تک مجھے کسی نے نہیں روکا۔“
”جی انہوں نے غلطی کی ہے۔ سڑک مکمل نہیں ہے۔ اس پر سفر کرنا خطرناک ہے۔ ہم ڈائیوو کمپنی کے پاس کے بغیر آپ کوآگے جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔“اس نے حتمی انداز میں کہا اور میں جو ویسے ہی رفتار میں کمی اور سورج کے ڈھل جانے سے پریشان تھا،مزید متوحش ہوگیا اور بے چارگی سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
”آپ ایسا کریں کہ یہاں موٹروے سے نیچے اتر جائیں۔ نیچے ایک سڑک ہے جو آپ کو قریبی آبادی تک لے جائے گی۔وہاں سے لاہور جانے والی سڑک گزرتی ہے۔“اس نے کچے میں اترنے والے راستے کی طرف اشارہ کیا جو موٹروے کے دائیں طرف کھیتوں میں جا رہا تھا۔ابھی اس کی بات جاری ہی تھی کہ اچانک پیچھے سے ایک نئی اور مہنگی کار آئی۔وہ بھی رکاوٹ کی وجہ سے میری گاڑی کے برابر میں کھڑی ہوگئی۔ ڈائیوو کمپنی کا اہلکار مجھے چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ میں اس امید پر وہیں کھڑا رہا کہ اب چونکہ موٹروے پر مزید آگے سفر کا ایک اور امیدوار سامنے آگیا ہے،اگر اسے اجازت مل گئی تو میں بھی جاسکوں گاکیونکہ وہ دیکھنے میں کوئی صاحب حیثیت آدمی لگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک بیوی نما خاتون بھی تھی۔اہلکار نے اس سے بھی اجازت نامہ طلب کیا اور نہ ہونے کے باعث اسے بھی آگے جانے سے روک دیا۔ اس پر وہ شخص جارحانہ انداز میں گاڑی سے اتر آیا اور بحث کرنے لگا۔
”اوئے تجھے پتہ ہے میں کون ہوں؟“ وہ غصے سے بولا۔
”سر آپ جو بھی ہیں، میں پاس کے بغیر آپ کو آگے جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔“اہلکار نے انکار کرتے ہوئے فیصلہ کن لہجے میں جواب دیا۔
اس پر نو وارد مشتعل ہوگیا۔
”اوئے توہے کون مجھے روکنے والا۔ بکواس کرتا ہے۔“ وہ غصے سے دہاڑا۔
”زبان سنبھال کر بات کرو مسٹر۔ بکواس تم خود کر رہے ہو۔“
اہلکار بھی بپھر گیا۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ نووارد غصے میں اسے مارنے کیلئے آگے بڑھا اور آناً فاناً دونوں گتھم گتھا ہوگئے۔ نووارد کی بیوی کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں اور وہ چیخنے لگی۔ قریب کھڑے ہوئے دوسرے اہلکار تیزی سے ان دونوں کی طرف لپکے۔ میں نے جو یہ تماشا دیکھا تو فوراً گاڑی ریورس کی اور نہایت شرافت کے ساتھ موٹروے سے نیچے کچے پر اتر گیا جہاں ایک ویران اور ٹوٹی پھوٹی سڑک منتشر سے کھیتوں میں جا رہی تھی۔ کہاں موٹروے اور کہاں یہ پگڈنڈی۔ مجھے یوں لگا جیسے:
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
سورج چند منٹ میں غروب ہونے والا تھا۔ میری گاڑی لڑکھڑاتی ہوئی آگے بڑھنے لگی۔ تھوڑا ہی آگے چلے ہوں گے کہ سڑک کے قریب جھاڑیوں میں ایک بوڑھا چرواہا لمبی سی لاٹھی لئے اپنی چند بھینسیں ہنکاتا نظر آیا۔ میں نے گاڑی روکی اور بابا جی کو آواز دی۔ میرے ذہن میں سوال تو اس انداز کا تھا جیسے حادثاتی طور پر بے ہوش ہو جانیوالے کسی شخص کو ہسپتال پہنچ کر ہوش آئے تو اس کا پہلا سوال ہوتا ہے۔ ”میں کہاں ہوں؟“
اس لئے اس بابے سے میں بھی یہی پوچھنا چاہتا تھا کہ ”ہم کہاں ہیں؟“
بابا قریب آیا۔
”السلام علیکم بابا جی۔“ میں نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے سلام کیا۔
”وعلیکم سلام پتر۔“ بابا نے شفقت سے جواب دیا۔
”بابا جی یہ رستہ کدھر جا رہا ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”پتر اے رستہ خانقاہ ڈوگراں جاندا اے۔“ وہ خوش دلی سے بولے۔
”یہ خانقاہ ڈوگراں کتنی دور ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”اے بس نال ای اے پتر۔ دس پندراں منٹ دا رستہ اے۔“ وہ بولے۔میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ دس منٹ بعد ہی آبادی کے آثار شروع ہوگئے اور میری جان میں جان آئی۔ یہ خانقاہ ڈوگراں نامی قصبہ تھا۔ قصبے کی گلیوں میں سے گزر کر مرکزی سڑک تک پہنچتے پہنچتے مغرب ہوگئی۔مین روڈ سے اکا دکا بسیں اور ٹرک وغیرہ گزر رہے تھے۔ میں نے ایک دوکاندار سے لاہور کا رستہ پوچھا تو اس نے سڑک پر جنوبی سمت جانے کو کہا۔
وہ ایک سنگل اور ناہموارسی سڑک تھی۔ چلتے چلتے کوئی ایک گھنٹہ گزرا ہوگا کہ پھر موٹر وے آگئی۔ لیکن اب یہ ہمارے سروں پر معلق ایک پل کے اوپر اوپر سے ہی ہمیں احساس کمتری میں مبتلا کرتی ہوئی گزر گئی۔ پل کے نیچے سے گزر کر ہم آگے آئے تو شیخو پورہ میں تھے۔ ڈیڑھ گھنٹہ مزید سفر کرنے کے بعد جب ہم شاہدرہ سے گزرتے ہوئے لاہور میں داخل ہوئے تو رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔رات ایک ہوٹل میں بسر کی اور صبح اٹھ کر سب سے پہلے گاڑی لے کر کسی ڈیزل میکینک کی تلاش میں نکل گیا۔ کل گاڑی نے اپنی سست روی سے مجھے بڑا پریشان کیا تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ اس خرابی کے ساتھ ہی کراچی جاؤں۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس دن اتوار تھا اور دوکانیں بند تھی۔ایک جگہ ایک ڈیزل پمپ سروس والے کی بند دوکان نظر آئی ۔ دوکان کے سامنے تین نوجوان بیٹھے گپیں لگا رہے تھے۔ میں نے گاڑی روکی اور ان سے میکینک کا پوچھا۔
”آج تو جی دوکان بند ہے۔“ ان میں سے ایک بولا۔
”لیکن بھائی مجھے آج کراچی نکلنا ہے اور ایک دن مزید رکنا مشکل ہے۔کیا یہ میکینک آ نہیں سکتا؟“ میں بولا۔
”کراچی جانا ہے؟…. آپ کراچی سے آئے ہیں؟“ وہ بولا۔
”جی میں کراچی سے آیا ہوں۔“
” اوہ ۔ اچھا رکیں۔ یہ میکینک ہمارا دوست ہے۔ قریب ہی رہتا ہے۔ میں اسے بلا کر لاتا ہوں۔“
وہ بولا اور اٹھ کر چلا گیا۔ میں باقی دونوں کے پاس بیٹھ گیا۔وہ تھوڑی ہی دیر میں مستری کو لے آیا۔
اس نے آتے ہی دوکان کا شٹر اٹھایا، اوزار نکالے اور میری گاڑی کا بونٹ کھول کر کام میں لگ گیا۔ گاڑی کے فیول پمپ میں کوئی خرابی تھی اور کام لمبا لگتا تھا۔ تھوڑی دیر میں دوپہر ہو گئی۔
”چلیں جی پیچھے ہمارے گھر چل کربیٹھتے ہیں۔“
میکینک کو لانے والا لڑکا منیر بولا۔
”گاڑی ٹھیک ہوتی رہے گی آپ فکر نہ کریں۔“
ہم اٹھ کر پچھلی گلی میں اس کے گھر آ گئے۔
ابھی بیٹھے ہی ہوں گے کہ اس کے چھوٹے بھائیوں نے آ کر دسترخوان لگا دیا اور پھر گرما گرم کھانا لگ گیا۔
”یہ کیا تکلف کر رہے ہیں منیر بھائی؟“ میں بولا۔
”تکلف کی کیا بات ہے سر۔ آپ کراچی سے آئے ہیں اور ہمارے مہمان ہیں۔“
وہ خوشدلی سے بولا اور میں ان لاہوری زندہ دل مہمان نوازوں کو حیرت سے دیکھتا رہا۔
”مان نہ مان میں تیرا مہمان“
تو بہت سنا تھا لیکن
” مان نہ مان میں تیرا میزبان“
والا خوش کن رویہ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔
ہم کھانا کھا کر واپس آئے تو گاڑی ریڈی کھڑی تھی۔ میں نے مستری سے پیسوں کا پوچھا تو ایک قدم پیچھے ہو کر ہنسنے لگا۔
”نا جی نا ۔ مہمان سے پیسے؟…. سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔“
”میں مہمان نہیں بھائی، میں گاہک ہوں۔“ میں جلدی سے بولا۔
”جی گاہکوں کیلئے تو آج چھٹی ہے۔ ہم نہ چھٹی والے دن کام کرتے ہیں نہ پیسے لیتے ہیں۔ آپ ہمارے گاہک نہیں ہمارے مہمان ہیں۔“
اس نے ایک پیسہ بھی لینے سے انکار کر دیا۔
میں گاڑی لے کر ہوٹل واپس آیا۔ اب تو گاڑی فراٹے بھر رہی تھی۔
صبح میں لاہور سے نکل آیا اور کراچی تک پھر گاڑی نے کوئی مسئلہ نہیں کیا۔
اگلے ہی مہینے موٹروے کا افتتاح ہوگیا۔ افتتاح کے فوراً بعد شروع ہی کے دنوں میں، میں نے ڈائیوو کی نئی بس سروس کے ذریعے لاہور تا اسلام آباد ایک سفر بھی کر ڈالا۔ اس کے بعد سے آج تک کئی مرتبہ پبلک ٹرانسپورٹ سے بھی اور اپنی گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی موٹروے پر سفر کیا ہے، لیکن موٹروے پر اس پہلے سفر کی خواری لاشعور میں ہمیشہ ایک خوف کی طرح موجود رہتی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے اچانک کوئی سامنے آکر گاڑی روک دے گا اور پھر موٹر وے سے کسی ویران سڑک پہ اترنے پر مجبو رکر دے گا۔لاہور کے ان نوجوان میزبانوں اور اس مہمان نواز میکینک سے میں بعد میں بھی جا کر ملتا رہا۔
اس میکینک کی بھی ایک عجب المناک کہانی تھی۔ جب میں پہلی بار اس سے ملاتو ان دنوں محلے میں ایک لڑکی سے اس کا معاشقہ چل رہا تھا۔ لیکن اس لڑکی کے گھر والوں نے اس کے ساتھ شادی نہ ہونے دی اور کسی اور کے ساتھ اس کی زبر دستی شادی کر دی۔ شادی کے اگلے دن اس لڑکی نے خودکشی کرلی اور ہمارے میکینک کو زندگی بھر کیلئے روگی کر دیا۔ان لوگوں سے کچھ سال تو رابطہ رہا لیکن اس وقت نہ موبائل فون عام تھے، نہ فیس بک تھا اور نہ ہی واٹس ایپ۔ اس لئے وہ وہ لوگ بھی حالات و واقعات میں گم ہو گئے اور میں بھی ان کیلئے گم گشتہ ہوگیا۔