تحریر: سفیان خان
باجی فرزانہ ہمارے محلے کی وہ حسینہ تھیں جنہیں آپ نام نہاد یا بلکہ یہ کہیں کہ ’خود ساختہ مس ایریا‘ کہہ سکتے ہیں۔ باجی فرزانہ گانے اور پکانے میں ماہر سمجھی جاتی تھیں۔ ’پکانے‘ سے ہماری مراد ہر گز کھانے پکانے سے نہیں بلکہ دماغ ’پکانے‘ سے ہے‘ خود کو مادھوری ڈکشٹ، سری دیوی اور منداکنی کے متبادل قرار دینے کی ہر ممکن کوشش میں ہوتیں۔ جبھی ’آئیڈل کی تلاش‘ میں تھیں۔ اور یہ تلاش نجانے کب سے تھی‘ ممکن ہے کہ خود انہیں بھی نہ معلوم ہو۔ اپنے آپ کو ’حسن کی دیوی‘ بدقسمتی سے تصور کرتی تھیں۔ اور اسی لیے ہر ’ایلے میلے‘ کو ’گھاس‘ ڈالنا شان کے خلاف تھا۔ ہم سے خاص دوستی تھی۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم ان کے ’اکلوتے‘ شاگر جو تھے۔ ’نورانی قائدہ‘ پڑھنے جاتے تھے اور ماشااللہ پچھلے دو برسوں سے ’نورانی‘ ہی اٹکے رہنے کی وجہ سے ہماری صورت خود نورانی ہوچکی تھی۔ ایسے میں باجی فرزانہ نے ٹھان لی تھی یا یہ پھر یہ کہیں کہ مشن بنا لیا تھا کہ جب تک قائدہ ختم نہیں ہوتا ہماری یہ ’ٹیوشن‘ نہیں چھوڑیں گی۔ ویسے اس ’قائدے‘ کے چکر میں ہم خاصے ’بے قاعدہ‘ ہوگئے تھے۔ باجی فرزانہ کی ایک گھنٹے کی ٹیوشن میں پچپن منٹ ان کے گانے‘ خود نمائی سے بھرے کلمات اور محلے بھر کے ’بے روزگار عاشقوں‘ کی خبر گری میں گزر جاتا۔ رہ گئے پانچ منٹ تو ہم یہ خود ضائع کردیتے کہ یہ سوچنے میں کہ کل کا سبق کہاں ختم ہوا تھا۔ باجی کو ’سوکھے مریل لڑکے‘ پسند نہیں تھے۔ ان کا آئیڈل تو جیسے سلمان خان جیسا ماچو مین تھا۔ دعویٰ یہ بھی کرتی تھیں کہ ان کی آواز کوئل کی طرح ہے۔ جبکہ ہمیں اس سے اختلاف تھا ہمارا دعویٰ تھا کہ صرف رنگت کوئل جیسی ہے۔ ویسے ایسے اختلافات ہم اکثر دل ہی دل میں کرتے تھے۔ محلے میں کسی نوجوان کی انٹری ہو اور باجی فرزانہ اس کے دیدار سے محروم ہوجائیں تو سمجھیں یہ اس دن کا سب سے بڑا سانحہ ہوتا۔ اس مقصد کے لیے گھر کاایک جھروکہ مخصوص تھا۔ جہاں وہ بیٹھ کر آنے جانے والوں پر نگاہیں ٹکائے رہتیں۔ باجی فرزانہ کو اُس وقت بڑی چڑ آتی ہے جب ان کی والدہ ماجدہ کہیں سے آتیں اور دروازے پر زور زو ر سے گلا پھاڑ کرپکارتیں : اری او فرزانہ۔۔۔۔ فرزانہ۔ فرزانہ۔۔۔“ اب ایسے میں کچھ من چلے سائیکلوں سے گزرتے ہوئے جملہ پورا کردیتے۔۔۔ دواخانہ۔۔ دستگیر نمبر نو۔۔۔۔“ باجی تنک کر گیٹ پر آتیں اور لڑکوں پر چیختے ہوئے بولتیں : اپنی اماں کا بھی وہاں ہی علاج کرانا۔۔۔“ پھر ان کا نشانہ والدہ ماجدہ ہوتیں۔: ”اماں تم کو بھی شوق ہے جواں بیٹی کا نام چلا چلا کر سب کو بتانے کا۔۔ گھنٹی نہیں بجا سکتیں۔۔۔۔“
ہم سے سفارتی تعلقات اچھے تھے۔ وجہ بتاچکے کہ لڑکوں کی ’ٹوہ‘ جو تھی۔ کیونکہ ہم بھی مرچ مسالا لگا کر باجی فرزانہ کو ہر لڑکے کے بارے میں بتانا اپنا ’دینی‘ اور قومی فریضہ‘ سمجھتے تھے۔ باجی کی عمر ڈھلتی جارہی تھی اور یہی وجہ ہے کہ رشتے اور گھر میں بیری کا درخت ہونے کے باوجود پتھر آنا بھی بند ہوگئے۔ لیکن باجی فرزانہ کے من میں سمایا ہوا تھا ’آئیڈل کی تلاش‘۔۔۔جو کم بخت مل کر ہی نہیں دے رہا تھا۔ ہمارا تو اپنا خیال یہی تھا کہ وہ بے چارہ بھی باجی فرزانہ کی ’ڈھلتی جوانی‘ کے خوف سے کہیں جا کر چھپ گیا تھا۔ کہ کہیں یہ ڈھونڈتی ڈھانڈتی تلاش ہی نہ کرلیں اُسے۔۔ ویسے ان کے رشتے کی ’گونج‘ ہمارے گھر میں ایک دفعہ میں بھی ہوئی۔ ہمارے خوبرو چاچا کی ’رشتے کی کمیٹی‘ کے لیے اماں نے جب باجی فرزانہ کی نکالی۔ تو چاچا کا جواب تھا کہ ’ وہ فرزانہ۔؟؟ وہ تو مجھے زہر لگتی ہے‘ کوئی اور ڈھونڈیں۔۔“
اماں کا موقف تھا کہ سگھڑ ہے ، گھر آگئی تو صوفی کو پڑھا لکھا بھی دے گی۔ ٹیوشن کے پیسے بھی بچ جائیں گے۔‘ جس پر چاچا نے بھی اماں کی اس فل ٹاس پر باؤنڈری کے باہر چھکا لگاتے ہوئے جواب دیا کہ ’اب اِس کی ’ٹیوشن‘ کے چکر میں‘ میں ’ٹینشن‘ پال لو۔۔۔‘ خیر ہماری ٹیوشن پر تو اماں نے ’پالیسی بیان‘ دیا تھا کہ جب کہ ہم نے خود ان گناہ گار کانوں سے انہیں خالہ سے یہ کہتے سنا تھا کہ بڑی عمر کی ہے دبا کر رکھوں گی یہی طعنہ مار مار کر‘ ۔ چوں بھی نہیں کر پائے گی۔‘ باجی کے کانوں میں بھی اس رشتے کی سن گن ہوئی تو ان کا رویہ ہم سے اور خوشگوار ہوگیا۔ ایک دن بڑے چاؤ سے پوچھا : ”صوفی تمہارے چاچا کو میں کیسی لگتی ہوں؟“ ہم اُس وقت نادان تھے اور ’زہر‘ کے مطلب سے ناآشنا بھی۔ اسی لیے بول دیا : ”زہر“۔۔۔بس پھر باجی کو ہم ایک عرصے تک خود ’زہر‘ لگنے لگے۔ ’سفارتی تعلقات‘ بحال کرنے میں باجی فرزانہ ہی پہل کرتیں۔ کیونکہ ہم ہی جو ان کی’اکلوتی سورس‘ تھیں۔
جوانی کی دہلیز پر ہم نے جب قدم رکھا تو باجی فرزانہ کا ہم سے پہلا مطالبہ تھا کہ ہم انہیں ’باجی‘ نہیں بلکہ صرف فرزانہ کہا کریں۔۔ کیونکہ باجی بولنے سے ادب و احترام کا پہلو ظاہر ہوتا ہے اور بقول فرزانہ کے ہم تو اچھے دوست ہیں نجانے کتنے برسوں سے۔۔۔ کیسی بدنصیبی تھی کہ جہاں فرزانہ باجی کسی کی نہ ہوسکیں تو وہیں ہم بھی کسی دل نشین حسینہ کو نہ پٹا سکے۔ ہمارا ہر دوست ’صاحب گرل فرینڈ‘ تھا اور ہم کسی ’ناکام سیاست دان‘ کی طرح اسمبلی کی ایک سیٹ کے لیے ترس رہے تھے، ایسے میں و سوچا کہ باجی پر ہی ایک ’ٹرائی‘ ماری جائے۔ امید تھی کہ بچپن کے خوشگوار تعلقات کا کوئی نہ کوئی پھل تو مل ہی جائے گا۔ جسارت کی کہ اور گہرے رنگ کا گلاب خرید کرپیش کردیا۔ دل بے قرار کا ابھی آدھا ہی حال بیان کیا تھا کہ۔ باجی فرزانہ کا یہ روپ ہمارے لیے چونکا دینے والا تھا۔ بدقسمتی سے ’اظہار محبت‘ بھی ان کے ہی گھر میں کیا تھا۔۔۔ باجی فرزانہ نے چیخنا چلانا شروع کردیا، ’شرم نہیں آتی جوان لڑکی کو چھیڑنے پر، بتاتی ہوں تمہارے ماں باپ کو۔۔۔۔۔۔ اماں کہاں ہو تم۔۔۔ ذرا ادھر تو آنا۔۔۔۔“
ہمارے ہاتھ پیر پھول گئے۔ باجی کی اماں سے زیادہ اپنی اماں کا خیال آیا جنہیں یہ ’بری خبر‘ ملتی تو کیا حشر کریں گی یہی سوچ کر روح کانپ گئی۔ ویسے عام طور پر باجی فرزانہ کی اماں کئی آواز دینے پر باورچی خانے سے باہر نہیں نکلتی تھیں۔ لیکن اس بار ان کے ’نشریاتی رابطے‘ میں کوئی خلل نہیں ہوا۔ جھٹ پٹ آدھمکیں۔ وہ بھی جھاڑو سمیت۔ اور پھر وہ دھنائی ہوئی یہاں اور ہمارے گھر میں کہ عاشقی کا بھوت جو چڑھا بھی نہیں تھا ایسا دم دبا کر بھاگا کہ کم بخت اور نامعقول کئی مہینوں تک باجی فرزانہ کے گھر تک لوٹ کر نہیں گیا۔ویسے جب ہم خود شادی کے بندھن میں بندھ رہے تھے تو اماں نے مٹھائی کا ڈبہ ہماری طرف بڑھاتے ہوئے خوش خبری سنائی کہ یہ مٹھائی فرزانہ کی طرف سے آئی ہے۔۔۔“
”خیریت اماں۔۔باجی کو ہماری شادی کی اتنی خوشی ہوئی ہے“
”چل پگلے۔۔ اس کی بات ٹھہر گئی ہے۔“
”اچھا مل گیا انہیں اس عمر میں آئیڈل۔۔۔؟“ ہم نے پوچھا۔۔
”ہاں۔۔۔ شادی ہورہی ہے اس کی۔۔۔ تین چار سال تک منگنی رہے گی اورپھر پیا کے گھر جائے گی۔۔۔“
ہم نے صرف یہی سوچا :”ابھی بھی تین چار سال تک منگنی۔۔۔ کہیں اس عرصے میں ان کا آئیڈل چل بسا تو؟“٭