حکومت نے ایوان سے بیرون ملک تارکین وطن کے ووٹ کے حق کے بارے میں قراداد منوا تو لی ہے، پر موجودہ صورتحال میں حکومت و اپوزیشن دونوں بیرون ملک تارکین وطن کے ووٹوں کو غیرضروری طور پر فائدہ مند و نقصاندہ سمجھ رہی ہے۔
بیرون ملک پاکستانوں کی تعداد بعض اندازوں کے مطابق 88 لاکھ کے قریب ہے۔ جس کی نصف مشرق وسطی میں اور 30 لاکھ کے قریب یورپ و امریکہ بشمول برطانیہ میں مقیم ہے۔ باقی دنیا کے مختلف خطّوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
۲۰۱۸ کے عام انتخابات کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں بالخصوص مغربی دنیا کیے نسبتا بہتر حالات میں رہنے والوں میں PTI کے حق میں خاصا جوش و خروش تھا۔ اگر یہ تبدیلی ۲۰۱۸ کے انتخابات سے پہلے ہوتی تو یقیناً نتائج پر اثر انداز ہو سکتی تھی۔
پر آج ۲۰۲۱ میں موجودہ حکومت کے تین سالہ راج کے بعد پُلوں کے نیچے بہت پانی گذر چکا ہے۔پی ٹی آئی کے جذباتی حامی بھی تھُوڑے بجھے بجھے نظر آکر اس حکومت کی کارکردگی کی تاویلیں ہی کرتے نظر آرہے ہیں۔ جو اوپر والا ٹھیک ہو تو دینا ٹھیک ہو جاتی ہے سے شروع ہو کر “اکیلا خان کیا کرے گا”، خان اچھا ہے ٹیم خراب ہے تک تو پہنچ گئے ہیں۔
یقیناً تمام حکومتوں کی طرح انہوں نے بھی کچھ اچھے کام کئے ہوں گے۔ اب بیچارے عاشقین خورد بین کے ذریعے “مثبت خبریں” تلاش کرکے اسے amplify کرکے کام چلارہے پیں۔
بیرون ملک پاکستانی دو اقسام میں دیکھے جاسکتے ہیں مشرقی وسطی میں مزدوری کرنے والے اور یورپ و امریکہ کی سر سبز چراگاہوں میں ڈالر، پونڈ و یورو کمانے والے یقیناً آسان تو کہیں نہیں ہوتا محنت تو وہاں بھی کرنی پڑتی ہی ہے۔
لیکن حالات کار یقیناً مشرق وسطی کے کارکنان سے بہتر ہوتے۔ کہ انسانی حقوق سے لیکر کارکنان کی حفاظت تک اور ایک وقت کے بعد شھریت و مستقل رہائش بمع خاندان بھی مل جاتی ہے۔
اس لیے عموماً اپنے گھر وہیں بنا چکے ہوتے ہیں، یقیناً کبھی کبھار گھروالوں سے رابطہ بھی رکھتے ہیں اور پیسے بھی بھیجتے ہیں۔ لیکن نوعیت تھوڑی سی مختلف ہے۔ اور وہ عموماً پاکستان کے حالات سے اتنے مثاثر نہیں ہوتے۔
چونکہ انکا وطن سے دور کا رشتہ ہے اس لئے مہنگائی و گورنینس ان کا مسئلہ نہیں ہے، اس کی بہ نسبت وہ معاشی اعشاریوں کے نمبروں پر توجہ بھی دیتے ہیں۔ بظاہر یہ طبقہ اب بھی حکومت سے مطمئن ہے۔
دوسری طرف مشرق وسطی کا مزدور طبقہ چاہے پچاس سال بھی رہے اس کی رہائش عارضی ہی ہوتی ہے۔ اسے علم ہے کہ آخرکار اسے واپس جانا ہی ہے یہی احساس اسے وطن سے جوڑے رکھتاہے۔وہ اہل خانہ گذارے کے لیے ماہانہ پیسے بھیجتا ہے اس لیے زمینی حقائق (مہنگائی اور گورنینس) کے معاملات سے زیادہ واقف ہوتا بھی ہے۔
ویسے بھی بیرون ملک سے بھیجی جانے والی رقوم جو ہمارے قومی جسم میں خون و آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہیں ان ہی مشرق وسطی کے محبت کشوں کی محنتوں کا پھل ہے کہ وہ اپنے میزبان ملک میں کرائے دار ہی رہتے ہیں بچّے ، گھر و جائیداد تو اب کُچھ وطن عزیز میں رکھتے ہیں۔
جبکہ اہالیان “سبز چراہ گاہ” چاہے امریکہ ہو یا یورپ و برطانیہ ان کی نوکری ہی نہیں بچّے اور بعض اوقات والدین بھی ان کے ساتھ ہی منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس لئے نہ تو انہیں سوائے کسی اشد ضروری معاملے کے پاکستان رقوم کی ترسیل کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ درحقیقت سوائے ایک جذباتی تعلق کے ان کا پاکستان سے عملی ربط کم سے کم ہوتا جاتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے احسن اقبال نے بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کی مخالفت تو نہیں کی لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے ووٹ ان کے متعلقہ حلقوں میں گنے جانے کی بجائے ان کے لئے آبادی کے تناسب سے جداگانہ سیٹیں فراہم کی جائیں۔
جو کہ نہ صرف ناقابل عمل ہے، بلکہ مضحکہ خیر بھی جب ہماری اسمبلی میں ممبر برائے بھکّر یا سکھر کے ساتھ ممبر برائے امریکہ و برطانیہ (مقیم پاکستانی جن کا پاکستان میں کوئی حلقہ نہ ہو) بھی منتخب ہوں گے۔ ان کے ترقیاتی فنڈز کے استعمال کہاں ہوں گے؟؟
دوسری بات یہ بھی ہے کہ ان ممالک میں چونکہ ووٹرز کسی بھی دور دراز علاقوں میں پھیلے ہوتے ہیں زیادہ تر ووٹ ڈالنے کے لئے مرکزی مقامات پر آنے کا تردد ہی نہیں کریں گے۔نتیجہ یہ ہو گا صرف بڑے شھروں کے انتہائی کم ٹرن آؤٹ کے ساتھ بڑی جماعتیں ان نشستوں پر مفت میں قابض ہو جائیں گی۔ چونکہ فی الوقت PTI کے حامی بیرون ملک پاکستانیوں میں زیادہ ایکٹو نظر آتے ہیں اس کا فائدہ انہیں ہی ہوگا۔
اس بات سے قطع نظر کہ اس سے کسے فائیدہ ہو، بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا حق اپنے آبائی حلقوں کی بجائے اپنے موجودہ اختیار کردہ غیر ملکی شھر و ملک کی بنیاد پر دینا ہی اصولی و منطقی طور بے جواز ہے۔
مناسب یہی ہے کہ غیر ملک میں مقیم پاکستانی اپنے ووٹ کاحق اپنے آبائی حلقوں ہی کے لئے استعمال کریں۔ جس کا تعین ان کے شناختی کارڈ پر دئیے ہوئے پاکستانی پتّے سے کیا جائے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر تارکین وطن اپنے گھروں میں بیٹھ کر پوسٹل ووٹ کے ذریعے ووٹ دیں گے، اس صورت میں ووٹر کے کوائف کی تصدیق کا کیا طریقہ کار ہوگا؟
یا تمام ووٹرز سفارتخانوں کے زیراہتمام پولنگ بوتھ میں ذاتی طور پر حاضر ہو کر اپنے ووٹ ڈالیں گے، اس صورت میں چونکہ ووٹر مختلف شھروں و علاقوں میں مقیم ہیں، اس لئے ووٹ ڈالنے کی شرح سنجیدگی سے متاثر ہو سکتی ہے۔
چونکہ “سبز چراہگاہوں “ میں موجودہ پاکستانیوں میں موجودہ حکومت ٹھیک ٹھاک حمایت رکھتی ہے ۔ اس لئے یقیناً بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹ کا حق ان کے سیاسی مفاد میں بھی ہے۔ اس کے باوجود یہ درست اقدام ہے جس کی حمایت کرنی چاہیے۔ اگر آئین دھری شھریت کا حق تسلیم کرتا ہے تو دھری شھریت کے حاملین سے ووٹ دینے حق چھینے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
اگر امریکہ و یورپ میں مقیم 30 لاکھ پاکستانیوں میں سے نصف ووٹ بھی اپنے ووٹ کا استعمال کرسکیں تو جوکہ مشکل امر ہے کہ ووٹر برآعظم یورپ و امریکہ کے چپّے چپّے پر پھیلا ہوا ہے اور انتہائی جذباتی حامی ہی سینکڑوں ہزاروں کلو میٹر کافاصلہ طے کرکے کسی مرکزی جگہ ووٹ ڈالنے کے لئے سفر کرنے کی زحمت کرے گا (پاکستان کے انتخابات میں پچاس فیصد ٹرن آؤٹ ایک بہت کامیاب انتخابات کی نشانی ہے)، اور اس کے 75 فیصد حکمراں جماعت کو مل گئے تب بھی تعداد 11 لاکھ سے زیادہ نہیں ہو سکتی ۔
یہی معاملہ مشرق وسطی کا ہے عموماً مزدور طبقے کا ووٹر طویل فاصلے طے کرکے ووٹ دینے سے معذور، ملکی حالات مہنگائی و گورنینس کے معاملات سے براہ راست متاثر کرنے کی بناء پر اس کی ووٹ کی ترجیحات مختلف ہو سکتی ہیں۔ یہاں بھی پچاس فیصد ووٹنگ کے ساتھ اگر حکمران جماعت پچاس فیصد ووٹ بھی لے سکیں تب بھی 11 لاکھ ووٹ بنیں گے یعنی حکمران جماعت بیرون ملک تارکین وطن سے ٹوٹل 22 اضافی ووٹ حاصل کرسکتی ہے۔
۲۰۱۸ کے انتخابات میں تحریک لبیک نے مجموعی طور پر 2,234,316 ووٹ حاصل کیے ۔لیکن ایک بھی قومی سیٹ نہ جیت سکے ۔ کیونکہ انکے ووٹ پورے ملک میں پھیلے ہوئے تھے۔ جبکہ متحدہ مجلس عمل (MMA) نے 2,573,939 یعنی صرف ڈہائی لاکھ ووٹ زیادہ لیکر 15 قومی سیٹیں حاصل کی اس کی وجہ صرف اور صرف یہی تھی کہ انکا ووٹ بینک اپنے مخصوص علاقوں میں مرتکز تھا۔
موجودہ صورتحال میں اگر کوئی جماعت 22 کیا 30 لاکھ ووٹ بھی اضافی ووٹ پورے ملک میں تقسیم ہو کر چند سیٹوں کے علاوہ جن میں کانٹے کا مقابلہ ہو انتخابات پر اثرانداز نہیں ہو پائیں گے۔
زیادہ امکان پنجاب اور کشمیر کے بعض حلقوں جہاں کے لوگ بڑی تعداد میں ان ممالک میں مقیم ہیں (مثال کے طور پر برطانیہ میں آزاد کشمیر نژاد پاکستانی کمیونٹی ) کے علاوہ اصل انتخابی جنگ اپنی ڈومیسٹک کارکردگی پر ہی لڑی، جیتی یا ہاری جائے گی۔
اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے۔ کہ دونوں حکومت و اپوزیشن بیرون ملک پاکستانیوں کے ووٹوں کے اثرات کو over hype کرکےنہ جانے خود یا کسی اور کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
کیا ممکن ہے کہ یہ سارا کھیل پارلیمانی نظام کا کمبل چُرانے کے لئے رچایا جارہا ہے۔ کہ موجودہ حکومت اور ان کے سرپرستان پارلیمانی نظام کی زنجیروں سے بے حال ہوکرصدارتی نظام کے خواب دیکھتے ہی رہتے ہیں، بظاہر آئینی طور پر ریفرینڈم کے ذریعے آئین میں تبدیل کرکے ملک کے نظام پارلیمانی سے صدارتی میں تبدیل کرنا ناممکن ہے۔ لیکن کئی مرتبہ ایسے مشورے بھی دئیے جاچکے ہیں۔
بظاہر ریفرینڈم ناممکن ہے لیکن ہمارے عدالتی مفتی ایک مرتبہ پہلے بھی نظریہ ضرورت کو دفن کرکے حسب ضرورت زندہ کرکے پروییز مشرف سے سر پر ہما رکھ دیا تھا۔ اس قسم کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے قطعی طور پر کہنا مشکل ہے۔
اگر ایسی کوئی حرکت ہوئی تو کسی نہ کسی کے کاندھے کے ستاروں کی برکت ہی ہو گی، کہ مولوی تمیزالدین سے لیکر پرویز مشرف تک ضرورت صرف صاحب ستارہ کے لئے ہوتئ ، لیکن بظاہر “ایک صفحہ” بھی شکستہ نظر آرہا ہے، اگر کسی “ستارے والے” نے یہ کالک اپنے منہ پر ملنی ہی ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ کسی toy-boy کی بجائے خود اپنے لئے ہی کرے گا۔
ایک بار پھر ننگے مارشل لاء کی طرف جانے کی بہ نسبت ،بہتر ہے کتنا بھی ناقص ہو اسی نظام کو چلنے دیا جائے۔ تاکہ وقت کے ساتھ اسی میں اصلاح کرکے ملک و قوم کے لئے فایدہ مند بنایا جاسکے۔ نہ کہ اصلاح کے نام پر کسی حکمران جماعت یا گروہ کو سسٹم سے اپنے مفاد میں چھیڑ چھاڑ کرکے خرابی در خرابی کاراستہ کھلا رکھا جائے ۔