این اے 249 کراچی کا بھی فیصلہ ہو گیا جیسا کہ “آوازہ” نے امکان ظاہر کیا تھا، مسلم لیگ کے امیدوار مفتاح اسمٰعیل یہ انتخاب واضح فرق کے ساتھ جیت رہے ہیں۔
قومی اسمبلی کے اس ضمنی انتخاب سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں کئی نئے سیاسی رجحانات ٹھوس حقائق کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور کچھ ایسے حقائق جنھیں مصنوعی طور تخلیق کیا گیا تھا، وہ اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔
این اے 249 روائتی طور پر مسلم لیگ کا حلقہ ہے جہاں سے اعجاز شفیع مرحوم دو بار انتخاب جیتے۔ بعد کے ادوار میں انتخابی نتائج کچھ تبدیل ضرور ہوئے لیکن اس تبدیلی میں رائے عامہ سے زیادہ ان عوامل کو دخل رہا ہے جیسے 2018ء میں شہباز شریف شکست سے دوچار ہوئے۔
اس انتخابی نتیجے سے ایک اور پہلو وہ سامنے آیا ہے جس کا تعلق آس حکومت کی کارکردگی سے ہے۔ صرف حزب اختلاف ہی نہیں عام آدمی بھی یہ کھلے عام کہتا ہے کہ اس حکومت کی کمزور کارکردگی کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی مشکلات سے دوچار ہو گئی اور لوگوں کے لیے کچن چلانا آسان نہیں رہا۔ یہ حکومت کی خراب کارکردگی ہی کا نتیجہ ہے کہ پی ٹی آئی چاروں صوبوں میں ضمنی انتخابات میں ناکام ہوئی اور اب یہ سلسلہ کراچی تک اس انداز میں جا پہنچا کہ حکمراں جماعت کا امیدوار پہلے اور دوسرے نمبر پر بھی نہیں آ سکا۔
اس حلقے میں ایم کیو ایم کے ووٹوں کے کچھ پاکٹس ہیں لیکن اس باوجود یہ جماعت ان علاقوں سے بھی ووٹروں کی توجہ حاصل نہیں کر سکی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس جماعت کی گزشتہ تیس برس کی کارکردگی کے نتائج سامنے آئے شروع ہو گئے ہیں۔
اس ضمنی انتخاب میں پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کو بھی عوام نے اپنے اعتماد کے قابل نہیں سمجھا اور وہ بھی پی ٹی آئی کے امیدوار کی طرح ابتدائی تین امیدواروں کی صف میں شامل نہیں ہو سکے۔ اس کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ عوام انھیں سنجیدہ سیاسی کارکن تصور نہیں کرتے اور دوم ان پر کسی بھی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کا جو ٹھپہ لگ گیا ہے، اس نے اس سیاسی گروہ کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ ضمنی انتخاب کے نتائج کا یہ ایک اہم پیغام ہے۔
اس انتخابی نتیجے کا ایک اور اہم پیغام حال ہی میں کالعدم قرار دی جانے والی تحریک لبیک کی نمایاں کارکردگی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر میدان میں اترنے والے مذہبی گروہ نے عوام کی توجہ بڑے پیمانے پر حاصل کی ہے۔ ملک کے سیاسی منظر نامے پر اگر کوئی بڑی تبدیلی رونما نہ ہوئی تو یہ رجحان ماضی کی طرح آئندہ انتخابی نتائج کو بڑے پیمانے پر متاثر کی صلاحیت برقرار رکھے گا۔ کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس کے اثرات قومی سیاسی زندگی کے لیے خوش گوار نہیں ہو ں گے۔