Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ملک پاکستان میں آزادی اظہار کے نام پہ آئے روز نت نئے شوشے اور من گھڑت قصے تراشے جارہے ہیں۔اس ملک کی دنیا میں اک انفرادیت ہے کہ یہ ایک نظریاتی جدوجہد کے ثمر میں ہمیں ملا ہے۔مسلم قومیت کو ایک طرف انگریز سامراج اور دوسری طرف تنگ نظر ہندو سیاست کا سامنا کرنا پڑا۔1947 میں مسلم قوم برصغیر میں ایک الگ مملکت بنانے میں کامیاب ہوئی۔جس کے لئے ایک طویل نظریاتی و سیاسی جدوجہد کی گئی۔مسلمانان برصغیر کا الگ وطن کا مطالبہ اپنی انفرادی شناخت کا مطالبہ تھا ورنہ ہندو مسلم مشترکہ سیاست کا پلیٹ فارم تو موجود رہا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قائداعظم جیسا زیرک اور دیانت دار شخص جو کبھی مذہبی سیاست کا حصہ دار نہ ہونے کے باوجود مسلم تہذیب و تمدن کے زیر اثر مسلم برصغیر کا علمبردار بن کر ابھرا۔قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا اعزاز رکھتے تھے۔وہ شخص جو دادا بھائی نورو جی ،گوپال کرشن گھوکھلے اور موتی لال نہرو جیسے ہندو سیاست دانوں کے ہمراہ برصغیر کے سیاسی مستقبل کا حل تلاش کرتے کرتے محمد علی جوہر،میاں محمد شفیع اور علامہ اقبال کی سیاسی بصیرت کی شمع کا پروانہ بن کر ابھرا۔یہ فقط مسلم شناخت کا وہ ابدی نکتہ تھا جو مخلوط انتخاب سے جداگانہ انتخاب کی طرف مائل ہوا۔
گول میز کانفرنسز نے قائداعظم کے سامنے کانگریس کی ہندوتوا سیاست کے سب رنگ چاک کر کے رکھ دئیے جس کی عملی تعبیر1937میں کانگریسی وزارتوں کے ہندوازم کی احیا کے لئے کئے گئے اقدامات تھے جو مسلم شناخت کاہر قیمت پر خاتمہ تھا۔اس سلسلے میں پیر پوررپورٹ تاریخ کا حصہ ہے۔
قرداد لاہور برصغیر کے مسلم جمہور کاسواداعظم تھا جو ہر اس شناخت سے دوری تھی جو مسلم قومیت کےعلاوہ تھی۔قائداعظم کی سیادت میں ہر طرح کی مسلم نمائندگی یکجا تھی۔
جس میں مسلم زمیندار،مسلم تاجراور مسلم گدی نشین شامل ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی کی قیادت میں برصغیر کاعام مسلم بھی اس کارواں کا حصہ بن گیا۔اسی بات کو سب سے پہلے صوبہ سندھ نے اپنی اسمبلی میں شرف قبولیت بخشتے ہوئے اس شناخت کے تحت مملکت پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔اسی مسلم شناخت سے متعلق قائداعظم کا مہاتما گاندھی کے نام ایک خط ملاحظہ ہو۔۔
Quaid-i-Azam’s letter to Mahatama M.K. Gandhi dated September 17, 1944, articulated the notion of Muslim nationhood in these words:
“We maintain and hold that Muslims and Hindus are two major nations by any definition or test of a nation. We are a nation of a hundred million, and what is more, we are a nation with our own distinctive culture and civilization, language and literature, art and architecture, names and nomenclature, sense of value and proportion, legal laws and moral codes, customs and calendar, history and traditions, aptitudes and ambitions-in short we have our own distinctive outlook on life and of life. By all cannons of international law we are a nation.”
صوبہ سندھ نے قیام پاکستان کا حصہ بنتے ہوئے اس مسلم شناخت کو جلا بخشی جس کے لئے سندھ کے اکابرین سر عبداللہ ہارون،غلام حسین ہدایت اللہ اور پیر الٰہی بخش شامل ہیں۔
بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسلامی سوشلزم کے تصور کے ساتھ اس شناخت کو برقرار رکھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو تو برملا سندھ دھرتی پر محمد بن قاسم کی آمد کو اپنی مسلم شناخت کے اسی تسلسل کے تناظر میں دیکھتی ہیں۔
سندھ کو باب الاسلام کہا جاتاہے اور برصغیر میں اسلام کی کرنیں یہیں سے پھوٹیں۔اور یہی اس دھرتی کی شناخت ہے۔اور ہیروز بھی اسی شناخت سے جڑے ہوتے ہیں۔
اسی شناخت سے جڑے تمدن،ثقافت اورہیروز سے متعلقہ قائداعظم کا ایک انگریز مصنف بیورلے نکولس کو دیا گیا انٹرویو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اس نے قائداعظمؒ سے سوال کیا تھا ’’جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں تو کیا مذہب کے معنوں میں سوچ رہے ہوتے ہیں؟‘‘ اس پر بابائے قوم نے فرمایا تھا:
’’آپ یہ حقیقت کبھی نظر انداز نہ کریں کہ اسلام صرف نظامِ عبادات کا نام نہیں‘ یہ تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظام حیات دیتا ہے۔ میں زندگی کے معنوں میں سوچ رہا ہوں‘ میں زندگی کی ہر اہم چیز کے معنوں میں سوچ رہا ہوں‘ میں اپنی تاریخ ‘ اپنے ہیروز‘ اپنے آرٹ‘ اپنے فن تعمیر‘ اپنی موسیقی‘ اپنے قوانین‘ اپنے نظام عدل و انصاف کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ ان تمام شعبوں میں ہمارا نقطۂ نظر نہ صرف ہندوئوں سے انقلابی طور پر مختلف ہے بلکہ بسا اوقات متصادم بھی ہے۔ ہماری اور ہندوئوں کی زندگی میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں بنیادی طور پر ہم رشتہ کرسکے۔ ہمارے نام‘ ہمارا لباس‘ ہماری خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہے‘ ہماری اقتصادی زندگی‘ ہمارے تعلیمی تصورات‘ جانوروں تک کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر۔ ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گائے کا ابدی مسئلہ لے لیں‘ ہم گائے کو کھاتے ہیں اور وہ اس کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ (انگریز دانشور بیورلے نکولس کی کتاب Verdict on India مطبوعہ 1944)
اردو ترجمہ۔۔”برطانوی ہند کا مستقبل”
مطبوعہ۔مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد
سندھ دھرتی کی اسی مسلم شناخت کا نتیجہ ہے کہ سندھیوں کے دلوں میں محمد بن قاسم ،لعل شہباز قلندر،شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سر مست ہیروز کی مانند بستے ہیں۔
ملک پاکستان میں آزادی اظہار کے نام پہ آئے روز نت نئے شوشے اور من گھڑت قصے تراشے جارہے ہیں۔اس ملک کی دنیا میں اک انفرادیت ہے کہ یہ ایک نظریاتی جدوجہد کے ثمر میں ہمیں ملا ہے۔مسلم قومیت کو ایک طرف انگریز سامراج اور دوسری طرف تنگ نظر ہندو سیاست کا سامنا کرنا پڑا۔1947 میں مسلم قوم برصغیر میں ایک الگ مملکت بنانے میں کامیاب ہوئی۔جس کے لئے ایک طویل نظریاتی و سیاسی جدوجہد کی گئی۔مسلمانان برصغیر کا الگ وطن کا مطالبہ اپنی انفرادی شناخت کا مطالبہ تھا ورنہ ہندو مسلم مشترکہ سیاست کا پلیٹ فارم تو موجود رہا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قائداعظم جیسا زیرک اور دیانت دار شخص جو کبھی مذہبی سیاست کا حصہ دار نہ ہونے کے باوجود مسلم تہذیب و تمدن کے زیر اثر مسلم برصغیر کا علمبردار بن کر ابھرا۔قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا اعزاز رکھتے تھے۔وہ شخص جو دادا بھائی نورو جی ،گوپال کرشن گھوکھلے اور موتی لال نہرو جیسے ہندو سیاست دانوں کے ہمراہ برصغیر کے سیاسی مستقبل کا حل تلاش کرتے کرتے محمد علی جوہر،میاں محمد شفیع اور علامہ اقبال کی سیاسی بصیرت کی شمع کا پروانہ بن کر ابھرا۔یہ فقط مسلم شناخت کا وہ ابدی نکتہ تھا جو مخلوط انتخاب سے جداگانہ انتخاب کی طرف مائل ہوا۔
گول میز کانفرنسز نے قائداعظم کے سامنے کانگریس کی ہندوتوا سیاست کے سب رنگ چاک کر کے رکھ دئیے جس کی عملی تعبیر1937میں کانگریسی وزارتوں کے ہندوازم کی احیا کے لئے کئے گئے اقدامات تھے جو مسلم شناخت کاہر قیمت پر خاتمہ تھا۔اس سلسلے میں پیر پوررپورٹ تاریخ کا حصہ ہے۔
قرداد لاہور برصغیر کے مسلم جمہور کاسواداعظم تھا جو ہر اس شناخت سے دوری تھی جو مسلم قومیت کےعلاوہ تھی۔قائداعظم کی سیادت میں ہر طرح کی مسلم نمائندگی یکجا تھی۔
جس میں مسلم زمیندار،مسلم تاجراور مسلم گدی نشین شامل ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی کی قیادت میں برصغیر کاعام مسلم بھی اس کارواں کا حصہ بن گیا۔اسی بات کو سب سے پہلے صوبہ سندھ نے اپنی اسمبلی میں شرف قبولیت بخشتے ہوئے اس شناخت کے تحت مملکت پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔اسی مسلم شناخت سے متعلق قائداعظم کا مہاتما گاندھی کے نام ایک خط ملاحظہ ہو۔۔
Quaid-i-Azam’s letter to Mahatama M.K. Gandhi dated September 17, 1944, articulated the notion of Muslim nationhood in these words:
“We maintain and hold that Muslims and Hindus are two major nations by any definition or test of a nation. We are a nation of a hundred million, and what is more, we are a nation with our own distinctive culture and civilization, language and literature, art and architecture, names and nomenclature, sense of value and proportion, legal laws and moral codes, customs and calendar, history and traditions, aptitudes and ambitions-in short we have our own distinctive outlook on life and of life. By all cannons of international law we are a nation.”
صوبہ سندھ نے قیام پاکستان کا حصہ بنتے ہوئے اس مسلم شناخت کو جلا بخشی جس کے لئے سندھ کے اکابرین سر عبداللہ ہارون،غلام حسین ہدایت اللہ اور پیر الٰہی بخش شامل ہیں۔
بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسلامی سوشلزم کے تصور کے ساتھ اس شناخت کو برقرار رکھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو تو برملا سندھ دھرتی پر محمد بن قاسم کی آمد کو اپنی مسلم شناخت کے اسی تسلسل کے تناظر میں دیکھتی ہیں۔
سندھ کو باب الاسلام کہا جاتاہے اور برصغیر میں اسلام کی کرنیں یہیں سے پھوٹیں۔اور یہی اس دھرتی کی شناخت ہے۔اور ہیروز بھی اسی شناخت سے جڑے ہوتے ہیں۔
اسی شناخت سے جڑے تمدن،ثقافت اورہیروز سے متعلقہ قائداعظم کا ایک انگریز مصنف بیورلے نکولس کو دیا گیا انٹرویو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اس نے قائداعظمؒ سے سوال کیا تھا ’’جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں تو کیا مذہب کے معنوں میں سوچ رہے ہوتے ہیں؟‘‘ اس پر بابائے قوم نے فرمایا تھا:
’’آپ یہ حقیقت کبھی نظر انداز نہ کریں کہ اسلام صرف نظامِ عبادات کا نام نہیں‘ یہ تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظام حیات دیتا ہے۔ میں زندگی کے معنوں میں سوچ رہا ہوں‘ میں زندگی کی ہر اہم چیز کے معنوں میں سوچ رہا ہوں‘ میں اپنی تاریخ ‘ اپنے ہیروز‘ اپنے آرٹ‘ اپنے فن تعمیر‘ اپنی موسیقی‘ اپنے قوانین‘ اپنے نظام عدل و انصاف کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ ان تمام شعبوں میں ہمارا نقطۂ نظر نہ صرف ہندوئوں سے انقلابی طور پر مختلف ہے بلکہ بسا اوقات متصادم بھی ہے۔ ہماری اور ہندوئوں کی زندگی میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں بنیادی طور پر ہم رشتہ کرسکے۔ ہمارے نام‘ ہمارا لباس‘ ہماری خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہے‘ ہماری اقتصادی زندگی‘ ہمارے تعلیمی تصورات‘ جانوروں تک کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر۔ ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گائے کا ابدی مسئلہ لے لیں‘ ہم گائے کو کھاتے ہیں اور وہ اس کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ (انگریز دانشور بیورلے نکولس کی کتاب Verdict on India مطبوعہ 1944)
اردو ترجمہ۔۔”برطانوی ہند کا مستقبل”
مطبوعہ۔مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد
سندھ دھرتی کی اسی مسلم شناخت کا نتیجہ ہے کہ سندھیوں کے دلوں میں محمد بن قاسم ،لعل شہباز قلندر،شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سر مست ہیروز کی مانند بستے ہیں۔
ملک پاکستان میں آزادی اظہار کے نام پہ آئے روز نت نئے شوشے اور من گھڑت قصے تراشے جارہے ہیں۔اس ملک کی دنیا میں اک انفرادیت ہے کہ یہ ایک نظریاتی جدوجہد کے ثمر میں ہمیں ملا ہے۔مسلم قومیت کو ایک طرف انگریز سامراج اور دوسری طرف تنگ نظر ہندو سیاست کا سامنا کرنا پڑا۔1947 میں مسلم قوم برصغیر میں ایک الگ مملکت بنانے میں کامیاب ہوئی۔جس کے لئے ایک طویل نظریاتی و سیاسی جدوجہد کی گئی۔مسلمانان برصغیر کا الگ وطن کا مطالبہ اپنی انفرادی شناخت کا مطالبہ تھا ورنہ ہندو مسلم مشترکہ سیاست کا پلیٹ فارم تو موجود رہا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قائداعظم جیسا زیرک اور دیانت دار شخص جو کبھی مذہبی سیاست کا حصہ دار نہ ہونے کے باوجود مسلم تہذیب و تمدن کے زیر اثر مسلم برصغیر کا علمبردار بن کر ابھرا۔قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا اعزاز رکھتے تھے۔وہ شخص جو دادا بھائی نورو جی ،گوپال کرشن گھوکھلے اور موتی لال نہرو جیسے ہندو سیاست دانوں کے ہمراہ برصغیر کے سیاسی مستقبل کا حل تلاش کرتے کرتے محمد علی جوہر،میاں محمد شفیع اور علامہ اقبال کی سیاسی بصیرت کی شمع کا پروانہ بن کر ابھرا۔یہ فقط مسلم شناخت کا وہ ابدی نکتہ تھا جو مخلوط انتخاب سے جداگانہ انتخاب کی طرف مائل ہوا۔
گول میز کانفرنسز نے قائداعظم کے سامنے کانگریس کی ہندوتوا سیاست کے سب رنگ چاک کر کے رکھ دئیے جس کی عملی تعبیر1937میں کانگریسی وزارتوں کے ہندوازم کی احیا کے لئے کئے گئے اقدامات تھے جو مسلم شناخت کاہر قیمت پر خاتمہ تھا۔اس سلسلے میں پیر پوررپورٹ تاریخ کا حصہ ہے۔
قرداد لاہور برصغیر کے مسلم جمہور کاسواداعظم تھا جو ہر اس شناخت سے دوری تھی جو مسلم قومیت کےعلاوہ تھی۔قائداعظم کی سیادت میں ہر طرح کی مسلم نمائندگی یکجا تھی۔
جس میں مسلم زمیندار،مسلم تاجراور مسلم گدی نشین شامل ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی کی قیادت میں برصغیر کاعام مسلم بھی اس کارواں کا حصہ بن گیا۔اسی بات کو سب سے پہلے صوبہ سندھ نے اپنی اسمبلی میں شرف قبولیت بخشتے ہوئے اس شناخت کے تحت مملکت پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔اسی مسلم شناخت سے متعلق قائداعظم کا مہاتما گاندھی کے نام ایک خط ملاحظہ ہو۔۔
Quaid-i-Azam’s letter to Mahatama M.K. Gandhi dated September 17, 1944, articulated the notion of Muslim nationhood in these words:
“We maintain and hold that Muslims and Hindus are two major nations by any definition or test of a nation. We are a nation of a hundred million, and what is more, we are a nation with our own distinctive culture and civilization, language and literature, art and architecture, names and nomenclature, sense of value and proportion, legal laws and moral codes, customs and calendar, history and traditions, aptitudes and ambitions-in short we have our own distinctive outlook on life and of life. By all cannons of international law we are a nation.”
صوبہ سندھ نے قیام پاکستان کا حصہ بنتے ہوئے اس مسلم شناخت کو جلا بخشی جس کے لئے سندھ کے اکابرین سر عبداللہ ہارون،غلام حسین ہدایت اللہ اور پیر الٰہی بخش شامل ہیں۔
بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسلامی سوشلزم کے تصور کے ساتھ اس شناخت کو برقرار رکھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو تو برملا سندھ دھرتی پر محمد بن قاسم کی آمد کو اپنی مسلم شناخت کے اسی تسلسل کے تناظر میں دیکھتی ہیں۔
سندھ کو باب الاسلام کہا جاتاہے اور برصغیر میں اسلام کی کرنیں یہیں سے پھوٹیں۔اور یہی اس دھرتی کی شناخت ہے۔اور ہیروز بھی اسی شناخت سے جڑے ہوتے ہیں۔
اسی شناخت سے جڑے تمدن،ثقافت اورہیروز سے متعلقہ قائداعظم کا ایک انگریز مصنف بیورلے نکولس کو دیا گیا انٹرویو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اس نے قائداعظمؒ سے سوال کیا تھا ’’جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں تو کیا مذہب کے معنوں میں سوچ رہے ہوتے ہیں؟‘‘ اس پر بابائے قوم نے فرمایا تھا:
’’آپ یہ حقیقت کبھی نظر انداز نہ کریں کہ اسلام صرف نظامِ عبادات کا نام نہیں‘ یہ تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظام حیات دیتا ہے۔ میں زندگی کے معنوں میں سوچ رہا ہوں‘ میں زندگی کی ہر اہم چیز کے معنوں میں سوچ رہا ہوں‘ میں اپنی تاریخ ‘ اپنے ہیروز‘ اپنے آرٹ‘ اپنے فن تعمیر‘ اپنی موسیقی‘ اپنے قوانین‘ اپنے نظام عدل و انصاف کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ ان تمام شعبوں میں ہمارا نقطۂ نظر نہ صرف ہندوئوں سے انقلابی طور پر مختلف ہے بلکہ بسا اوقات متصادم بھی ہے۔ ہماری اور ہندوئوں کی زندگی میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں بنیادی طور پر ہم رشتہ کرسکے۔ ہمارے نام‘ ہمارا لباس‘ ہماری خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہے‘ ہماری اقتصادی زندگی‘ ہمارے تعلیمی تصورات‘ جانوروں تک کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر۔ ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گائے کا ابدی مسئلہ لے لیں‘ ہم گائے کو کھاتے ہیں اور وہ اس کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ (انگریز دانشور بیورلے نکولس کی کتاب Verdict on India مطبوعہ 1944)
اردو ترجمہ۔۔”برطانوی ہند کا مستقبل”
مطبوعہ۔مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد
سندھ دھرتی کی اسی مسلم شناخت کا نتیجہ ہے کہ سندھیوں کے دلوں میں محمد بن قاسم ،لعل شہباز قلندر،شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سر مست ہیروز کی مانند بستے ہیں۔
ملک پاکستان میں آزادی اظہار کے نام پہ آئے روز نت نئے شوشے اور من گھڑت قصے تراشے جارہے ہیں۔اس ملک کی دنیا میں اک انفرادیت ہے کہ یہ ایک نظریاتی جدوجہد کے ثمر میں ہمیں ملا ہے۔مسلم قومیت کو ایک طرف انگریز سامراج اور دوسری طرف تنگ نظر ہندو سیاست کا سامنا کرنا پڑا۔1947 میں مسلم قوم برصغیر میں ایک الگ مملکت بنانے میں کامیاب ہوئی۔جس کے لئے ایک طویل نظریاتی و سیاسی جدوجہد کی گئی۔مسلمانان برصغیر کا الگ وطن کا مطالبہ اپنی انفرادی شناخت کا مطالبہ تھا ورنہ ہندو مسلم مشترکہ سیاست کا پلیٹ فارم تو موجود رہا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قائداعظم جیسا زیرک اور دیانت دار شخص جو کبھی مذہبی سیاست کا حصہ دار نہ ہونے کے باوجود مسلم تہذیب و تمدن کے زیر اثر مسلم برصغیر کا علمبردار بن کر ابھرا۔قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا اعزاز رکھتے تھے۔وہ شخص جو دادا بھائی نورو جی ،گوپال کرشن گھوکھلے اور موتی لال نہرو جیسے ہندو سیاست دانوں کے ہمراہ برصغیر کے سیاسی مستقبل کا حل تلاش کرتے کرتے محمد علی جوہر،میاں محمد شفیع اور علامہ اقبال کی سیاسی بصیرت کی شمع کا پروانہ بن کر ابھرا۔یہ فقط مسلم شناخت کا وہ ابدی نکتہ تھا جو مخلوط انتخاب سے جداگانہ انتخاب کی طرف مائل ہوا۔
گول میز کانفرنسز نے قائداعظم کے سامنے کانگریس کی ہندوتوا سیاست کے سب رنگ چاک کر کے رکھ دئیے جس کی عملی تعبیر1937میں کانگریسی وزارتوں کے ہندوازم کی احیا کے لئے کئے گئے اقدامات تھے جو مسلم شناخت کاہر قیمت پر خاتمہ تھا۔اس سلسلے میں پیر پوررپورٹ تاریخ کا حصہ ہے۔
قرداد لاہور برصغیر کے مسلم جمہور کاسواداعظم تھا جو ہر اس شناخت سے دوری تھی جو مسلم قومیت کےعلاوہ تھی۔قائداعظم کی سیادت میں ہر طرح کی مسلم نمائندگی یکجا تھی۔
جس میں مسلم زمیندار،مسلم تاجراور مسلم گدی نشین شامل ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی کی قیادت میں برصغیر کاعام مسلم بھی اس کارواں کا حصہ بن گیا۔اسی بات کو سب سے پہلے صوبہ سندھ نے اپنی اسمبلی میں شرف قبولیت بخشتے ہوئے اس شناخت کے تحت مملکت پاکستان کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔اسی مسلم شناخت سے متعلق قائداعظم کا مہاتما گاندھی کے نام ایک خط ملاحظہ ہو۔۔
Quaid-i-Azam’s letter to Mahatama M.K. Gandhi dated September 17, 1944, articulated the notion of Muslim nationhood in these words:
“We maintain and hold that Muslims and Hindus are two major nations by any definition or test of a nation. We are a nation of a hundred million, and what is more, we are a nation with our own distinctive culture and civilization, language and literature, art and architecture, names and nomenclature, sense of value and proportion, legal laws and moral codes, customs and calendar, history and traditions, aptitudes and ambitions-in short we have our own distinctive outlook on life and of life. By all cannons of international law we are a nation.”
صوبہ سندھ نے قیام پاکستان کا حصہ بنتے ہوئے اس مسلم شناخت کو جلا بخشی جس کے لئے سندھ کے اکابرین سر عبداللہ ہارون،غلام حسین ہدایت اللہ اور پیر الٰہی بخش شامل ہیں۔
بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسلامی سوشلزم کے تصور کے ساتھ اس شناخت کو برقرار رکھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو تو برملا سندھ دھرتی پر محمد بن قاسم کی آمد کو اپنی مسلم شناخت کے اسی تسلسل کے تناظر میں دیکھتی ہیں۔
سندھ کو باب الاسلام کہا جاتاہے اور برصغیر میں اسلام کی کرنیں یہیں سے پھوٹیں۔اور یہی اس دھرتی کی شناخت ہے۔اور ہیروز بھی اسی شناخت سے جڑے ہوتے ہیں۔
اسی شناخت سے جڑے تمدن،ثقافت اورہیروز سے متعلقہ قائداعظم کا ایک انگریز مصنف بیورلے نکولس کو دیا گیا انٹرویو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
اس نے قائداعظمؒ سے سوال کیا تھا ’’جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک الگ قوم ہیں تو کیا مذہب کے معنوں میں سوچ رہے ہوتے ہیں؟‘‘ اس پر بابائے قوم نے فرمایا تھا:
’’آپ یہ حقیقت کبھی نظر انداز نہ کریں کہ اسلام صرف نظامِ عبادات کا نام نہیں‘ یہ تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظام حیات دیتا ہے۔ میں زندگی کے معنوں میں سوچ رہا ہوں‘ میں زندگی کی ہر اہم چیز کے معنوں میں سوچ رہا ہوں‘ میں اپنی تاریخ ‘ اپنے ہیروز‘ اپنے آرٹ‘ اپنے فن تعمیر‘ اپنی موسیقی‘ اپنے قوانین‘ اپنے نظام عدل و انصاف کے معنوں میں سوچ رہا ہوں۔ ان تمام شعبوں میں ہمارا نقطۂ نظر نہ صرف ہندوئوں سے انقلابی طور پر مختلف ہے بلکہ بسا اوقات متصادم بھی ہے۔ ہماری اور ہندوئوں کی زندگی میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں بنیادی طور پر ہم رشتہ کرسکے۔ ہمارے نام‘ ہمارا لباس‘ ہماری خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہے‘ ہماری اقتصادی زندگی‘ ہمارے تعلیمی تصورات‘ جانوروں تک کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر۔ ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گائے کا ابدی مسئلہ لے لیں‘ ہم گائے کو کھاتے ہیں اور وہ اس کی عبادت کرتے ہیں۔‘‘ (انگریز دانشور بیورلے نکولس کی کتاب Verdict on India مطبوعہ 1944)
اردو ترجمہ۔۔”برطانوی ہند کا مستقبل”
مطبوعہ۔مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد
سندھ دھرتی کی اسی مسلم شناخت کا نتیجہ ہے کہ سندھیوں کے دلوں میں محمد بن قاسم ،لعل شہباز قلندر،شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سر مست ہیروز کی مانند بستے ہیں۔