ہم آج شکیلہ باجی کے ہاں عید ملنے نہیں جائیں گے-
ڈھلتی ہوئی عمر میں نک سک سے تیار ہونے کی کوشش ناکام جاتی دیکھ کر تھوڑا جھنجھلاتے ہوئے، پپو کا پیمپر پیلے رنگ کے پرانے بیگ میں ٹھونستے ہوئے عابد صاحب کی اکلوتی بیگم انیسہ نے اچانک سے اپنا فیصلہ صادر کیا-
ارے نیک بخت مگر کیوں؟؟ کیوں نہیں جائیں گے؟
عابد صاحب نے گزشتہ کئی سالوں کے خاندانی معرکوں کی ترتیب ذہن میں لانے کی کوشش کی تاکہ اس فیصلے کے پیچھے چھپی حکمت سمجھنے میں آسانی ہو سکے مگر کامیابی نہ ہو سکی تو بیگم سے ہی پوچھ ڈالا-
وہ دراصل بات یہ ہے کہ آپ کی کزن شکیلہ باجی کے میاں سرکاری ادارے کے ریوینیو ڈیپارٹمنٹ میں کلرک ہیں- حکومت کی چالبازیوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اسی لیے ان کو دو جمع دو چار کرنا خوب آتا ہے- پچھلے دس سالوں میں خود تو کوئی خاطر خواہ ترقی نہ کر سکے کہ ان کی اماں نے ان کو بچپن میں ایمانداری کی گھٹی چمچے بھر بھر کر پلا ڈالی تھی مگر بچوں کی فوجِ ظفر موج بنانے میں انہوں نے خوب ترقی کی-
اب آپ خود دیکھیں کہ شادی کے دس سالوں میں سات بچے- مجال ہے جو بیگم کو ایک سال بھی سکون سے بیٹھنے دیا ہو اور ظاہر ہے خود بھی سکون سے نہیں بیٹھے ہوں گے- مگر خاندان بھر کا سکون تو غارت کر کے رکھ دیا ہے نا…. ہمارے تو خیر سے اللہ رکھے تین ہی بچے ہیں-
اب عید کے زمانے میں چلو کچھ عیدی ایک آدھ بچے کی شکل میں آگے پیچھے ہو جائے تو وہ نقصان انسان گوارا کر لیتا ہے مگر یہاں تو معاملہ ڈبل سے بھی آگے چلے جاتا ہے- اب اگر ہم سو سو روپے بھی رکھیں تو سات سو روپے ہو گئے نا اور وہ بھی جواب میں ہمارے بچوں کو بس سو سو روپے پکڑا دیں گے- نرا چار سو روپے کا منافع تو انہی کا ٹھہرا- مجال ہے جو کبھی دل بڑا کریں اور عیدی کا اماؤنٹ ڈبل کر کے بچوں کو دو دو سو روپے ہی پکڑا دیں کہ چلو پھر بھی سو روپے تو ان کو ہی بچ رہے ہیں نا- مگر نہیں حکومتی ہیر پھیر سے اچھی طرح واقف ہیں شکیلہ باجی کے میاں شکیل صاحب-
اری کہتی تو تم بالکل ٹھیک ہو نیک بخت-
اچھا ہاں وہ امی کی کزن باجی صدیقہ کے تو جانا ہے نا بے چاری پچھلے سال ہی بیوہ ہوئی ہیں- عابد صاحب نے کئی دفعہ کی مانگ پٹی کیے ہوئے چند بالوں میں پھر اس حسرت سے برش چلایا کہ شاید برش کچھ بچے کچھے بالوں کو چھوتا ہوا کامیابی سے نکل آئے مگر وائے افسوس برش ایک ہی جست میں سر کی ساری سرحدیں بغیر کسی رکاوٹ کے عبور کر گیا-
ہائے کیا ہو گیا ہے آپ کو؟
اب پہلی عید ہے میاں کے بعد، عید تو نہیں منا رہی ہوں گی اور ظاہر ہے پھر بچوں کو عیدی بھی نہیں رکھیں گی، بل کہ الٹا ہمیں ہی رکھ کر آنا پڑ جائے گا ان کے چاروں بچوں کو- ٹیکسی کا کرایہ الگ لگے گا- عید کے بعد چلے چلیں گے ہم دونوں بس بائیک پر ان سے ملنے، کوئی بہانہ کر لیں گے کہ عید پر کسی وجہ سے نہ آ سکے-
اچھا چلو جیسا تم کہو- میں ٹیکسی لے آتا ہوں- پہلے ہاشم بھائی سے عید ملتے ہوئے چلتے ہیں- بڑے بھائی ہیں ان کو پہلے سلام ہو جائے تو اچھا ہے-
ارے کہیں دماغ تو خراب نہیں ہو گیا آپ کا؟
اری نیک بخت اب کیا ہوا؟ اب ادھر کیا معاملہ ہے؟
یاد نہیں ہاشم بھائی اپنے ایکسیڈنٹ کے بعد سے پچھلے چھ مہینے سے بستر پر پڑے ہیں- اب عید کے دن وہاں خالی ہاتھ جاتے اچھے لگیں گے کیا؟ بچوں کو عیدی کے ساتھ الٹا ان کے لیے کچھ پھل نمکو چپس وغیرہ لے جانا پڑیں گے- ایسا کیجئے گا کہ آپ شام کو اکیلے ہی چکر لگا آئیے گا- چاہیں تو مُنّو کو ساتھ لے جانا ساتھ- اپنے تایا کو عید کا سلام کر لے گا میرا بچہ اور ان سے عیدی بھی لے لے گا ہاتھ کے ہاتھ – اب بچے کا اپنے تایا پر اتنا حق تو بنتا ہے نا-
اچھا اچھا ٹھیک ہے جیسا تم مناسب سمجھو… ابھی جلدی کرو آدھا دن تو یہیں گھر پر ہی نکل گیا اب کسی کے ہاں کھانا کھانے کے وقت پہنچیں گے تو اچھا لگے گا کیا؟
اے لو… اجی میں خود اسی لیے تو آرام آرام سے تیار ہو رہی ہوں کہ بس اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہی ملے جہاں بھی جائیں پہلے- لو بھلا اب عید کے دن بھی اپنے گھر پر کھانا کھایا تو کیا بات ہوئی- اصل مزا تو اسی کا ہے کہ تیار شیار ہو کر، ملنے ملانے کے بہانے رشتے داروں کے ہاں بنے ہوئے پکوانوں کے ذائقے سے لطف اندوز ہوا جائے- آخر مجھے بھی تو کچھ آرام ملے عید کے دن.. پورا رمضان پکا پکا کر کمر دوہری ہو گئی اور آپ لوگوں کو مزا آ کر نہ دیا-
اوہو اچھا اچھا ٹھیک ہے بس اب جلدی کرو ٹیکسی لے آؤں گا دروازے پر تو پھر انتظار نہیں کروانا-
ہاں ہاں میں بس تیار ہوں، بچے تو پہلے سے ہی تیار ہیں-
بس ذرا یہ لپ اسٹک کا شیڈ اور گہرا کر لوں تاکہ شام تک چل جائے ورنہ باجی رقیہ کے گھر عید کا شیر خرمہ پینے میں ہی ہلکی ہو جائے گی-
تو کیا سب سے پہلے تمہاری بڑی بہن، باجی رقیہ کے گھر جانا ہے؟
ارے نہیں بھئی پہلے آپ کے چھوٹے بھائی اکمل کے چلتے ہیں، ایک ہی تو بیٹی ہے اس کی، تائی تائی کہتے منہ نہیں سوکھتا بے چاری کا اس کے ہاتھ پر سو روپے عیدی رکھوں گی تو کتنا خوش ہو جائے گی-
وہاں سے کھانا کھا کر پھر باجی رقیہ کے گھر چلیں گے، نزدیک ہی تو ہے، پیدل کا راستہ ہے پھر شام کی چائے اور شیر خرمہ وہیں پئیں گے-
اچھا اچھا جیسے تمہاری مرضی- بس جلدی کرو تم- اور ہاں آگے کا کیا پروگرام ہے؟ رات کا کھانا کدھر کھائیں گی بیگم صاحبہ-
عابد صاحب نے ذرا قریب ہو کر رومانٹک ہوتے ہوئے کہا-
اے ہٹو بھی… بچے بڑے ہو رہے ہیں مگر مجال ہے جو آپ کے چونچلے کم ہوئے ہوں…. سنیے جی میں بتا دیتی ہوں تین کافی ہیں مجھے، چوتھے کی تیاری کرنے کی اب اس عمر میں ہمت نہیں مجھ میں-
ایک تو بیگم تم سارے موڈ کا ستیاناس مار دیتی ہو- اچھا چلو یہ پکڑو پپو کو میں جاتا ہوں ٹیکسی لانے- رات کا کھانا پھر تمہارے بھائی کے گھر کھا لیں گے-
میرے بھائی کے گھر کیوں؟
اے لو بھول گئے کیا؟
تمہاری بہن نے کتنے لاڈ سے کہا تھا کہ بھائی جان عید کے دن چکر ضرور لگائیے گا تو بس میری بہن کے گھر سے سیدھا تمہاری چھوٹی بہن رخشندہ کے گھر چلیں گے، خوش ہو جائے گی- رات کا کھانا بھی وہیں ہو جائے گا-
لیکن بیگم بھرے پُرے سسرال میں رہتی ہے وہ- اچھا نہیں لگتا نا کہ ہم سب یوں بغیر بتائے اس کے گھر کھانے پر پہنچ جائیں-
ایک تو آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ سسرال والے اس طرح کتنا مرعوب رہتے ہیں کہ بھائی عید کے عید سہی مگر چھوٹی بہن کا خیال تو رکھتا ہے- ایسے ہی منہ اٹھا کر تو نہیں دے دیا نا ہم نے اپنی رخشندہ کو- عید کے عید جانے سے خبر گیری تو رہتی ہے نا-
اچھا کہتی تو تم ٹھیک ہو-
کچھ رکھ لو رخشندہ اور اس کے بچوں کے لیے …. کوئی جوڑا وغیرہ… ابھی اتنے سارے لیے تھے نا تم نے تحائف میں دینے-
یوں خالی ہاتھ جاتے اچھا نہیں لگتا-
لو پہلے کہتے آپ تو میں ایک دو جوڑے ایکسٹرا خرید لیتی گل باجی سے.. سستے والے سوٹ بھی اچھے ہی تھے ان کے پاس-
ارے تو ان میں سے دیکھ لو جو اچھے والے لیے تھے تم نے-
کیا ہو گیا ہے آپ کی نظر تو ہر وقت میرے میکے والوں کو دینے والی چیزوں پر ہی رہتی ہے- کل پانچ سوٹ ہی تو لیے تھے میں نے گل باجی سے…. دو اپنی دونوں بھابھیوں کے لیے ایک چھوٹی بہن شَبّو کے لیے کہ ابھی پہلا بچہ ہوا ہے اس کے ہاں تو موقع بھی ہے-
اور رہ گیا ایک سوٹ تو وہ اپنی بھانجی کے لیے رکھا ہے… پچھلے مہینے سالگرہ تھی اس کی.. جب کچھ دینا نہیں ہوا تھا ابھی عید پر ہی پکڑا دوں گی تو خوش ہو جائے گی کہ خالہ نے سوٹ دیا ہے-
اور پھر آج کل کے بچے خوش ہو کر فیس بُک اور واٹس ایپ پر اسٹیٹس بھی تو لگا دیتے ہیں کہ خالہ نے سوٹ دیا ہے..ایک دنیا دیکھتی ہے اور واہ واہ تو کرتی ہے-
یہ رخشندہ تو بے وقوف ہے سوٹ اندر الماری میں ہی دبا کر بیٹھ جائے گی.. کسی کو کیا پتہ چلے گا کہ بھلا ہم نے کیا دیا کیا لیا-
اچھا بابا اچھا…. تم سے کون جیت سکتا ہے بھلا- چلو میں ٹیکسی لے ہی آؤں اب…..
ہاں ہاں جائیے اب مزید دیر نہ کریں-
اور باہر یہ چُنّو اور مُنّو کس خوشی میں اتنا اچھل رہے ہیں- لگتا ہے عید کے دن کوئی لاٹری ہاتھ لگی ہے-
کتنی محنت سے لال صابن سے رگڑ رگڑ کر نہلایا تھا کہ کچھ شکل نکل آئے دونوں کی- مگر مجال ہے جو کم از کم عید کے دن ہی اپنے حلیے کو صاف ستھرا رکھ لیں یہ دونوں-
ادھر آ چُنّو… کیا ہوا ہے… اتنا شور شرابہ کیوں؟
امی امی… وہ شکیلہ خالہ آئی ہیں اپنے سب بچوں کے ساتھ عید ملنے اور شکیل خالو کہہ رہے ہیں کہ بچو خوب مزے کرو آج کیوں کہ وہ سب آج عید کا پورا دن ادھر ہی گزاریں گے-
کتنا مزا آئے گا نا امی…. ان کے سات اور ہم دونوں بھائی.. کرکٹ میچ تو ہو ہی جائے گا… پپو تو خیر چھوٹا ہے مگر شکیلہ خالہ کہہ رہی ہیں کہ رخشندہ خالہ بھی بچوں کے ساتھ ادھر ہی آ رہی ہیں- وہ سب بھی عید کا کھانا ادھر ہی کھائیں گے ہمارے ساتھ-
اور.. انیسہ بیگم کو نہ جانے کیوں اپنی ساری منصوبہ بندی رائیگاں جاتے دیکھ کر غش پر غش آنے لگے-