صوبائی انتخابات کے بارے میں سپریم کورٹ کے جلدی میں کیے گئے فیصلے کے بعد آج پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
آج کا سب سے بڑا سوال یہی ہے۔ اس کے نتیجے میں چند مزید سوالات جنم لیتے ہیں۔ پہلے یہ سوالات:
1- کیا وہ ادارہ جاتی گٹھ جوڑ آج بھی زندہ، طاقت ور اور متحرک ہے جو 2014ء بروئے کار آیا اور ایک طویل سازشی اور نام نہاد انتخابی عمل کے ذریعے عمران خان کی قیادت میں اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہا؟
2- 2022ء کی حزب اختلاف جو آئین شکنی جیسے ہتھ کنڈے کا سامنا کرنے کے بعد اپنی عددی قوت کے زور پر اقتدار میں آئی تھی، اب بے دم ہو چکی ہے اور اب وہ آخری سانسیں لے رہی ہے؟
3- وہ ریاستی قوتیں جنھوں نے سیاسی امور سے لاتعلق ہونے کا اعلان کیا تھا، کیا اپنے عہد سے پھر چکی ہیں؟
یہ تین سوالات بنیادی ہیں اگرچہ مختلف انداز فکر رکھنے والے ذہن مزید سوالات بھی تشکیل دے سکتے ہیں اور کچھ ضمنی سوالات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن اگر ان تین سوالات پر ہی توجہ مرکوز کر لی جائے تو اندازہ ہے کہ ایک ایسے نتیجے پر پہنچنا ممکن ہے جس کی مدد سے موجودہ بحران کی نوعیت کو سمجھا بھی جا سکتا ہے اور اس بحران سے نجات کا راستہ بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
جسٹس شوکت صدیقی کیس اور نظام انصاف کی کچھوا پائی
استحکام پاکستان کے لیے مریم نواز کا نسخہ
اس بحران سے نجات کا راستہ کیا ہے؟ اس حتمی نتیجے پر پہنچنے سے قبل مناسب ہو گا کہ ان اسباب کو سمجھ لیا جائے جن کی وجہ سے ان لوگوں نے سیاست سے لا تعلق ہونے کا فیصلہ کیا جو اس سے کبھی لا تعلق نہیں ہوئے تھے۔
اس کے لیے ہمیں عمران خان کا شکر گزار ہونا چاہیے جن کے غیر سیاسی طرزِ عمل، عاقبت نا اندیشی اور نااہلی کی وجہ سے ملک نا قابل تصور مشکلات کا شکار ہو گیا، مستقبل قریب میں جن سے نکلنے کا کوئی آسان راستہ کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وہ خوفناک حقائق تھے جن کے باعث کبھی عبرت نہ پکڑنے والوں نے عبرت پکڑی اور انھوں نے جس کا کام اسی کو ساجھے کے اصول کو مجبوری یا خوشی جیسے بھی اختیار کر لیا۔
ملک میں اس وقت جس قسم کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور سیاسی و غیر سیاسی اداروں کے درمیان تصادم دکھائی دیتا ہے، اس کی وجہ سے گاہے خیال پیدا ہوتا ہے کہ یا تو لا تعلقی کا فیصلہ ختم ہو چکا ہے یا کوئی ایسی قوت اب بھی موجود ہے جو عدلیہ ہو یا کوئی دوسرا ادارہ، اسے طاقت فراہم کر کے عدم استحکام کا ذریعہ بن رہا ہے۔
یہ عدم استحکام کیا نتائج پیدا کر رہا ہے یا پیدا کر سکتا ہے؟ میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے بعد اپنے خطاب میں اسے ایک پیارے یعنی عمران خان کو واپس لانے کی خواہش یا کوشش قرار دیا ہے۔ یہ کوشش اس صورت حال کا فوری یا یہ کہئے کہ سطحی نتیجہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا ایک حتمی اور ہلاکت خیز نتیجہ بھی ہے اس نتیجے کی طرف بھی میاں صاحب نے ہی توجہ مبذول کرا دی ہے۔
میاں صاحب نے فیصلے کے مندرجات کا ذکر کرتے ہوئے کہ عدالت اگر الیکشن کمیشن ، انتظامیہ اور مقننہ سمیت تمام اداروں کے اختیارات تک اپنے اختیار کو توسیع دے ڈالے گی تو اس کے نتیجے میں حکومت ہمیشہ کے لیے عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی اور آئندہ کوئی بھی حکومت نہیں کر سکے گا۔ ایسی صورت حال میں عمران خان جیسی پسندیدہ شخصیت کے لیے حکومت کرنا ممکن ہو گا اور نہ کسی دوسرے کے لیے خواہ وہ نا پسندیدہ ہو یا ہمارے سیاسی منظر نامے پر کوئی اور کلاس ظہور پذیر ہو جائے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کو اس قسم کی صورت حال کی طرف جان بوجھ کر یعنی کسی منصوبے کے تحت دھکیلا جا رہا ہے یا یہ کسی طبقے کی ایسی سرگرمی ہے جو کسی خوف کے باعث سب کچھ داؤ پر لگانے پر تلا ہوا ہے؟
یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی شخص یا طبقہ اپنے مفادات کا اتنا اسیر ہو جائے کہ وہ ان کے سامنے ملک تک کو داؤ پر لگا دے، اس لیے فطری طور پر یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کی بنیاد ایک خوف سے پھوٹتی ہے۔
یہ خوف کیا ہے؟ خوف کی اس کیفیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ حالات کا ذرا سنجیدہ تجزیہ ایک بار پھر کیا جائے۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی الوداعی تقریر میں کچھ اعترافات کیے تھے۔ یہ اعترافات ایک بڑی کوشش کی بنیاد تھے یا بنیاد بن سکتے تھے۔ انھوں نے اعتراف کیا تھا کہ عمران خان کو لانے کے انھوں نے اپنے اور اپنے ادارے کے اختیارات سے تجاوز کیا۔ ان کا یہ خطاب ایک طرح سے اپنے جرائم کا اعتراف تھا اور ملک کو شعوری طور سچائی اور مفاہمت کے دور میں داخل کرنے کی کوشش تھی۔
پاکستان کی سیاسی قوتوں نے اس کوشش کا خیر مقدم کیا اور سیز فائر کر دیا۔ جنرل باجوہ کے بارے میں اس سیز فائر کے سلسلے میں ہمارے تجزیہ کار اور اسٹار اینکر جب سوال اٹھاتے تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا یہ پیش رفت ان کے سر سے گزر گئی یا وہ ملک کو ایک بہتر راستے کی طرف گامزن ہونے سے روکنے کے درپے ہیں؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے لیکن ایک طبقہ ایسا تھا جو اس نئے اور مبارک راستے کی راہ میں مزاحم تھا۔
یہ کون سا طبقہ تھا، اس کی شناخت پر وقت ضائع کرنے کے بجائے بہتر ہو گا کہ اقبال سے مدد لی جائے جنھوں نے کہہ رکھا ہے کہ
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
تو بات یہ ہے کہ نئی راہ پر چلنے میں ایک فطری رکاوٹ ہوتی ہے جس کا ارتکاب بعض لوگ بے سوچے سمجھے کر دیتے ہیں، بعض کو مفادات اس راہ پر چلنے سے روکتے ہیں اور بعض کو اپنے جرائم کا ممکنہ نتیجہ خوف زدہ کر دیتا ہے۔ پاکستان آج اسی یعنی تیسرے چیلنج سے دوچار ہے لیکن خاطر جمع رکھیں اس زہر کا اینٹی ڈوٹ خود اسی کے اندر موجود ہے اور اس کی اثر پذیری شروع بھی ہو چکی ہے۔