یہ تویقینی تھاکہ متحدہ ہندوستان قائم نہیں رہ سکتا،بٹوارہ ہوکررہناہےلیکن مسلم لیگی قیادت کو یہ اندازہ ہرگزنہ تھا کہ شطرنج کی جوچالیں مذہب کے کارڈ پرکھیل چکےتو چیک میٹ کیا ہونےوالاہے؟
مئی 1947تک جناح اورلیگی لیڈرشپ کویقین تھا کہ پنجاب اور بنگال پورے کا پوراپاکستان کوملےگا لیکن حالات نے خوفناک ٹرن اس وقت لیاجب انگریزنے جناح کوبتادیا کہ پنجاب اوربنگال بھی مذہب کی بنیادپر تقسیم ہوں گےاور کلکتہ تو کسی صورت بھی پاکستان کو نہیں ملے گا، لاہوربھی کانگریس لینا چاہتی تھی کہ انڈین ہسٹری اور کلچرکی بنیاد ہی لاہور تھا لیکن ریڈکلف نے جرات مندانہ سٹینڈ لے کر کھیل فائنل کیا کہ چاربڑے شہروں میں سے تین اںڈیا کوتو ایک پاکستان کوضروردیاجائےگاکیونکہ اگر لاہوربھی نہ دیاجاتاتوپاکستان کو کوئی بڑا ترقی یافتہ شہربھی نہ ملتا، صرف چھوٹے شہراورپسماندہ قصبے ہی حصے میں آتے۔ پنجاب اوربنگال کی تقسیم کا اشو ولبھہ بھائی پٹیل نے اٹھایاتھاکہ اگرملک مذہب کی بنیاد پرتقسیم ہوگا تو صوبوں پر بھی اطلاق ہوگااور مسلم لیگی لیڈرشپ کےپاس کوئی معقول جواب نہ تھا۔
بنگال کا معاملہ سیدھا سادہ تھا کیونکہ ویسٹ بنگال میں ہندومجارٹی اورمشرقی بنگال میں مسلم مجارٹی تھی لیکن پنجاب کا معاملہ قطعی مختلف کیونکہ پنجاب ففٹی ففٹی ، مکسڈ ابادی تھا ، لاہور ففٹی ففٹی جبکہ پنڈی، لائلپور،سرگودھاشہرغیرمسلم شہرلیکن دیہات مسلم مجارٹی دوسری طرف موجودہ مشرقی پنجاب میں ہندوسکھ مجارٹی میں گھرے ہوئے مسلم پنجابی علاقے جبکہ سکھوں کے مقدس مقمات مسلم مجارٹی اضلاع میں موجود، یوں پنجاب کی تقسیم ناممکن تھی ، پھرخوفناک صورت حال کا پنجابیوں نے سامنا بھی کیا جب بیس لاکھ پنجابی قتل اور ڈیڑھ کروڑ کو مہاجرت اختیارکرنی پڑی ۔
مسلم لیگ کے پاس ایک ہی راستہ بچا تھاکہ وہ سکھوں کوراضی رکھتی، کیونکہ خالص مسلم مجارٹی ڈویژن صرف پنڈی اورملتان تھے ، چناب سے ستلج تک کا علاقہ ہندو مسلم سکھ ابادی یعنی مکسڈ علاقہ تھا۔ ستلج کے جنوب سے دہلی تک ہندو سکھ مجارٹی بن جاتی تھی ۔ سکھوں کی پارٹی اکالی دل تھی جس کی لیڈرشپ تارہ سنگھ اور کرتارسنگھ کے ہاتھ تھی ، مسلم لیگ کے اکالی دل سے مذاکرات جاری تھے ، اگر اکالی دل سے مذاکرات کامیاب ہوجاتے تو پنجاب ستلج ریور یعنی پٹیالہ تک پاکستان میں شامل ہوتا البتہ انبالہ ڈویزن انڈیا کو مل جاتا جو ہندو مجارٹی تھا لیکن روہتک حصارانبالہ کی انڈٰیا میں شمولیت سے پنجاب کو کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ وہ دورافتادہ علاقے تھے اور مرکزی پنجاب کا سسٹم ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوتا۔نہری نظام ، ریلوے نیٹ ورک ، مکسڈ ابادی تقسیم اور نفرت کے سایوں سے محفوظ رہتی۔
اکالی دل میں دو دھڑے ہوچکے تھے کرتارسنگھ پاکستان میں شمولیت کے حامی جبکہ ماسٹرتارہ سنگھ ہندوستان کے ساتھ تھے لیکن ماسٹر کرتارسنگھ کا دھڑاکالی دل میں حاوی تھا کیونکہ ان کا استدلال یہ تھا کہ سکھوں کے مذہبی مقامات اور زمینیں مغربی پنجاب میں ہیں اس لئے ہمارامذہبی اورمالیاتی فایدہ پاکستان میں شمولیت ہے جبکہ ماسٹر تارہ سنگھ جناح کے دوقومی نظرئے اور مزہب کی بنیاد پر بٹوارے کی وجہ سے جناح پر اعتماد کرنے کوتیار نہ تھے ۔
مزاکرات اس وقت بری طرح ناکام ہوگئے جب پنڈی، ٹیکسلا، میانوالی ،مری ، ہزارہ میں ہندوؤں سکھوں کا بے دردی سے قتل عام شروع ہوا ، پنڈی جو غیر مسلم شہر تھا تواس پر اس پاس کے مسلم دیہات سے ہزاروں مسلمانوں نے حملہ کردیا جو کئی دن کی جنگ کے بعد پسپا کردیا گیا، پھر غیر مسلم دیہات کی تباہی و بربادی کا سلسلہ شروع ہوگیا ، مارچ میں کہوٹہ میں تھوئی خالصہ گاؤں میں قتل عام پنجاب کی ہسٹری کا شرمناک واقعہ ہے اس کے بعد مسلم مجارٹی علاقوں میں ہر طرف ہندو سکھ کا قتل عام شروع ہوگیا۔
( نوٹ ، کھوئی خالصہ گاؤں کہوٹہ میں قتل عام پر سب سے پہلے پوسٹ میں نے لگائی تھی ، اس سے پہلےیہ واقعہ کبھی ڈسکس نہیں ہوا، میں حیرت زدہ ہوں کہ اب کئی لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے سب سے پہلے لکھا ۔ ضرور لکھا ہے لیکن میری پوسٹ اور ائیڈیا سے لےکر )
چار ماہ تک موجودہ پاکستانی پنجاب میں ہندوسکھ قتل عام جاری رہا ، مسلم لیگی لیڈرشپ نے روکنے کےلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا، جناح، لیاقت، دولتانہ، ممدوٹ سردارشوکت حیات نےایک بیان بھی نہ دیا شاید وہ خود بھی یہی چاہتے تھے ، مسلم لیگی قیادت کی بے حسی اورسکھوں کے قتل عام پراکالی دل میں کرتارسنگھ کا دھڑاکمزورپڑگیا جوپاکستان سے الحاق چاہتاتھا،اسی دوران پنڈی پر مسلمان دیہاتیوں کے حملے میں کرتارسنگھ کی حویلی کوآگ لگائی گئی جس میں اس کی ماں کو زندہ جلایا اور باپ کے ختنے کئے گئے لیکن مسلم لیگی لیڈرشپ خاموش تماشائی بنی رہی ، پنجاب کی تقسیم پرمہر ثبت ہوگئی اورسکھوں نے جناح کو ناقابل اعتبار قراردے دیا ۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ مسلم لیگی لیڈرشپ نے مغربی پنجاب میں فسادات کی اگ بھڑکانے کےلئے قبائلی پٹھانوں کو جہاد اور لوٹ مار کے نام پر پنجاب بلالیا جبکہ مشایخ اورعلما نے نفرت انگیز تقاریر کرکے فتوے دیئے ۔ اس کے بعد کٹی پھٹی ٹرینیں مغربی پنجاب سے مشرقی پنجاب جانے لگیں اور17اگست کو تقسیم پنجاب کے اعلان اور قتل عام کے ٹھیک چھ ماہ بعد مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا،
یوں پانچ ہزار سال سے متحد پنجاب ٹوٹ گیا۔