دالان میں مرغیوں کو دانہ ڈالتے ہوئے اور ان کی حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کرتے کرتے اچانک اس نے ایک معصوم سا سوال کر ڈالا-
دادو… یہ مرغیاں اپنا کام خود کیوں نہیں کرتیں؟
اب دیکھیں نا اپنے پروں سے، اس بڑے گملے سے ساری مٹی نیچے گرادی- تو اب اگر گرایا ہے تو اٹھانا بھی چاہیے نا ان کو-
بہت معصومیت سے اس نے پوچھا-
دالان کے اس حصے کا فرش پختہ تھا- ابھی کچھ دیر پہلے ہی جنت بی بی جو گھر کی برسوں پرانی ملازمہ تھی اس فرش کی دھلائی کر کے اور اپنی دانست میں اس کو خوب چمکا کر گھر کے اندر کے باقی کام نمٹانے کے لیے چلی گئی تھی-
دادو کی یہ تیسری پوتی بہت چھوٹی اور معصوم تھی لیکن اکثر اپنے قد سے بڑے سوال پوچھتی تھی اور اس کے یہ معصوم سوال عموماً سامنے والے کے لیے تھوڑی مشکل کھڑی کر دیتے تھے-
صحن میں جاڑے کی دھوپ کے مزے لینے کے لیے چارپائی پر بیٹھی دادی ماں کے پالک چنتے ہوئے مصروف ہاتھ اس معصوم سوال کو سن کر لمحہ بھر کے لیے رک گئے- وہ تو خود پالک چنتے ہوئے جھنجھلا رہی تھیں کہ صبح صبح سبزی والے نے کتنے دعوے سے پالک تولتے ہوئے پالک کے “صاف ستھرے” اور “تازہ”ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور گویا پالک کے تازہ تازہ کھیت سے آنے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے تھے-
لیکن اب پالک کی گٹھی کھولنے پر اوپر کے صاف پتوں کو ہٹانے کے بعد اندر محض کچرا پالک بھری ہوئی نکلی تھی جس کو دیکھ دیکھ کر ان کو شدید جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی-
ان کی بہو بھی کچن میں گوشت بھونتے ہوئے کچن کی کھڑکی سے بغیر کچھ بولے نہایت بے چینی سے بار بار اپنی ساس کی طرف دیکھے جا رہی تھی- وہ اس انتظار میں تھی کہ صاف پالک کٹ کٹا کر ملے تو وہ اس کو بھنے گوشت کی زینت بنا کر پالک گوشت بنانے کے مشکل مرحلے سے گزر سکے تاکہ کھانا بنانے کا کام جلد از جلد ختم کیا جا سکے- بچوں کو کچھ ہی دیر میں اسکول سے واپس آجانا تھا اور بھوک بھوک کا شور مچا دینا تھا-
اپنی پوتی کے اس بظاہر سادہ لیکن گہرائی لیے ہوئے اس سوال نے ان کو وقتی طور پر صاف پالک اور اُسی صاف پالک کے اندر مہارت سے چھپائی گئی کچرا پالک کو چننے کی کوفت سے وقتی طور پر باہر نکال کر واقعی کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا-
انہوں نے ایک گہری سانس کھینچی اور ایک نظر اس خراب اور کیڑا کھائی ہوئی پالک پر ڈالی اور دوسری نظر ہر فکر سے آزاد مزے سے دانہ چگنے میں مگن مرغیوں پر-
ان کی پوتی اپنے معصوم سوال کا جواب ملنے کی امید میں بقیہ دانہ ہاتھ کی مٹھی میں ہی لے کر کھڑی ہوئی تھی اور دوسرے پاؤں سے اس بھوکی مرغی کو پرے ہٹاتے جا رہی تھی جو اچھل اچھل کر زمین پر پڑے دانے کو چھوڑ کر، پوتی کی بند مٹھی میں قید ان دانوں کو چگنے کے لیے بےقرار تھی- یقیناً تھوڑا سا صبر کرنے پر کچھ دیر میں یہ دانے بھی اس کو مل ہی جانے تھے لیکن شاید وہ بھی انسانوں کی طرح حاصل کو چھوڑ کر لاحاصل کی فکر میں غلطاں تھی، صبر سے اپنے حصے کا انتظار کرنے کی بجائے جلدبازی سے بہت کچھ حاصل کرنے کی خواہش مند تھی- بند مٹھی میں قید دانے کے حصول کے لیے اس مرغی کے حلق سے بے چینی و اضطراب کی کیفیت میں مختلف آوازیں نکل رہی تھیں- کبھی ہلکی کبھی تیز۔
شاید وہ بھی شکوہ کناں تھی اسی انسان کی طرح جو قناعت کرنے کی بجائے ملنے والی نعمت پر غیر مطمئن ہو کر شکوے شکایات کا انبار لگا دیتا ہے- حالانکہ نعمت تو اس کے سامنے ہی ہوتی ہے لیکن صبر و شکر سے اس نعمت سے فیضیاب ہونے کے بجائے وہ ہر وقت تقدیر کی بند مٹھی میں قید قسمت کے دروازے کو کھولنے کے لیے بے چین و بے قرار رہتا ہے-
بالآخر بند مٹھی سے مزید دانے ملنے کی امید سے مایوس ہو کر وہ مرغی واپس اسی جگہ تک پہنچ گئی جہاں کچھ دیر قبل دانہ ڈالا گیا تھا لیکن تب تک اس ڈھیر سارے دانے کو باقی مرغیاں چُگ کر صاف کر چکی تھیں اور نہایت طمانیت سے صحن میں اِدھر اُدھر گھومتے ہوئے اپنی محنت سے مزید رزق تلاش کر رہی تھیں- اُدھر سے مایوس ہو کر وہ مرغی واپس آ گئی اور اسے اب دوبارہ سے پوتی کی اس چھوٹی سی بند مٹھی میں قید ان چند دانوں کی آس تھی-
لیکن دادو کی اس معصوم پوتی کے لیے تو اُس وقت اس بھوکی اور جلد باز مرغی سے زیادہ اس کا پوچھا گیا سوال اہم تھا۔
دادو کو بھی معلوم تھا کہ جب تک ان کی اس سقراط بقراط پوتی کو اپنے سوال کا جواب نہیں ملے گا اس بھوکی مرغی کو بھی دانہ نہیں ملے گا- مرغی کی بھوک پوتی کی بند مٹھی سے مٹنا تھی اور پوتی کی بھوک دادی کے جواب سے۔
یہ سب دیکھ کر دادی سوچنے لگیں کہ اس دنیا میں ہم سب بھی تو ضرورتوں کی ایک اَن دیکھی زنجیر سے بندھے ہوئے ہیں۔ زنجیر کی ہر کڑی اپنی ضرورت کے تحت ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے جیسے ہی کڑی ٹوٹی مطلب ضرورت ختم۔ ضرورت ختم تو سمجھو کہ وہ کڑی بھی اس زنجیر سے الگ اور پھر کوئی نئی کڑی اس زنجیر سے اپنی ضرورت کے تحت منسلک ہو جاتی ہے- کاروبارِ حیات اسی نظریہِ ضرورت کے تحت چلتا رہتا ہے۔
بہو کی بے چینی کو نظرانداز کرکے دادو اب پوتی کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
بیٹا اس کائنات میں ہر ایک کو اس کا کام تقویض کر دیا گیا ہے۔ چاہے جاندار ہو کہ بے جان، ہر ایک کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے- نہ کم نہ زیادہ۔ تو بس اسی طرح ان مرغیوں کا کام بھی بس دانہ چگنا اور انڈے دینا ہے تاکہ ان کی افزائشِ نسل ہو سکے اور انسانوں کی غذائی ضروریات ان مرغیوں کے انڈوں اور گوشت کی شکل میں پوری ہو سکیں۔
دادو اتنا بول کر چپ ہو گئیں کہ اپنے حساب سے انہوں نے اس معصوم دماغ کو سادے سے انداز میں جواب دے کر مطمئن کر دیا تھا لیکن اگلے ہی لمحے اسی معصوم دماغ نے ایک اور بڑا سوال داغ دیا۔
تو دادو کیا انسان بھی اپنے حصے کا کام ویسے ہی کر رہا ہے جیسا اس کو تقویض کر دیا گیا ہے؟
دادو بھی اب کوفت کے مارے بقیہ بچی ہوئی پالک کو مزید چننا ترک کرنے کا سوچ رہی تھیں کیوں کہ اسی پالک کے چکر میں مستقل ایک ہی زاویے سے بیٹھے بیٹھے ان کی کمر بھی اب درد کر رہی تھی۔ یہ کمر اور جوڑوں کا درد بھی تو اسی جاڑے کی سوغات تھے۔
پوتی کے اس سوال کو سن کر انہوں نے نہایت خاموشی سے سر جھکا لیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی دوبارہ سے خود کو اسی پالک کو صاف کرنے میں الجھا لیا- اب غیر ارادی طور پر وہ خراب پالک کے پتوں کو بھی صاف پالک میں رکھتی جا رہی تھیں-
پوتی کا سوال ان کے دماغ میں گونج رہا تھا۔
ان کی چھوٹی سی پوتی نے اس دفعہ واقعی بڑا سوال پوچھ لیا تھا۔ کبھی اسکول کی شکل نہ دیکھنے والی اس بوڑھی دادی کے پاس بھلا اس ننھے سے دماغ سے پوچھے گئے بڑے سوال کا جواب کہاں سے آتا؟
اس کا جواب تو شاید پڑھے لکھے دانشور لوگ ہی اچھے سے دے سکتے تھے- دادی کے پاس تو اس سوال کے جواب میں سوائے شرمندگی اور خاموشی کے کچھ نہ تھا-