رومی اندھے، مقلدین کو حکمت سے عاری اور روح دین سے بیگانہ سمجھتے پیں۔ مولانا روم لکھتے ہیں اندھا مقلد اپنی کوئی شخصیت نہیں رکھتا۔ وہ ذہنی غلام ہے۔ بعض دفعہ یہ مقلد سنی ہوئی بڑی اچھی باتیں نقل کرنا شروع کر دیتے پیں۔ یہ ان امور ی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے۔ ناواقف قدمی ان کو صاحب حقیقت سمجھنے لگ جاتا ہے۔ یہ وہ پیشہ ور نوحہ گر ہیں جو جو اجرت لے کر ماتم کرتے پیں۔ ان کو غم اور دکھ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مولانا مثال دیتے ہین کہ بیل گاڑی کا وزن تو بیل کھینچ رہا ہوتا ہے، خاموشی سے مگر پیچھے چلنے والے پہیے شور کر رہے ہوتے ہیں جیسے یہ زور خود ان کا اپنا لگ رہا ہے۔ اسی طرح اندھے مقلد خوامخواہ شور کرتے پیں۔ ان کا کام کچھ نہیں ہوتا۔ ان مقلدون کی مثال اس گدا گر کی سی ہے جو قرآن پڑھ کر بھیک مانگتا ہے۔ اگر اس کو سمجھ آ جائے تو ایک آیت اس کو دنیا سے بیگانہ بنا دے۔
مولانا فرماتے ہیں کہ ایک کمزور نحیف مزدور سے کسی نے پوچھا کہ تمہارا کیا حال بن گیا ہے؟ اس نے کہا یہ گھی کی وجہ سے ہے لوگ حیران ہوئے گھی سے لوگ طاقتور ہو جاتے ہیں۔ اس نے کہا میں گھی اٹھا کر رکھتا ہوں، مزدوری کرتا ہوں۔ اسی طرح اندھے مقلد ہیں جوکتابوں کو سمجھے بغیر یاد کر لیتے ہیں، اس سے ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ رومی ایک اور مثال دیتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے سفر میں رات کو قیام کیا اور اپنا بیل قریب ہی باندھ دیا، رات کو شیر آیا اور بیل کو کھا گیا اور قریب بیٹھ گیا۔ اندھیرے میں دیہاتی آیا اور شیر پر ہاتھ پھیرنے لگ گیا۔ شیر نے کہا اس اندھے کو علم ہی نہیں کیا کر رہا ہے۔ مولانا کہتے ہیں اکثریت مقلدین تحقیق سے یقین تک نہیں جاتے۔ بلکہ آنکھیں بند کرکے والدین یا معاشرے کی پیروی کرتے ہیں۔ اللہ ان کو جانور اور مویشی کہتا ہے جو کچیھ غور نہیں کرتے بس کسی کے پیچھے چلتے جاتے ہیں۔