درس گاہ مراغہ کی فلکیاتی روایت
ایک تاریخی جائزہ اورمستقبل کی تحقیق کے لیے امکانات
تعارف
جب سے ابن شاطر دمشقی کی کتاب ”نہایۃ السؤال فی تصحیح الأصول“ دریافت ہوئی ہے، عربی علم فلکیات کی بحالی کے رجحان، اور اس رجحان میں ازمنہ وسطٰی کی درس گاہ مراغہ کا انقلابی کردار توجہ حاصل کررہا ہے۔ ابن شاطر نے اپنی کتاب میں مراغہ کے علماء کے نام اور شناخت تعارف میں پیش کیے ہیں۔ المجرتی، جابر ابن العافیہ، مؤید الدین عرضی، نصیر الدین طوسی، اور قطب الدین شیرازی جیسے ناموں کا ذکر ابن شاطر نے کیا ہے، کہ جنھوں نے بہت سے وہ فلکیاتی نمونے تخلیق کیے، کہ جو یونانی بطلیموسی نمونوں سے مختلف تھے۔ دیگر ماہرین فلکیات، کہ جیسے ابن الہیثم، الولید المغربی، اور یحیٰ ابن ابی شکرالمغربی کا ذکر بھی ابن شاطر کے دوسرے کام ”الزیج الجدید“ میں ملتا ہے، جس میں بطلیموسی نمونوں پرتنقید کی گئی ہے۔ابن شاطر کے ان پیشروؤں کے بہت سے کام مل چکے ہیں، اور اُن کا مطالعہ بھی ہوا ہے، جبکہ دیگر بہت سے کاموں کی تلاش باقی ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، ابن شاطر ہی کی طرح یونانی کونیات پرجودانشورتنقید کررہے تھے، اُن پربہت ہی کم توجہ دی گئی ہے۔
فلکیاتی اصولوں کی تصحیح
میں یہاں مراغہ کی اس درس گاہ کے علمی معیار پرچند اہم ماحصل کی حاشیہ آرائی کروں گا، اور اس کی روشنی میں مستقبل کی تحقیق پرتجویز پیش کروں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ عربی علم فلکیات میں انقلابی پیشرفت صرف مراغہ تک محدود نہ تھی، بلکہ یہ گیارہویں سے سولہویں صدی تک تحقیق کا طویل سلسلہ ہے۔ رصد گاہ مراغہ کواس سارے ارتقاء کا مرکزی مظہر کہا جاسکتا ہے۔
مراغہ کا سلسلہ تدریس
وہ Otto Neugebauer تھا، جس نے سب سے پہلے درس گاہ مراغہ کی علمی اہمیت اور ماحصل کی جانب دنیا کی توجہ دلائی۔ سب سے اہم کام ابن شاطر دمشقی کی کتاب ”نہایۃ السؤال فی تصحیح الأصول“ہے، جس سے EdwardKennedyکی پہلی اتفاقی ملاقات Bodleian Libraryمیں ہوئی، جس پرNeugebauerکی تحقیق نے بات آگے بڑھائی، اور یوں درس گاہ مراغہ کی سرگرمیوں کی کھوج شروع ہوئی۔ یہاں کے علم فلکیات کی اہمیت کوپرینکس کے علم فلکیات کی توضیح میں سامنے آئی۔ سن1957میں پہلی بار درس گاہ مراغہ کی علمی سرگرمیوں پرNeugebauer اورVictor Robertsکے اہم کام سامنے آئے: Exact Sciences in Antiquity کا دوسرا ایڈیشن، اورابن شاطر کے قمری اور شمسی نمونوں پرلکھا گیا تحقیقی مضمون۔ رابرٹس کا تحقیقی مضمون جوایڈورڈ کینیڈی سے متاثرہوکر لکھا گیا، جس میں ابن شاطر کا نمونہ “Pre-Copernican Copernican model”(یعنی قبل از کوپرینکن کوپرینکن نمونہ) بطور حوالہ شامل کیا گیا ہے۔ نوئگے باورپہلے ہی درس گاہ مراغہ کے علمی ماحصل پرکام کررہا تھا، اس کے لیے وہ نصیر الدین طوسی کے اُس متن سے مدد لے رہا تھا، کہ جس میں اُس نے اپنے آلہ تحقیق ”TusiDevice“ اور”چاند کے نمونہ“ پربات کی ہے، یہ متن عربی کا فرانسیسی ترجمہ تھا۔ اس متن کو فرانسیسی میں ڈھالنے کا کارنامہ Baron Carra De Vauxنے انجام دیا تھا۔
آئندہ سالوں میں، وکٹر رابرٹس، ایڈورڈ کینیڈی اور فواد عبد نے مشترکہ طورپر یا آزادانہ ابن شاطر اور کوپرینکس کے تعلق پراپنے اپنے تبصرے شایع کروائے۔ عبد نے ابن شاطر کی عددی مقداروں اورزیج کا کوپرینکس کی De Revolutionibusسے موازنہ کیا، اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگرچہ ابن شاطر اورکوپرینکس کے جدول مماثل تھے، مگر کوپرینکس کا متن ابن شاطر کی براہ راست نقل نہ تھا، باوجود اس حقیقت کے کہ دونوں نے ایک ہی سمت میں بطلیموسی جدول سے انحراف کیا تھا۔
سن 1966میں جب کینیڈی نے اُس وقت تک کے حاصل شدہ نتائج کا خلاصہ تیار کیا، ماہرین فلکیات نصیر الدین طوسی اور قطب الدین شیرازی کے مزید نمونوں کوبھی شناخت کیا۔ بعد میں یہ ظاہر ہوا کہ بالائی سیاروں کے لیے شیرازی کا نمونہ، کہ جس کا ذکر کینیڈی نے اپنے مضمون میں کیا تھا، دراصل مؤید الدین العرضی نے تشکیل دیا تھا، جودرس گاہ مراغہ کا تیسرا بڑا رکن تھا۔ تب سے، عرضی کے کام کا ایک تنقیدی ایڈیشن، ترجمہ اور تبصرے کے ساتھ شایع ہوا ہے۔
ان تحقیقی مطالعات کے نتیجہ میں، درس گاہ مراغہ کے علوم پرچند موضوعی تجزیے سامنے آئے۔ طوسی کے کام کا اہم باب کہ جس میں اُس نے چاند کے نمونہ پربات کی ہے، جس کا ترجمہ پہلے ہیCarra De Vauxنے کردیا تھا۔ عرضی کا متن Kitab al-Hay’aسب سے پہلے Noel Swerdlowنے اپنے غیر شایع شدہ پی ایچ ڈی مقالہ “Ptolemy’s Theory of the Distances and Sizes of the Planets: AStudy of the Scientific Foundation of Medieval Cosmology” (Yale, 1968 میں استعمال کیا۔ بعد میں، یہی متن B. Goldstein اور N. Swerdlowنے “Planetary Distances and Sizes in an Anonymous Arabic Treatise Preserved inBodleian” میں ماخذ بنایا۔ The model designated as that of ‘Urdi’
کینیڈی کی تحقیق کا گہرائی سے مطالعہ کریں، جہاں وہ یہ اعتراف کرتا ہے کہ اُسے شیرازی کے کام کی تفہیم میں بڑی مشکل پیش آئی، خاص طورپراُس کے دوکام ”نہایت الادراک“ اور ’تحفۃ الشاہیہ فی الہیۃ“ اس یقین پرلے گئے کہ مستقبل میں شیرازی کے بارے میں ہماری تفہیمات قدرے مختلف تصویرسامنے لاسکتی ہیں، جومراغہ کی مطالعات کاقابل قدراور اہم ماحصل ہے۔
اس دور سے پہلے کے ماہرین فلکیات کے وہ کام، جو مراغہ درس گاہ سے متعلق ہیں، اور گزشتہ دہائیوں میں سامنے آئے ہیں: بطلیموسی کام پر ابن الہیثم کی تنقید، اس انتہائی اہم کام کا متن عبدالحامد صابرا اور نبیل شہابی کے ورکنگ ایڈیشن میں شایع ہوچکا ہے۔ تاہم اس کا کسی زبان میں باقاعدہ ترجمہ یا تحقیقی مطالعہ نہیں ہوا۔ اس مقام پرہم یہ سوال اٹھاسکتے ہیں کہ بطلیموسی کام پرعربی تراجم پر کتنا اور کس قدر معیاری کام ہورہا ہے؟ جیسے کہ المجسطی اور سیاراتی مفروضات کے متون وغیرہ۔ بدقسمتی سے ان عربی متون پر کوئی معیاری تنقیدی کام نہیں ہوا۔
”تذکرہ“ کے عنوان سے درس گاہ مراغہ کی سرگرمیوں پر ایک اور شاندار کام ہے۔ اس کے کچھ حصے انگریزی میں ترجمہ اورترامیم سے گزرے ہیں۔ جمیل راغب نے تبصرے بھی شامل کیے ہیں۔ یہ اُن کا ہارورڈ کا پی ایچ ڈی مقالہ ہے۔
(جاری ہے)