اُس وقت ایک جنگ میرے اندر بھی جاری تھی ۔ میں نے ایک بار پھر تاریخ کی کتابوں سے سر نکالا اور استنبول یونیورسٹی کے دعوت نامے کو غور سے دیکھا۔ پھر کام کی طرف سے اپنی چھ ہفتے پر مبنی طبی تعطیلات کے اجازت نامے کو ۔۔۔۔کمرے کی کھڑکی سے آنے والا موسم بہار کا جھونکا کچھ امیدوں کی خوشبو لیے بدستور میرے کمرے میں موجود تھا اور میرے فیصلے کا منتظر بھی۔ میں نے اس دعوت نامے کو سفر کی امید سے زاد راہ بنانے کا سوچا اور ڈاکٹر راشد حق کو ای میل لکھنے لگی کہ میں اس کانفرنس میں بخوشی شامل ہوکر علامہ محمد اقبال اور عاکف ارصوئے کی شاعری اور تحریک آزادی کے حوالے سے اپنا مقالہ پیش کرونگی ۔
اگرچہ اس فیصلے سے قبل مجھے اپنے ڈاکٹر سے سفر کے متعلق رائے لینی پڑی اور اجازت نامہ بھی مل گیا لیکن میری دونوں بیٹیاں سارہ اور مایا بہت فکر مند تھیں۔ فکر مند تو خیر میرے شوہر سید انور ظہیر رہبر بھی تھے لیکن میری خواہش اور فیصلے کا انہوں نے ہمیشہ مان رکھا ہے۔ اسی تردد میں انہوں نے دبے الفاظ میں کہا کہ جانا تو مجھے بھی ہے اس کانفرنس میں استنبول۔۔۔ لیکن چھوٹی بیٹی مایا کا اسکول چل رہا ہے اسے اکیلے نہیں چھوڑ کر جایا جاسکتا پھر ہم دونوں میں سے ایک ہی جائے تو بہتر ہے۔ ویسے بھی پاکستان ہندوستان اور یورپ سے میرے کچھ ادب نواز دوست بھی اس کانفرنس میں شامل ہونے کا ارادہ کر رہے ہیں تو یہ کانفرنس ان دوستوں سے ملاقات کا بہانہ بھی بن جائے گی۔”
یہ بات وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کی خواہش کو بھی رد کرنا میرے مزاج میں شامل نہیں ہے۔ تب میں نے فوراً کہا کہ
“ پھر آپ چلے جائیے میں ان دنوں میں گھر کا باغیچہ ٹھیک کروا لیتی ہوں بجائے مقالہ تیار کرنے کے ۔۔۔اور ساتھ ہی مایا کے ساتھ مل کر ملا نصرالدین کے کام کو بھی انجام پر پہنچانے کی کوشش کروں گی۔”
وہ مجھے بیماری کی وجہ سے روکنا بھی چاہ رہے تھے لیکن سوائے اس بہانے کے ان کو شاید کچھ اور نہیں سجھائی دے رہا تھا ۔ پھر وہ میری خواہش کا سوچ کر کہنے لگے کہ“ اگر تم جاؤگی تو کوئی ٹینشن نہ لینا ، پریشان نہ ہونا ۔۔۔۔۔
پھر خود ہی کہتے
“ چھوڑو میں چلا جاتا ہوں ۔۔۔تمہارا مقالہ وہاں کوئی پڑھ دے گا ۔
لیکن ! ۔۔۔تم جاؤ میں رُک جاتا ہوں ۔۔۔ “نہیں آپ جائیں میں یہاں رکتی ہوں “۔۔۔ ان دو جملوں پر ہماری تکرار دو دن تک ہوتی رہی۔ دو دن بعد ہندوستان سے آنے والے مندوبین کا ترکی آنا منسوخ ہوا یا استنبول کانفرنس میں اردو زبان میں مقالے پیش کرنےکا حصہ مختصر ہوا۔ میرے شوہر نے حتمی طور پر اعلان کر دیا کہ وہ نہیں جائیں گے۔ اس دوران ڈینمارک سے صدف مرزا بہت بضد ہوئیں کہ وہ اور اسپین سے جناب راجہ شفیق کیانی یورپی لٹریری سرکل کے حوالے سے آرہے ہیں تو میں بھی اس میں شریک ہو جاؤں۔ اس سے دو ماہ قبل ہم تینوں بیلجئم کے یورپی پارلیمنٹ میں ایک سیمینار میں شرکت کی غرض سے ملے تھے۔ اپنے اپنے ملک میں اردو زبان و ادب کے فروغ کا جائزہ لینے کے لیے یہ سیمینار یورپی لٹریری سرکل کی جانب سے منعقد کیا تھا۔ میں نے صدف مرزا کو اپنی صحت سے متعلق خدشات سے جزوی طور پر آگاہ کیا اور ان سے دوبارہ درخواست کی کہ میں سرکل کے حوالے سے نہیں بلکہ انفرادی سطح پر استنبول کانفرنس میں شریک ہونے کا ارادہ رکھتی ہوں۔ اس لیے یہاں وہ اس بات کا خیال رکھیں ۔ میں نے کئی بار کی طرح اس بار بھی واضح طور پر کہا کہ وہ براہ کرم مجھے لٹریری سرکل کی چھتری کے نیچے بطور رکن یا عہدے دار کے بجائے اگر ایک غیر مربوط معاون کی حیثیت دیں تو مجھے جرمنی میں اپنی وزارت داخلہ میں سرکاری ملازمت کی طرف سے کسی معاہدہ شکنی کا فعل نہیں انجام دینا پڑے گا۔ میں اپنے روزگار سے جڑے معاہدے پر پابند رہنے کو اپنی ذمہ داریوں میں اولیت دیتی ہوں۔ جس کا انہوں نے وعدہ بھی کیا ۔ انہوں نے کہا کہ یورپی لٹریری سرکل کی یو این او یا یورپی یونین میں رجسٹریشن کے لیے وہ مجھ سے کچھ مشورے لینا چاہتی ہیں اور اس لیے ضروری ہے کہ ہم جلد ملیں اور پلاننگ کریں ۔ ان کے ہی مشورے پر ایک ہی ہوٹل یونیورسٹی کے قریب ہم نے ڈاکٹر راشد حق کی وساطت سے بک کروا لیا اور کانفرنس سے ایک دن قبل کی فلائٹ بھی بک کر لی۔