Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
پنجاب حکومت کے تمام اداروں میں سب سے زیادہ محکمہ اعلا تعلیم کو حکومت کو شکایت ہے. پنجاب حکومت کے ملازم کالج اساتذہ ترقی کے معاملے میں سب سے پیچھے ہیں. ایسے اساتذہ بڑی تعداد میں موجود ہیں جنھیں ستائیس برسوں میں صرف ایک ترقی ملی ہے یعنی وہ گریڈ سترہ سے اٹھارہ میں پرموٹ ہوئے ہیں اور عرصہ دراز سے اگلے سکیل میں ترقی کے منتظر بیٹھے ہیں . اس سست روی کی مثال پنجاب کے کسی اور محکمے میں نہیں ملتی. پنجاب میں ساڑھے سات سو میل اور فی میل کالجز ہیں جن میں چھے ہزار سے زائد سیٹیں خالی پڑی ہیں.
اس صورت حال کی وضاحت کے لیے “آوازہ” نے ڈاکٹر طارق کلیم سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ پروفیسرز کی ترقی چار درجاتی فارمولے کے تحت ہوتی ہے. اس کا مطلب ہے کہ کہ ہر سو اساتذہ میں سے سنیارٹی کی بنیاد پر تین گریڈ بیس کے پروفیسرز ہوں گے. انیس، گریڈ انیس کے ایسوسی ایٹ پروفیسرز، چھتیس گریڈ اٹھارہ کے اسٹنٹ پروفیسرز اور بیالیس گریڈ سترہ کے لیکچررز ہوں گے . اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سیٹوں کی یہ تقسیم بری طرح متاثر ہوچکی ہے. ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو علم ہی نہیں کہ اس وقت کس سکیل کی کتنی سیٹیں ہونی چاہیں. کتنی خالی ہیں اور کتنی سیٹوں پر لوگ کام کررہے ہیں. اس نااہلی کی سزا پروفیسر کمیونٹی کو برداشت کرنا پڑتی ہے. کسی محکمے میں یہ صورت حال نہیں کہ کسی شخص کو ستائیس برس میں صرف ایک ترقی ملی ہو. ڈاکٹر طارق کلیم نے کہا کہ کسی بھی محکمے میں نہیں دکھایا جاسکتا کہ انیس سو تراونے میں بھرتی ہونے والا لیکچرر بھی اس وقت گریڈ اٹھارہ میں اسٹنٹ پروفیسر ہو اور دوہزار نو والا لیکچرر بھی گریڈ اٹھارہ میں ہو. یہ ظلم صرف محکمہ اعلا تعلیم ہی میں نظر آتا ہے.
محترمہ پروفیسر آمنہ منٹو جو اساتذہ حقوق کے حوالے سے بہت متحرک ہیں، انھوں نے “، آوازہ” کو بتایا کہ حکومت نے پرموشنز تو کیا کرنی ہیں ان کے پاس تو اسٹنٹ پروفیسرز کی سنیارٹی لسٹ ہی موجود نہیں. جب سنیارٹی لسٹ نہیں ہوگی تو پرموشنز ممکن نہیں. پروفیسر آمنہ منٹو نے کہا کہ میل اور فی میل کی سنیارٹی لسٹ علیحدہ بنتی ہے. میل سائڈ پر کچھ قانونی مسائل ہیں جن کی وجہ سے سنیارٹی لسٹ فائنل نہیں ہو پارہی مگر فیمیل میں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے وہاں سنیارٹی لسٹ کا فائنل نہ ہونا محکمانہ غفلت کے سوا اور کچھ نہیں . پروفیسر آمنہ منٹو نے کہا کہ دوہزار چودہ کے بعد سے گریڈ اٹھارہ والوں کی سنیارٹی لسٹ نہیں بن سکی جس کی وجہ سے اس وقت ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی دوہزار سے زیادہ سیٹیں خالی پڑی ہیں اور اتنے ہی لوگ پرموشنز کے لیے محکمے کی طرف دیکھ رہے ہیں. بے شمار پروفیسرز ایسے ہیں جو سولہ سولہ برس سے گریڈ اٹھارہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور صرف اس وجہ سے پرموشنز سے محروم ہیں کہ سنیارٹی لسٹ ہی موجود نہیں. حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ چار درجاتی فارمولے کو اس کی پوری روح کے ساتھ لاگو کرے. یہ وہ فارمولا ہے جس پر حکومت اور اساتذہ متفق ہوئے تھے اور ایک دور میں اس فارمولے کے مطابق ہی ترقیاں ہوتی تھیں مگر پچھلے کچھ عرصے سے محکمے نے اس فارمولے کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے. محکمے کی اس غفلت کی وجہ سے بے شمار لوگ ایک سکیل نیچے ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں. یعنی اصولاً گریڈ سترہ میں بھرتی ہونے والے کو پینتیس سال بعد گریڈ بیس میں ریٹائر ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہو رہا اور اکثر لوگ محکمانہ غفلت کی وجہ سے گریڈ انیس میں ریٹائر ہو جاتے ہیں. پچھلے چار برسوں کے دوران میں ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی ایک بڑی تعداد بیسویں گریڈ کی حسرت لیے ریٹائر ہوگئی. پروفیسر آمنہ منٹو نے کہا کہ اس وقت گریڈ بیس کی چھے سو میں سے آدھی سے زیادہ سیٹیں خالی ہیں جن پر پرموشن نہیں کی جارہی. جن چند لوگوں کو خدا خدا کر کے گریڈ بیس میں ترقی دی بھی گئی ہے وہ بیچارے بھی پوسٹنگ کے انتظار میں بیٹھے ہیں. آمنہ منٹو نے کہا کہ پروفیسرز باوقار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ دوسروں کی طرح ہڑتالیں کریں مگر حکومت کی نااہلی پروفیسرز کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کررہی ہے. آمنہ منٹو نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جن خواتین لیکچررز کی پروموشن ہوئی ہے ان کے جلد از جلد آرڈر جاری کیے جائیں اور ان کی اکھاڑ پچھاڑ کی بجائے انھیں ان کی موجودہ جگہ پر ہی تعینات کیا جائے.
پنجاب حکومت کے تمام اداروں میں سب سے زیادہ محکمہ اعلا تعلیم کو حکومت کو شکایت ہے. پنجاب حکومت کے ملازم کالج اساتذہ ترقی کے معاملے میں سب سے پیچھے ہیں. ایسے اساتذہ بڑی تعداد میں موجود ہیں جنھیں ستائیس برسوں میں صرف ایک ترقی ملی ہے یعنی وہ گریڈ سترہ سے اٹھارہ میں پرموٹ ہوئے ہیں اور عرصہ دراز سے اگلے سکیل میں ترقی کے منتظر بیٹھے ہیں . اس سست روی کی مثال پنجاب کے کسی اور محکمے میں نہیں ملتی. پنجاب میں ساڑھے سات سو میل اور فی میل کالجز ہیں جن میں چھے ہزار سے زائد سیٹیں خالی پڑی ہیں.
اس صورت حال کی وضاحت کے لیے “آوازہ” نے ڈاکٹر طارق کلیم سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ پروفیسرز کی ترقی چار درجاتی فارمولے کے تحت ہوتی ہے. اس کا مطلب ہے کہ کہ ہر سو اساتذہ میں سے سنیارٹی کی بنیاد پر تین گریڈ بیس کے پروفیسرز ہوں گے. انیس، گریڈ انیس کے ایسوسی ایٹ پروفیسرز، چھتیس گریڈ اٹھارہ کے اسٹنٹ پروفیسرز اور بیالیس گریڈ سترہ کے لیکچررز ہوں گے . اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سیٹوں کی یہ تقسیم بری طرح متاثر ہوچکی ہے. ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو علم ہی نہیں کہ اس وقت کس سکیل کی کتنی سیٹیں ہونی چاہیں. کتنی خالی ہیں اور کتنی سیٹوں پر لوگ کام کررہے ہیں. اس نااہلی کی سزا پروفیسر کمیونٹی کو برداشت کرنا پڑتی ہے. کسی محکمے میں یہ صورت حال نہیں کہ کسی شخص کو ستائیس برس میں صرف ایک ترقی ملی ہو. ڈاکٹر طارق کلیم نے کہا کہ کسی بھی محکمے میں نہیں دکھایا جاسکتا کہ انیس سو تراونے میں بھرتی ہونے والا لیکچرر بھی اس وقت گریڈ اٹھارہ میں اسٹنٹ پروفیسر ہو اور دوہزار نو والا لیکچرر بھی گریڈ اٹھارہ میں ہو. یہ ظلم صرف محکمہ اعلا تعلیم ہی میں نظر آتا ہے.
محترمہ پروفیسر آمنہ منٹو جو اساتذہ حقوق کے حوالے سے بہت متحرک ہیں، انھوں نے “، آوازہ” کو بتایا کہ حکومت نے پرموشنز تو کیا کرنی ہیں ان کے پاس تو اسٹنٹ پروفیسرز کی سنیارٹی لسٹ ہی موجود نہیں. جب سنیارٹی لسٹ نہیں ہوگی تو پرموشنز ممکن نہیں. پروفیسر آمنہ منٹو نے کہا کہ میل اور فی میل کی سنیارٹی لسٹ علیحدہ بنتی ہے. میل سائڈ پر کچھ قانونی مسائل ہیں جن کی وجہ سے سنیارٹی لسٹ فائنل نہیں ہو پارہی مگر فیمیل میں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے وہاں سنیارٹی لسٹ کا فائنل نہ ہونا محکمانہ غفلت کے سوا اور کچھ نہیں . پروفیسر آمنہ منٹو نے کہا کہ دوہزار چودہ کے بعد سے گریڈ اٹھارہ والوں کی سنیارٹی لسٹ نہیں بن سکی جس کی وجہ سے اس وقت ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی دوہزار سے زیادہ سیٹیں خالی پڑی ہیں اور اتنے ہی لوگ پرموشنز کے لیے محکمے کی طرف دیکھ رہے ہیں. بے شمار پروفیسرز ایسے ہیں جو سولہ سولہ برس سے گریڈ اٹھارہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور صرف اس وجہ سے پرموشنز سے محروم ہیں کہ سنیارٹی لسٹ ہی موجود نہیں. حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ چار درجاتی فارمولے کو اس کی پوری روح کے ساتھ لاگو کرے. یہ وہ فارمولا ہے جس پر حکومت اور اساتذہ متفق ہوئے تھے اور ایک دور میں اس فارمولے کے مطابق ہی ترقیاں ہوتی تھیں مگر پچھلے کچھ عرصے سے محکمے نے اس فارمولے کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے. محکمے کی اس غفلت کی وجہ سے بے شمار لوگ ایک سکیل نیچے ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں. یعنی اصولاً گریڈ سترہ میں بھرتی ہونے والے کو پینتیس سال بعد گریڈ بیس میں ریٹائر ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہو رہا اور اکثر لوگ محکمانہ غفلت کی وجہ سے گریڈ انیس میں ریٹائر ہو جاتے ہیں. پچھلے چار برسوں کے دوران میں ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی ایک بڑی تعداد بیسویں گریڈ کی حسرت لیے ریٹائر ہوگئی. پروفیسر آمنہ منٹو نے کہا کہ اس وقت گریڈ بیس کی چھے سو میں سے آدھی سے زیادہ سیٹیں خالی ہیں جن پر پرموشن نہیں کی جارہی. جن چند لوگوں کو خدا خدا کر کے گریڈ بیس میں ترقی دی بھی گئی ہے وہ بیچارے بھی پوسٹنگ کے انتظار میں بیٹھے ہیں. آمنہ منٹو نے کہا کہ پروفیسرز باوقار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ دوسروں کی طرح ہڑتالیں کریں مگر حکومت کی نااہلی پروفیسرز کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کررہی ہے. آمنہ منٹو نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جن خواتین لیکچررز کی پروموشن ہوئی ہے ان کے جلد از جلد آرڈر جاری کیے جائیں اور ان کی اکھاڑ پچھاڑ کی بجائے انھیں ان کی موجودہ جگہ پر ہی تعینات کیا جائے.
پنجاب حکومت کے تمام اداروں میں سب سے زیادہ محکمہ اعلا تعلیم کو حکومت کو شکایت ہے. پنجاب حکومت کے ملازم کالج اساتذہ ترقی کے معاملے میں سب سے پیچھے ہیں. ایسے اساتذہ بڑی تعداد میں موجود ہیں جنھیں ستائیس برسوں میں صرف ایک ترقی ملی ہے یعنی وہ گریڈ سترہ سے اٹھارہ میں پرموٹ ہوئے ہیں اور عرصہ دراز سے اگلے سکیل میں ترقی کے منتظر بیٹھے ہیں . اس سست روی کی مثال پنجاب کے کسی اور محکمے میں نہیں ملتی. پنجاب میں ساڑھے سات سو میل اور فی میل کالجز ہیں جن میں چھے ہزار سے زائد سیٹیں خالی پڑی ہیں.
اس صورت حال کی وضاحت کے لیے “آوازہ” نے ڈاکٹر طارق کلیم سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ پروفیسرز کی ترقی چار درجاتی فارمولے کے تحت ہوتی ہے. اس کا مطلب ہے کہ کہ ہر سو اساتذہ میں سے سنیارٹی کی بنیاد پر تین گریڈ بیس کے پروفیسرز ہوں گے. انیس، گریڈ انیس کے ایسوسی ایٹ پروفیسرز، چھتیس گریڈ اٹھارہ کے اسٹنٹ پروفیسرز اور بیالیس گریڈ سترہ کے لیکچررز ہوں گے . اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سیٹوں کی یہ تقسیم بری طرح متاثر ہوچکی ہے. ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو علم ہی نہیں کہ اس وقت کس سکیل کی کتنی سیٹیں ہونی چاہیں. کتنی خالی ہیں اور کتنی سیٹوں پر لوگ کام کررہے ہیں. اس نااہلی کی سزا پروفیسر کمیونٹی کو برداشت کرنا پڑتی ہے. کسی محکمے میں یہ صورت حال نہیں کہ کسی شخص کو ستائیس برس میں صرف ایک ترقی ملی ہو. ڈاکٹر طارق کلیم نے کہا کہ کسی بھی محکمے میں نہیں دکھایا جاسکتا کہ انیس سو تراونے میں بھرتی ہونے والا لیکچرر بھی اس وقت گریڈ اٹھارہ میں اسٹنٹ پروفیسر ہو اور دوہزار نو والا لیکچرر بھی گریڈ اٹھارہ میں ہو. یہ ظلم صرف محکمہ اعلا تعلیم ہی میں نظر آتا ہے.
محترمہ پروفیسر آمنہ منٹو جو اساتذہ حقوق کے حوالے سے بہت متحرک ہیں، انھوں نے “، آوازہ” کو بتایا کہ حکومت نے پرموشنز تو کیا کرنی ہیں ان کے پاس تو اسٹنٹ پروفیسرز کی سنیارٹی لسٹ ہی موجود نہیں. جب سنیارٹی لسٹ نہیں ہوگی تو پرموشنز ممکن نہیں. پروفیسر آمنہ منٹو نے کہا کہ میل اور فی میل کی سنیارٹی لسٹ علیحدہ بنتی ہے. میل سائڈ پر کچھ قانونی مسائل ہیں جن کی وجہ سے سنیارٹی لسٹ فائنل نہیں ہو پارہی مگر فیمیل میں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے وہاں سنیارٹی لسٹ کا فائنل نہ ہونا محکمانہ غفلت کے سوا اور کچھ نہیں . پروفیسر آمنہ منٹو نے کہا کہ دوہزار چودہ کے بعد سے گریڈ اٹھارہ والوں کی سنیارٹی لسٹ نہیں بن سکی جس کی وجہ سے اس وقت ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی دوہزار سے زیادہ سیٹیں خالی پڑی ہیں اور اتنے ہی لوگ پرموشنز کے لیے محکمے کی طرف دیکھ رہے ہیں. بے شمار پروفیسرز ایسے ہیں جو سولہ سولہ برس سے گریڈ اٹھارہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور صرف اس وجہ سے پرموشنز سے محروم ہیں کہ سنیارٹی لسٹ ہی موجود نہیں. حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ چار درجاتی فارمولے کو اس کی پوری روح کے ساتھ لاگو کرے. یہ وہ فارمولا ہے جس پر حکومت اور اساتذہ متفق ہوئے تھے اور ایک دور میں اس فارمولے کے مطابق ہی ترقیاں ہوتی تھیں مگر پچھلے کچھ عرصے سے محکمے نے اس فارمولے کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے. محکمے کی اس غفلت کی وجہ سے بے شمار لوگ ایک سکیل نیچے ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں. یعنی اصولاً گریڈ سترہ میں بھرتی ہونے والے کو پینتیس سال بعد گریڈ بیس میں ریٹائر ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہو رہا اور اکثر لوگ محکمانہ غفلت کی وجہ سے گریڈ انیس میں ریٹائر ہو جاتے ہیں. پچھلے چار برسوں کے دوران میں ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی ایک بڑی تعداد بیسویں گریڈ کی حسرت لیے ریٹائر ہوگئی. پروفیسر آمنہ منٹو نے کہا کہ اس وقت گریڈ بیس کی چھے سو میں سے آدھی سے زیادہ سیٹیں خالی ہیں جن پر پرموشن نہیں کی جارہی. جن چند لوگوں کو خدا خدا کر کے گریڈ بیس میں ترقی دی بھی گئی ہے وہ بیچارے بھی پوسٹنگ کے انتظار میں بیٹھے ہیں. آمنہ منٹو نے کہا کہ پروفیسرز باوقار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ دوسروں کی طرح ہڑتالیں کریں مگر حکومت کی نااہلی پروفیسرز کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کررہی ہے. آمنہ منٹو نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جن خواتین لیکچررز کی پروموشن ہوئی ہے ان کے جلد از جلد آرڈر جاری کیے جائیں اور ان کی اکھاڑ پچھاڑ کی بجائے انھیں ان کی موجودہ جگہ پر ہی تعینات کیا جائے.
پنجاب حکومت کے تمام اداروں میں سب سے زیادہ محکمہ اعلا تعلیم کو حکومت کو شکایت ہے. پنجاب حکومت کے ملازم کالج اساتذہ ترقی کے معاملے میں سب سے پیچھے ہیں. ایسے اساتذہ بڑی تعداد میں موجود ہیں جنھیں ستائیس برسوں میں صرف ایک ترقی ملی ہے یعنی وہ گریڈ سترہ سے اٹھارہ میں پرموٹ ہوئے ہیں اور عرصہ دراز سے اگلے سکیل میں ترقی کے منتظر بیٹھے ہیں . اس سست روی کی مثال پنجاب کے کسی اور محکمے میں نہیں ملتی. پنجاب میں ساڑھے سات سو میل اور فی میل کالجز ہیں جن میں چھے ہزار سے زائد سیٹیں خالی پڑی ہیں.
اس صورت حال کی وضاحت کے لیے “آوازہ” نے ڈاکٹر طارق کلیم سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ پروفیسرز کی ترقی چار درجاتی فارمولے کے تحت ہوتی ہے. اس کا مطلب ہے کہ کہ ہر سو اساتذہ میں سے سنیارٹی کی بنیاد پر تین گریڈ بیس کے پروفیسرز ہوں گے. انیس، گریڈ انیس کے ایسوسی ایٹ پروفیسرز، چھتیس گریڈ اٹھارہ کے اسٹنٹ پروفیسرز اور بیالیس گریڈ سترہ کے لیکچررز ہوں گے . اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سیٹوں کی یہ تقسیم بری طرح متاثر ہوچکی ہے. ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو علم ہی نہیں کہ اس وقت کس سکیل کی کتنی سیٹیں ہونی چاہیں. کتنی خالی ہیں اور کتنی سیٹوں پر لوگ کام کررہے ہیں. اس نااہلی کی سزا پروفیسر کمیونٹی کو برداشت کرنا پڑتی ہے. کسی محکمے میں یہ صورت حال نہیں کہ کسی شخص کو ستائیس برس میں صرف ایک ترقی ملی ہو. ڈاکٹر طارق کلیم نے کہا کہ کسی بھی محکمے میں نہیں دکھایا جاسکتا کہ انیس سو تراونے میں بھرتی ہونے والا لیکچرر بھی اس وقت گریڈ اٹھارہ میں اسٹنٹ پروفیسر ہو اور دوہزار نو والا لیکچرر بھی گریڈ اٹھارہ میں ہو. یہ ظلم صرف محکمہ اعلا تعلیم ہی میں نظر آتا ہے.
محترمہ پروفیسر آمنہ منٹو جو اساتذہ حقوق کے حوالے سے بہت متحرک ہیں، انھوں نے “، آوازہ” کو بتایا کہ حکومت نے پرموشنز تو کیا کرنی ہیں ان کے پاس تو اسٹنٹ پروفیسرز کی سنیارٹی لسٹ ہی موجود نہیں. جب سنیارٹی لسٹ نہیں ہوگی تو پرموشنز ممکن نہیں. پروفیسر آمنہ منٹو نے کہا کہ میل اور فی میل کی سنیارٹی لسٹ علیحدہ بنتی ہے. میل سائڈ پر کچھ قانونی مسائل ہیں جن کی وجہ سے سنیارٹی لسٹ فائنل نہیں ہو پارہی مگر فیمیل میں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے وہاں سنیارٹی لسٹ کا فائنل نہ ہونا محکمانہ غفلت کے سوا اور کچھ نہیں . پروفیسر آمنہ منٹو نے کہا کہ دوہزار چودہ کے بعد سے گریڈ اٹھارہ والوں کی سنیارٹی لسٹ نہیں بن سکی جس کی وجہ سے اس وقت ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی دوہزار سے زیادہ سیٹیں خالی پڑی ہیں اور اتنے ہی لوگ پرموشنز کے لیے محکمے کی طرف دیکھ رہے ہیں. بے شمار پروفیسرز ایسے ہیں جو سولہ سولہ برس سے گریڈ اٹھارہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور صرف اس وجہ سے پرموشنز سے محروم ہیں کہ سنیارٹی لسٹ ہی موجود نہیں. حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ چار درجاتی فارمولے کو اس کی پوری روح کے ساتھ لاگو کرے. یہ وہ فارمولا ہے جس پر حکومت اور اساتذہ متفق ہوئے تھے اور ایک دور میں اس فارمولے کے مطابق ہی ترقیاں ہوتی تھیں مگر پچھلے کچھ عرصے سے محکمے نے اس فارمولے کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے. محکمے کی اس غفلت کی وجہ سے بے شمار لوگ ایک سکیل نیچے ہی ریٹائر ہو جاتے ہیں. یعنی اصولاً گریڈ سترہ میں بھرتی ہونے والے کو پینتیس سال بعد گریڈ بیس میں ریٹائر ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہو رہا اور اکثر لوگ محکمانہ غفلت کی وجہ سے گریڈ انیس میں ریٹائر ہو جاتے ہیں. پچھلے چار برسوں کے دوران میں ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی ایک بڑی تعداد بیسویں گریڈ کی حسرت لیے ریٹائر ہوگئی. پروفیسر آمنہ منٹو نے کہا کہ اس وقت گریڈ بیس کی چھے سو میں سے آدھی سے زیادہ سیٹیں خالی ہیں جن پر پرموشن نہیں کی جارہی. جن چند لوگوں کو خدا خدا کر کے گریڈ بیس میں ترقی دی بھی گئی ہے وہ بیچارے بھی پوسٹنگ کے انتظار میں بیٹھے ہیں. آمنہ منٹو نے کہا کہ پروفیسرز باوقار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ دوسروں کی طرح ہڑتالیں کریں مگر حکومت کی نااہلی پروفیسرز کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کررہی ہے. آمنہ منٹو نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جن خواتین لیکچررز کی پروموشن ہوئی ہے ان کے جلد از جلد آرڈر جاری کیے جائیں اور ان کی اکھاڑ پچھاڑ کی بجائے انھیں ان کی موجودہ جگہ پر ہی تعینات کیا جائے.