Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ناول زبردست آرٹ فارم ہے ۔اس میں اظہار کے جتنے امکانات ہیں ادب کی کسی دوسری صنف میں نہیں۔انسانی زندگی کے حالات و واقعات اور معاملات کا انتہائی گہرے اور مکمل مشاہدے کے بعد ایک خاص انداز میں ترتیب کے ساتھ کہانی کی شکل میںپیش کرنے کا نام ناول ہے۔ناول ہماری زندگی کی تفسیر اور تصور کا نام ہے۔اس کا ہماری زندگی کے معاشی،سیاسی،سماجی،قومی اور مجلسی مسائل سے گہرا تعلق اور واسطہ ہوتا ہے۔ناول انسانی زندگی کے حالات و واقعات اور عادات و اطوار کو مختلف رنگوں کی آمیزش سے خوبصورت بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ قاری کے لئے دلچسپی کا باعث ہو۔
اکیسویں صدی میں ناول لکھنے والے ناول نگاروں میں کئی نام سامنے آئے۔اکیسویں صدی کے ابھی اُنیس برس ہی گزرے ہیں اور ان دو دہائیوں میں تحقیقی نقطہ نظر سے ڈھائی سو سے زائد ناول شائع ہوچکے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔اکیسویں صدی کو ناول کی نئی صدی بھی کہا جاتا ہے۔ان دو دہائیوں میں کئی شاہکار ناول منظر عام پر آئے ہیں۔ناول نگاری کی جو روایت انیسویں صدی میں شروع ہوئی اور جس نے بیسویں صدی میں نقطہ کمال کی طرف قدم بڑھایا وہ روایت اکیسویں صدی کی دہلیز تک اپنی پوری تابناکی سے قدم بڑھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔اکیسویں صدی کاسفر اُنیس برسوں پر محیط ہے مگر منظر نامے کے لحاظ سے یہ ایک بڑے دور پر محیط ہے۔اگر محض اکیسویں صدی کے اہم ناولوں پر بات کی جائے تو اس کے لیے کئی ہزار صفحات بھی کم پڑیں گے۔اس عنوان کو ایک مضمون میں سمونا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں جب نئے اردو ناول کا تذکرہ آتا ہے تو متعدد ناول نگاروں کے نام ہمارے سامنے آجاتے ہیں،جن میں مستنصر حسین تارڑ،مرزا اطہر بیگ،علی اکبر ناطق،اختر رضا سلیمی،مرزا حامد بیگ،عاصم بٹ،خالد فتح محمد،طاہرہ اقبال،محمد الیاس،حسن منظر،نسیم انجم وغیرہ شامل ہیں۔ان ناول نگاروں نے جو اکیسویں صدی میں ناول لکھے ان میں جدت بھی ہے اور ندرت بھی۔انہوں نے جدید رجحانات اور آج کے انسان کے میلانات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے ناولوں کا تانا بُنا ہے۔اس میں انہوں نے نہ صرف معاشرے میں بڑھتے ہوئے کرپشن،بے راہ را وی،لوٹ کھسوٹ،قتل و غارت،ملاوٹ،دھوکہ دہی اور سیاسی قلابازیوں کی نشان دہی کی ہے۔اکیسویں صدی میں اردو ناول نے اپنی تخلیقیت کو منوایا ہے ۔ناولوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اردو ناول نگاروں نے اپنی ناول نگاری سے جہاں اردو فکشن کو مالا مال کیا ہے وہاں اردو ادب کے فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔پاکستان میں اکیسویں صدی میں شائع ہونے والے ااہم اردو ناولوں میں غلام باغ،دائرہ،بھید،کہر،کوہِ گراں،نیلی بار،مٹی آدم کھاتی ہے،صفر سے ایک تک،ناتمام،نولکھی کوٹھی،انارکلی،دھنی بخش کے بیٹے وغیرہ شامل ہیں۔یہ ناول بہت خصوصیت کے حامل ہیں۔ان دو دہائیوں میں لکھے گئے ناولوں نے اردوادب کے دامن کو وقیع سرمائے سے بھر دیا ہے۔یہ صدی اردو ناول میں نئے امکانات کو سامنے لائے گی اور اردو ناول پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے مقبولیت حاصل کرتا چلا جائے۔
مرزا اطہر بیگ نے اردو ناول کو اکیسویں صدی میں جس اعتماد سے داخل کیا،اس سے اردو ناول کے مستقبل پر سوالیہ نشان معدوم ہو گیا ہے۔ان کا پہلا ناول ”غلام باغ“ کے نام سے شائع ہوا جسے حیرت انگیزطور پر مقبولیت ملی۔غلام باغ بہت وسیع دائرے کا ناول ہے۔اس ناول میں تاریخ ،انسان اور معاشرت میں ہونے والی تبدیلیوں اور برپا ہونے والے رجحانات کا جائزہ لیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس ناول کو شہرت حاصل ہے۔مرزا اطہر بیگ کا دوسرا ناول ”صفر سے ایک تک سامنے آیا۔اس ناول میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور جدید ذرائع ابلاغ ای میل اور انٹر نیٹ کے حوالے سے موضوع کو وسعت دی گئی ہے۔
محمد حمید شاہد کا ناول”مٹی کھاتی ہے“میں منظر عام پر آیا۔یہ محمد حمید شاہد کا جدید رنگ میں تخلیق کردہ علامتی ناول ہے۔اس میں مٹی کی محبت پیدا ہونے والے المیوں کو مختلف جہات کے ساتھ دکھایا ہے۔یہ ناول اسلوب کے حوالے سے ایک نئے تجربے کا حامل ہے۔کہانی روایتی قصے کے انداز میں آگے بڑھتی ہے۔
خالد فتح محمد بحیثیت ناول نگار ،ترجمہ نگار،مدیر اپنے فن کی داد پاچکے ہیں۔”کوہِ گراں “خالد فتح محمد کا ناول میں شائع ہوا تھا جس کا بنیادی موضوع ایک گاﺅں ہے جو قحط سالی کی وجہ سے اجڑ چکا ہے۔نجمہ سہیل کا ناول ”اندھیرے ہونے سے پہلے“ میں شائع ہوا۔اس ناول میں بڑھاپے کے مسائل اور غم و آلام کا ذکر کیا گیا ہے۔اس میں محرومیوں اور گزرے وقت کے پچھتاوے کو موضوع بنایا گیا ہے۔نکہت حسن کا ناول ”جاکنگ پارک“کے نام سے شائع ہوا ۔ان کا یہ ناول اپنے موضوع کے حوالے سے منفرد رہا۔آج کل لوگ صحت کے مسائل کی وجہ سے صبح ورزش اور جاکنگ کرتے ہیں۔اس میں جاکنگ پارک ایک علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔محمد الیاس کا ناول ”کہر“ جسے بہت پسند کیا گیا۔اس ناول میں محمد الیاس نے انسانی فطرت کی نبض شناسی کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔اس ناول میں انسانی فطرت کے مختلف پہلوﺅں کو پیش کیا گیا ہے۔
ناول کے وسیلے سے معاشرتی ناہمواریاں پر ہمیں کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،بانو قدسیہ،عزیز احمد،انتظار حسین جیسے ناول نگاروں نے اپنے اپنے انداز میں سماجی آگہی عطا کی ہے۔فن کے اس سلسلے میں نجم الحسن رضوی اکیسویں صدی میں شامل ہوئے ہیں اور اپنا ناول لکھ کر اپنا معیار خود قائم کیا ہے۔انہوں نے اردو ادب کو ایک منفرد ناول عطا کیا ہے جس کا تجربہ حقیقت کی صداقت کا مظہر ہے۔نجم الحسن رضوی کا ناول ”ماروی اور مرجینا“شائع ہوا ۔ان کا یہ ناول ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی جانب پیش قدمی کررہا ہے۔ماروی اور مرجینا ہماری تہذیبی تاریخ کے دو اہم کردار ہیں۔ماروی سندھ کی اور مرجینا عرب کی یعنی دو مختلف تہزیبوں کی علامتیں ہیں لیکن ان کے درمیان یہ قدر مشترک تھی کہ انہوںنے ظلم کے خلاف مزاحمت کی۔لہانیون کے یہ زندہ کردار آج کے ماحول اور معاشرے میں جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔
عاصم بٹ کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔وہ اپنی نثری تخلیقات کی بدولت ادب میں ایک منفرد ممتاز مقام کے حامل ادیب ہیں۔اکیسویں صدی کی ناول نگاری میں محمد عاصم بٹ جیسے ناول نگار بھی سامنے آتے ہیں ،انکے ناول ”دائرہ “،”ناتمام“،”بھید“ منظر عام پر آکر قارئین ادب پر اپنی دھاگ بٹھا چکے ہیں۔ان کا ناول ”دائرہ“ اکیسویں صدی کی ناول نگاری میں ایک نیا تجربہ ہے جس میں ناول نگار نے ایک ناول میں دو کہانیوں کو ایک ساتھ چلایا ہے۔اس ناول میں دوہری زندگی کا عزاب دائرے کی طرح لا مختم ہے۔ناول نگار نے دو الگ کرداروں کے ذریعے دورِ جدید کے انسان کا مسئلہ اٹھایا ہے۔دائروں میں گزرتی اور سسکتی زندگی ہمارے سامنے رونما ہوتی ہے۔یہ ایک تسلسل ہے جو دائرے کی طرح جاری و ساری ہے۔”ناتمام “ کا موضوع عورت کا استحصال ہے اور ظالم اور جاہل معاشرت کے عبرت ناک نتائج ہیں۔”بھید“ کا موضوع لاہور ہے جس میں عاصم بٹ نے کرداروں کی زندگی کی وسعت،ہمہ گیری،شعور نفس اور احساس کا تنوع بھید کھولتا ہے۔عاصم بٹ نے اپنے مشاہدے کی قوت سے اپنے ناولوں میں ایسے مناظر پیش کیے ہیں جسے تمام انسان آسانی سے دیکھ اور محسوس کرسکتے ہیں۔
ان ناول نگاروں کے علاوہ بھی بہت سے اہم ناولوں میں نسم انجم (نرک)،شاعرعلی شاعر (گہرہ زخم)،ارشد وحید (گمان)،آمنہ مفتی (پانی مر رہا ہے)،رفاقت حیات (میر واہ کی راتیں)،سید کاشف رضا (چار درویش اور ایک کچھوا)،اختر رضا سلیمی(جندر)،محمد امین الدین(کراچی والے)،اے خیام (سراب منزل)وغیرہ شامل ہیں۔علاوہ ازیں اچھے ناولوں کی ایک طویل فہرست ہے جسے ہم دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ ان ناولوں میں کچھ ایسے ناول بھی ہیں جو خوب صورت اور معیاری تحریر لیے ہوئے ہیں جن میں واقعات کی ترتیب بھی ہے اور کرداروں کا متناسب تعلق و مکالمہ بھی۔المختصر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناول فنی ہی نہیں فکری اسلوبیاتی اور تکنیکی منزلوں سے گزر کر نئی وسعتوں سے آشنا ہورہا ہے اور ناول کا مستقبل شاندار ہے۔
ناول زبردست آرٹ فارم ہے ۔اس میں اظہار کے جتنے امکانات ہیں ادب کی کسی دوسری صنف میں نہیں۔انسانی زندگی کے حالات و واقعات اور معاملات کا انتہائی گہرے اور مکمل مشاہدے کے بعد ایک خاص انداز میں ترتیب کے ساتھ کہانی کی شکل میںپیش کرنے کا نام ناول ہے۔ناول ہماری زندگی کی تفسیر اور تصور کا نام ہے۔اس کا ہماری زندگی کے معاشی،سیاسی،سماجی،قومی اور مجلسی مسائل سے گہرا تعلق اور واسطہ ہوتا ہے۔ناول انسانی زندگی کے حالات و واقعات اور عادات و اطوار کو مختلف رنگوں کی آمیزش سے خوبصورت بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ قاری کے لئے دلچسپی کا باعث ہو۔
اکیسویں صدی میں ناول لکھنے والے ناول نگاروں میں کئی نام سامنے آئے۔اکیسویں صدی کے ابھی اُنیس برس ہی گزرے ہیں اور ان دو دہائیوں میں تحقیقی نقطہ نظر سے ڈھائی سو سے زائد ناول شائع ہوچکے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔اکیسویں صدی کو ناول کی نئی صدی بھی کہا جاتا ہے۔ان دو دہائیوں میں کئی شاہکار ناول منظر عام پر آئے ہیں۔ناول نگاری کی جو روایت انیسویں صدی میں شروع ہوئی اور جس نے بیسویں صدی میں نقطہ کمال کی طرف قدم بڑھایا وہ روایت اکیسویں صدی کی دہلیز تک اپنی پوری تابناکی سے قدم بڑھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔اکیسویں صدی کاسفر اُنیس برسوں پر محیط ہے مگر منظر نامے کے لحاظ سے یہ ایک بڑے دور پر محیط ہے۔اگر محض اکیسویں صدی کے اہم ناولوں پر بات کی جائے تو اس کے لیے کئی ہزار صفحات بھی کم پڑیں گے۔اس عنوان کو ایک مضمون میں سمونا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں جب نئے اردو ناول کا تذکرہ آتا ہے تو متعدد ناول نگاروں کے نام ہمارے سامنے آجاتے ہیں،جن میں مستنصر حسین تارڑ،مرزا اطہر بیگ،علی اکبر ناطق،اختر رضا سلیمی،مرزا حامد بیگ،عاصم بٹ،خالد فتح محمد،طاہرہ اقبال،محمد الیاس،حسن منظر،نسیم انجم وغیرہ شامل ہیں۔ان ناول نگاروں نے جو اکیسویں صدی میں ناول لکھے ان میں جدت بھی ہے اور ندرت بھی۔انہوں نے جدید رجحانات اور آج کے انسان کے میلانات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے ناولوں کا تانا بُنا ہے۔اس میں انہوں نے نہ صرف معاشرے میں بڑھتے ہوئے کرپشن،بے راہ را وی،لوٹ کھسوٹ،قتل و غارت،ملاوٹ،دھوکہ دہی اور سیاسی قلابازیوں کی نشان دہی کی ہے۔اکیسویں صدی میں اردو ناول نے اپنی تخلیقیت کو منوایا ہے ۔ناولوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اردو ناول نگاروں نے اپنی ناول نگاری سے جہاں اردو فکشن کو مالا مال کیا ہے وہاں اردو ادب کے فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔پاکستان میں اکیسویں صدی میں شائع ہونے والے ااہم اردو ناولوں میں غلام باغ،دائرہ،بھید،کہر،کوہِ گراں،نیلی بار،مٹی آدم کھاتی ہے،صفر سے ایک تک،ناتمام،نولکھی کوٹھی،انارکلی،دھنی بخش کے بیٹے وغیرہ شامل ہیں۔یہ ناول بہت خصوصیت کے حامل ہیں۔ان دو دہائیوں میں لکھے گئے ناولوں نے اردوادب کے دامن کو وقیع سرمائے سے بھر دیا ہے۔یہ صدی اردو ناول میں نئے امکانات کو سامنے لائے گی اور اردو ناول پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے مقبولیت حاصل کرتا چلا جائے۔
مرزا اطہر بیگ نے اردو ناول کو اکیسویں صدی میں جس اعتماد سے داخل کیا،اس سے اردو ناول کے مستقبل پر سوالیہ نشان معدوم ہو گیا ہے۔ان کا پہلا ناول ”غلام باغ“ کے نام سے شائع ہوا جسے حیرت انگیزطور پر مقبولیت ملی۔غلام باغ بہت وسیع دائرے کا ناول ہے۔اس ناول میں تاریخ ،انسان اور معاشرت میں ہونے والی تبدیلیوں اور برپا ہونے والے رجحانات کا جائزہ لیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس ناول کو شہرت حاصل ہے۔مرزا اطہر بیگ کا دوسرا ناول ”صفر سے ایک تک سامنے آیا۔اس ناول میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور جدید ذرائع ابلاغ ای میل اور انٹر نیٹ کے حوالے سے موضوع کو وسعت دی گئی ہے۔
محمد حمید شاہد کا ناول”مٹی کھاتی ہے“میں منظر عام پر آیا۔یہ محمد حمید شاہد کا جدید رنگ میں تخلیق کردہ علامتی ناول ہے۔اس میں مٹی کی محبت پیدا ہونے والے المیوں کو مختلف جہات کے ساتھ دکھایا ہے۔یہ ناول اسلوب کے حوالے سے ایک نئے تجربے کا حامل ہے۔کہانی روایتی قصے کے انداز میں آگے بڑھتی ہے۔
خالد فتح محمد بحیثیت ناول نگار ،ترجمہ نگار،مدیر اپنے فن کی داد پاچکے ہیں۔”کوہِ گراں “خالد فتح محمد کا ناول میں شائع ہوا تھا جس کا بنیادی موضوع ایک گاﺅں ہے جو قحط سالی کی وجہ سے اجڑ چکا ہے۔نجمہ سہیل کا ناول ”اندھیرے ہونے سے پہلے“ میں شائع ہوا۔اس ناول میں بڑھاپے کے مسائل اور غم و آلام کا ذکر کیا گیا ہے۔اس میں محرومیوں اور گزرے وقت کے پچھتاوے کو موضوع بنایا گیا ہے۔نکہت حسن کا ناول ”جاکنگ پارک“کے نام سے شائع ہوا ۔ان کا یہ ناول اپنے موضوع کے حوالے سے منفرد رہا۔آج کل لوگ صحت کے مسائل کی وجہ سے صبح ورزش اور جاکنگ کرتے ہیں۔اس میں جاکنگ پارک ایک علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔محمد الیاس کا ناول ”کہر“ جسے بہت پسند کیا گیا۔اس ناول میں محمد الیاس نے انسانی فطرت کی نبض شناسی کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔اس ناول میں انسانی فطرت کے مختلف پہلوﺅں کو پیش کیا گیا ہے۔
ناول کے وسیلے سے معاشرتی ناہمواریاں پر ہمیں کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،بانو قدسیہ،عزیز احمد،انتظار حسین جیسے ناول نگاروں نے اپنے اپنے انداز میں سماجی آگہی عطا کی ہے۔فن کے اس سلسلے میں نجم الحسن رضوی اکیسویں صدی میں شامل ہوئے ہیں اور اپنا ناول لکھ کر اپنا معیار خود قائم کیا ہے۔انہوں نے اردو ادب کو ایک منفرد ناول عطا کیا ہے جس کا تجربہ حقیقت کی صداقت کا مظہر ہے۔نجم الحسن رضوی کا ناول ”ماروی اور مرجینا“شائع ہوا ۔ان کا یہ ناول ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی جانب پیش قدمی کررہا ہے۔ماروی اور مرجینا ہماری تہذیبی تاریخ کے دو اہم کردار ہیں۔ماروی سندھ کی اور مرجینا عرب کی یعنی دو مختلف تہزیبوں کی علامتیں ہیں لیکن ان کے درمیان یہ قدر مشترک تھی کہ انہوںنے ظلم کے خلاف مزاحمت کی۔لہانیون کے یہ زندہ کردار آج کے ماحول اور معاشرے میں جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔
عاصم بٹ کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔وہ اپنی نثری تخلیقات کی بدولت ادب میں ایک منفرد ممتاز مقام کے حامل ادیب ہیں۔اکیسویں صدی کی ناول نگاری میں محمد عاصم بٹ جیسے ناول نگار بھی سامنے آتے ہیں ،انکے ناول ”دائرہ “،”ناتمام“،”بھید“ منظر عام پر آکر قارئین ادب پر اپنی دھاگ بٹھا چکے ہیں۔ان کا ناول ”دائرہ“ اکیسویں صدی کی ناول نگاری میں ایک نیا تجربہ ہے جس میں ناول نگار نے ایک ناول میں دو کہانیوں کو ایک ساتھ چلایا ہے۔اس ناول میں دوہری زندگی کا عزاب دائرے کی طرح لا مختم ہے۔ناول نگار نے دو الگ کرداروں کے ذریعے دورِ جدید کے انسان کا مسئلہ اٹھایا ہے۔دائروں میں گزرتی اور سسکتی زندگی ہمارے سامنے رونما ہوتی ہے۔یہ ایک تسلسل ہے جو دائرے کی طرح جاری و ساری ہے۔”ناتمام “ کا موضوع عورت کا استحصال ہے اور ظالم اور جاہل معاشرت کے عبرت ناک نتائج ہیں۔”بھید“ کا موضوع لاہور ہے جس میں عاصم بٹ نے کرداروں کی زندگی کی وسعت،ہمہ گیری،شعور نفس اور احساس کا تنوع بھید کھولتا ہے۔عاصم بٹ نے اپنے مشاہدے کی قوت سے اپنے ناولوں میں ایسے مناظر پیش کیے ہیں جسے تمام انسان آسانی سے دیکھ اور محسوس کرسکتے ہیں۔
ان ناول نگاروں کے علاوہ بھی بہت سے اہم ناولوں میں نسم انجم (نرک)،شاعرعلی شاعر (گہرہ زخم)،ارشد وحید (گمان)،آمنہ مفتی (پانی مر رہا ہے)،رفاقت حیات (میر واہ کی راتیں)،سید کاشف رضا (چار درویش اور ایک کچھوا)،اختر رضا سلیمی(جندر)،محمد امین الدین(کراچی والے)،اے خیام (سراب منزل)وغیرہ شامل ہیں۔علاوہ ازیں اچھے ناولوں کی ایک طویل فہرست ہے جسے ہم دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ ان ناولوں میں کچھ ایسے ناول بھی ہیں جو خوب صورت اور معیاری تحریر لیے ہوئے ہیں جن میں واقعات کی ترتیب بھی ہے اور کرداروں کا متناسب تعلق و مکالمہ بھی۔المختصر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناول فنی ہی نہیں فکری اسلوبیاتی اور تکنیکی منزلوں سے گزر کر نئی وسعتوں سے آشنا ہورہا ہے اور ناول کا مستقبل شاندار ہے۔
ناول زبردست آرٹ فارم ہے ۔اس میں اظہار کے جتنے امکانات ہیں ادب کی کسی دوسری صنف میں نہیں۔انسانی زندگی کے حالات و واقعات اور معاملات کا انتہائی گہرے اور مکمل مشاہدے کے بعد ایک خاص انداز میں ترتیب کے ساتھ کہانی کی شکل میںپیش کرنے کا نام ناول ہے۔ناول ہماری زندگی کی تفسیر اور تصور کا نام ہے۔اس کا ہماری زندگی کے معاشی،سیاسی،سماجی،قومی اور مجلسی مسائل سے گہرا تعلق اور واسطہ ہوتا ہے۔ناول انسانی زندگی کے حالات و واقعات اور عادات و اطوار کو مختلف رنگوں کی آمیزش سے خوبصورت بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ قاری کے لئے دلچسپی کا باعث ہو۔
اکیسویں صدی میں ناول لکھنے والے ناول نگاروں میں کئی نام سامنے آئے۔اکیسویں صدی کے ابھی اُنیس برس ہی گزرے ہیں اور ان دو دہائیوں میں تحقیقی نقطہ نظر سے ڈھائی سو سے زائد ناول شائع ہوچکے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔اکیسویں صدی کو ناول کی نئی صدی بھی کہا جاتا ہے۔ان دو دہائیوں میں کئی شاہکار ناول منظر عام پر آئے ہیں۔ناول نگاری کی جو روایت انیسویں صدی میں شروع ہوئی اور جس نے بیسویں صدی میں نقطہ کمال کی طرف قدم بڑھایا وہ روایت اکیسویں صدی کی دہلیز تک اپنی پوری تابناکی سے قدم بڑھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔اکیسویں صدی کاسفر اُنیس برسوں پر محیط ہے مگر منظر نامے کے لحاظ سے یہ ایک بڑے دور پر محیط ہے۔اگر محض اکیسویں صدی کے اہم ناولوں پر بات کی جائے تو اس کے لیے کئی ہزار صفحات بھی کم پڑیں گے۔اس عنوان کو ایک مضمون میں سمونا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں جب نئے اردو ناول کا تذکرہ آتا ہے تو متعدد ناول نگاروں کے نام ہمارے سامنے آجاتے ہیں،جن میں مستنصر حسین تارڑ،مرزا اطہر بیگ،علی اکبر ناطق،اختر رضا سلیمی،مرزا حامد بیگ،عاصم بٹ،خالد فتح محمد،طاہرہ اقبال،محمد الیاس،حسن منظر،نسیم انجم وغیرہ شامل ہیں۔ان ناول نگاروں نے جو اکیسویں صدی میں ناول لکھے ان میں جدت بھی ہے اور ندرت بھی۔انہوں نے جدید رجحانات اور آج کے انسان کے میلانات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے ناولوں کا تانا بُنا ہے۔اس میں انہوں نے نہ صرف معاشرے میں بڑھتے ہوئے کرپشن،بے راہ را وی،لوٹ کھسوٹ،قتل و غارت،ملاوٹ،دھوکہ دہی اور سیاسی قلابازیوں کی نشان دہی کی ہے۔اکیسویں صدی میں اردو ناول نے اپنی تخلیقیت کو منوایا ہے ۔ناولوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اردو ناول نگاروں نے اپنی ناول نگاری سے جہاں اردو فکشن کو مالا مال کیا ہے وہاں اردو ادب کے فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔پاکستان میں اکیسویں صدی میں شائع ہونے والے ااہم اردو ناولوں میں غلام باغ،دائرہ،بھید،کہر،کوہِ گراں،نیلی بار،مٹی آدم کھاتی ہے،صفر سے ایک تک،ناتمام،نولکھی کوٹھی،انارکلی،دھنی بخش کے بیٹے وغیرہ شامل ہیں۔یہ ناول بہت خصوصیت کے حامل ہیں۔ان دو دہائیوں میں لکھے گئے ناولوں نے اردوادب کے دامن کو وقیع سرمائے سے بھر دیا ہے۔یہ صدی اردو ناول میں نئے امکانات کو سامنے لائے گی اور اردو ناول پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے مقبولیت حاصل کرتا چلا جائے۔
مرزا اطہر بیگ نے اردو ناول کو اکیسویں صدی میں جس اعتماد سے داخل کیا،اس سے اردو ناول کے مستقبل پر سوالیہ نشان معدوم ہو گیا ہے۔ان کا پہلا ناول ”غلام باغ“ کے نام سے شائع ہوا جسے حیرت انگیزطور پر مقبولیت ملی۔غلام باغ بہت وسیع دائرے کا ناول ہے۔اس ناول میں تاریخ ،انسان اور معاشرت میں ہونے والی تبدیلیوں اور برپا ہونے والے رجحانات کا جائزہ لیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس ناول کو شہرت حاصل ہے۔مرزا اطہر بیگ کا دوسرا ناول ”صفر سے ایک تک سامنے آیا۔اس ناول میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور جدید ذرائع ابلاغ ای میل اور انٹر نیٹ کے حوالے سے موضوع کو وسعت دی گئی ہے۔
محمد حمید شاہد کا ناول”مٹی کھاتی ہے“میں منظر عام پر آیا۔یہ محمد حمید شاہد کا جدید رنگ میں تخلیق کردہ علامتی ناول ہے۔اس میں مٹی کی محبت پیدا ہونے والے المیوں کو مختلف جہات کے ساتھ دکھایا ہے۔یہ ناول اسلوب کے حوالے سے ایک نئے تجربے کا حامل ہے۔کہانی روایتی قصے کے انداز میں آگے بڑھتی ہے۔
خالد فتح محمد بحیثیت ناول نگار ،ترجمہ نگار،مدیر اپنے فن کی داد پاچکے ہیں۔”کوہِ گراں “خالد فتح محمد کا ناول میں شائع ہوا تھا جس کا بنیادی موضوع ایک گاﺅں ہے جو قحط سالی کی وجہ سے اجڑ چکا ہے۔نجمہ سہیل کا ناول ”اندھیرے ہونے سے پہلے“ میں شائع ہوا۔اس ناول میں بڑھاپے کے مسائل اور غم و آلام کا ذکر کیا گیا ہے۔اس میں محرومیوں اور گزرے وقت کے پچھتاوے کو موضوع بنایا گیا ہے۔نکہت حسن کا ناول ”جاکنگ پارک“کے نام سے شائع ہوا ۔ان کا یہ ناول اپنے موضوع کے حوالے سے منفرد رہا۔آج کل لوگ صحت کے مسائل کی وجہ سے صبح ورزش اور جاکنگ کرتے ہیں۔اس میں جاکنگ پارک ایک علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔محمد الیاس کا ناول ”کہر“ جسے بہت پسند کیا گیا۔اس ناول میں محمد الیاس نے انسانی فطرت کی نبض شناسی کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔اس ناول میں انسانی فطرت کے مختلف پہلوﺅں کو پیش کیا گیا ہے۔
ناول کے وسیلے سے معاشرتی ناہمواریاں پر ہمیں کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،بانو قدسیہ،عزیز احمد،انتظار حسین جیسے ناول نگاروں نے اپنے اپنے انداز میں سماجی آگہی عطا کی ہے۔فن کے اس سلسلے میں نجم الحسن رضوی اکیسویں صدی میں شامل ہوئے ہیں اور اپنا ناول لکھ کر اپنا معیار خود قائم کیا ہے۔انہوں نے اردو ادب کو ایک منفرد ناول عطا کیا ہے جس کا تجربہ حقیقت کی صداقت کا مظہر ہے۔نجم الحسن رضوی کا ناول ”ماروی اور مرجینا“شائع ہوا ۔ان کا یہ ناول ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی جانب پیش قدمی کررہا ہے۔ماروی اور مرجینا ہماری تہذیبی تاریخ کے دو اہم کردار ہیں۔ماروی سندھ کی اور مرجینا عرب کی یعنی دو مختلف تہزیبوں کی علامتیں ہیں لیکن ان کے درمیان یہ قدر مشترک تھی کہ انہوںنے ظلم کے خلاف مزاحمت کی۔لہانیون کے یہ زندہ کردار آج کے ماحول اور معاشرے میں جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔
عاصم بٹ کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔وہ اپنی نثری تخلیقات کی بدولت ادب میں ایک منفرد ممتاز مقام کے حامل ادیب ہیں۔اکیسویں صدی کی ناول نگاری میں محمد عاصم بٹ جیسے ناول نگار بھی سامنے آتے ہیں ،انکے ناول ”دائرہ “،”ناتمام“،”بھید“ منظر عام پر آکر قارئین ادب پر اپنی دھاگ بٹھا چکے ہیں۔ان کا ناول ”دائرہ“ اکیسویں صدی کی ناول نگاری میں ایک نیا تجربہ ہے جس میں ناول نگار نے ایک ناول میں دو کہانیوں کو ایک ساتھ چلایا ہے۔اس ناول میں دوہری زندگی کا عزاب دائرے کی طرح لا مختم ہے۔ناول نگار نے دو الگ کرداروں کے ذریعے دورِ جدید کے انسان کا مسئلہ اٹھایا ہے۔دائروں میں گزرتی اور سسکتی زندگی ہمارے سامنے رونما ہوتی ہے۔یہ ایک تسلسل ہے جو دائرے کی طرح جاری و ساری ہے۔”ناتمام “ کا موضوع عورت کا استحصال ہے اور ظالم اور جاہل معاشرت کے عبرت ناک نتائج ہیں۔”بھید“ کا موضوع لاہور ہے جس میں عاصم بٹ نے کرداروں کی زندگی کی وسعت،ہمہ گیری،شعور نفس اور احساس کا تنوع بھید کھولتا ہے۔عاصم بٹ نے اپنے مشاہدے کی قوت سے اپنے ناولوں میں ایسے مناظر پیش کیے ہیں جسے تمام انسان آسانی سے دیکھ اور محسوس کرسکتے ہیں۔
ان ناول نگاروں کے علاوہ بھی بہت سے اہم ناولوں میں نسم انجم (نرک)،شاعرعلی شاعر (گہرہ زخم)،ارشد وحید (گمان)،آمنہ مفتی (پانی مر رہا ہے)،رفاقت حیات (میر واہ کی راتیں)،سید کاشف رضا (چار درویش اور ایک کچھوا)،اختر رضا سلیمی(جندر)،محمد امین الدین(کراچی والے)،اے خیام (سراب منزل)وغیرہ شامل ہیں۔علاوہ ازیں اچھے ناولوں کی ایک طویل فہرست ہے جسے ہم دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ ان ناولوں میں کچھ ایسے ناول بھی ہیں جو خوب صورت اور معیاری تحریر لیے ہوئے ہیں جن میں واقعات کی ترتیب بھی ہے اور کرداروں کا متناسب تعلق و مکالمہ بھی۔المختصر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناول فنی ہی نہیں فکری اسلوبیاتی اور تکنیکی منزلوں سے گزر کر نئی وسعتوں سے آشنا ہورہا ہے اور ناول کا مستقبل شاندار ہے۔
ناول زبردست آرٹ فارم ہے ۔اس میں اظہار کے جتنے امکانات ہیں ادب کی کسی دوسری صنف میں نہیں۔انسانی زندگی کے حالات و واقعات اور معاملات کا انتہائی گہرے اور مکمل مشاہدے کے بعد ایک خاص انداز میں ترتیب کے ساتھ کہانی کی شکل میںپیش کرنے کا نام ناول ہے۔ناول ہماری زندگی کی تفسیر اور تصور کا نام ہے۔اس کا ہماری زندگی کے معاشی،سیاسی،سماجی،قومی اور مجلسی مسائل سے گہرا تعلق اور واسطہ ہوتا ہے۔ناول انسانی زندگی کے حالات و واقعات اور عادات و اطوار کو مختلف رنگوں کی آمیزش سے خوبصورت بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ قاری کے لئے دلچسپی کا باعث ہو۔
اکیسویں صدی میں ناول لکھنے والے ناول نگاروں میں کئی نام سامنے آئے۔اکیسویں صدی کے ابھی اُنیس برس ہی گزرے ہیں اور ان دو دہائیوں میں تحقیقی نقطہ نظر سے ڈھائی سو سے زائد ناول شائع ہوچکے ہیں اور ہو بھی رہے ہیں۔اکیسویں صدی کو ناول کی نئی صدی بھی کہا جاتا ہے۔ان دو دہائیوں میں کئی شاہکار ناول منظر عام پر آئے ہیں۔ناول نگاری کی جو روایت انیسویں صدی میں شروع ہوئی اور جس نے بیسویں صدی میں نقطہ کمال کی طرف قدم بڑھایا وہ روایت اکیسویں صدی کی دہلیز تک اپنی پوری تابناکی سے قدم بڑھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔اکیسویں صدی کاسفر اُنیس برسوں پر محیط ہے مگر منظر نامے کے لحاظ سے یہ ایک بڑے دور پر محیط ہے۔اگر محض اکیسویں صدی کے اہم ناولوں پر بات کی جائے تو اس کے لیے کئی ہزار صفحات بھی کم پڑیں گے۔اس عنوان کو ایک مضمون میں سمونا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔
پاکستان میں جب نئے اردو ناول کا تذکرہ آتا ہے تو متعدد ناول نگاروں کے نام ہمارے سامنے آجاتے ہیں،جن میں مستنصر حسین تارڑ،مرزا اطہر بیگ،علی اکبر ناطق،اختر رضا سلیمی،مرزا حامد بیگ،عاصم بٹ،خالد فتح محمد،طاہرہ اقبال،محمد الیاس،حسن منظر،نسیم انجم وغیرہ شامل ہیں۔ان ناول نگاروں نے جو اکیسویں صدی میں ناول لکھے ان میں جدت بھی ہے اور ندرت بھی۔انہوں نے جدید رجحانات اور آج کے انسان کے میلانات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے ناولوں کا تانا بُنا ہے۔اس میں انہوں نے نہ صرف معاشرے میں بڑھتے ہوئے کرپشن،بے راہ را وی،لوٹ کھسوٹ،قتل و غارت،ملاوٹ،دھوکہ دہی اور سیاسی قلابازیوں کی نشان دہی کی ہے۔اکیسویں صدی میں اردو ناول نے اپنی تخلیقیت کو منوایا ہے ۔ناولوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اردو ناول نگاروں نے اپنی ناول نگاری سے جہاں اردو فکشن کو مالا مال کیا ہے وہاں اردو ادب کے فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔پاکستان میں اکیسویں صدی میں شائع ہونے والے ااہم اردو ناولوں میں غلام باغ،دائرہ،بھید،کہر،کوہِ گراں،نیلی بار،مٹی آدم کھاتی ہے،صفر سے ایک تک،ناتمام،نولکھی کوٹھی،انارکلی،دھنی بخش کے بیٹے وغیرہ شامل ہیں۔یہ ناول بہت خصوصیت کے حامل ہیں۔ان دو دہائیوں میں لکھے گئے ناولوں نے اردوادب کے دامن کو وقیع سرمائے سے بھر دیا ہے۔یہ صدی اردو ناول میں نئے امکانات کو سامنے لائے گی اور اردو ناول پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے مقبولیت حاصل کرتا چلا جائے۔
مرزا اطہر بیگ نے اردو ناول کو اکیسویں صدی میں جس اعتماد سے داخل کیا،اس سے اردو ناول کے مستقبل پر سوالیہ نشان معدوم ہو گیا ہے۔ان کا پہلا ناول ”غلام باغ“ کے نام سے شائع ہوا جسے حیرت انگیزطور پر مقبولیت ملی۔غلام باغ بہت وسیع دائرے کا ناول ہے۔اس ناول میں تاریخ ،انسان اور معاشرت میں ہونے والی تبدیلیوں اور برپا ہونے والے رجحانات کا جائزہ لیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس ناول کو شہرت حاصل ہے۔مرزا اطہر بیگ کا دوسرا ناول ”صفر سے ایک تک سامنے آیا۔اس ناول میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور جدید ذرائع ابلاغ ای میل اور انٹر نیٹ کے حوالے سے موضوع کو وسعت دی گئی ہے۔
محمد حمید شاہد کا ناول”مٹی کھاتی ہے“میں منظر عام پر آیا۔یہ محمد حمید شاہد کا جدید رنگ میں تخلیق کردہ علامتی ناول ہے۔اس میں مٹی کی محبت پیدا ہونے والے المیوں کو مختلف جہات کے ساتھ دکھایا ہے۔یہ ناول اسلوب کے حوالے سے ایک نئے تجربے کا حامل ہے۔کہانی روایتی قصے کے انداز میں آگے بڑھتی ہے۔
خالد فتح محمد بحیثیت ناول نگار ،ترجمہ نگار،مدیر اپنے فن کی داد پاچکے ہیں۔”کوہِ گراں “خالد فتح محمد کا ناول میں شائع ہوا تھا جس کا بنیادی موضوع ایک گاﺅں ہے جو قحط سالی کی وجہ سے اجڑ چکا ہے۔نجمہ سہیل کا ناول ”اندھیرے ہونے سے پہلے“ میں شائع ہوا۔اس ناول میں بڑھاپے کے مسائل اور غم و آلام کا ذکر کیا گیا ہے۔اس میں محرومیوں اور گزرے وقت کے پچھتاوے کو موضوع بنایا گیا ہے۔نکہت حسن کا ناول ”جاکنگ پارک“کے نام سے شائع ہوا ۔ان کا یہ ناول اپنے موضوع کے حوالے سے منفرد رہا۔آج کل لوگ صحت کے مسائل کی وجہ سے صبح ورزش اور جاکنگ کرتے ہیں۔اس میں جاکنگ پارک ایک علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔محمد الیاس کا ناول ”کہر“ جسے بہت پسند کیا گیا۔اس ناول میں محمد الیاس نے انسانی فطرت کی نبض شناسی کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔اس ناول میں انسانی فطرت کے مختلف پہلوﺅں کو پیش کیا گیا ہے۔
ناول کے وسیلے سے معاشرتی ناہمواریاں پر ہمیں کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،بانو قدسیہ،عزیز احمد،انتظار حسین جیسے ناول نگاروں نے اپنے اپنے انداز میں سماجی آگہی عطا کی ہے۔فن کے اس سلسلے میں نجم الحسن رضوی اکیسویں صدی میں شامل ہوئے ہیں اور اپنا ناول لکھ کر اپنا معیار خود قائم کیا ہے۔انہوں نے اردو ادب کو ایک منفرد ناول عطا کیا ہے جس کا تجربہ حقیقت کی صداقت کا مظہر ہے۔نجم الحسن رضوی کا ناول ”ماروی اور مرجینا“شائع ہوا ۔ان کا یہ ناول ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی جانب پیش قدمی کررہا ہے۔ماروی اور مرجینا ہماری تہذیبی تاریخ کے دو اہم کردار ہیں۔ماروی سندھ کی اور مرجینا عرب کی یعنی دو مختلف تہزیبوں کی علامتیں ہیں لیکن ان کے درمیان یہ قدر مشترک تھی کہ انہوںنے ظلم کے خلاف مزاحمت کی۔لہانیون کے یہ زندہ کردار آج کے ماحول اور معاشرے میں جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔
عاصم بٹ کا نام بھی کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔وہ اپنی نثری تخلیقات کی بدولت ادب میں ایک منفرد ممتاز مقام کے حامل ادیب ہیں۔اکیسویں صدی کی ناول نگاری میں محمد عاصم بٹ جیسے ناول نگار بھی سامنے آتے ہیں ،انکے ناول ”دائرہ “،”ناتمام“،”بھید“ منظر عام پر آکر قارئین ادب پر اپنی دھاگ بٹھا چکے ہیں۔ان کا ناول ”دائرہ“ اکیسویں صدی کی ناول نگاری میں ایک نیا تجربہ ہے جس میں ناول نگار نے ایک ناول میں دو کہانیوں کو ایک ساتھ چلایا ہے۔اس ناول میں دوہری زندگی کا عزاب دائرے کی طرح لا مختم ہے۔ناول نگار نے دو الگ کرداروں کے ذریعے دورِ جدید کے انسان کا مسئلہ اٹھایا ہے۔دائروں میں گزرتی اور سسکتی زندگی ہمارے سامنے رونما ہوتی ہے۔یہ ایک تسلسل ہے جو دائرے کی طرح جاری و ساری ہے۔”ناتمام “ کا موضوع عورت کا استحصال ہے اور ظالم اور جاہل معاشرت کے عبرت ناک نتائج ہیں۔”بھید“ کا موضوع لاہور ہے جس میں عاصم بٹ نے کرداروں کی زندگی کی وسعت،ہمہ گیری،شعور نفس اور احساس کا تنوع بھید کھولتا ہے۔عاصم بٹ نے اپنے مشاہدے کی قوت سے اپنے ناولوں میں ایسے مناظر پیش کیے ہیں جسے تمام انسان آسانی سے دیکھ اور محسوس کرسکتے ہیں۔
ان ناول نگاروں کے علاوہ بھی بہت سے اہم ناولوں میں نسم انجم (نرک)،شاعرعلی شاعر (گہرہ زخم)،ارشد وحید (گمان)،آمنہ مفتی (پانی مر رہا ہے)،رفاقت حیات (میر واہ کی راتیں)،سید کاشف رضا (چار درویش اور ایک کچھوا)،اختر رضا سلیمی(جندر)،محمد امین الدین(کراچی والے)،اے خیام (سراب منزل)وغیرہ شامل ہیں۔علاوہ ازیں اچھے ناولوں کی ایک طویل فہرست ہے جسے ہم دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ ان ناولوں میں کچھ ایسے ناول بھی ہیں جو خوب صورت اور معیاری تحریر لیے ہوئے ہیں جن میں واقعات کی ترتیب بھی ہے اور کرداروں کا متناسب تعلق و مکالمہ بھی۔المختصر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناول فنی ہی نہیں فکری اسلوبیاتی اور تکنیکی منزلوں سے گزر کر نئی وسعتوں سے آشنا ہورہا ہے اور ناول کا مستقبل شاندار ہے۔