بزرگ صحافی،کالم نگار اور دانش ور پروفیسر متین الرحمن مرتضی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
پروفیسر متین الرحمن مرتضی صاحب کا شمار ان صحافیوں اور دانش وروں میں ہوتا ہے جنہوں نے پوری زندگی نظریاتی صحافت کی جن کا شیوہ خالد علیگ نے یوں بیان کیا ہے ؎
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
پروفیسر متین الرحمن مرتضی نے عملی صحافت کا آغاز صحافیوں کی درسگاہ سمجھے جانے والے روزنامہ جسارت کراچی سے کیا تقریبا پندرہ سال تک یہاں اداریہ لکھتے رہے ہفت روزہ تکبیر کے بانی اور صلاح الدین شہید کے قریبی احباب میں سے تھے۔ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے پہلے دور اقتدار میں ان کے اسپیچ رائٹرز بھی رہے۔ وہ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد اور بعد ازاں چئیرمین بھی رہے سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد کئی سال تک کراچی کے معروف تعلیمی ادارے “جامعہ الرشید” کے شعبہ صحافت کے نگران کے طور پر کام کیا۔ آج صحافت کے شعبے سے وابستہ علماء کی ایک بڑی تعداد انہی کی فیض یافتہ ہے۔ ہم نے بھی جامعہ الرشید میں ایک سال تک ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا وہ علماء کے ٹیلنٹ کے بڑے قدر دان تھے۔ اپنے شاگرد علماء سے اکثر کہا کرتے “آپ لوگ صرف انگریزی کی وجہ سے مار کھاتے ہو ورنہ آپ لوگ کالج اور یونیورسٹی کے طلباء سے زیادہ ذی استعداد ہو” مزید فرماتے اگر ملک میں اُردو کو عملاً سرکاری زبان کی حیثیت مل گئی تو مدارس کے طلباء ہر میدان میں بازی لے جائیں گے۔
پروفیسر متین الرحمن مرتضی کئی سال تک روزنامہ اسلام کے ساتھ بہ طور کالم نگار وابستہ رہے ان کا کالم “برسبیل دلیل” اپنے عنوان کی طرح دلیل و برھان کا مرقع ہوتا تھا گزشتہ پروفیسر متین الرحمن مرتضی کئی سالوں سے بیماری اور جسمانی عوارض کی وجہ سے خانہ نشین ہوگئے تھے۔
پروفیسر متین الرحمن مرتضی برصغیر کی مشہور علمی شخصیت مولانا رشید احمد گنگوہی کے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے تقسیم ہند کے بعد اپنے خاندان سمیت ہجرت کرکے پاکستان آئے ہجرت کے وقت ان کی عمر پانچ چھے سال تھی دوران سفر سکھ بلوائیوں کے حملوں کی وجہ سے اپنے قافلے سے بچھڑ گئے اور کئی ماہ کی صعوبت آمیز آزمائش کے بعد معجزانہ طور پر دوبارہ اپنے خاندان سے ملنے میں کامیاب ہوئے اپنے اس جاں گسل سفر کی روداد انہوں نے “میں نے پاکستان بنتے دیکھا” نامی اپنی کتاب میں بیان کی ہے جسے پڑھ کر ہر صاحب دل انسان اشکبار ہوتا ہے۔
پروفیسر متین الرحمن مرتضی صاحب فکری طور پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی سے متاثر تھے جس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ کمیونزم کے عروج کے دور میں وہ اس فکر سے بہت متاثر ہوگئے تھے جس کے سبب دین سے کافی دور ہوچکے تھے انہوں نے کمیونزم کے رد میں بہت لٹریچر پڑھا لیکن ان کی فکری تشنگی دور نہ ہوئی پھر کسی کے کہنے پر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کا مطالعہ شروع کیا۔ ان کی تحریروں نے اسلام کے حوالے سے ان کی فکری الجھنوں کو دور کیا اور کمیونزم کی مرعوبیت سے انہیں نجات دلائی جس کے نتیجے میں وہ دوبارہ اسلام کے قریب ہوگئے ۔وہ فرمایا کرتے “میں کسی جماعت کا نظریاتی رکن نہیں ہوں ہاں نظریاتی اسلامسٹ ہوں اور مولانا مودودی کو اپنا محسن سمجھتا ہوں کیونکہ انہی کی بدولت میں کمیونزم کے سراب سے دھوکا کھانے سے محفوظ رہا ہوں”
اللہ تعالیٰ پروفیسر صاحب کے بال بال کی مغفرت فرمائے۔