لسانی مطالعے کی پانچ شاخیں ہیں جن میں سے ایک معنیات ہے۔اسے نواحی شعبہ کہا گیا ہے۔1839ءمیں لے سنگ نے لاطینی فائلالوجی کی کتاب لکھی تو اسے قواعد کے علیحدہ شعبے کے طور پر پیش کیا لیکن اس کی اہمیت بیسویں صدی کے اوائل سے ہوئی ہے۔ ڈی ماسور کے رکورس اسے معنیات کا نیا نقطہ نظر وجود میں آیا۔انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں اس شعبے کو بہت نام دیے گئے۔1838ءمیں مشہور ماہر معنیات بریل کی اصطلاح کو مستند مان لیا گیا۔
معنیات لفظوں اور جملوں کے مطالب اورمعانی کا مطالعہ معنیات کہلاتا ہے۔ان مطالب کا زبانوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔لفظ اور معنی کے درمیان کیا رشتہ ہے۔ان سب حقائق کا کھوج علم معنیات سے لگایا جاتا ہے۔معنیات لسانیات کی شاخ ہے۔زندہ زبانیں اپنے اندر الفاظ کو جذب کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔الفاظ صوتی اعتبار سے اپنی الگ تاریخ رکھتے ہیں۔جبکہ معنوی اعتبار سے الگ معنیات لسانیات سے منسلک ہے اور جملوں کے مفہوم سے بحث کی جاتی ہے۔معنیات میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ مختلف حالات میں الفاظ کے معانی کیا تھے۔موجودہ الفاظ کے معنی کیا ہیں۔تغیر معنی سیاق و سباق کی تبدیلی کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔زندہ زبانیں اپنے اندر حالات کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔اردو زبان بھی وقت اور حالات کے تجربات کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ الفاظ میں ارتقا ءہوتا رہتا ہے۔پھر الفاظ کے وہ معنی نہیں رہتے جو کبھی تھے۔
معنوی تغیر: جب کسی زبان کا کوئی لفظ دوسری زبانوں میں داخل ہوتا ہے تو اس پر جہاں صوتی اور صرفی و نحوی تصرمات ہوتے ہیں۔وہیں وہ معنوی تغیر سے دوچار ہوتا ہے۔جب کوئی لفظ ایک زبان سے دوسری زبان میں تبدیل ہوتا ہے۔تو وہ صوتی اعتبار سے بھی ملتا ہے اور نئے صرفی و نحوی قواعد کا حصہ بن چکا ہوتا ہے۔وہیں اس میں معنوی تبدیلیاں بھی آتیں ہیں۔ ان تبدیلیوں کے مختلف النوع اسباب ہیں۔جن کا سراغ لگانے کی کوشش عہد وسطٰی کے ماہرین زبان مثلاً بریٹر ڑوف،پال وغیرہ نے کی۔
تغیر معنی کا بنیادی سبب سیاق و سباق کی تبدیلی ہے۔اردو میں بہت کے اعتبار سے تو ایک جیسے ہیں لیکن معنوی اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔معنوی تبدیلی کئی طرح کی ہوتی ہے جبکہ کبھی تو معنی میں تجدید ہو جاتی ہے۔تو کبھی توسیع کبھی کل کی جگہ جز لے لیتا ہے۔اور کبھی اس کے برعکس ایسا بھی ہوتا ہے کہ لفظ کے لغوی اور حقیقی معنی متروک ہو جاتے ہیں۔اور اس کی جگہ مرادی اور مجازی معنی لے سکتے ہیں۔کبھی ایک لفظ متضاد معنی دینے لگتا ہے۔کبھی دو یا دو سے زیادہ معنی جس سے ایک معنی باقی رہ جاتا ہے۔معنوی ارتقاءہر زبان میں ہوتا ہے۔لیکن ان معنی زبانوں میں معنوی تصرف کی مثالیں زیادہ پائی جاتی ہیںجو مستعار الفاظ سے زیادہ کام لیتی ہیں۔
اردو میں عربی الفاظ بالواسطہ یا براہ راست داخل ہوئے تو ان کی صورتیں اصلی حالت میں آتی رہیں مگر معنی کو بدل گئے اور کہیں کہیں تو یہ تبدیلی اس درجے پہنچ گئی ہے کہ اصل سے کوئی نسبت نہیں رہتی۔اردو زبان کے الفاظ بہت سی دوسری زبانوں مثلاًفارسی،سنسکرت،سرائیکی،سندھی وغیرہ سے مل کر بنتے ہیں۔کوئی بھی لفظ ہو معنیات میں اس کے مفہوم پر بحث کی جاتی ہے۔بہت سے الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو دیکھنے میں ایک جیسے ہوتے ہیں۔لیکن ان میں فرق پایا جاتا ہے بعض اوقات یہ الفاظ اس قدر معنی کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں۔اگر ان معنوں کا مقابلہ اردو زبان کے معنوں سے بھی کیا جائے تو زمین و آسمان کا فرق آئے گا۔مثلاًعربی لفظ ”اجرت“جس کے معنی ”کرایہ“جس کو اردو میں”مزدوری“ کہا جاتا ہے۔
تغیر معنی کے اسباب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
۱۔خارجی اسباب
۲۔نفسیاتی اسباب
خارجی اسباب:خارجی ماحول تین طرح کا ہوتا ہے۔
۱۔جغرافیائی تبدیلی
۲۔معاشرتی ماحول
۳۔مادی ماحول
جغرافیائی تبدیلی:جغرافیائی تبدیلی کی ایک متوازی مثال ہندوستان میں پرندہ طوطاتیں ملتی ہے۔جیسے اب ”توتا“ بھی لکھنے لگے ہیں۔ایرانی پرندے”طوطی“ مشابہ لیکن اس سے مختلف پرندہ ہے۔اس طرح کی دوسری مثال” بلبل“ ہے ہندوستان میں جس پرندے کو بلبل کہا جانے لگا۔وہ ایرانی بلبل سے مختلف پرندہ ہے۔گو کہ اس سے ملتا جلتا ہے۔
معاشرتی ماحول:افراد طبقوں میں اور طبقے سماج میں بٹے ہوتے ہیں۔یہ سماجی طبقے کی اپنی روایات،رسوم و رواج اور اپنا مخصوص ماحول ہوتا ہے۔یہ طبقے مذہبی بنیادوں پر بھی بٹے ہوتے ہیں۔اور معاشی بنیادوں پر بھی۔پیشہ اور طبقے بھی اپنے اپنے طبقے کے مطابق اصطلاحیں گڑ لیتے ہیں۔کبھی کبھی ایک ہی لسانی فرقے میں اعلیٰ سطح پر بھی دو معاشرتی بولیاں بیک وقت استعمال ہوتی ہیں۔
مادی ماحول: تہذیبی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ماحول بھی ملتا ہے۔نئی نئی ایجادیں،مادی زندگی میں انقلاب ہیدا کرتی ہیں۔اور فکر و نظر کے زاویے بدلتے ہیں۔ان حالات میں بھی الفاظ کے مفہوم بدلتے ہیں۔تاریخی حالات میں بھی ہماری زندگی میں انقلاب کا موجب بنتے ہیں اور بعض الفاظ یادگار چھوڑ جاتے ہیں۔ عصمت جاوید اپنی تصنیف ”اردو پر فارسی کے لسانی اثرات“ میں کچھ الفاظ بیان کیے مثلاً ”گنگا جمنی، مرہٹہ گردی،مادر گردی،نادری حکم،اشراف گردی وغیرہ تاریخی پس منظر رکھتے ہیں“۔مخصوص مذہبی روایات سے کبھی نئے الفاظ ادب میں در آتے ہیں۔
نفسیاتی اثرات: تغیر معنی کا دوسرا اہم سبب انسانی کلام کا مجازی ہونا ہے انسانی بولی جاتی ہیں۔صنائع معنوی کے معنی سے بھی الفاظ بدل دیتا ہے۔صنائع معنوی کے معنی سے بھی الفاظ بدل دیتا ہے۔صنائع معنوی میں کنایہ،طنز،استعارہ،مبالغہ آرائی وغیرہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
طنز سے بھی لفظوں میں معنوی تغیر پیدا کیا جاتا ہے شیطانی حرکت رحمانی حرکت بن جاتی ہے۔مبالغہ اور تلازمہ بھی معنوی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔”چمن،کیاری،باغ کی نشت گاہ لیکن اردو میں چمن باغ کے معنوں میں رائج ہے۔“(اردو پر فارسی کے لسانی اثرات)
معنیات کے نقطہ نظر سے مسلسل کلام کو جن اکائیوں میں بانٹا جاتا ہے۔وہ مارفیم نہیں الفاظ ہیں۔لفظ کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں۔معنیات کہنے سے زیادہ تر لغاتی معنیات مراد لیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ نحوی معنیات بھی ہوتی ہے جس میں جملے کے اجزا،لفظوں کی ترتیب،روپ گروہ،صورت،حالت،مطابقت وغیرہ کے معنوی عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔معنیات میں زیادہ تر لغاتی معنی سے سروکار ہوتا ہے جس کے لیے لفظ اکائی کا کام دیتا ہے۔لفظ کی اہمیت کا کوئی ٹھکانہ ہے۔گفتگو کے علاوہ تحریر سے ہم سب کو لفظوں کی آزاد اور جدا حیثیت کا شعور تیز ہوتا ہے لیکن کئی ایسے عوامل ہیں جو لفظ کی آزاد و خود مختار حیثیت پر حملہ کرتے ہیں۔معنیات زبان کا مطالعہ ہے جس میں دوسری قطبین سے زبان کی معنیات میں نئے مفاہیم تلاش کئے جاتے ہیں۔المختصر،معنیات لسانیات کی اہم شاخ ہے۔اس میں لفظوں اور جملوں کے معنی پر بحث کی جاتی ہے۔