سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کا نوٹ ادارے پر چھائی گہری تاریکی میں روشنی کے گولے کی طرح ہے۔ مرحوم و مغفور خالد ایم اسحاق ایڈووکیٹ فرمایا کرتے تھے کہ تاریخ کچھ بھی ہو لیکن ہمارے جیسے سماج میں عدلیہ کا ایک خاص کردار ہے۔ یہ کردار برطانوی سماج کے اس تصور جیسا ہے جس کے مطابق بادشاہ کبھی غلطی نہیں کرتا۔ پاکستان اور مسلم سماج میں عدالت کے اس تاثر کی وجہ یہ ہے کہ یہ کسی بھی ظلم اور نا انصافی کے لیے فریاد کا آخری ٹھکانا ہے۔
ہماری عدلیہ نے گزشتہ پون صدی میں جو جو کچھ کیا ہے، اس کے زخموں سے ہمارا جسم رس رہا ہے لیکن اس کے باوجود غیر جانب داری کا پردہ کسی نہ کسی درجے موجود رہا ہے۔ حالیہ چند برس ماضی کے مقابلے میں اس اعتبار سے مختلف ہیں کہ یہ پردہ بھی نہ صرف اٹھ گیا بلکہ اس کے اٹھانے میں کوئی جھجھک بھی محسوس نہیں کی گئی۔ یہ سلسلہ 2017 میں پانامہ کیس سے شروع ہوا اور آرٹیکل 63 اے کی توضیح کی آڑ میں آئین میں تحریف سے ہوتا ہوا پنجاب اسمبلی میں انتخابات کے ضمن میں سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس تک پہنچا۔ان مقدمات میں جو کچھ ہوا، ایسا نہیں کہ عوام اس سے لاتعلق تھے اور تشویش محسوس نہیں کرتے تھے، وہ بالکل پریشان تھے اور محسوس کرتے تھے کہ یہ سلسلہ جو شروع ہوا ہے، قومی سطح پر کسی نئی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا لیکن سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آخر اس تانا شاہی کا انجام کیا ہو گا؟
ہومیو پیتھی طریقہ علاج کو علاج بالمثل اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس طریقہ علاج میں خود مرض کے جراثیم ہی مرض کا علاج ثابت ہوتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی ازخود نوٹس کیس میں چیف صاحب نے جیسے جیسے طریقے اختیار کیے اور اس سلسلے میں خود اپنے برادر ججوں کے ساتھ جو طرز عمل اختیار کیا، اونٹ کی پشت پر تنکا ثابت ہوا اور وہ ردعمل سامنے آگیا ہے جس کی ضرورت تھی۔اس مقدمے کے مختلف مراحل پر مختلف ججوں نے جو فیصلے اور اختلافی نوٹ جاری کیے ، انھوں نے چیف صاحب کے فیصلے کی کمزوریوں اور تضادات کو بے نقاب کر دیا۔ مناسب یہی ہوتا کہ ان اختلافی فیصلوں کے بعد جانب داری کی بلٹ ٹرین کو بریک لگ جاتی لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا اور چیف صاحب نے ایک اور حربہ اختیار کر کے صورت حال سے بچنے کی کوشش کی۔ کاش وہ بھانپ جاتے کہ اب گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ چیف صاحب کے آخری وار کے جواب میں جسٹس اطہر من اللہ نے جو فیصلہ جاری کیا ہے، اس سارا کچا چھٹا کھول کر رکھ دیا ہے اور بھاگنے کے تمام راستے مسدود کر دیے ہیں۔ اندازہ اور خواہش یہی ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ کا یہی نوٹ عدلیہ کے جسد میں پڑنے والی بدنما دراڑوں کا خاتمہ کر کے ظلم کی آندھی کے سدباب کا ذریعہ بنے گا، ان شااللہ۔
یہ بھی پڑھئے:
ڈان لیکس’ دو اعلامیے اور ملاقات جنرل باجوہ سے
جمہوریت کے خلاف سازش کا ایک اور سنسنی خیز باب
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ صوبائی انتخابات کے بارے میں سپریم کورٹ کے جلدی میں کیے گئے فیصلے کے بعد آج پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ آج کا سب سے بڑا سوال یہی ہے۔ اس کے نتیجے میں چند مزید سوالات جنم لیتے ہیں۔ پہلے یہ سوالات:
١۔کیا وہ ادارہ جاتی انتظام آج بھی زندہ، طاقت ور اور متحرک ہے جو 2014 بروئے کار آیا اور نام نہاد انتخابی عمل کے ذریعے عمران خان کی قیادت میں اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہا؟
٢۔ 2022 کی حزب اختلاف جو آئین شکنی جیسے ہتھ کنڈے کا سامنا کرنے کے بعد اپنی عددی قوت کے زور پر اقتدار میں آئی تھی، اب بے دم ہو چکی ہے اور اب وہ آخری سانسیں لے رہی ہے؟
٣۔ وہ ریاستی قوتیں جنھوں نے سیاسی امور سے لاتعلق ہونے کا اعلان کیا تھا، کیا اپنے عہد سے پھر چکی ہیں؟
یہ تین سوالات بنیادی ہیں اگرچہ مختلف انداز فکر رکھنے والے ذہن مزید سوالات بھی تشکیل دے سکتے ہیں اور کچھ ضمنی سوالات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن اگر ان تین سوالات پر ہی توجہ مرکوز کر لی جائے تو اندازہ ہے کہ ایک ایسے نتیجے پر پہنچنا ممکن ہے جس کی مدد سے موجودہ بحران کی نوعیت کو سمجھنا بھی ممکن ہے اور اس سے نجات کا راستہ بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔اس بحران سے نجات کا راستہ کیا ہے؟ اس حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قبل مناسب ہو گا کہ ان اسباب کو سمجھ لیا جائے جن کی وجہ سے ان لوگوں نے سیاست سے لا تعلق ہونے کا فیصلہ کیا جو اس سے کبھی لا تعلق نہیں ہوئے تھے۔ اس کے لیے ہمیں عمران خان کا شکر گزار ہونا چاہیے جن کے غیر سیاسی طرزِ عمل، عاقبت نا اندیشی اور نااہلی کی وجہ سے ملک نا قابل تصور مشکلات کا شکار ہو گیا، مستقبل قریب میں جس سے نکلنے کا کوئی آسان راستہ کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وہ خوفناک حقائق تھے جن کے باعث کبھی عبرت نہ پکڑنے والوں نے عبرت پکڑی اور انھوں نے جس کا کام اسی کو ساجھے کے اصول کو مجبوری یا خوشی جیسے بھی اختیار کر لیا۔
ملک میں اس وقت جس کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور سیاسی و غیر سیاسی اداروں کے درمیان تصادم دکھائی دیتا ہے، اس کی وجہ سے گاہے خیال پیدا ہوتا ہے کہ یا تو لا تعلقی کا فیصلہ ختم ہو چکا ہے یا کوئی ایسی قوت اب بھی موجود ہے جو عدلیہ ہو یا کوئی دوسرا ادارہ، اسے طاقت فراہم کر کے عدم استحکام کا ذریعہ بن رہا ہے۔یہ عدم استحکام کیا نتائج پیدا کر رہا ہے یا پیدا کر سکتا ہے؟ میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے بعد اپنے خطاب میں اسے ایک پیارے یعنی عمران خان کو واپس لانے کی خواہش یا کوشش قرار دیا ہے۔ یہ کوشش اس صورت حال کا فوری یا یہ کہئے کہ سطحی نتیجہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس کے حتمی اور ہلاکت خیز نتیجے کی طرف بھی میاں صاحب نے ہی توجہ مبذول کرا دی ہے۔میاں صاحب نے فیصلے کے مندرجات کا ذکر کرتے ہوئے کہ عدالت اگر الیکشن کمیشن ، انتظامیہ اور مقننہ سمیت تمام اداروں کے اختیارات تک اپنے اختیار کو توسیع دے ڈالے گی تو اس کے نتیجے میں حکومت ہمیشہ کے لیے عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی اور کوئی بھی حکومت نہیں کر سکے گا۔ ایسی صورت حال میں عمران خان جیسی پسندیدہ شخصیت کے لیے حکومت کرنا ممکن ہو گا اور نہ کسی دوسرے کے لیے خواہ وہ نا پسندیدہ ہو یا ہمارے سیاسی منظر نامے پر کوئی اور کلاس ظہور پذیر ہو جائے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کو اس قسم کی صورت حال کی طرف جان بوجھ کر یعنی کسی منصوبے کے تحت لے جا رہا ہے یا یہ کسی طبقے کی ایسی سرگرمی ہے جو کسی خوف کے باعث سب کچھ دا پر لگانے پر تلا ہوا ہے؟یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی ،خاص طبقہ اپنے مفادات کا اتنا اسیر ہو جائے کہ وہ ان کے سامنے ملک کو ہی دا ؤپر لگا دے، اس لیے فطری طور پر یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کی بنیاد ایک خوف سے پھوٹتی ہے۔یہ خوف کیا ہے؟ خوف کی اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ حالات ذرا سنجیدہ تجزیہ ایک بار پھر کیا جائے۔
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی الوداعی تقریر میں کچھ اعترافات کیے تھے۔ یہ اعترافات ایک بڑی کوشش کی بنیاد تھے یا بنیاد بن سکتے تھے۔ انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ عمران خان کو لانے کے لیے انھوں نے اپنے اور اپنے ادارے کے اختیارات سے تجاوز کیا۔ یہ۔ خطاب ایک طرح سے اپنے جرائم کا اعتراف تھا اور ملک کو شعوری طور ملک کو سچائی اور مفاہمت کے دور میں داخل کرنے کی کوشش تھی۔ پاکستان کی سیاسی قوتوں نے اس کا خیر مقدم کیا اور سیز فائر کر دیا۔ جنرل باجوہ کی اس سیز فائر کے بارے میں ہمارے تجزیہ کار اور اسٹار اینکر جب سوال اٹھاتے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ پیش رفت ان کے سر سے گزر گئی یا وہ ملک کو ایک بہتر راستے کی طرف گامزن ہونے سے روکنے کے درپے ہیں۔ خیر یہ بات تو بر سبیل تذکرہ درمیان میں آگئی لیکن ایک طبقہ ایسا تھا جو اس نئے اور مبارک راستے کی راہ میں مزاحم تھا۔یہ کون سا طبقہ تھا، اس کی شناخت پر وقت ضائع کرنے کے بجائے بہتر ہو گا کہ اقبال سے مدد لی جائے جنھوں نے کہہ رکھا ہے
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
تو بات یہ ہے کہ نئی راہ پر چلنے میں ایک فطری رکاوٹ ہوتی ہے جس کا ارتکاب بعض لوگ بے سوچے سمجھے کر دیتے ہیں، بعض کو مفادات اس راہ پر چلنے سے روکتے ہیں اور بعض کو اپنے جرائم کا نتیجہ مزاحم کر دیتا ہے۔ پاکستان آج اسی چیلنج سے دوچار ہے لیکن خاطر جمع رکھیں جیسے عرض کیا ہے، اس زہر کا اینٹی ڈوٹ خود اس کے اندر موجود ہے اور اس کی اثر پذیری شروع ہو چکی ہے۔