اعظم علی
سنگاپور کے تمام انتخابات جو اب تک اس فقیر نے دیکھے ہیں ان میں ایک چیز مستقل ہوتی ہے کہ الیکشن کی مہم کے دوران اپوزیشن کے کسی ایک سیٹ یااُمیدوار کوٹارگیٹ بنا کر حکمران پارٹی اپنی ساری قوت لگا کر اسے ایک مثال کے طور پر استعمال کرکے مجموعی طور پر اپوزیشن کی انتخابی مہم کو بے اثر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس مرتبہ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ اسوقت اپوزیشن کے اُمیدواروں کی فہرست میں ایک پاکستانی نژاد لڑکی رئیسہ خان شامل ہے جو تیسری نسل کی پاکستانی نژاد سنگاپوری شھری ہے۔
سنگاپور بھی کورونا سے متاثرین میں شامل ہے لیکن پھر بھی حکومت نے بروقت انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا اور دس دنووں کی مختصر کمپین جس میں کورونا کی وجہ سے جلسوں پر پابندی کے ساتھ ویڈیو اور شوشل میڈیا کے ذریعے انتخابی مہم چلائی گئی۔
سنگاپور کے انتخابات میں چند ایک چیز جو شاید پوری دنیا میں نہیں کہ یہاں پر آزاد الیکشن کمیشن تو نہیں ہے لیکن انتخابات میں “جھُرلو” کی روایت بھی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
سنگاپور لاک ڈاؤن نرم کرکے معیشت کو بحال کرنے کی طرف گامزن
سنگا پور الیکشن، پاکستانی لڑکی تبدیلی کی علامت بن گئی
دوسری عجیب بات یہ ہے یہاں پر تین قسم کے حلقے ہیں۔کئی حلقوں کو اکٹھا کرکے بعض سُپر حلقے بھی بنائے گئے جن میں ایک ممبر کی بجائے پوری ٹیم لڑتی ہے۔ یہ سُپر حلقے چار یا پانچ سیٹوں والے ہوتے ہیں انہیں GRC یعنی Group Represented Constituency کہا جاتا ہے۔
2011 میں89کے ایوان میں سے حکمران پیپلز ایکشن پارٹی نے تقریباً 70۰ فیصد ووٹ لیکر83 سیٹیں حاصل کیں اور اپوزیشن کی ورکر پارٹئ نے غیر متوقع طور پر 7 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کیں۔
اس وقت اپوزیشن کے بارے میں صرف دوسیٹوں سے کامیابی کی توقع تھی کہ وہ حلقے گذشتہ کئی انتخابات سے اپوزیشن کے ہاتھ میں تھے۔ لیکن غیر متوقع طور پر اپوزیشن اپنے ایک حلقے سے ہار گئی لیکن اس بڑا شاک اس وقت لگا جب حکمران جماعت کا ایک مضبوط و مقبول ستارہ جو وزیر خزانہ جارج یو ہی نہیں بلکہ مستقبل کا وزیر اعظم سمجھا جاتا تھا ایک پانچ سیٹوں والی GRC سے ہار گیا اور اپوزیشن کو یکمشت پانچ سیٹیں مل گئیں۔درحقیقت کی شکست ایک حیرت انگیز بات تھی۔
2015ئ کے انتخابات میں اپوزیشن ایک سنگل سیٹ ہار کر 6 سیٹ پر آگئی ۔موجودہ انتخابات میں 93 سیٹوں پر 14 سنگل سیٹ اور ۱۷ GRC پر مقابلہ ہے۔
حکمران جماعت چونکہ سنگاپور کی آزادی 1965 سے ابتک برسر اقتدار ہے اب بھی کسی کو بھی اس بات کی توقع نہیں کہ کوئی بڑی تبدیلی آئے کی لیکن اگر حکمران پارٹئ ایک اور GRC ہار گئی تو واقعی زلزلہ آسکے گا۔دوسری طرف اگر اپوزیشن اپنی الجنید GRC ہار گئی تو انکے لئے شام غریباں ہوگی۔
موجودہ انتخابات چونکہ کورونا کے دوران ہورہے ہیں، معشیت اور ملازمتیں بڑا اور اہم موضوع ہے اور حکومت کی کامیابی پر کوئی شبہ نہیں ہے لیکن حکومت اپنے روایتی انداز میں ووٹروں کو بتارہی ہے کہ انکی سیٹوں میں کمزوری بھی بیرون ملک کے سرمایہ کاروں کے لئے منفی پیغام دے گی۔
ابھی تک سارے اشارے اہم حکمران جماعت کی لینڈ سلائیڈ کامیابی کی طرف جارہے ہیں لیکن یہاں بھی تبدیلی کی کچھ ہوا نظر آتی ہے لیکن اسے طوفان بننے میں مزید دوچار انتخابات کی ضرورت ہے۔
ہرانتخاب میں حکومت اپوزیشن کے کسی ایک اُمید وار کو ٹارگیٹ کرکے اپوزیشن کو پکڑتی ہے۔ اس مرتبہ اپوزیشن کی ایک نوجوان اُمیدوار رئیسہ خان کو ٹارگیٹ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ ایک انتہائی ڈائینامک نوجوان خاتون ہیں پر پاکستانی النسل ہیں کے 2018ء میں کیے گئے ایک ٹوئیٹ پر چائے کی پیالی میں طوفان اُٹھانے کی کوشش کی گئی ۔ اور اسے نسل پرستی کارنگ دینے کی کوشش کی گئی۔
رئیسہ خان نے فوری طور پر اس معاملے میں معذرت کرکے اس معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی جبکہ انہوں نے کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں کی تھی۔
اس پُرانے ٹوئیٹ کا نقصان رئیسہ جو کہ نوجوان نسل میں مقبول ہورہی ہیں کو ہوا یا نہیں لیکن حکمران جماعت اپنے ہی ہے ایک اُمیدوار سے کاغذات نامزدگی بھرنے سے پہلے محروم ہو گئی جب یہ بات سامنے آئی کے اُس نے سنگاپور کی ایک سرکاری کارپوریشن میں ملازمت کرتے ہوئے برازیل کے ایک بڑے ٹینڈر کو حاصل کرنے کے لئے سرکاری اہلکاروں کو رشوت دی تھی۔اور اس کا سنگاپوری فوج میں ملازمت کے دوران ماتحتوں کے ساتھ انتہائی درشت اور نخوت آمیز رویہ تھا۔
جہاں تک رشوت دینے کے الزامات کی بات ہے بین الاقوامی ٹینڈروں میں رشوت دینے کو پسند نہ کرنے کے باوجود حسب ضرورت لازمی شیطانیت کے طور پر قبول کیا جاتا ہے۔ یقیناً اس نے رشوت ذاتی فائدے کے کئے نہیں اپنی کمپنی کے لئے دی تھی، جس کی سنگاپور کی حکومت بھی حصے دار ہے۔ بحرحال ان معاملات کے نتیجہ میں حکمران جماعت کو اس اُمید وار کو دستبردار کرانا پڑا۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ رئیسہ خان کے خلاف پروپیگنڈہ کچھ حدتک اُلٹا پڑ گیا کہ ایک نوجوان نسل کے ووٹروں نے اس ٹوئیٹ پر اسکی فوری معذرت کو مثبت لیا اور اسکی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔
درحقیقت سنگاپور کے نوجوان اور تعلیم یافتہ ووٹر کچھ حدتک حکمران جماعت کے 55 سالہ تسلسل کے اقتدار میں رہنے کے بعض پالیسیوں ناراض بھی ہیں اسکا بھی اپوزیشن بالخصوص رئیسہ کو فائیدہ ہونے کی توقع ہے
کل الیکشن کادن ہے سب کی نظریں رئیسہ خان کی سنکانگ GRC اور پہلے ہی اپوزیشن کے ہاتھوں الجنید GRC کے نتائج پر ہوگی اگر یہ دونوں اپوزیشن کے ہاتھ میں چلی گئیں تو حکومت کو تبدیل کئے بغیر بھی یہاں کی سیاست میں ایک زلزلہ ہی ہوگا۔
موجودہ صورتحال میں ایک طرف بعض مبصرین حزب اقتدار کی مکمل کلین سوئپ کی توقع کررہے ہیں دوسری طرف نوجوان اور تعلیم یافتہ ووٹر جو (مکمل پر نہیں) کسی حدتک تبدیلی کا خواہشمند ہے۔
یاد رہے کہ عوام حکمران پارٹئ سے بعض ضمنی پالیسیوں سے غیر مطمئن ہونے کے باوجود مجموعی طور پر ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے ان پر اعتماد رکھتے ہیں، پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو چند سیٹیں صرف اور صرف احتجاج اور حکومت کی بعض غیر مقبول پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی علامت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
رئیسہ خان کی ذاتی مقبولیت اپنی جگہ حکمران جماعت کے عوام میں گہری جڑیں دیکھتے ہوئے اگر وہ کامیاب ہوتی ہیں جو ناممکن نہیں ہے ہوتب بھی یہ ایک کرشمہ ہی ہوگا۔