مولانا لکھتے ہین انسان متواتر سیکھتا رہتا ہے کبھی چھوٹا ہوتا ہے۔ پھر بڑا ہو جاتاہے۔ کبھی گناہ گار ہوتا ہے توبہ کر جاتا ہے اور متقی بن جاتا ہے مگر حاسد لوگ اس کے حال کی بجائے ماضی کے طعنے دیتے رہتے ہین یہ حاسد نالایق لوگ ہوتے ہین جو ماضی مین جیتے ہیں اور اس فرد کے حال سے نفرت کرتے ہین اور اس کے برے ماضی کا تذکرہ کر کے اپنی تسکین کرتے ہیں۔ اسی طرح سردار پٹیل نے قائد اعظم محمد علی جناح سے کہا تم تو ہمارے ساتھ تھے۔ قائد اعظم نے کہا مین جب چھوٹا تھا چارپائی گیلی کر دیتا تھا اب مین بڑا ہو گیا ہوں۔ اسی طرح مکہ کے لوگ جناب سردار انبیاُ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبدالمطلب کا یتیم پوتا کہہ کر اپنی تسکین کرتے تھے ۔ ہمارے گاوں کے جولاہے شہر میں جا کر امیر ہو گیے جب کبھی گاؤں آتے۔ لوگ کہتے ہان پتہ ہے جولاہے فلانے کا منڈا ہے ۔ اج کچھ لوگ نواز شریف کو فوج کے ساتھ والا ماضی یاد کرتے ہین کچھ عمران کے ماضی پر طعن کرتے ہیں، نہیں جناب ا ب۔ وہ بڑے ہو گیے ہیں۔ انھون نے حالات سے سیکھا ہے۔ اب ان کے حال پر بات کرین۔ اپنے ماضی سے نکل ایے حال کو دیکھیے۔ مستقبل کے لیے ارتقا کا سفر کیجیے۔ یہ ماضی کے طعنے۔ مایوس۔ نکمے لوگون کا وطیرہ ہوتے ہین۔ اللہ ہمین سیکھنے کا حوصلہ دے۔۔۔ وہ بڑا ادمی ہے جو ماضی کی راہ بدل کر سیدھی راہ پر اگیا۔ وہ غلط سوچتا تھا اب اس نے سوچ بدل لی۔ اپ بھی بدل لیجیے۔ ۔ استفادہ۔ مثنوی دفتر دوم۔