Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
کورونا خطرناک مرض ہے، تیزہ سے پھیلتا ہے، خطرنا مرض نہیں بس پھیلتا تیزی سے ہے، یہ دنیا کی آبادی کم کرنے کی ایک ہول ناک سازش ہے۔خبروں کے اس ہجوم میں عام آدمی پریشان ہے، وہ لوگ تو اور بھی پریشان ہیں جو اس موذی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں یا خدشہ ہے مبتلا ہو چکے ہیں۔اس صورت حال نے ماحول میں پریشانی اور خوف کا زہر گھول دیا ہے، ادیب اور شعر کی یہ پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تخلیقات کے ذریعے معاشرے کو حوصلہ دے۔ ڈاکٹر محمد کامران کی یہ نظم ناامیدی اور یاس کے ان دنوں میں حوصلے کی حیثیت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر محمد کامران قادر الکلام شاعر، محقق اور ادیب ہیں۔ ان دنوں جامعہ پنجاب ک شعبہ اردو سے منسلک ہیں، اس سے قبل وہ اسی شعبے کے صدر نشین بھی رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ہم ڈاکٹر صاحب کی محبت اور شفقت کے ممنون ہیں کہ انھوں نے “آوازہ”کو اپنی یہ نظم سب سے پہلے اشاعت کے لیے عطا کی۔ ہمیں ڈاکٹر صاحب کا قلمی تعاون مستقبل میں بھی حاصل رہے گا، انشااللہ۔ نظم ملاضظہ فرمائیے۔
”ابھی میرے جینے کے دن ہیں“
ابھی میرے جینے کے دن ہیں
ابھی دل اُمنگوں سے آباد ہے
ابھی زندگی کے کٸی ایسے رنگ اور کٸی ذاٸقے ہیں
جو اگلی گلی میں مرے منتظر ہیں
ابھی کتنی ہی بستیاں اور کتنے جزیرے مرے خواب میں آ رہے ہیں
ابھی میں نے دنیا کو تھوڑا سا دیکھا ہے
سمجھا نہیں ہے
ابھی میں نے اُس پیکرِحسن کو کھل کے دیکھا نہیں ہے
ابھی اُس کی آنکھوں کی حیرانیوں پر مری نظم پوری نہیں ہو سکی ہے
ابھی ریت مُٹھی سے پِھسلی نہیں ہے
ابھی زندگی مجھ سے روٹھی نہیں ہے
ابھی میرے جینے کے دن ہیں
ابھی میرے جینے کے دن ہیں