آج کل .آٹا آٹا ہو رہی ہے اور ہم نے بات بھی یہی کرنی ہے لیکن تھوڑے پس منظر کے بغیر ممکن نہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہماراملک آمر و جمہوری حکمرانوں کے اپنے اپنے طرز حکومت میں انکی اپنی اپنی نیم یا نحیف انقلابی پالسیوں کے تجربات کی تجربہ گاہ بنتا آ رہاایک ایسی تجربہ گاہ جہاں بے ڈھنگے اور بے ترتیب فارمولوں نے ملکی معشیت کا بٹھہ بٹھاتے ہوئے بین الاقوامی اقتصادی میدان میں قوم اور ملک دونوں کو بیک فٹ پرلا کھڑا کیا ہے۔
انہیں نا معقول تجربات کی بنا پر پستی ہمارا مقدر بن چکی ہے ستم ظریفی یہ کہ ہمارے بعد معرض وجود آنے والے ممالک آج ہم سے معاشی و اقتصادی ترقی میں کہیں آگے نکل چکے ہیں اور اس سے بڑھ کر ہمارے لئے مایوس کن صورتحال کیا ہو گی افغانی،انڈین اور اتھوپین کرنسی پاکستانی روپے کو چاروں شانے چت کر چکی ہے پایئدار اور مستحکم معاشی پالیسیاں کسی بھی ملک کی مضبوط معشیت کا بنیادی کلیہ ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں پالیسیاں بناتے ہوئے اس اصول کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور ہمارے حکمران اس ضمن میں شہنشائی اور سلطانی آیئڈیاز کا سہارا لیتے ہیں یعنی بادشاہ سلامت کے ذہن میں جو چیز بیٹھ گئی سو بیٹھ گئی۔ اس کا نفع ہو یا نقصان اسے قوم پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔ راشن ڈپو، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام،سستی روٹی سکیم، لنگر خانے اور اب ہمیں فری آٹا دیکھنے میں مل رہے ہیں بظاہر یہ تما م انقلابی پراجیکٹس روز اول سے مہنگائی سے پسی ہوئی عوام کے لئے نعمت لگتے ہیں لیکن ان سب اپاہج قسم کے معاشی اقدامات کو کسی صورت بھی معاشی انقلاب کا نام نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ تمام وہ سطحی پالیسیاں ہیں جو وقتی طور پراستفادہ حاصل کرنے والے بے کس اور لاچار پاکستانیوں کو بہت بھلی اور فائدہ مند لگتی ہیں مگر درحقیقت من حیث القومی مقدر میں بھکاری پن فروغ دینے میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
سپریم کورٹ نے پاکستان کو کہاں لا کھڑا کیا؟
ڈان لیکس’ دو اعلامیے اور ملاقات جنرل باجوہ سے
جمہوریت کے خلاف سازش کا ایک اور سنسنی خیز باب
ان سب بے ڈھنگی اور شعبدہ باز پالیسوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے پاکستانی عوام کا 75 سالوں میں مقدر تو نہیں بدلا۔ البتہ قطاروں کی اقسام ضرور بدلی ہیں ماضی میں کبھی عوام کو راشن ڈپو کی لایئنوں میں کھڑا ہونا پڑا تو کبھی سستی روٹی کی قطار میں دھکے کھانے پڑے یا پھر لنگرخانوں کی قطاروں کا منہ دیکھنا پڑا اور آجکل یہی عوام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور فری آٹے کی لائینوں میں لگی کھڑی ہے ان بدلتی ہوئی لایئنوں کا نقطہ انجام کب ہو گا کوئی نہیں جانتا لیکن وطن عزیز میں عوامی ذلت اور بے توقیری اپنے نقطہ عروج پر دیکھنے میں ضرور مل رہی ہے فری آٹا کے حصول کے لئے آٹا سینٹروں پر جم غفیر اور بے ہنگم نظام تقسیم کے دوران اب تک 15 کے قریب قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور جبکہ دھکم پیل روکنے کے لئے انتظامیہ اور پولیس کا خواتین کا امتیاز کیئے بغیر مار پیٹ اور لاٹھی چارج ،معمول بن چکا ہے۔المیہ یہ کہ
ہمیشہ ہی اشرافیہ اور حکمرانوں کی جانب سے نہ صرف بھیک منگی قوم کے نظریہ کو پروان چڑھایا گیا بلکہ تواتر سے ایسی ہنگامی اور شعبدہ باز پالیسیاں اپنا کر اس سوچ کو تقویت بخشی گئی آج میں حضرت اقباؒ ل کا فلسفہ خودی بہت مس کر رہا ہوں جسے ہر پاکستانی حکمران نے اپنے آپ کو نجات دہندہ اور انقلابی ثابت کرنے اور اپنی حکومتوں کو دوام بخشنے کے لئے خوب استعمال کیا کہ ہمیں ایک خوددار قوم ہونا چاہیئے لیکن افسوس قوم کو خودی کا حقیقی شعور یا مواقع فراہم کرنے کی بجائے ہمیشہ بھکاری طرز پالسیاں مرتب کر کے اقوام عالم میں داد کی بجائے جگ ہنسائی کروائی دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں نہ حضرت اقبال کا فلسفہ خودی کوئی نہیں جانتا۔
البتہ ان ملکوں کے تمام لیڈران خودی کے سنہری اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی اہنی اقوام کو با شعور اور خود دار بنا دیا ہے لیکن ہمارے ہاں نہ عوام اس طرف آنا چاہتے ہیں اور مہ ہی لیڈران ترقی یافتہ اقوام ملک و ملت کی ترقی کے لئے افرادی قوت(مین پاور) کو نہ صرف اچھے طریقہ سے سمجھ چکی ہے بلکہ بھر پور طریقہ سے بروئے کار بھی لا رہی ہیں خودداری کی پہچان کرنی ہے تو زیادہ دور نہ جایئں بنگلہ دیش کو ہی دیکھ لیں جہاں 51 لاکھ خواتین نہ صرف قومی افرادی قوت کا حصہ بن کر انڈسٹریوں میں ملازمت کر رہیں بلکہ خود آگے بڑھنے کا عزم لیئے ہوئے ہیں جبکہ اس کے مقابلہ میں پاکستان میں اس تعداد سے ڈیڑھ گنا زائد خواتین لایئنوں میں لگی خیرات لیتی نظر آرہی ہیں۔
پاکستان کی کل آبادی کا 52% کے قریب خواتین پر مشتمل ہے جن میں سے صرف20% ورکنگ ومین ہیں جبکہ باقی اپنے خاندانوں کو مالی طور پر مضبوط کرنے کے لئے قومی دھارے میں افرادی قوت کا حصہ بنے کے لئے تو تیار نہیں البتہ اس طرح کی سکیموں کے لئے انہیں چاہے روز لایئنوں میں کھڑا کر دیں وہ حاضر ہو ں گی۔ یہاں بھی دیکھا جائے تو قصور ریاست کا ہی ہے جوایک کامیاب فلاحی ریاست بننانے کے چکر میں عارضی اور سطحی پالیساں بناتی ہے اور جب حکومتیں معاشی طور پر آگے بڑھنے کے لئے شہریوں کے لئے مواقع ہی پیدا نہیں کرے گی تو پھر ہم بھکاری ہی بنیں گے۔
اس ضمن میں اہم چیز یہ کے عوام کو ریلیف دینے اور غربت کی سطح سے اوپر اٹھانے کے لئے ایسی تمام پالیسیوں کے اتنے زیادہFlaws اور Draw Back ہیں کہ اگر نوٹس میں آجایئں تو پاکستانی ہی سر پکڑ کر بیٹھ جایئں کیا بونگیا ں ماری جاتی رہی ہیں اور اب تک جاری ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ٹھوس میکانزم نہ ہونا ہے کیونکہ سستہ آٹا ہو یا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام آپ آج پڑتال کرو اکر دیکھ لیں نہ رقوم صیح مستحقین یا حق داروں کو مل رہی ہے اور نہ ہی آٹا بلکہ ہم وطن صاحب ثروت اس بہتی گنگا سے زیادہ ہاتھ دھو رہے ہیں رہی سستے آٹے کی بات میاں صاحب نے دو کروڑ کے قریب پاکستانیوں کو فری آٹا بانٹ کر بہت بڑا کام کیا لیکن اس بڑا کام یہ ہوتا اگر وہ سبسڈی دے کروڑ کی بجاے باقی کے تئیس کڑوڑ شہریوں کا بھی خیال رکھتے بہتر یہ تھا کہ پوری قوم کو مفت بری کی طرف لے جانے کی بجائے سبسڈی دے دیتے اور قوم میں اقبال کا فلسفہ خودی بھی زندہ رہتا انکی بھی جے جے کار ہو جاتی۔