ڈاکٹر سید احسان اللہ شاہ صاحب آف گجرات11 مارچ 2015ء کو المناک ٹریفک حادثے میں شہادت کا رتبہ پا کر مالک ارض و سماء کے پاس حاضر ہوئے پانچ سال پلک جھپکتے گزرے 1990ء میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کے بعد پاکستان کے مختلف حصوں سے مختلف الخیال دوستوں کے ساتھ رہنے اور سلیقہ مندی سیکھنے کے مواقع ملے. ڈاکٹر سید احسان اللہ شاہ صاحب زندہ دل اور بیدار مغز بھرپور اور مثالی متحرک شخصیت تھے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی مجلس شوریٰ میں سالوں ان کی خوبصورت اور بامقصد گفتگو زندگی کی خوبصورت ترین یادوں میں سے ہیں قاضی حسین احمد مرحوم کا دور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے بعد جماعت اسلامی کا پرجوش اور مثالی دور رہا ہے قاضی صاحب مخلص اور فعال شخصیت تھے۔ وہ محنت و یکسوئی سے جمہوری جدوجھد کرنے والے افراد و اشخاص کی عزت و تکریم میں کبھی کوئی کمی اور بخل نہیں کرتے تھے۔
جناب سید احسان اللہ شاہ صاحب کی مخلصانہ و دانش مندانہ اقدام و منصوبے اب تک میرے ذہن میں نقش ہیں جب وہ بھرپور کوشش و دانش پر زور دیتے تھے پنجاب کے معاشرتی اور سماجی پس منظر میں سیاسی و نظریاتی ترقی کے لئے کیا بنیادی و جوہری تبدیلیاں ضروری ہیں یہ درد دل رکھنے والے دوستوں کی دل گدازی ہمیشہ کی طرح مشکل گھڑی ثابت ہوا ہے۔
ڈاکٹر سید احسان اللہ شاہ صاحب گجرات سے لے کر ملتان تک اس نکتہ ذرین پر ہر موقع پر کھڑتے رہتے تھے اور اس غم تبدیلی و انقلاب وہ ساتھ لے کر دار آخرت کو سدھار گئے نہ جانے برصغیر پاک وہند میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ،حضرت علامہ محمد اقبال لاہوری اور علماء دین متین کی اور عالم عرب میں مثالی شخصیت سیدنا امام حسن البنا شہید اور سید قطب شہید کے ہزاروں و لاکھوں مریدین و معتقدین اپنے پاکیزہ زندگیوں میں ارمانوں و آرزوؤں کی پھول کھلنے کے بجائے جہالت و فکری افلاس کا سامنا کرتے ہوئے قبروں میں جابسے اور یہی دراصل وہ مشکل ترین گھتی ہے جسے سلجھانے میں ہی امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور سید جمال الدین افغانی اسد آبادی رحمۃ اللہ علیہ و سعید الزماں نورسی کے خوابوں و بشارات کی تکمیل بھی ممکن العمل ہوسکے گا۔