میں نے صدف سے کہا کہ کیا یہ ریستوراں رات بھر کھلا رہتا ہے تو اس کے جواب میں صدف نے مسکرا کر اس ریسٹورینٹ کے حوالے سے بتایا کہ اس کا مالک ہر روز رات ساڑھے گیارہ بجے کے بعد آنے والے لوگوں کو دن بھر کا بچنے والا کھانا پیک کر کے دے دیتا ہے ۔اس لیے کئی مزردو ،بے گھر افراد اور ضرورت مند طلبہ و طالبات اس عالیشان ریسٹورینٹ کا کھانا لینے آتے ہیں ۔ مجھے اس ریسٹورینٹ کے مالک سے ملنے کا اشتیاق ہوا تو سرور صاحب اسے کہیں اندر سے بلا لائے۔ سلام دعا کے بعد صدف مرزا نے مترجم کی ذمہ داری سنبھالی اور اس ہوٹل کے مالک سے میری بات چیت میں معاون کی ۔ ریسٹورینٹ کے مالک کا کہنا تھا کہ میں ابتداً تو صرف ریستوراں کے اپنے بچے ہوئے کھانے پھینکے کے بجائے ضرورتمندوں کو لے جا کر بانٹ دیا کرتا تھا کیونکہ صحت کے حفاظتی قانون کے مطابق پندرہ گھنٹے پرانا کھانا بیچنے کی یہاں سخت ممانعت ہے اور اگر کوئی ایسا کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اس کا رسٹورینٹ چلانے کا پرمٹ کینسل ہوجاتا ہے۔ یہ کھانا سرد موسم اور بہترین غذائی اجزاء کے سبب پندرہ گھنٹے کیا دو دن خراب نہیں ہوتا مگر سارے ریسٹورینٹ والے اسے پھینکنے پر مجبور ہیں۔لہٰذا میں نے اس کھانے کی نعمت کو ضائع کرنے کے بجائے لوگوں میں تقسیم کرنے کا عمل شروع کیا ۔ اب لوگ یہاں آکر کھانا ساتھ لے جاتے ہیں لیکن یہاں بیٹھ کر کھانے والوں کو بل ادا کرنا ضروری ہوتا ہے ۔میں یہاں کے گاہکوں کے علاوہ بھی تخمینہ لگا کر اضافی کھانا پکواتا ہوں اوراب اللہ کے فضل سے میں روزانہ سو آدمیوں کا کھانا علیحدہ رکھوادیتا ہوں تاکہ ضرورت مندوں کی بڑھتی ہوئی تعداد یہاں سے خالی ہاتھ نہ جائے، جب سے میں نے ایسا کرنا شروع کیا ہے اللہ نے میرے کاروبار میں برکت بڑھا دی ہے اب میں صرف اسی شہر میں تین بڑے ترکی ریسٹورینٹس کا مالک ہوں۔ الحمداللہ
میں اس ترکی ریسٹورینٹ کے مالک کے چہرے پر فخر اور اطمنان کے ساتھ ساتھ رزق حلال کی برکت کے کرشمے بھی دیکھ رہی تھی۔ مجھے فخر ہوا کہ دین اسلام کی تعلیمات میں رزق بانٹنا اور مال سے کچھ دینا زندگی کو اعتدال میں لانے کا کتنا خوبصورت اور آسان عمل ہے۔ بات صرف یقین کی ہے کہ اوپر والے نے ہر ذی روح کا رزق اس کے لیے متعین کر رکھا ہے۔ نہ کوئی کسی کے منہ سے نوالہ چھین سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کو غنی بنے سے روک سکتا ہے۔ بات صرف ایک یقینِ کامل کی ہے ، صرف اللہ کی ذات پر یقین کامل کی ۔ اس وقت مجھے یاد آیا کہ میرے ایک عزیز لندن کی ایک بیکری میں بطور سیکیورٹی گارڈ کام کرتے تھے اور بتاتے تھے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں جی بھر کے مختلف اقسام کے کیک اور بریڈ اس دکان سے کھائے ہیں جہاں اس دکان کا مالک شام ہوتے ہی تمام شیشے کی الماری میں سجی بیکری کی اشیاء سڑک پر گزرنے والوں کے لیے مفت کر دیتا ہے لیکن شاید اس کے لیے یورپ کا غذائی اشیاء کی فروخت کے معاملے میں سخت قانون اس عمل کا محرک نہیں تھا کیونکہ ہم نے خود کئی نامور دیسی مٹھائی کی دکانوں سے باسی سموسے اور لڈو خریدنے کا تجربہ بھی لندن جیسے ماڈرن شہر میں کیا ہے۔
بہرحال اس شام ریسٹورینٹ کے مالک سے ملنے کے بعد اس بات پر یقین مزید مستحکم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق سے جو رزق دینے کا وعدہ کیا ہے وہ کسی نہ کسی وسیلے سے اس کے بندوں تک پہنچ رہا ہے بس انسان ہی اپنے رزق کی برکت و فضیلت کو اپنی طمع و لالچ میں بدل کر خواہشات و تمناؤں کے جنگل میں بھٹکتا ہے اور اپنی عمر گنوا دیتا ہے اور آخر میں رب سے شکوہ ہی کرتا ہے کہ تو نے فلاں کو مجھ سے یا فلاں سے زیادہ عطا کیا یعنی ناشکری کرتے ہیں۔
ترک سے گپ شپ ہوگئی تو ہم نے اپنے میزبانوں کا اس پر تکلف دعوت پر تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور زبیر صاحب ہمیں رات گئے صدف کی رہائش گاہ پر چھوڑنے آگئے۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے اِن سے درخواست کی کہ صبح میں شہر گھومنے کے لیےنہیں جانا چاہتی ہوں بلکہ کچھ جلدی ائیر پورٹ پہنچ جاؤں تو اچھا ہے وہاں سے میں اپنی بیٹیوں کے لیے ائر پورٹ سے ہی کچھ شاپنگ کر لوں گی ۔کیونکہ اگلا دن اتوار تھا اور اتوار کو پورے یورپ میں ہی دکانیں بند ہوتی ہیں۔ صدف مرزا شاپنگ اور بیٹیوں کے لیے تحائف کا ذکر سن کر چونکیں اور جیسے ہی ہم گھر پہنچے وہ اپنی الماری کا پوسٹ مارٹم کرنا شروع ہوگئیں جب کہ میں عشاء مغرب اور عصر کی نمازیں ادا کرنے کے لیے کمرے میں چلی گئی۔ مجھے پتہ نہیں کیوں بہت گرمی محسوس ہورہی تھی پوری ڈیڑھ لیٹر کی بوتل پانی پینے اورکمرے کی کھڑکیاں کھولنے کے باوجود مجھے کمرے میں گھٹن محسوس ہورہی تھی۔ نمازوں سے فارغ ہوکر میں لاؤنج میں آئی تو صدف بے شمار خواتین کے کپڑوں کے نمونے لیے بیٹھی تھیں کہ یہ سب میں اپنی بیٹیوں کے لیے لے جاؤں۔ میں نے انکار کیا تو زبردستی کچھ ڈریس میرے بورڈ کیس میں رکھنے کی خاطر آگے بڑھیں اور کہا کہ ساری کتابیں تو آپ نے تقسیم کر دی ہیں۔ اب اس بورڈ کیس میں بہت جگہ ہے۔ میری بھانجیوں کے لیے یہ ڈریس لے لیجئے میں نے بہت چاہ سے اپنی بیٹی کے لیے بنوائے تھے لیکن آئمہ کی پیدائش کے بعد وہ ان کو سائز کی وجہ سےنہیں پہن سکتی ۔ میں نے صدف کی کتاب یار من دانش کی ڈمی ہاتھ میں لے کر کہا کہ مجھے صرف یہ دے دیجئے۔ انہوں نے جھٹ وہ ڈمی بھی ان ڈریس کے ساتھ لپیٹ کر میرے بورڈ کیس میں ڈال دی۔رات کافی ہوگئی تھی اس لیے ہم کچھ دیر بات چیت کرنے کے بعد ہم اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے چلے گئے۔
اُس رات کوپن ہیگن کا درجہ حرارت منفی تیرہ تھا لیکن مجھے نہ جانے کیوں بہت گرمی محسوس ہورہی تھی۔ میں نے کمرے کی کھڑکیاں کھول دیں اور بستر پر لیٹ گئی ۔ کچھ دیر میں میرےکمرے کے دروازے پر دستک دے کر صدف اندر داخل ہوئیں۔ وہ کمبل میں لپٹی کانپ رہی تھیں۔
“ عشرت جی ! کھڑکیاں کیوں کھول رکھی ہیں؟ یہ کمرہ تو سرد خانہ بنا ہوا ہے۔ صدف نے تشویش سے مجھے دیکھتے ہوئے پوچھا تو میں نے معذرت کرتے ہوئے جلدی سے اٹھ کر کمرے کی کھڑکیاں بند کر دیں ۔ وہ مسکرا کر ٹھٹھرتی ہوئی واپس چلی گئیں اور انہوں نے شاید ہیٹر باہر جاتے ہوئے مزید تیز کردیا۔ اگلی صبح میں فجر تک جاگتی رہی کچھ طبیعت بوجھل محسوس ہورہی تھی۔ دن نکلتے ہی میں نہا دھو کر لاؤنج میں آئی تو صدف آلو اور قیمے کے نان تیار کر رہی تھیں ساتھ میں کوئی فریش جوس اور دہی کی لسی بھی تیار تھی۔ میرے لاکھ منع کرنے کے باوجود انہوں نے مجھے گرم ناشتہ کروایا اور ساتھ میں کچھ نان المونیم فوائل میں باندھ کر میرے بورڈ کیس میں یہ کہہ کر رکھ دیئے کہ ائر پورٹ پر یا گھر پہنچ کر کھا لوں ۔ مجھے اپنی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی لیکن اب واپسی کا وقت قریب تھا کچھ دیر بعد زبیر صاحب بھی آگئے اور ہم ہال کی چابیاں دیتے ہوئے ایئر پورٹ کی جانب چل دیئے۔ راستے میں صدف مرزا کی بیٹی عالیہ کا فون آیا کہ وہ اور اس کے شوہر کچھ دیر کے لیے آرہے ہیں اس نے میرے لیے کوئی تحفہ لیا ہے۔ جب صدف نے بتایا کہ ہم ایئر پورٹ کے لیے نکل چکے ہیں تو اسے اس بات کا بہت افسوس ہوا کہ اس کا تحفہ مجھ تک نہیں پہنچ پایا۔ مجھے عالیہ بہت زیرک اور ماشاءاللہ ذہین لڑکی لگی۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر تھی اور جلد اپنی فیلڈ میں پی ایچ ڈی شروع کرنے والی تھی۔ میں نے اس سے بات کی اور ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ وعدہ کیا کہ اس سے ملاقات جلد ہوگی برلن میں یا کوپن ہیگن میں دوبارہ۔ اسی بات چیت میں وقت کے گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا اور ہم کوپن ہیگن کے واحد ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہوگئے۔ صدف نے گلے لگا کر بہت محبت سے الوداع کہا ۔ ان کی پرخلوص میز بانی اور محبت نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ ہم نے جلد دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور میں ہاتھ ہلاتی ہوئی ائر پورٹ کے اندر چلی گئی۔