فلسطین کی صورت حال پر قومی اسمبلی کااجلاس ہو گیا اور اس موقع پر اتفاق رائے سے قرارداد بھی منظور کر لی گئی لیکن کیا یہ قرارداد موجودہ گمبھیر صورت حال میں امت مسلمہ کے اہم ترین مسئلے پر پاکستانی عوام کے اتحاد کی غمازی کرتی ہے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فلسطینی بھائیوں سے اظہار یک جہتی کے موقع پر قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے اپنے خلاف حکومت کے منتقمانہ کارروائیوں اور زیادتیوں پر احتجاج نہیں کیا، اسی طرح حکومتی بینچوں کی روایت کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی حزب اختلاف اور اس کے قائد کے خلاف وہ زبان استعمال نہیں کی جو ان کی جماعت زبان کی پہچان ہے لیکن اس کے باوجود یہ قرارداد نہ پارلیمانی روایات پر پوری اترتی ہے اور نہ قومی اتحاد کا مظاہرہ اس سے ہوتا ہے، اس کاسبب یہ ہے کہ ایوان میں قائد ایوان موجود نہ تھے۔ کوئی قوم اگر کسی عالمی مسئلے اپنی آواز بلند کر رہی ہو اور اس موقع پر حکومت کا سربراہ ہی اپنی موجودگی کو یقینی نہ بنائے تو اس سے قومی اتحاد کا مظاہرہ کس طرح ہوسکتا ہے۔ اس قرارداد کا یہ پہلو انتہائی افسوسناک ہے لیکن حقیقت ہے کہ عمران خان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک ناکام راہنما ہیں اور وہ قومی اتحاد کا مظہر نہیں ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں تحریک انصاف کے سنجیدہ راہنماؤں کو غور کرنا چاہئے کیونکہ عمران خان کا غیر سنجیدہ اور مریضانہ طرز عمل اس جماعت کے مستقبل کو تاریک تر کیے جاتا ہے۔
شہباز شریف نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت اس معاملے میں وقت ضائع کیے بغیر قیادت کی ذمہ داری ادا کرے۔ وزیر خارجہ نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت یہی کام کر رہی ہے لیکن حکومت کے سربراہ کی اس اہم موقع عدم موجودگی نے ثابت کر دیا کہ یہی کام نہیں ہو رہا۔
شہباز شریف نے تجویز کیا تھا کہ آئندہ جمعے کو فلسطین کے عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے یوم القدس کے طور پر منایا جائے۔ وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ وہ وزیر اعظم کی طرف سے بتانا چاہتے ہیں کہ انھیں اس تجویز سے اتفاق ہے۔ یہ اعلان اگر حکومت کے سربراہ کرتے تو اس کی اہمیت کچھ اور ہوتی لیکن عمران خان کی غیر ذمہ داری نے یہ اہم موقع ضائع کر دیا ہے۔