عشرت معین سیما
چونکہ اسی رات میری واپسی تھی لہذا میں اپنا سامان ساتھ ہی لے کر ہال پہنچی تاکہ پروگرام کے بعد وہاں ہی سے براہ راست ائر پورٹ پہنچا دی جاؤں۔ کچھ دیر بعد سمن تیار ہوکر چلی گئیں ۔ میں وہیں لیونگ روم میں رکھی کتابوں کی شیلف میں پیرس پر ایک انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب کو لے کر اوپر اپنی عارضی قیام گاہ میں آگئی۔
لگتا تھا یہ کتاب سمن نے خاص طور پر اپنے گھر آنے والے دور دراز کے ان مہمانوں کے لیے رکھی ہوئی تھی جو فرانسسی نہیں جانتے تھے۔ فرانسسی زبان سننے میں جتنی خوبصورت ہے لکھنے اور پڑھنے میں اُتنی ہی پیچیدہ، مجھے یاد ہے جب سارہ کی پیدائش میں چند ہی ہفتے باقی تھے تب میں نے انور نے سرور بھائی اور اعجاز جو آج ڈاکٹر اعجاز حیدر عابدی ہیں، نے شام کے ایک کالج کے شعبہ فرانسسی میں زبان سیکھنے کے لیے داخلہ لیا تھا۔میں نے تو چند ہفتوں بعد وہ کورس صرف اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ کالج کی پانچویں منزل پر چڑھنا اترنا مجھے ڈاکٹر نے منع کر دیا تھا جبکہ باقی لوگوں نے بھی وہ کورس اس لیے مکمل نہیں کیا کہ ہماری زبان کی خاتون استاد بھی فرانسسی زبان کی طرح نہایت پیچیدہ تھیں ۔ لیکن فرانسسی زبان سے عملی شناسائی تب ہوئی تھی جب سارہ اپنے اسکول میں فرنچ کورس کر رہی تھی ۔ ان دنوں بھی وہ اپنے اسکول میں اسپینش اور فرنچ سیکھ رہی تھی جب ہم تینوں پیرس آئے تھے۔ میں نے اس کا امتحان لینے کے لیے اسے کہا کہ وہ تین فرانسیسی بریڈ بیکری سے آرڈر کرئے تو وہ بیچاری گھبرا کر تین کی جگہ نو کا ہندسہ “نف” بول گئی اور ہمیں سارا دن گھومتے پھرے وہ بریڈ کھانی پڑی اور پیرس کے پرندوں کی بھی دعوت ہم نے اسی بریڈ سے کی۔
یہ بھی پڑھیے:
ٹوٹے ہوئے خاندانوں کے بچے اور سمن شاہ
مشاہدے کی کھڑکی اور بوجھل آنکھیں
حلال کھانا پوری حرمت کے ساتھ
سمن شاہ کے گھر کے اس لیونگ روم سے لانے والی کتاب میں فرانس کی تاریخی عمارات کی تصاویر بہت عمدہ چھپی ہوئی تھیں جب کہ اس کا سرورق آئفل ٹاور اور پشت پر مشہور میوزیم “ لوورے” کی تصویر تھی۔ یہ وہی میوزیم ہے جہاں معروف مونا لیزا اپنی معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ موجود ہے۔ یہ میوزیم ہم دو بار دیکھ چکے ہیں لیکن سارا دن گزارنے کے باوجود یہ میوزیم مکمل طور پر نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس کتاب میں لکھا تھا کہ اس میوزیم کو مکمل دیکھنے کے لیے ایک سو بانوے گھنٹے یعنی پورے آٹھ دن اور آٹھ راتیں درکار ہیں۔ یہ میوزیم کئی حصوں میں تعمیر کیا گیا ہے اور دنیا بھر کے فن و تاریخ کے ایسے ایسے نمونے یہاں دستیاب ہیں کہ آپ انہیں دیکھ کر دنگ رہ جائیں۔ دنگ تو میں اُس وقت بھی رہ گئی تھی جب پہلی بار میوزیم کے ہزاروں وزیٹر ز سے دھکے کھاتے کھاتے مشہور زمانہ مونا لیزا کی پینٹنگ تک پہنچے تھے ۔جس کی معروف مسکراہٹ کے بارے میں بچپن سے سنتے اور پڑھتے چلے آئے ہیں۔ لیکن بھر پور سیکیورٹی کے حصار میں ایک درمیانی سائیز کےشیشے کے موٹے فریم میں چھوٹی سی مونا لیزا کو قید دیکھ کر مایوسی ہوئی تھی۔ لوگ اپنے کیمرے اٹھائے اس بے مثال شاہکار کی تصویر بنائے جارہے تھے۔ کئی زبانوں کے ٹورسٹ گائیڈ اپنی اپنی زبان میں گروہ کی صورت میں آنے والے سیاحوں کو معلومات دے رہے تھے اس کے علاوہ بے شمار لوگ کانوں میں ائر فون لگائے میوزیم کی جانب سے دی جانے والی معلومات میں محو تھے یا میوزیم کا نقشہ پکڑے تیر کے نشان کو فالو کرتے ہوئے اپنے پسندیدہ فن پاروں اور تاریخی شہہ پاروں کی تلاش میں سر گرداں تھے۔ دوسری بار جب اس میوزیم میں آئے تو موبائل فون اور کیمروں کی تعداد بھی آنے والے سیاحوں کی تعداد کی طرح بڑھ گئی تھی اور ظاہر سی بات ہے کہ میوزیم کا ٹکٹ بھی بتدریج ہوش ربا قیمت تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
میں کچھ دیر کتاب کی ورق گردانی کرتی رہی ۔ پیرس کی معروف شاہراہ شانزے لیزے کی خوبصورت تصاویر نے بہت سی خوبصورت یادوں کے در کھول دئیے ۔ اسی طرح آئفل ٹاور کی بھی رات کی چکا چوند روشنی نے وہ شب یاد دلا دی جب میں اور انور پہلی بار پیرس میں رات کو بذریعہ پانی کے جہاز شہر کا ایک خوبصورت چکر لگا کر آئے تھے۔ گرمیوں کی روشن اس رات کا نظارا آج بھی دل کو گرما دیتا ہے۔
پیرس آنے کے بعد یہاں کا خاص پین کیک کھانا سیاحی کے ایک مرحلے میں شامل ہے۔ یہ پین کیک ایک پتلی سی روٹی ہے جو خاص توے پر گیلے آٹے کی لئی سے بنائی جاتی ہے اور چاکلیٹ کریم بھر کر اسے تکون تہہ کر کے کھایا جاتا ہے یہ فرنچ زبان میں” کریپ” کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ مشہور زمانہ فرنچ فرائیس جو آلو کے چپس ہیں وہ بھی یہاں کے لوگوں کی مرغوب غذا ہیں۔ یہ کھانے مجھے اس لیے اس وقت یاد آئے ہیں کہ سمن شاہ نے گھر سے جاتے وقت بچوں کو یہ کھانے تیار کرکے دیے تھے اور گھر پہ ان کے لیے نگہداشت کا انتظام کیا تھا اور بچوں کی فلم نکال کر بھی ان کو مصروف رہنے کا آزمودہ بے بی سٹر کو نسخہ پیش کیا تھا ۔
میں کچھ اس کتاب کی ورق گردانی کرنے کے بعد نہا دھوکر اور اپنا سامان باندھ کر تیار ہوگئی ۔ کچھ ہی دیر میں سمن شاہ کی بیٹی بھی تیار ہوکر آگئی ۔ اس نے بتایا کہ راستے سے کسی اور کو بھی پک کرنا ہے اس لیے ذرا جلدی جانا ہوگا۔ آپ کھانا کھالیں تو ہم نکلتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں تیار ہوں اور کھانے کا فی الحال نہ موڈ ہے اور نہ بھوک ، اس لیے گھر سے نکلتے ہیں۔ وہ مہمان نواز بیٹی کہتی رہی کہ امی ناراض ہونگی کہ آپ کو لنچ کے بغیر لے آئی انہوں نے صبح صبح لنچ تیار کر دیا تھا۔ لیکن میں نے اس کو تسلی دی کہ اس کی امی اسے کچھ نہیں کہیں گی اور ہم چند منٹ میں ہی باہر نکل آئے۔ راستے سے سب سے پہلے اس نے اپنی ایک سہیلی کو لیا پھر سمن شاہ کی بڑی بیٹی کے گھر کی جانب ہم چل وہاں سے کچھ سامان لینا تھا۔ پھر ایک اور خاتون کو پک کرتے ہوئے ہم ہال پہنچے ۔
سمن شاہ تھوڑی گھبرائی ہوئی تھیں کیونکہ ہال میں مہمانوں کی تعداد ان کے انتظام کے حساب سے آدھی بھی نہیں تھی۔ تمام صحافی اور سماجی شخصیات جن کا وہ دو دن سے ملاقات کروانے کا ذکر کر رہی تھیں، اب تک ہال میں نہیں پہنچی تھیں۔ وہ بار بار فون کر کے تازہ صورتحال جاننا چاہ رہی تھیں کہ اُن کے مہمان کہاں رہ گئے؟
ایک مہمان خاتون نے مجھے اس محفل میں بتایا کہ سمن شاہ کے منعقد کردہ پروگرام میں پیرس بھر سے پاکستانی و ہندوستانی کمیونٹی کی ایک کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔ لیکن آج پاکستان سے ایک اہم سیاستدان یہاں آئے ہوئے ہیں اور سفارتخانے میں ایک پروگرام ہے جس کی وجہ سے تمام صحافی اور سیاسی برادری نے اپنا قبلہ تبدیل کر دیا ہے اور اُن معروف سیاسی شخصیت کے خیالات جاننے کے لیے وہاں گئے ہوئے ہیں۔ میں نے شکر ادا کیا کہ یہ پروگرام کسی سیاسی شخصیت کے زیر سایہ نہیں ہورہا ورنہ اشعار ذرا سوچ سمجھ کر سنانے پڑتے۔ سمن شاہ اپنے مہمانوں کی منتظر تھیں جس کی وجہ سے پروگرام میں تاخیر ہورہی تھی۔ میری وقت مقررہ پر رات کو واپسی کی فلائٹ تھی۔ میں نے سمن سے کہا کہ وہ اپنے پروگرام کا آغاز کردیں۔ یوں بھی وہاں جاکر مجھے خبر ملی کہ میری کتاب کی رونمائی اور شعری نشست کے بعد موسیقی کا بھی پروگرام ہے اور ہندوستان کے ایک گلوکار گروپ اپنے فن موسیقی و گائیکی کا جادو جگائیں گے۔ بہر حال ذرا سی تاخیر سے پروگرام کا باقائدہ آغاز کلام پاک سے ہوا۔ سمن شاہ نے اپنی تنظیم کا تعارف و مقصد بیان کرنے کے بعد مجھے مرکزی کرسی پر بٹھا دیا اور نظامت کے لیے مائیک پروگرام کی ایک ساتھی رکن کے حوالے کیا۔ پروگرام میں زیادہ تعداد خواتین کی تھی۔ پروگرام کی نظامت کرنے والی خاتون کے اردو تلفظ پر مجھے پاکستانی میڈیا کے اینکر پر سنز یاد آرہے تھے۔ وہ جب میرے افسانے کے مجموعے کا نام “ گُردآب اور کنارے” دو تین بار دُھرا چکیں تو مجھ سے برداشت نہیں ہوسکا اور میں نے اس محفل کی اعزازی سند سے ان کی تصحیح کا پیغام بھیجا لیکن انہوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اور شعری مجموعے “ جنگل میں قندیل “ کو بھی “جنگل میں کندیل” کہہ کر پیرس کی مہکتی فضاؤں میں متعارف کروا گئیں۔
باقی پروگرام سمن شاہ نے عمدگی کے ساتھ ترتیب دیا تھا۔ اس پزیرائی کے بعد میں نے کچھ اشعار سنائے اور پیرس کی کچھ شاعرات کو سنا، اس کے بعد چائے کا وقفہ ہوا اور موسیقاروں کا گروپ اسٹیج پر جمان ہوگیا۔ ہندوستانی فلمی گیتوں اور پنجابی گانوں کی یہ محفل شروع ہوئی تو مجھے اپنی واپسی کی فکر ہوئی۔ سمن شاہ سے جب ذکر کیا تو ان کی صاحبزادی نے کہا کہ میں پچھلے دروازے سے نکل کر گاڑی پارکنگ پر آجاؤں لیکن ناظم تقریب نے موسیقی کی محفل کے دوران اعلان کرکے میری واپسی کی خبر تمام محفل کو دی۔ تمام خواتین و حضرات آگے بڑھ کر ملے اور مجھے خُداحافِظ کہا۔ جب میں پارکنگ ایریا میں گاڑی کی جانب بڑھی تو پیرس کے کئی سیاسی اور سماجی اکابرین کا گروپ ایک بڑی گاڑی سے نکل کر محفل موسیقی میں شرکت کے لیے ہال کی جانب جارہا تھا۔ ایک صاحب نے مجھے دیکھ کر کہا کہ میں اتنی جلدی کیوں جارہی ہوں ؟ دل تو میرا بھی چاہ رہا تھا کہ پوچھوں کہ آپ اتنی دیر سے کیوں تشریف لارہے ہیں لیکن بطور مہمان ان کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی واپسی کے سفر کی بابت اطلاع دی۔ اس تمام گروپ کے لوگوں نے پارکنگ ایریا ہی میں کچھ تصاویر بنائیں اور میں وہاں سے سیدھے ائر پورٹ کے لیے روانہ ہوگئی۔
ایک یادگار محفل تھی پیرس کی رنگین و خوشبو سے معمور اس گنگناتی شام کو الوداع کہہ کر میں ائر پورٹ میں داخل ہوتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ دریائے سین کے کنارے آباد یہ شہر جو گزشتہ دو ہزار سالوں سے قائم ہے اور آج بھی دنیا کا اہم کاروباری اور ثقافتی مرکز ہے ۔ یہاں آج بھی عالمی سیاست، تعلیم، تفریح، ابلاغ، فیشن، علوم اور فنون کے اس پر گہرے اثرات ہیں۔ ایسا میرا بحیرہ عرب کے کنارے آباد شہر کراچی بھی ہوا کرتا تھا اور جو بڑے عالمی شہروں میں سے ایک اہم شہر ہوا کرتا تھا، وہاں سیاست اور لسانی عصبیت پسندی نے اس شہر کی ترقی کی تمام راہیں روک ڈالیں ۔ایک چیز جو پیرس کو پاکستان سے قربت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ یورپ میں بلکہ دنیا میں جہاں پاکستان کا جھنڈا کسی غیر ملک میں پہلی بار لہرایا گیا وہ پیرس ہی کا خوبصورت شہر تھا اور فرانس کی ہی مہکتی سرزمین تھی جہاں آج بھی پاکستانی اپنے جھنڈے کی حرمت دیار غیر میں بلند تر رکھنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں ۔پیرس دنیا کا پانچواں بڑا شہر ہے جہاں دنیا بھر کے کالے گورے عربی فرنچ اور انگریزی بولنے والے افراد کا ایک ہجوم ہے لیکن پھر بھی یہ شہر سیاحت کے لحاظ سے دنیا کے معروف ترین علاقوں میں سے ایک ہے اور سالانہ 4 کروڑ 50 لاکھ افراد پیرس خطے کی سیر کرتے ہیں جن میں سے 60 فیصد غیر ملکی ہوتے ہیں۔ یہاں کی شاندار و تاریخی عمارات، عالمی سطح پر معروف ادارے اور مشہور باغات دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح کھنچے چلے آتے ہیں۔ کاش میرے کراچی کی خوبصورت فضاؤں میں بھی رنگ و روشنی اسی طرح لوٹ آئے جیسی اس شہر کو گیٹ آف ایشیا گردانتے وقت ہوا کرتی تھی۔ کاش اس شہر کی ہواؤں میں محبت و بھائی چارے کی خوشبو انسانی تعصب کے لہو کی جگہ بس جائے۔۔۔۔ اردو سے محبت کا یہ مختصر سفر بہت سی اہم ملاقاتوں اور دلچسپ یادوں کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔