عشرت معین سیما بنیادی طور پر ابلاغی سائینس کی طالب علم ہیں لیکن زمانہ طالب علمی سے ہی شعر و ادب سے گہری دل چسپی رہی ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ابلاغ عامہ کے طالب علموں کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں ذرائع ابلاغ میں جگہ بنانے اور شائع ہونے کا سلیقہ سیکھیں۔ اس مقصد کے لیے مختلف لوگ اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق طریقے اختیار کرتے ہیں، عشرت نے ادب کو راستہ بنایا اور خوب بنایا۔ آج وہ جرمنی میں پاکستانی ادب کی نمائندہ اور فروغ اردو کی تحریک کی سرخیل کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔
جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغ عامہ میں کبھی یہ خیال عام تھا کہ اس شعبے میں لڑکیوں کو نہیں آنا چاہئے کیوں کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم نہیں رکھتیں، اس طرح بہت سے ایسے حق دار جو اس شعبے میں آکر کچھ کر سکتے ہیں، ان کا نقصان ہوتا ہے لیکن عشرت نے اپنے عمل سے اس خیال کو غلط ثابت کیا، وہ صرف شعر و ادب میں ہی نہیں، ابلاغ عامہ کے بین الاقوامی منظر نامے پر نمایاں مقام رکھتی ہیں، یوں انھوں نے اپنی محنت اور لگن سے اپنے ملک ،اساتذہ اور احباب کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ ذیل میں ان کی ایک تازہ غزل شائع کی جارہی ہے جو انھوں نے خاص “آوازہ” کے لیے کہی۔ ہمیں فخر ہے کہ “آوازہ” کو ان کا قلمی تعاون حاصل ہے۔
***********
خود فریبی کی کسی حد کو نہیں مانتی ہے
قامتِ شوق کسی قد کو نہیں مانتی ہے
بوئے گل ہو کہ ہوا ہو کہ محبت کہ وبا
اتنی سرکش ہے کہ سرحد کو نہیں مانتی ہے
وہ اندھیروں کا پجاری تھا اسے کیا معلوم
روشنی رات کی آمد کو نہیں مانتی ہے
کوئی صورت دلِ آوارہ کی یہ بے چینی
کاخِ یاقوت کی مسند کو نہیں مانتی ہے
مسترد کرتے ہیں کچھ لوگ خدا کو بھی مگر
ایک دنیا ہے جو اس رد کو نہیں مانتی ہے
گھونسلہ شاخ سے گرتا ہے ہوا کے ہاتھوں
اُس ہی چڑیا کا جو برگد کو نہیں مانتی ہے
یہ ترا نام و نسب دل کے نہ کام آئے گا
یہ محبت ہے، کسی جد کو نہیں مانتی ہے
ایک سیلاب امنڈ آیا ہے دل میں سیما
تشنگی درد کے اس مد کو نہیں مانتی ہے