Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ہوٹل کی کھڑکی سے ہمیں مسجد نبوی کے منوردمکتے ہوئے میناردکھائی دے رہے تھے۔ ہم نہائے، شلواریں قمیصیں پہنیں اور پوچھتے پچھاتے مسجد نبوی کے ایک دروازے سے کچھ دورپہنچ گئے۔ مسجد نبوی ہوٹل سے تقریباً نصف کلومیٹر کے فاصلے پرتھی۔ اتنی وسیع و ریض مسجد میں ہمیں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ڈھونڈنے میں نجانے کتنی دیرلگ جاتی، چنانچہ اس دروازے سے نکلنے والے پہلے شلوار قمیص پہنے ہوئے آدمی سے روضہ رسول تک پہنچنے کے مختصرراستے سے متعلق سوال کیا، تو اس نے اشارے سے بتایا تھا کہ وہ جو سامنے چمکتا ہوا دروازہ دکھائی دے رہا ہے، اس میں داخل ہو کرسیدھے چلتے جاؤ تومقام مقصود پا لو گے۔ ان سے پوچھا آپ کہاں کے ہیں تو انہوں نے کے پی کے کے کسی شہر کا بتایا ساتھ ہی کہا کہ ویسے میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ لہجے میں تھوڑی سی پٹھنولی تھی چنانچہ پوچھ لیا آپ پشتو بولنے والے ہیں۔ ان کا اثبات میں جواب پا کر ظاہر ہے کہ جمشید صافی کی پشتونیت پھڑک اٹھی تھی اوروہ آپس میں ڈاکخانے ملانے لگ گئے تھے۔ اگردو پشتو بولنے والوں کا آمنا سامنا ہوجائے اور آپ تیسرے شخص ہوں توشرافت اسی میں ہوتی ہے کہ کنارے پہ ہوجائیں کیونکہ وہ پھر آپس میں شیروشکرہوکرآپ کوبھول جاتے ہیں۔
چونکہ روضہ رسول پہ سلام کہنے کی عجلت تھی اس لیے میں نے ان دونوں کی گفتگو میں دخل درمعقولات کرنے سے قطعی گریز نہیں کیا تھا۔ موصوف بھی کوئی شریف آدمی تھے، اردو بولنے لگے تھے۔ اپنا وزٹ کارڈ دیا تھا۔ ان کی کوئی ٹریول ایجنسی تھی اوروہ پاکستان سے حجاج اورمعتمربن کے اپنے گروہ لے کرآتے ہیں۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اورتیزتیزقدموں سے مسجد نبوی کا طول طویل احاطہ طے کیا جہاں سنگ مرمرکی سلوں کا فرش تھا اورکچھ ستون سے ایستادہ تھے جو اگلے روزمعلوم ہوا کہ دھوپ میں خودکارطورپرکھل جانے والے چھتر تھے۔
روشن دروازے سے جو گیٹ نمبر ایک تھا، داخل ہوئے تو دیکھا کہ لوگوں کی قطار لگی ہوئی ہے جو سرکتی جا رہی ہے۔ سفرحج کی روانگی سے پہلے انٹرنیٹ سے معلومات توحاصل کرہی لی تھیں کہ سنہرے رنگ کی جالیوں والے پہلے دروازے کے وسط میں گول سوراخ کا رخ روضہ مبارک کی جانب ہے۔ ہم بھی قطارمیں شامل ہوچکے تھے۔ جالیوں کے آگے ایک تنگ سے چبوترے پہ کھڑے ہوئے سپاہی “حجّی! حجّی!! چلو! آگے!! کہتے جارہے تھےاورہاتھ سے آگے نکلنے کے اشارے کررہے تھے۔ جالیوں کے اس پار اندھیرا تھا اورمرقد بھی شاید کہیں نیچے ہومگرجسم میں ایڈرینالین کا وفورتھا کہ میں ایسی ہستی کی آخری آرام گاہ کے اس قدر نزدیک ہوں جن کی بدولت دنیا کی تاریخ، جغرافیہ، معیشت، معاشرت، تمدن، تہذیب غرض زندگی کا کونسا شعبہ ہے جس میں انقلابی تبدیلیاں ظہورپذیر نہ ہوئی ہوں۔ میں نے پرسکون لہجے میں آہستگی سے السلام علیکم یا رسول اللہ، السلام علیکم یا سرورکونین، السلام علیکم یا شفیع المذنبین کہا اتنے میں میں آگے نکل چکا تھا جہاں السلام علیکم یا خلیفۃ الاوّل، السلام علیکم یا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ تین چار قدم طے کیے اوراسلام علیکم یا خلیفۃالمسلمین، السلام علیکم یا عمرابن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کہا۔ قریب تھا کہ اگلے گیٹ سے باہر نکل جاؤں لیکن پلٹا اور آگے کی دوصفوں میں بیٹھے، نفلیں پڑھتے اور قرآن خوانی کرتے لوگوں میں سے گذرتا ہوا پھرروضہ رسول کی جالیوں کے سامنے قطارسے ہٹ کرکھڑا ہو گیا۔ میری بہن جس نے مجھے پالا پوسا ہے، نے مجھے فون پر روضہ رسول کے سامنے جا کرایک دعا مانگنے کو کہا تھا۔ میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے توسامنے کھڑے ہوئے سپاہی نے بلند آوازمیں “یا حجّی” کی صدا بلند کرتے ہوئے مجھے منہ ادھر کرکے یعنی روضہ رسول کی جانب پشت کرکے کعبے کی جانب رخ موڑکردعا کرنے کے لیے کہا۔ احساس ہوا کہ واقعی ایسا کرنا تو بدعت ہے۔ اگرکسی قبرپہ فاتحہ بھی پڑھنی ہوتورخ طرف کعبہ ہونا چاہیے نہ کہ بروئے مرقد۔
لوگ بہت سے معاملات کو روح پرورکہتے ہیں۔ اس لفظ کے معانی کیا ہیں؟ روح کے لفظی معانی ہوا یا سانس ہیں لیکن میرے خیال میں لوگ روح سے مراد مزاج لیتے ہونگے تبھی وہ مختلف خوش کن مواقع کو روح پروریعنی مزاج بہتر کرنے والے واقعات گردانتے ہونگے۔ چونکہ میں روح نا آشنا ہوں، زندگی کےدوران روح زندگی کا حصہ ہے چنانچہ مجھے روح پروری کی فہم نہیں اورمیں گفتگو یا تحریرکو بلاوجہ لفظوں کے بے محابا استعمال سے رنگین اورجذباتی بنانے سے بھی گریزکرتا ہوں اس لیے روضہ رسول پہ حاضری میرے لیے روح پرورہونے کی بجائے تسکین آورتھی۔ جسے روح پرورکہا جاتا ہے وہ شاید جذبات کا وفور ہوتا ہو۔
میں تو السلام علیکم یا رسول اللہ کہنے کے بعد ایک الجھا دینے والے سوال میں پھنس کررہ گیا تھا۔ پاکستان میں بریلوی حضرات الصلٰوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہتے ہیں جب کہ ہم دیوبندی سلام نہیں پڑھتے بلکہ درود پڑھتے ہیں۔ “یا” کے بارے میں یہی سنا تھا کہ یہ لفظ زندہ شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ پاکستان میں اس “یا” کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضریا غائب ہونے کا بھی مسئلہ متنازعہ رہتا ہے۔ پھر مجھے کیا کہنا چاہیے۔ یہ سوچ کرخود کوتسلی دے لی تھی کہ ویسے بھی کہیں پہ مسلمانوں کے قبرستان سے گذرتے ہوئے “السلام علیکم یا اہل القبور” ہی کہا جاتا ہے۔ دوسرا سوال جو پریشان کررہا تھا کہ ہمارے شیعہ بھائی روضہ رسول پہ حاضری دیتے ہوئے کیا سوچتے ہونگے کیونکہ ان کے روضے کے ساتھ ان کے دوست اورسسرابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی کا مزار ہے اوردو قدم آگے حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کا۔ میرے بہت سے دوست شیعہ ہیں اور میں ان کی ان صحابہ سے معاندت سے اچھی طرح آگاہ ہوں۔ خیر مسئلہ صرف شیعہ اوربریلوی حضرات کے فقہی اختلافات کا نہیں ہے ابھی تومجھے شافعی، حنبلی اور مالکی فقہی اختلافات کے روبرو بھی ہونا تھا۔
میں ایک ایسے مقام پر تھا جہاں مجھے اپنی توجہ صرف اورصرف عبادت کی جانب مبذول رکھنی چاہیے تھی۔ خرافات سوچنے کا موقع نہیں تھا۔ سب سے پہلا کام تو ریاض الجنۃ میں دونفل پڑھنا تھا۔ روضہ رسول کے آغاز سے منبر تک کے تھوڑے سے حصے کو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کا ٹکڑا قراردیا تھا۔ وہاں نوافل ادا کرنے کے لیے ٹھٹھ بندھے ہوتے ہیں۔ مسجد کے اہلکار مختلف اطراف سے قناتیں تانتے رہتے ہیں اورایک جانب سے کھولتے رہتے ہیں۔ کس جانب سے کب راستہ کھلنا ہے پہلے سے معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے بہت چوبند رہنا پڑتا ہے۔ لوگ دونفل ادا کرلیں توپولیس والے “یاحجّی! یالّہ!!” یعنی حاجی نکلو کہہ کراٹھا دیتے ہیں۔ صفائی کرنے والے صفائی کرتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی سعادت حاصل کرسکیں لیکن لوگ عبادت کے حرص کا شکار ہوتے ہیں۔ عبادت کا حریص ہونا اچھا ہے لیکن عبادت کے سلسلے میں خودغرض ہونا شاید عبادت پہ پانی پھیرنے کا موجب بن جاتا ہو۔ لوگ دو مستحب نفلوں کی ادائیگی پراکتفا نہیں کرتے بلکہ چپک کربیٹھ جاتے ہیں۔ حالانکہ ہرخواہش مند کو موقع دیا جانا چاہیے کہ ریاض الجنۃ میں دو نفل ادا کر لے۔ بڑی مشکل سے میری باری آئی تو ایک شخص نے ایک منبر کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ جو سیاہ نشان بنے ہیں ان کے درمیان نفل پڑھنا افضل ہے۔ میں نے انتہائی خشوع و خصوع کے ساتھ وہاں دو نفل پڑھ لیے اورمطمئن ہو گیا کیونکہ سامنے دروازے میں ڈٹ کربیٹھے ہوئے عرب اہلکارنے بھی یہی کہا تھا “تمام ریاض الجنۃ”۔ بعد میں مجھے صافی نے بتایا کہ میاں جو وہ دوسرا منبر ہے اس کے اورروضہ مبارک کے درمیان کا حصہ ہی ریاض الجنۃ ہے۔ ہم نے رات بھرنوافل ادا کیے تھے اور نماز فجر پڑھ کر وہاں سے نکلے تھے۔ لوگوں کے جم غفیر میں میں اور صافی بچھڑگئے تھے۔ نہ تو تجلیات تھیں نہ ہی انوارالٰہی کی بوچھاڑ، برقی قمقموں کی چکا چوند میں آسمان سے اترتے ہوئے فرشتے بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے البتہ مسجد نبوی کے دروازے سے نکلتے ہی منہ اندھیرے عربوں کا شوریدہ بازارگرم تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دینے کے باعث پک اپس کے ڈالوں پہ چڑھے پکارتے لوگ یوں لگتا تھا غلام فروخت کررہے ہیں اورمسجد نبوی سے نکلنے والے نمازی تھے کہ چین کی بنی سستی اشیاء پہ مکھیوں کی مانند ٹوٹے پڑتے تھے۔ صرف کھجوریں عرب کی تھیں، جائے نمازاورکچھ چپل ترکی کے باقی سب کفّار چین کی سازش پرمبنی مال تھا۔
جاری ہے
ہوٹل سے نکلتے ہوئے ہم نے ہوٹل کے وزٹ کارڈ پوچھے تھے تاکہ آنے میں آسانی ہو لیکن اس نامراد ہوٹل میں وزٹ کارڈز تک نہیں تھے۔
نکلنے کو تو ہم جوش محبت رسول میں نکل گئے تھے اور ہوٹل کا نام “بدرالعنبریہ” بھی جیسے یاد کر لیا تھا لیکن واپسی پرجوش مفقود تھا، پھریہ کہ روضہ اقدس کی بجائے بازار بلکہ منڈی میں سرگرداں تھا۔ تھوڑا سا ادھرادھر ہوا تو راستہ بھول گیا۔ شکر ہے کہ سارے ہی عرب اردو سمجھ لیتے ہیں لیکن ہوٹل کا نام “بدر” سے آگے یاد نہیں رہا تھا۔ ادھر سے ادھر ہوتا رہا لیکن پریشان نہیں تھا۔ پھرعنبریہ بھی یاد آ گیا تھا لیکن کسی کو بھی اس غیرمعروف ہوٹل کے بارے میں علم نہیں تھا۔ یک لخت خیال آیا کہ اس سے دوسری طرف ہوٹل میریٹ تھا۔ ایک عرب اپنی بہت بڑی ایس یو وی بیک کر رہاتھا کہ میں نے اس کا شیشہ کھٹکھٹا کراسے متوجہ کیا اورانگریزی میں پوچھا کہ ہوٹل میریٹ کیسے پہنچا جا سکتا تھا ۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کہ “ماریوت” تین ہیں۔ میں نے کہا اخی مجھے نزدیک کے “ماریوت” تک پہنچنا ہے۔ اس نے گاڑی آگے کرکے روک دی تھی۔ وہ کوئی متمول شخص لگتا تھا مگرگاڑی سے اترکر باہر آیا تھا اور آگے جاکرمجھے اشاروں سے تفصیل کے ساتھ بتایا تھا۔
میں ہوٹل کی پشت کی جانب سے ہی سہی لیکن ساڑھے چھ پونے سات بجے کے قریب ہوٹل پہنچ گیا تھا۔ لابی میں گروپ کے کچھ اورلوگ بھی موجود تھے۔ سلام دعا ہوئی تھی۔ میں کمرے میں چلا گیا تھا۔ ہمارے بزرگ ساتھی جن کا نام داؤد تھا۔ رات بھرسوکر ہاتھ منہ دھوکرہشیارہوئے بیٹھے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے تواپنی بیوی کی ہٹ دھرمی کے گلے کیے تھے اورپھرپوچھا تھا کہ تمہارا دوست کہاں ہے۔ میں یہ سمجھا تھا کہ شاید صافی پہنچ کرناشتہ واشتہ کرنے نکل کھڑے ہوئے ہونگے لیکن انکل داؤد کے سوال سے معلوم ہوا کہ وہ پہنچے ہی نہیں تھے۔ میں بس یونہی لیٹ گیا تھا۔ نیند تو آ نہیں رہی تھی اورداؤد صاحب بھی مسلسل باتیں کیے جا رہے تھے یا سوال کیے جا رہے تھے۔ اکتائی ہوئی یہ شخصیت جب اپنی ہی کہی کسی بات پر ہنستی تھی تو خاصی معصوم دکھائی دیتی تھی۔ سوال کیا کہ اللہ تعالٰی ابلیس کوبرباد کیوں نہیں کر دیتے، اس کواتنی قوت بخشی ہی کیوں؟ میں نے کہا کہ انکل داؤد میں اللہ کا ترجمان تو ہوں نہیں، اس کی کوئی مصلحت ہی ہوگی جوخیروشرکے جھگڑے کو جاری و ساری رہنے دیا۔ اتنے میں بھنّائے ہوئے صافی صاحب بھی کمرے میں یہ کہتے ہوئے داخل ہوئے تھے کہ اس گھٹیا ہوٹل کے بارے میں کسی کو بھی کوئی علم نہیں ہے۔ میں بھٹکتا رہا، کوئی بھی اس کا محل وقوع نہیں بتا سکا۔ وہ رشید حضرت سے شدید رنجیدہ تھے۔ البتہ بھٹکتے بھٹکتے موبائل فون سم بھی خرید لائے تھے اور پیسے بھی بھنا لیے تھے۔ مجھے یہ دونوں چیزیں درکار تھیں۔
جمشید صافی بہت زیادہ بھنّائے ہوئے تھے اوردرست بھنّائے ہوئے تھے کیونکہ روس کے مفتیوں کی کونسل کے شعبہ حج و عمرہ کے سربراہ رشید حضرت کا انتظام بہت زیادہ ناقص تھا۔ ایک جانب تو وہ معلم ہونے سے یکسرانکاری تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ وہ بھی عام حجاج کی طرح ہمارے گروپ میں شامل ہیں البتہ مدد ضرورکریں گے۔ دوسری جانب وہ کمپنی “سلوٹس” کے نمائندہ تھے اورہمارے گروپ کو” گروپا رشیت حضرت” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ میں نے جمشید کا مزاج بہتر کرنے کی خاطرکہا تھا کہ چلو بھائی چل کے ناشتہ کرلیتے ہیں۔ اس بات پہ وہ اورچراغ پا ہو گئے تھے کہ کمپنی نے تو ناشتہ اور عشائیہ دینے کا وعدہ کیا تھا، ہم اپنے طورپہ ناشتہ کیوں کریں۔ میں نے کہا کہ حضرت میں نے یہ سنا ہے کہ کمپنی اپنے اس وعدے کومکہ جا کرپورا کرے گی۔ ان کی آنکھوں کا غیض کچھ اورزیادہ ہو گیا تھا لیکن وہ میرے ہمراہ ہو لیے تھے۔
ہوٹل کی کھڑکی سے ہمیں مسجد نبوی کے منوردمکتے ہوئے میناردکھائی دے رہے تھے۔ ہم نہائے، شلواریں قمیصیں پہنیں اور پوچھتے پچھاتے مسجد نبوی کے ایک دروازے سے کچھ دورپہنچ گئے۔ مسجد نبوی ہوٹل سے تقریباً نصف کلومیٹر کے فاصلے پرتھی۔ اتنی وسیع و ریض مسجد میں ہمیں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ڈھونڈنے میں نجانے کتنی دیرلگ جاتی، چنانچہ اس دروازے سے نکلنے والے پہلے شلوار قمیص پہنے ہوئے آدمی سے روضہ رسول تک پہنچنے کے مختصرراستے سے متعلق سوال کیا، تو اس نے اشارے سے بتایا تھا کہ وہ جو سامنے چمکتا ہوا دروازہ دکھائی دے رہا ہے، اس میں داخل ہو کرسیدھے چلتے جاؤ تومقام مقصود پا لو گے۔ ان سے پوچھا آپ کہاں کے ہیں تو انہوں نے کے پی کے کے کسی شہر کا بتایا ساتھ ہی کہا کہ ویسے میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ لہجے میں تھوڑی سی پٹھنولی تھی چنانچہ پوچھ لیا آپ پشتو بولنے والے ہیں۔ ان کا اثبات میں جواب پا کر ظاہر ہے کہ جمشید صافی کی پشتونیت پھڑک اٹھی تھی اوروہ آپس میں ڈاکخانے ملانے لگ گئے تھے۔ اگردو پشتو بولنے والوں کا آمنا سامنا ہوجائے اور آپ تیسرے شخص ہوں توشرافت اسی میں ہوتی ہے کہ کنارے پہ ہوجائیں کیونکہ وہ پھر آپس میں شیروشکرہوکرآپ کوبھول جاتے ہیں۔
چونکہ روضہ رسول پہ سلام کہنے کی عجلت تھی اس لیے میں نے ان دونوں کی گفتگو میں دخل درمعقولات کرنے سے قطعی گریز نہیں کیا تھا۔ موصوف بھی کوئی شریف آدمی تھے، اردو بولنے لگے تھے۔ اپنا وزٹ کارڈ دیا تھا۔ ان کی کوئی ٹریول ایجنسی تھی اوروہ پاکستان سے حجاج اورمعتمربن کے اپنے گروہ لے کرآتے ہیں۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اورتیزتیزقدموں سے مسجد نبوی کا طول طویل احاطہ طے کیا جہاں سنگ مرمرکی سلوں کا فرش تھا اورکچھ ستون سے ایستادہ تھے جو اگلے روزمعلوم ہوا کہ دھوپ میں خودکارطورپرکھل جانے والے چھتر تھے۔
روشن دروازے سے جو گیٹ نمبر ایک تھا، داخل ہوئے تو دیکھا کہ لوگوں کی قطار لگی ہوئی ہے جو سرکتی جا رہی ہے۔ سفرحج کی روانگی سے پہلے انٹرنیٹ سے معلومات توحاصل کرہی لی تھیں کہ سنہرے رنگ کی جالیوں والے پہلے دروازے کے وسط میں گول سوراخ کا رخ روضہ مبارک کی جانب ہے۔ ہم بھی قطارمیں شامل ہوچکے تھے۔ جالیوں کے آگے ایک تنگ سے چبوترے پہ کھڑے ہوئے سپاہی “حجّی! حجّی!! چلو! آگے!! کہتے جارہے تھےاورہاتھ سے آگے نکلنے کے اشارے کررہے تھے۔ جالیوں کے اس پار اندھیرا تھا اورمرقد بھی شاید کہیں نیچے ہومگرجسم میں ایڈرینالین کا وفورتھا کہ میں ایسی ہستی کی آخری آرام گاہ کے اس قدر نزدیک ہوں جن کی بدولت دنیا کی تاریخ، جغرافیہ، معیشت، معاشرت، تمدن، تہذیب غرض زندگی کا کونسا شعبہ ہے جس میں انقلابی تبدیلیاں ظہورپذیر نہ ہوئی ہوں۔ میں نے پرسکون لہجے میں آہستگی سے السلام علیکم یا رسول اللہ، السلام علیکم یا سرورکونین، السلام علیکم یا شفیع المذنبین کہا اتنے میں میں آگے نکل چکا تھا جہاں السلام علیکم یا خلیفۃ الاوّل، السلام علیکم یا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ تین چار قدم طے کیے اوراسلام علیکم یا خلیفۃالمسلمین، السلام علیکم یا عمرابن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کہا۔ قریب تھا کہ اگلے گیٹ سے باہر نکل جاؤں لیکن پلٹا اور آگے کی دوصفوں میں بیٹھے، نفلیں پڑھتے اور قرآن خوانی کرتے لوگوں میں سے گذرتا ہوا پھرروضہ رسول کی جالیوں کے سامنے قطارسے ہٹ کرکھڑا ہو گیا۔ میری بہن جس نے مجھے پالا پوسا ہے، نے مجھے فون پر روضہ رسول کے سامنے جا کرایک دعا مانگنے کو کہا تھا۔ میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے توسامنے کھڑے ہوئے سپاہی نے بلند آوازمیں “یا حجّی” کی صدا بلند کرتے ہوئے مجھے منہ ادھر کرکے یعنی روضہ رسول کی جانب پشت کرکے کعبے کی جانب رخ موڑکردعا کرنے کے لیے کہا۔ احساس ہوا کہ واقعی ایسا کرنا تو بدعت ہے۔ اگرکسی قبرپہ فاتحہ بھی پڑھنی ہوتورخ طرف کعبہ ہونا چاہیے نہ کہ بروئے مرقد۔
لوگ بہت سے معاملات کو روح پرورکہتے ہیں۔ اس لفظ کے معانی کیا ہیں؟ روح کے لفظی معانی ہوا یا سانس ہیں لیکن میرے خیال میں لوگ روح سے مراد مزاج لیتے ہونگے تبھی وہ مختلف خوش کن مواقع کو روح پروریعنی مزاج بہتر کرنے والے واقعات گردانتے ہونگے۔ چونکہ میں روح نا آشنا ہوں، زندگی کےدوران روح زندگی کا حصہ ہے چنانچہ مجھے روح پروری کی فہم نہیں اورمیں گفتگو یا تحریرکو بلاوجہ لفظوں کے بے محابا استعمال سے رنگین اورجذباتی بنانے سے بھی گریزکرتا ہوں اس لیے روضہ رسول پہ حاضری میرے لیے روح پرورہونے کی بجائے تسکین آورتھی۔ جسے روح پرورکہا جاتا ہے وہ شاید جذبات کا وفور ہوتا ہو۔
میں تو السلام علیکم یا رسول اللہ کہنے کے بعد ایک الجھا دینے والے سوال میں پھنس کررہ گیا تھا۔ پاکستان میں بریلوی حضرات الصلٰوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہتے ہیں جب کہ ہم دیوبندی سلام نہیں پڑھتے بلکہ درود پڑھتے ہیں۔ “یا” کے بارے میں یہی سنا تھا کہ یہ لفظ زندہ شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ پاکستان میں اس “یا” کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضریا غائب ہونے کا بھی مسئلہ متنازعہ رہتا ہے۔ پھر مجھے کیا کہنا چاہیے۔ یہ سوچ کرخود کوتسلی دے لی تھی کہ ویسے بھی کہیں پہ مسلمانوں کے قبرستان سے گذرتے ہوئے “السلام علیکم یا اہل القبور” ہی کہا جاتا ہے۔ دوسرا سوال جو پریشان کررہا تھا کہ ہمارے شیعہ بھائی روضہ رسول پہ حاضری دیتے ہوئے کیا سوچتے ہونگے کیونکہ ان کے روضے کے ساتھ ان کے دوست اورسسرابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی کا مزار ہے اوردو قدم آگے حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کا۔ میرے بہت سے دوست شیعہ ہیں اور میں ان کی ان صحابہ سے معاندت سے اچھی طرح آگاہ ہوں۔ خیر مسئلہ صرف شیعہ اوربریلوی حضرات کے فقہی اختلافات کا نہیں ہے ابھی تومجھے شافعی، حنبلی اور مالکی فقہی اختلافات کے روبرو بھی ہونا تھا۔
میں ایک ایسے مقام پر تھا جہاں مجھے اپنی توجہ صرف اورصرف عبادت کی جانب مبذول رکھنی چاہیے تھی۔ خرافات سوچنے کا موقع نہیں تھا۔ سب سے پہلا کام تو ریاض الجنۃ میں دونفل پڑھنا تھا۔ روضہ رسول کے آغاز سے منبر تک کے تھوڑے سے حصے کو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کا ٹکڑا قراردیا تھا۔ وہاں نوافل ادا کرنے کے لیے ٹھٹھ بندھے ہوتے ہیں۔ مسجد کے اہلکار مختلف اطراف سے قناتیں تانتے رہتے ہیں اورایک جانب سے کھولتے رہتے ہیں۔ کس جانب سے کب راستہ کھلنا ہے پہلے سے معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے بہت چوبند رہنا پڑتا ہے۔ لوگ دونفل ادا کرلیں توپولیس والے “یاحجّی! یالّہ!!” یعنی حاجی نکلو کہہ کراٹھا دیتے ہیں۔ صفائی کرنے والے صفائی کرتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی سعادت حاصل کرسکیں لیکن لوگ عبادت کے حرص کا شکار ہوتے ہیں۔ عبادت کا حریص ہونا اچھا ہے لیکن عبادت کے سلسلے میں خودغرض ہونا شاید عبادت پہ پانی پھیرنے کا موجب بن جاتا ہو۔ لوگ دو مستحب نفلوں کی ادائیگی پراکتفا نہیں کرتے بلکہ چپک کربیٹھ جاتے ہیں۔ حالانکہ ہرخواہش مند کو موقع دیا جانا چاہیے کہ ریاض الجنۃ میں دو نفل ادا کر لے۔ بڑی مشکل سے میری باری آئی تو ایک شخص نے ایک منبر کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ جو سیاہ نشان بنے ہیں ان کے درمیان نفل پڑھنا افضل ہے۔ میں نے انتہائی خشوع و خصوع کے ساتھ وہاں دو نفل پڑھ لیے اورمطمئن ہو گیا کیونکہ سامنے دروازے میں ڈٹ کربیٹھے ہوئے عرب اہلکارنے بھی یہی کہا تھا “تمام ریاض الجنۃ”۔ بعد میں مجھے صافی نے بتایا کہ میاں جو وہ دوسرا منبر ہے اس کے اورروضہ مبارک کے درمیان کا حصہ ہی ریاض الجنۃ ہے۔ ہم نے رات بھرنوافل ادا کیے تھے اور نماز فجر پڑھ کر وہاں سے نکلے تھے۔ لوگوں کے جم غفیر میں میں اور صافی بچھڑگئے تھے۔ نہ تو تجلیات تھیں نہ ہی انوارالٰہی کی بوچھاڑ، برقی قمقموں کی چکا چوند میں آسمان سے اترتے ہوئے فرشتے بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے البتہ مسجد نبوی کے دروازے سے نکلتے ہی منہ اندھیرے عربوں کا شوریدہ بازارگرم تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دینے کے باعث پک اپس کے ڈالوں پہ چڑھے پکارتے لوگ یوں لگتا تھا غلام فروخت کررہے ہیں اورمسجد نبوی سے نکلنے والے نمازی تھے کہ چین کی بنی سستی اشیاء پہ مکھیوں کی مانند ٹوٹے پڑتے تھے۔ صرف کھجوریں عرب کی تھیں، جائے نمازاورکچھ چپل ترکی کے باقی سب کفّار چین کی سازش پرمبنی مال تھا۔
جاری ہے
ہوٹل سے نکلتے ہوئے ہم نے ہوٹل کے وزٹ کارڈ پوچھے تھے تاکہ آنے میں آسانی ہو لیکن اس نامراد ہوٹل میں وزٹ کارڈز تک نہیں تھے۔
نکلنے کو تو ہم جوش محبت رسول میں نکل گئے تھے اور ہوٹل کا نام “بدرالعنبریہ” بھی جیسے یاد کر لیا تھا لیکن واپسی پرجوش مفقود تھا، پھریہ کہ روضہ اقدس کی بجائے بازار بلکہ منڈی میں سرگرداں تھا۔ تھوڑا سا ادھرادھر ہوا تو راستہ بھول گیا۔ شکر ہے کہ سارے ہی عرب اردو سمجھ لیتے ہیں لیکن ہوٹل کا نام “بدر” سے آگے یاد نہیں رہا تھا۔ ادھر سے ادھر ہوتا رہا لیکن پریشان نہیں تھا۔ پھرعنبریہ بھی یاد آ گیا تھا لیکن کسی کو بھی اس غیرمعروف ہوٹل کے بارے میں علم نہیں تھا۔ یک لخت خیال آیا کہ اس سے دوسری طرف ہوٹل میریٹ تھا۔ ایک عرب اپنی بہت بڑی ایس یو وی بیک کر رہاتھا کہ میں نے اس کا شیشہ کھٹکھٹا کراسے متوجہ کیا اورانگریزی میں پوچھا کہ ہوٹل میریٹ کیسے پہنچا جا سکتا تھا ۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کہ “ماریوت” تین ہیں۔ میں نے کہا اخی مجھے نزدیک کے “ماریوت” تک پہنچنا ہے۔ اس نے گاڑی آگے کرکے روک دی تھی۔ وہ کوئی متمول شخص لگتا تھا مگرگاڑی سے اترکر باہر آیا تھا اور آگے جاکرمجھے اشاروں سے تفصیل کے ساتھ بتایا تھا۔
میں ہوٹل کی پشت کی جانب سے ہی سہی لیکن ساڑھے چھ پونے سات بجے کے قریب ہوٹل پہنچ گیا تھا۔ لابی میں گروپ کے کچھ اورلوگ بھی موجود تھے۔ سلام دعا ہوئی تھی۔ میں کمرے میں چلا گیا تھا۔ ہمارے بزرگ ساتھی جن کا نام داؤد تھا۔ رات بھرسوکر ہاتھ منہ دھوکرہشیارہوئے بیٹھے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے تواپنی بیوی کی ہٹ دھرمی کے گلے کیے تھے اورپھرپوچھا تھا کہ تمہارا دوست کہاں ہے۔ میں یہ سمجھا تھا کہ شاید صافی پہنچ کرناشتہ واشتہ کرنے نکل کھڑے ہوئے ہونگے لیکن انکل داؤد کے سوال سے معلوم ہوا کہ وہ پہنچے ہی نہیں تھے۔ میں بس یونہی لیٹ گیا تھا۔ نیند تو آ نہیں رہی تھی اورداؤد صاحب بھی مسلسل باتیں کیے جا رہے تھے یا سوال کیے جا رہے تھے۔ اکتائی ہوئی یہ شخصیت جب اپنی ہی کہی کسی بات پر ہنستی تھی تو خاصی معصوم دکھائی دیتی تھی۔ سوال کیا کہ اللہ تعالٰی ابلیس کوبرباد کیوں نہیں کر دیتے، اس کواتنی قوت بخشی ہی کیوں؟ میں نے کہا کہ انکل داؤد میں اللہ کا ترجمان تو ہوں نہیں، اس کی کوئی مصلحت ہی ہوگی جوخیروشرکے جھگڑے کو جاری و ساری رہنے دیا۔ اتنے میں بھنّائے ہوئے صافی صاحب بھی کمرے میں یہ کہتے ہوئے داخل ہوئے تھے کہ اس گھٹیا ہوٹل کے بارے میں کسی کو بھی کوئی علم نہیں ہے۔ میں بھٹکتا رہا، کوئی بھی اس کا محل وقوع نہیں بتا سکا۔ وہ رشید حضرت سے شدید رنجیدہ تھے۔ البتہ بھٹکتے بھٹکتے موبائل فون سم بھی خرید لائے تھے اور پیسے بھی بھنا لیے تھے۔ مجھے یہ دونوں چیزیں درکار تھیں۔
جمشید صافی بہت زیادہ بھنّائے ہوئے تھے اوردرست بھنّائے ہوئے تھے کیونکہ روس کے مفتیوں کی کونسل کے شعبہ حج و عمرہ کے سربراہ رشید حضرت کا انتظام بہت زیادہ ناقص تھا۔ ایک جانب تو وہ معلم ہونے سے یکسرانکاری تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ وہ بھی عام حجاج کی طرح ہمارے گروپ میں شامل ہیں البتہ مدد ضرورکریں گے۔ دوسری جانب وہ کمپنی “سلوٹس” کے نمائندہ تھے اورہمارے گروپ کو” گروپا رشیت حضرت” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ میں نے جمشید کا مزاج بہتر کرنے کی خاطرکہا تھا کہ چلو بھائی چل کے ناشتہ کرلیتے ہیں۔ اس بات پہ وہ اورچراغ پا ہو گئے تھے کہ کمپنی نے تو ناشتہ اور عشائیہ دینے کا وعدہ کیا تھا، ہم اپنے طورپہ ناشتہ کیوں کریں۔ میں نے کہا کہ حضرت میں نے یہ سنا ہے کہ کمپنی اپنے اس وعدے کومکہ جا کرپورا کرے گی۔ ان کی آنکھوں کا غیض کچھ اورزیادہ ہو گیا تھا لیکن وہ میرے ہمراہ ہو لیے تھے۔
ہوٹل کی کھڑکی سے ہمیں مسجد نبوی کے منوردمکتے ہوئے میناردکھائی دے رہے تھے۔ ہم نہائے، شلواریں قمیصیں پہنیں اور پوچھتے پچھاتے مسجد نبوی کے ایک دروازے سے کچھ دورپہنچ گئے۔ مسجد نبوی ہوٹل سے تقریباً نصف کلومیٹر کے فاصلے پرتھی۔ اتنی وسیع و ریض مسجد میں ہمیں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ڈھونڈنے میں نجانے کتنی دیرلگ جاتی، چنانچہ اس دروازے سے نکلنے والے پہلے شلوار قمیص پہنے ہوئے آدمی سے روضہ رسول تک پہنچنے کے مختصرراستے سے متعلق سوال کیا، تو اس نے اشارے سے بتایا تھا کہ وہ جو سامنے چمکتا ہوا دروازہ دکھائی دے رہا ہے، اس میں داخل ہو کرسیدھے چلتے جاؤ تومقام مقصود پا لو گے۔ ان سے پوچھا آپ کہاں کے ہیں تو انہوں نے کے پی کے کے کسی شہر کا بتایا ساتھ ہی کہا کہ ویسے میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ لہجے میں تھوڑی سی پٹھنولی تھی چنانچہ پوچھ لیا آپ پشتو بولنے والے ہیں۔ ان کا اثبات میں جواب پا کر ظاہر ہے کہ جمشید صافی کی پشتونیت پھڑک اٹھی تھی اوروہ آپس میں ڈاکخانے ملانے لگ گئے تھے۔ اگردو پشتو بولنے والوں کا آمنا سامنا ہوجائے اور آپ تیسرے شخص ہوں توشرافت اسی میں ہوتی ہے کہ کنارے پہ ہوجائیں کیونکہ وہ پھر آپس میں شیروشکرہوکرآپ کوبھول جاتے ہیں۔
چونکہ روضہ رسول پہ سلام کہنے کی عجلت تھی اس لیے میں نے ان دونوں کی گفتگو میں دخل درمعقولات کرنے سے قطعی گریز نہیں کیا تھا۔ موصوف بھی کوئی شریف آدمی تھے، اردو بولنے لگے تھے۔ اپنا وزٹ کارڈ دیا تھا۔ ان کی کوئی ٹریول ایجنسی تھی اوروہ پاکستان سے حجاج اورمعتمربن کے اپنے گروہ لے کرآتے ہیں۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اورتیزتیزقدموں سے مسجد نبوی کا طول طویل احاطہ طے کیا جہاں سنگ مرمرکی سلوں کا فرش تھا اورکچھ ستون سے ایستادہ تھے جو اگلے روزمعلوم ہوا کہ دھوپ میں خودکارطورپرکھل جانے والے چھتر تھے۔
روشن دروازے سے جو گیٹ نمبر ایک تھا، داخل ہوئے تو دیکھا کہ لوگوں کی قطار لگی ہوئی ہے جو سرکتی جا رہی ہے۔ سفرحج کی روانگی سے پہلے انٹرنیٹ سے معلومات توحاصل کرہی لی تھیں کہ سنہرے رنگ کی جالیوں والے پہلے دروازے کے وسط میں گول سوراخ کا رخ روضہ مبارک کی جانب ہے۔ ہم بھی قطارمیں شامل ہوچکے تھے۔ جالیوں کے آگے ایک تنگ سے چبوترے پہ کھڑے ہوئے سپاہی “حجّی! حجّی!! چلو! آگے!! کہتے جارہے تھےاورہاتھ سے آگے نکلنے کے اشارے کررہے تھے۔ جالیوں کے اس پار اندھیرا تھا اورمرقد بھی شاید کہیں نیچے ہومگرجسم میں ایڈرینالین کا وفورتھا کہ میں ایسی ہستی کی آخری آرام گاہ کے اس قدر نزدیک ہوں جن کی بدولت دنیا کی تاریخ، جغرافیہ، معیشت، معاشرت، تمدن، تہذیب غرض زندگی کا کونسا شعبہ ہے جس میں انقلابی تبدیلیاں ظہورپذیر نہ ہوئی ہوں۔ میں نے پرسکون لہجے میں آہستگی سے السلام علیکم یا رسول اللہ، السلام علیکم یا سرورکونین، السلام علیکم یا شفیع المذنبین کہا اتنے میں میں آگے نکل چکا تھا جہاں السلام علیکم یا خلیفۃ الاوّل، السلام علیکم یا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ تین چار قدم طے کیے اوراسلام علیکم یا خلیفۃالمسلمین، السلام علیکم یا عمرابن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کہا۔ قریب تھا کہ اگلے گیٹ سے باہر نکل جاؤں لیکن پلٹا اور آگے کی دوصفوں میں بیٹھے، نفلیں پڑھتے اور قرآن خوانی کرتے لوگوں میں سے گذرتا ہوا پھرروضہ رسول کی جالیوں کے سامنے قطارسے ہٹ کرکھڑا ہو گیا۔ میری بہن جس نے مجھے پالا پوسا ہے، نے مجھے فون پر روضہ رسول کے سامنے جا کرایک دعا مانگنے کو کہا تھا۔ میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے توسامنے کھڑے ہوئے سپاہی نے بلند آوازمیں “یا حجّی” کی صدا بلند کرتے ہوئے مجھے منہ ادھر کرکے یعنی روضہ رسول کی جانب پشت کرکے کعبے کی جانب رخ موڑکردعا کرنے کے لیے کہا۔ احساس ہوا کہ واقعی ایسا کرنا تو بدعت ہے۔ اگرکسی قبرپہ فاتحہ بھی پڑھنی ہوتورخ طرف کعبہ ہونا چاہیے نہ کہ بروئے مرقد۔
لوگ بہت سے معاملات کو روح پرورکہتے ہیں۔ اس لفظ کے معانی کیا ہیں؟ روح کے لفظی معانی ہوا یا سانس ہیں لیکن میرے خیال میں لوگ روح سے مراد مزاج لیتے ہونگے تبھی وہ مختلف خوش کن مواقع کو روح پروریعنی مزاج بہتر کرنے والے واقعات گردانتے ہونگے۔ چونکہ میں روح نا آشنا ہوں، زندگی کےدوران روح زندگی کا حصہ ہے چنانچہ مجھے روح پروری کی فہم نہیں اورمیں گفتگو یا تحریرکو بلاوجہ لفظوں کے بے محابا استعمال سے رنگین اورجذباتی بنانے سے بھی گریزکرتا ہوں اس لیے روضہ رسول پہ حاضری میرے لیے روح پرورہونے کی بجائے تسکین آورتھی۔ جسے روح پرورکہا جاتا ہے وہ شاید جذبات کا وفور ہوتا ہو۔
میں تو السلام علیکم یا رسول اللہ کہنے کے بعد ایک الجھا دینے والے سوال میں پھنس کررہ گیا تھا۔ پاکستان میں بریلوی حضرات الصلٰوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہتے ہیں جب کہ ہم دیوبندی سلام نہیں پڑھتے بلکہ درود پڑھتے ہیں۔ “یا” کے بارے میں یہی سنا تھا کہ یہ لفظ زندہ شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ پاکستان میں اس “یا” کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضریا غائب ہونے کا بھی مسئلہ متنازعہ رہتا ہے۔ پھر مجھے کیا کہنا چاہیے۔ یہ سوچ کرخود کوتسلی دے لی تھی کہ ویسے بھی کہیں پہ مسلمانوں کے قبرستان سے گذرتے ہوئے “السلام علیکم یا اہل القبور” ہی کہا جاتا ہے۔ دوسرا سوال جو پریشان کررہا تھا کہ ہمارے شیعہ بھائی روضہ رسول پہ حاضری دیتے ہوئے کیا سوچتے ہونگے کیونکہ ان کے روضے کے ساتھ ان کے دوست اورسسرابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی کا مزار ہے اوردو قدم آگے حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کا۔ میرے بہت سے دوست شیعہ ہیں اور میں ان کی ان صحابہ سے معاندت سے اچھی طرح آگاہ ہوں۔ خیر مسئلہ صرف شیعہ اوربریلوی حضرات کے فقہی اختلافات کا نہیں ہے ابھی تومجھے شافعی، حنبلی اور مالکی فقہی اختلافات کے روبرو بھی ہونا تھا۔
میں ایک ایسے مقام پر تھا جہاں مجھے اپنی توجہ صرف اورصرف عبادت کی جانب مبذول رکھنی چاہیے تھی۔ خرافات سوچنے کا موقع نہیں تھا۔ سب سے پہلا کام تو ریاض الجنۃ میں دونفل پڑھنا تھا۔ روضہ رسول کے آغاز سے منبر تک کے تھوڑے سے حصے کو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کا ٹکڑا قراردیا تھا۔ وہاں نوافل ادا کرنے کے لیے ٹھٹھ بندھے ہوتے ہیں۔ مسجد کے اہلکار مختلف اطراف سے قناتیں تانتے رہتے ہیں اورایک جانب سے کھولتے رہتے ہیں۔ کس جانب سے کب راستہ کھلنا ہے پہلے سے معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے بہت چوبند رہنا پڑتا ہے۔ لوگ دونفل ادا کرلیں توپولیس والے “یاحجّی! یالّہ!!” یعنی حاجی نکلو کہہ کراٹھا دیتے ہیں۔ صفائی کرنے والے صفائی کرتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی سعادت حاصل کرسکیں لیکن لوگ عبادت کے حرص کا شکار ہوتے ہیں۔ عبادت کا حریص ہونا اچھا ہے لیکن عبادت کے سلسلے میں خودغرض ہونا شاید عبادت پہ پانی پھیرنے کا موجب بن جاتا ہو۔ لوگ دو مستحب نفلوں کی ادائیگی پراکتفا نہیں کرتے بلکہ چپک کربیٹھ جاتے ہیں۔ حالانکہ ہرخواہش مند کو موقع دیا جانا چاہیے کہ ریاض الجنۃ میں دو نفل ادا کر لے۔ بڑی مشکل سے میری باری آئی تو ایک شخص نے ایک منبر کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ جو سیاہ نشان بنے ہیں ان کے درمیان نفل پڑھنا افضل ہے۔ میں نے انتہائی خشوع و خصوع کے ساتھ وہاں دو نفل پڑھ لیے اورمطمئن ہو گیا کیونکہ سامنے دروازے میں ڈٹ کربیٹھے ہوئے عرب اہلکارنے بھی یہی کہا تھا “تمام ریاض الجنۃ”۔ بعد میں مجھے صافی نے بتایا کہ میاں جو وہ دوسرا منبر ہے اس کے اورروضہ مبارک کے درمیان کا حصہ ہی ریاض الجنۃ ہے۔ ہم نے رات بھرنوافل ادا کیے تھے اور نماز فجر پڑھ کر وہاں سے نکلے تھے۔ لوگوں کے جم غفیر میں میں اور صافی بچھڑگئے تھے۔ نہ تو تجلیات تھیں نہ ہی انوارالٰہی کی بوچھاڑ، برقی قمقموں کی چکا چوند میں آسمان سے اترتے ہوئے فرشتے بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے البتہ مسجد نبوی کے دروازے سے نکلتے ہی منہ اندھیرے عربوں کا شوریدہ بازارگرم تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دینے کے باعث پک اپس کے ڈالوں پہ چڑھے پکارتے لوگ یوں لگتا تھا غلام فروخت کررہے ہیں اورمسجد نبوی سے نکلنے والے نمازی تھے کہ چین کی بنی سستی اشیاء پہ مکھیوں کی مانند ٹوٹے پڑتے تھے۔ صرف کھجوریں عرب کی تھیں، جائے نمازاورکچھ چپل ترکی کے باقی سب کفّار چین کی سازش پرمبنی مال تھا۔
جاری ہے
ہوٹل سے نکلتے ہوئے ہم نے ہوٹل کے وزٹ کارڈ پوچھے تھے تاکہ آنے میں آسانی ہو لیکن اس نامراد ہوٹل میں وزٹ کارڈز تک نہیں تھے۔
نکلنے کو تو ہم جوش محبت رسول میں نکل گئے تھے اور ہوٹل کا نام “بدرالعنبریہ” بھی جیسے یاد کر لیا تھا لیکن واپسی پرجوش مفقود تھا، پھریہ کہ روضہ اقدس کی بجائے بازار بلکہ منڈی میں سرگرداں تھا۔ تھوڑا سا ادھرادھر ہوا تو راستہ بھول گیا۔ شکر ہے کہ سارے ہی عرب اردو سمجھ لیتے ہیں لیکن ہوٹل کا نام “بدر” سے آگے یاد نہیں رہا تھا۔ ادھر سے ادھر ہوتا رہا لیکن پریشان نہیں تھا۔ پھرعنبریہ بھی یاد آ گیا تھا لیکن کسی کو بھی اس غیرمعروف ہوٹل کے بارے میں علم نہیں تھا۔ یک لخت خیال آیا کہ اس سے دوسری طرف ہوٹل میریٹ تھا۔ ایک عرب اپنی بہت بڑی ایس یو وی بیک کر رہاتھا کہ میں نے اس کا شیشہ کھٹکھٹا کراسے متوجہ کیا اورانگریزی میں پوچھا کہ ہوٹل میریٹ کیسے پہنچا جا سکتا تھا ۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کہ “ماریوت” تین ہیں۔ میں نے کہا اخی مجھے نزدیک کے “ماریوت” تک پہنچنا ہے۔ اس نے گاڑی آگے کرکے روک دی تھی۔ وہ کوئی متمول شخص لگتا تھا مگرگاڑی سے اترکر باہر آیا تھا اور آگے جاکرمجھے اشاروں سے تفصیل کے ساتھ بتایا تھا۔
میں ہوٹل کی پشت کی جانب سے ہی سہی لیکن ساڑھے چھ پونے سات بجے کے قریب ہوٹل پہنچ گیا تھا۔ لابی میں گروپ کے کچھ اورلوگ بھی موجود تھے۔ سلام دعا ہوئی تھی۔ میں کمرے میں چلا گیا تھا۔ ہمارے بزرگ ساتھی جن کا نام داؤد تھا۔ رات بھرسوکر ہاتھ منہ دھوکرہشیارہوئے بیٹھے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے تواپنی بیوی کی ہٹ دھرمی کے گلے کیے تھے اورپھرپوچھا تھا کہ تمہارا دوست کہاں ہے۔ میں یہ سمجھا تھا کہ شاید صافی پہنچ کرناشتہ واشتہ کرنے نکل کھڑے ہوئے ہونگے لیکن انکل داؤد کے سوال سے معلوم ہوا کہ وہ پہنچے ہی نہیں تھے۔ میں بس یونہی لیٹ گیا تھا۔ نیند تو آ نہیں رہی تھی اورداؤد صاحب بھی مسلسل باتیں کیے جا رہے تھے یا سوال کیے جا رہے تھے۔ اکتائی ہوئی یہ شخصیت جب اپنی ہی کہی کسی بات پر ہنستی تھی تو خاصی معصوم دکھائی دیتی تھی۔ سوال کیا کہ اللہ تعالٰی ابلیس کوبرباد کیوں نہیں کر دیتے، اس کواتنی قوت بخشی ہی کیوں؟ میں نے کہا کہ انکل داؤد میں اللہ کا ترجمان تو ہوں نہیں، اس کی کوئی مصلحت ہی ہوگی جوخیروشرکے جھگڑے کو جاری و ساری رہنے دیا۔ اتنے میں بھنّائے ہوئے صافی صاحب بھی کمرے میں یہ کہتے ہوئے داخل ہوئے تھے کہ اس گھٹیا ہوٹل کے بارے میں کسی کو بھی کوئی علم نہیں ہے۔ میں بھٹکتا رہا، کوئی بھی اس کا محل وقوع نہیں بتا سکا۔ وہ رشید حضرت سے شدید رنجیدہ تھے۔ البتہ بھٹکتے بھٹکتے موبائل فون سم بھی خرید لائے تھے اور پیسے بھی بھنا لیے تھے۔ مجھے یہ دونوں چیزیں درکار تھیں۔
جمشید صافی بہت زیادہ بھنّائے ہوئے تھے اوردرست بھنّائے ہوئے تھے کیونکہ روس کے مفتیوں کی کونسل کے شعبہ حج و عمرہ کے سربراہ رشید حضرت کا انتظام بہت زیادہ ناقص تھا۔ ایک جانب تو وہ معلم ہونے سے یکسرانکاری تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ وہ بھی عام حجاج کی طرح ہمارے گروپ میں شامل ہیں البتہ مدد ضرورکریں گے۔ دوسری جانب وہ کمپنی “سلوٹس” کے نمائندہ تھے اورہمارے گروپ کو” گروپا رشیت حضرت” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ میں نے جمشید کا مزاج بہتر کرنے کی خاطرکہا تھا کہ چلو بھائی چل کے ناشتہ کرلیتے ہیں۔ اس بات پہ وہ اورچراغ پا ہو گئے تھے کہ کمپنی نے تو ناشتہ اور عشائیہ دینے کا وعدہ کیا تھا، ہم اپنے طورپہ ناشتہ کیوں کریں۔ میں نے کہا کہ حضرت میں نے یہ سنا ہے کہ کمپنی اپنے اس وعدے کومکہ جا کرپورا کرے گی۔ ان کی آنکھوں کا غیض کچھ اورزیادہ ہو گیا تھا لیکن وہ میرے ہمراہ ہو لیے تھے۔
ہوٹل کی کھڑکی سے ہمیں مسجد نبوی کے منوردمکتے ہوئے میناردکھائی دے رہے تھے۔ ہم نہائے، شلواریں قمیصیں پہنیں اور پوچھتے پچھاتے مسجد نبوی کے ایک دروازے سے کچھ دورپہنچ گئے۔ مسجد نبوی ہوٹل سے تقریباً نصف کلومیٹر کے فاصلے پرتھی۔ اتنی وسیع و ریض مسجد میں ہمیں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ڈھونڈنے میں نجانے کتنی دیرلگ جاتی، چنانچہ اس دروازے سے نکلنے والے پہلے شلوار قمیص پہنے ہوئے آدمی سے روضہ رسول تک پہنچنے کے مختصرراستے سے متعلق سوال کیا، تو اس نے اشارے سے بتایا تھا کہ وہ جو سامنے چمکتا ہوا دروازہ دکھائی دے رہا ہے، اس میں داخل ہو کرسیدھے چلتے جاؤ تومقام مقصود پا لو گے۔ ان سے پوچھا آپ کہاں کے ہیں تو انہوں نے کے پی کے کے کسی شہر کا بتایا ساتھ ہی کہا کہ ویسے میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ لہجے میں تھوڑی سی پٹھنولی تھی چنانچہ پوچھ لیا آپ پشتو بولنے والے ہیں۔ ان کا اثبات میں جواب پا کر ظاہر ہے کہ جمشید صافی کی پشتونیت پھڑک اٹھی تھی اوروہ آپس میں ڈاکخانے ملانے لگ گئے تھے۔ اگردو پشتو بولنے والوں کا آمنا سامنا ہوجائے اور آپ تیسرے شخص ہوں توشرافت اسی میں ہوتی ہے کہ کنارے پہ ہوجائیں کیونکہ وہ پھر آپس میں شیروشکرہوکرآپ کوبھول جاتے ہیں۔
چونکہ روضہ رسول پہ سلام کہنے کی عجلت تھی اس لیے میں نے ان دونوں کی گفتگو میں دخل درمعقولات کرنے سے قطعی گریز نہیں کیا تھا۔ موصوف بھی کوئی شریف آدمی تھے، اردو بولنے لگے تھے۔ اپنا وزٹ کارڈ دیا تھا۔ ان کی کوئی ٹریول ایجنسی تھی اوروہ پاکستان سے حجاج اورمعتمربن کے اپنے گروہ لے کرآتے ہیں۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اورتیزتیزقدموں سے مسجد نبوی کا طول طویل احاطہ طے کیا جہاں سنگ مرمرکی سلوں کا فرش تھا اورکچھ ستون سے ایستادہ تھے جو اگلے روزمعلوم ہوا کہ دھوپ میں خودکارطورپرکھل جانے والے چھتر تھے۔
روشن دروازے سے جو گیٹ نمبر ایک تھا، داخل ہوئے تو دیکھا کہ لوگوں کی قطار لگی ہوئی ہے جو سرکتی جا رہی ہے۔ سفرحج کی روانگی سے پہلے انٹرنیٹ سے معلومات توحاصل کرہی لی تھیں کہ سنہرے رنگ کی جالیوں والے پہلے دروازے کے وسط میں گول سوراخ کا رخ روضہ مبارک کی جانب ہے۔ ہم بھی قطارمیں شامل ہوچکے تھے۔ جالیوں کے آگے ایک تنگ سے چبوترے پہ کھڑے ہوئے سپاہی “حجّی! حجّی!! چلو! آگے!! کہتے جارہے تھےاورہاتھ سے آگے نکلنے کے اشارے کررہے تھے۔ جالیوں کے اس پار اندھیرا تھا اورمرقد بھی شاید کہیں نیچے ہومگرجسم میں ایڈرینالین کا وفورتھا کہ میں ایسی ہستی کی آخری آرام گاہ کے اس قدر نزدیک ہوں جن کی بدولت دنیا کی تاریخ، جغرافیہ، معیشت، معاشرت، تمدن، تہذیب غرض زندگی کا کونسا شعبہ ہے جس میں انقلابی تبدیلیاں ظہورپذیر نہ ہوئی ہوں۔ میں نے پرسکون لہجے میں آہستگی سے السلام علیکم یا رسول اللہ، السلام علیکم یا سرورکونین، السلام علیکم یا شفیع المذنبین کہا اتنے میں میں آگے نکل چکا تھا جہاں السلام علیکم یا خلیفۃ الاوّل، السلام علیکم یا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ تین چار قدم طے کیے اوراسلام علیکم یا خلیفۃالمسلمین، السلام علیکم یا عمرابن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ کہا۔ قریب تھا کہ اگلے گیٹ سے باہر نکل جاؤں لیکن پلٹا اور آگے کی دوصفوں میں بیٹھے، نفلیں پڑھتے اور قرآن خوانی کرتے لوگوں میں سے گذرتا ہوا پھرروضہ رسول کی جالیوں کے سامنے قطارسے ہٹ کرکھڑا ہو گیا۔ میری بہن جس نے مجھے پالا پوسا ہے، نے مجھے فون پر روضہ رسول کے سامنے جا کرایک دعا مانگنے کو کہا تھا۔ میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے توسامنے کھڑے ہوئے سپاہی نے بلند آوازمیں “یا حجّی” کی صدا بلند کرتے ہوئے مجھے منہ ادھر کرکے یعنی روضہ رسول کی جانب پشت کرکے کعبے کی جانب رخ موڑکردعا کرنے کے لیے کہا۔ احساس ہوا کہ واقعی ایسا کرنا تو بدعت ہے۔ اگرکسی قبرپہ فاتحہ بھی پڑھنی ہوتورخ طرف کعبہ ہونا چاہیے نہ کہ بروئے مرقد۔
لوگ بہت سے معاملات کو روح پرورکہتے ہیں۔ اس لفظ کے معانی کیا ہیں؟ روح کے لفظی معانی ہوا یا سانس ہیں لیکن میرے خیال میں لوگ روح سے مراد مزاج لیتے ہونگے تبھی وہ مختلف خوش کن مواقع کو روح پروریعنی مزاج بہتر کرنے والے واقعات گردانتے ہونگے۔ چونکہ میں روح نا آشنا ہوں، زندگی کےدوران روح زندگی کا حصہ ہے چنانچہ مجھے روح پروری کی فہم نہیں اورمیں گفتگو یا تحریرکو بلاوجہ لفظوں کے بے محابا استعمال سے رنگین اورجذباتی بنانے سے بھی گریزکرتا ہوں اس لیے روضہ رسول پہ حاضری میرے لیے روح پرورہونے کی بجائے تسکین آورتھی۔ جسے روح پرورکہا جاتا ہے وہ شاید جذبات کا وفور ہوتا ہو۔
میں تو السلام علیکم یا رسول اللہ کہنے کے بعد ایک الجھا دینے والے سوال میں پھنس کررہ گیا تھا۔ پاکستان میں بریلوی حضرات الصلٰوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہتے ہیں جب کہ ہم دیوبندی سلام نہیں پڑھتے بلکہ درود پڑھتے ہیں۔ “یا” کے بارے میں یہی سنا تھا کہ یہ لفظ زندہ شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ پاکستان میں اس “یا” کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضریا غائب ہونے کا بھی مسئلہ متنازعہ رہتا ہے۔ پھر مجھے کیا کہنا چاہیے۔ یہ سوچ کرخود کوتسلی دے لی تھی کہ ویسے بھی کہیں پہ مسلمانوں کے قبرستان سے گذرتے ہوئے “السلام علیکم یا اہل القبور” ہی کہا جاتا ہے۔ دوسرا سوال جو پریشان کررہا تھا کہ ہمارے شیعہ بھائی روضہ رسول پہ حاضری دیتے ہوئے کیا سوچتے ہونگے کیونکہ ان کے روضے کے ساتھ ان کے دوست اورسسرابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی کا مزار ہے اوردو قدم آگے حضرت عمررضی اللہ تعالٰی عنہ کا۔ میرے بہت سے دوست شیعہ ہیں اور میں ان کی ان صحابہ سے معاندت سے اچھی طرح آگاہ ہوں۔ خیر مسئلہ صرف شیعہ اوربریلوی حضرات کے فقہی اختلافات کا نہیں ہے ابھی تومجھے شافعی، حنبلی اور مالکی فقہی اختلافات کے روبرو بھی ہونا تھا۔
میں ایک ایسے مقام پر تھا جہاں مجھے اپنی توجہ صرف اورصرف عبادت کی جانب مبذول رکھنی چاہیے تھی۔ خرافات سوچنے کا موقع نہیں تھا۔ سب سے پہلا کام تو ریاض الجنۃ میں دونفل پڑھنا تھا۔ روضہ رسول کے آغاز سے منبر تک کے تھوڑے سے حصے کو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کا ٹکڑا قراردیا تھا۔ وہاں نوافل ادا کرنے کے لیے ٹھٹھ بندھے ہوتے ہیں۔ مسجد کے اہلکار مختلف اطراف سے قناتیں تانتے رہتے ہیں اورایک جانب سے کھولتے رہتے ہیں۔ کس جانب سے کب راستہ کھلنا ہے پہلے سے معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے بہت چوبند رہنا پڑتا ہے۔ لوگ دونفل ادا کرلیں توپولیس والے “یاحجّی! یالّہ!!” یعنی حاجی نکلو کہہ کراٹھا دیتے ہیں۔ صفائی کرنے والے صفائی کرتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ بھی سعادت حاصل کرسکیں لیکن لوگ عبادت کے حرص کا شکار ہوتے ہیں۔ عبادت کا حریص ہونا اچھا ہے لیکن عبادت کے سلسلے میں خودغرض ہونا شاید عبادت پہ پانی پھیرنے کا موجب بن جاتا ہو۔ لوگ دو مستحب نفلوں کی ادائیگی پراکتفا نہیں کرتے بلکہ چپک کربیٹھ جاتے ہیں۔ حالانکہ ہرخواہش مند کو موقع دیا جانا چاہیے کہ ریاض الجنۃ میں دو نفل ادا کر لے۔ بڑی مشکل سے میری باری آئی تو ایک شخص نے ایک منبر کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ جو سیاہ نشان بنے ہیں ان کے درمیان نفل پڑھنا افضل ہے۔ میں نے انتہائی خشوع و خصوع کے ساتھ وہاں دو نفل پڑھ لیے اورمطمئن ہو گیا کیونکہ سامنے دروازے میں ڈٹ کربیٹھے ہوئے عرب اہلکارنے بھی یہی کہا تھا “تمام ریاض الجنۃ”۔ بعد میں مجھے صافی نے بتایا کہ میاں جو وہ دوسرا منبر ہے اس کے اورروضہ مبارک کے درمیان کا حصہ ہی ریاض الجنۃ ہے۔ ہم نے رات بھرنوافل ادا کیے تھے اور نماز فجر پڑھ کر وہاں سے نکلے تھے۔ لوگوں کے جم غفیر میں میں اور صافی بچھڑگئے تھے۔ نہ تو تجلیات تھیں نہ ہی انوارالٰہی کی بوچھاڑ، برقی قمقموں کی چکا چوند میں آسمان سے اترتے ہوئے فرشتے بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے البتہ مسجد نبوی کے دروازے سے نکلتے ہی منہ اندھیرے عربوں کا شوریدہ بازارگرم تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہ دینے کے باعث پک اپس کے ڈالوں پہ چڑھے پکارتے لوگ یوں لگتا تھا غلام فروخت کررہے ہیں اورمسجد نبوی سے نکلنے والے نمازی تھے کہ چین کی بنی سستی اشیاء پہ مکھیوں کی مانند ٹوٹے پڑتے تھے۔ صرف کھجوریں عرب کی تھیں، جائے نمازاورکچھ چپل ترکی کے باقی سب کفّار چین کی سازش پرمبنی مال تھا۔
جاری ہے
ہوٹل سے نکلتے ہوئے ہم نے ہوٹل کے وزٹ کارڈ پوچھے تھے تاکہ آنے میں آسانی ہو لیکن اس نامراد ہوٹل میں وزٹ کارڈز تک نہیں تھے۔
نکلنے کو تو ہم جوش محبت رسول میں نکل گئے تھے اور ہوٹل کا نام “بدرالعنبریہ” بھی جیسے یاد کر لیا تھا لیکن واپسی پرجوش مفقود تھا، پھریہ کہ روضہ اقدس کی بجائے بازار بلکہ منڈی میں سرگرداں تھا۔ تھوڑا سا ادھرادھر ہوا تو راستہ بھول گیا۔ شکر ہے کہ سارے ہی عرب اردو سمجھ لیتے ہیں لیکن ہوٹل کا نام “بدر” سے آگے یاد نہیں رہا تھا۔ ادھر سے ادھر ہوتا رہا لیکن پریشان نہیں تھا۔ پھرعنبریہ بھی یاد آ گیا تھا لیکن کسی کو بھی اس غیرمعروف ہوٹل کے بارے میں علم نہیں تھا۔ یک لخت خیال آیا کہ اس سے دوسری طرف ہوٹل میریٹ تھا۔ ایک عرب اپنی بہت بڑی ایس یو وی بیک کر رہاتھا کہ میں نے اس کا شیشہ کھٹکھٹا کراسے متوجہ کیا اورانگریزی میں پوچھا کہ ہوٹل میریٹ کیسے پہنچا جا سکتا تھا ۔ اس نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا کہ “ماریوت” تین ہیں۔ میں نے کہا اخی مجھے نزدیک کے “ماریوت” تک پہنچنا ہے۔ اس نے گاڑی آگے کرکے روک دی تھی۔ وہ کوئی متمول شخص لگتا تھا مگرگاڑی سے اترکر باہر آیا تھا اور آگے جاکرمجھے اشاروں سے تفصیل کے ساتھ بتایا تھا۔
میں ہوٹل کی پشت کی جانب سے ہی سہی لیکن ساڑھے چھ پونے سات بجے کے قریب ہوٹل پہنچ گیا تھا۔ لابی میں گروپ کے کچھ اورلوگ بھی موجود تھے۔ سلام دعا ہوئی تھی۔ میں کمرے میں چلا گیا تھا۔ ہمارے بزرگ ساتھی جن کا نام داؤد تھا۔ رات بھرسوکر ہاتھ منہ دھوکرہشیارہوئے بیٹھے تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے تواپنی بیوی کی ہٹ دھرمی کے گلے کیے تھے اورپھرپوچھا تھا کہ تمہارا دوست کہاں ہے۔ میں یہ سمجھا تھا کہ شاید صافی پہنچ کرناشتہ واشتہ کرنے نکل کھڑے ہوئے ہونگے لیکن انکل داؤد کے سوال سے معلوم ہوا کہ وہ پہنچے ہی نہیں تھے۔ میں بس یونہی لیٹ گیا تھا۔ نیند تو آ نہیں رہی تھی اورداؤد صاحب بھی مسلسل باتیں کیے جا رہے تھے یا سوال کیے جا رہے تھے۔ اکتائی ہوئی یہ شخصیت جب اپنی ہی کہی کسی بات پر ہنستی تھی تو خاصی معصوم دکھائی دیتی تھی۔ سوال کیا کہ اللہ تعالٰی ابلیس کوبرباد کیوں نہیں کر دیتے، اس کواتنی قوت بخشی ہی کیوں؟ میں نے کہا کہ انکل داؤد میں اللہ کا ترجمان تو ہوں نہیں، اس کی کوئی مصلحت ہی ہوگی جوخیروشرکے جھگڑے کو جاری و ساری رہنے دیا۔ اتنے میں بھنّائے ہوئے صافی صاحب بھی کمرے میں یہ کہتے ہوئے داخل ہوئے تھے کہ اس گھٹیا ہوٹل کے بارے میں کسی کو بھی کوئی علم نہیں ہے۔ میں بھٹکتا رہا، کوئی بھی اس کا محل وقوع نہیں بتا سکا۔ وہ رشید حضرت سے شدید رنجیدہ تھے۔ البتہ بھٹکتے بھٹکتے موبائل فون سم بھی خرید لائے تھے اور پیسے بھی بھنا لیے تھے۔ مجھے یہ دونوں چیزیں درکار تھیں۔
جمشید صافی بہت زیادہ بھنّائے ہوئے تھے اوردرست بھنّائے ہوئے تھے کیونکہ روس کے مفتیوں کی کونسل کے شعبہ حج و عمرہ کے سربراہ رشید حضرت کا انتظام بہت زیادہ ناقص تھا۔ ایک جانب تو وہ معلم ہونے سے یکسرانکاری تھے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ وہ بھی عام حجاج کی طرح ہمارے گروپ میں شامل ہیں البتہ مدد ضرورکریں گے۔ دوسری جانب وہ کمپنی “سلوٹس” کے نمائندہ تھے اورہمارے گروپ کو” گروپا رشیت حضرت” کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ میں نے جمشید کا مزاج بہتر کرنے کی خاطرکہا تھا کہ چلو بھائی چل کے ناشتہ کرلیتے ہیں۔ اس بات پہ وہ اورچراغ پا ہو گئے تھے کہ کمپنی نے تو ناشتہ اور عشائیہ دینے کا وعدہ کیا تھا، ہم اپنے طورپہ ناشتہ کیوں کریں۔ میں نے کہا کہ حضرت میں نے یہ سنا ہے کہ کمپنی اپنے اس وعدے کومکہ جا کرپورا کرے گی۔ ان کی آنکھوں کا غیض کچھ اورزیادہ ہو گیا تھا لیکن وہ میرے ہمراہ ہو لیے تھے۔