اختلاف رائے، مخالفت اور ضد تینوں کے معنی کیفیت اور اثرات بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ سیاست اور مذہب کے معاملات میں انسان نے اپنی زندگی کے معمولات کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ اکثر کوئی نہ کوئی معلومات اکٹھی کر کے ہم کسی بحث کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں جس کے بعد اپنے ذہنوں کو ہم خیال اور مخالف کی ترتیب کے مطابق مصروف کرلیتے ہیں۔
ہم ساری صورتحال کیلئے تیار ہوتے ہیں ذہنی ہم آہنگی والوں سے ساری گفتگو کسی تھکاوٹ کے بغیر مکمل ہوجاتی ہے مخالف سوچ کے حامل دوست احباب اور ساتھیوں سے لازمی طور پر بحث کچھ تلخی اور شدت اختیار کرجاتی ہے یہ ہم سب کا معمول بن گیا ہے اس میں اپنا نقظہ نظر دونوں جانب سے درست اور دلائل ٹھوس محسوس ہوتے ہیں مخالف کم علم اور کبھی کبھی ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ نوبت بڑی غصے اور غیر منطقی انجام تک پہنچ جاتی ہے۔ سارے نظریات اور ان کی بنیاد پر کھڑی کی گئی بات چیت کبھی کبھار بڑی سطحی راہ اپنالیتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
سپریم کورٹ نے پاکستان کو کہاں لا کھڑا کیا؟
ڈان لیکس’ دو اعلامیے اور ملاقات جنرل باجوہ سے
دوسرے کا موقف سننے اور اسے برداشت کرنے کا مزاج بھی کافی حد تک دم توڑتا جارہا ہے۔ عدم رواداری جیسے اپنا مقام بناتی جارہی ہے اپنی بات منوانے اور اسی کو ٹھیک سمجھنے کی عادت ایک دوسرے کو جگہ سپیس دینا فراموش کرتی جارہی ہے۔
جمہوری سوچ یا مزاج بھی روزمرہ کا چلن نہیں رہے اب جیسے مخالف پر طنز اور تنقید ہی مطمع نظر اور حاصل بحث رہ گئے ہیں۔ اگرچہ یہ سب کرکے حاصل کچھ نہیں ہوتا ہم کہیں نہ کہیں کوئی اچھی نشست کا موقع یا پھر کوئی اپنا پیارا تعلق خراب کررہے ہوتے ہیں۔ یہ سب سے بڑا نقصان ہے جس کا نتیجہ سماج میں بڑھتی ایک غیر جمہوری روایت کا جنم لینا ہے۔
سیاسی جماعتیں بھی اپنے اندر کوئی تربیت کا اہتمام نہیں کرتیں وہاں بھی مخالف پر تنقید کے نشتر برسا کر اپنے پوائنٹس بڑھانے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھانت بھانت کی گفتگو اور وڈیوز رہی سہی کسر پوری کرتی ہیں جنہیں تفریح طبع کا ذریعہ بناکر ذہنی تسکین کا سامان پیدا کیا جاتا ہے۔ میڈیا بھی کوئی ذمہ دار کردار ادا نہیں کر پارہا ہے۔
اپنی ریٹنگ اور چار پیسے کمانے کے چکر میں غیر مصدقہ خبریں ایک ابہام اور اضطراب کی کیفیت میں اضافے کا باعث ہی بنتی ہیں۔ سماج کے دیگر ذمہ دار حلقے بھی سیاسی حلیف بلکہ فریق بن چکے ہیں اس لئے کسی ایک سے وابستگی انہیں بھی ٹانگیں کھینچنے سے باز نہیں رکھ پاتی۔ ایسے میں سماجی تنظیموں کا کردار بہت اہمیت اختیار کرجاتا ہے سیاسی جماعتوں سے اچھے کی امید کی جاسکتی ہے۔ لیکن اپنے موقف پر ڈٹے رہنے سے شدت پسندی اور ہٹ دھرمی میں نرمی کی توقع کوئی بری خواہش نہیں۔ عدم برداشت ختم ہونے سے ضد اختلاف اور نفرت کی کیفیت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔