جرمنی کے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق جمعہ کے دن چوبیس گھنٹوں کے دوران تیس ہزار نئے کیسز درج کئے گئے ہیں، جو جرمنی میں کورونا کیسز کی اب تک سب سے بڑی تعداد ہےاور ایک نیا ریکارڈ ہے۔اس کے علاوہ کرونا وائرس کے تحت ایک دن میں پانچ سو اٹھانوے افراد کی ہلاکت بھی ایک تشویشناک ریکارڈ ہے۔ اس وقت کرونا کی وبا پھوٹنے کے بعد کسی ایک دن میں جرمنی میں ہلاکتوں کی بھی یورپ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ سرکاری اعلان کے مطابق جرمنی میں کووڈ ویکیسن کا استعمال آئندہ برس جنوری کے اوائل سے شروع کیا جائے گا۔
جرمنی کی حکومت اور رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کے تحت عوام سے مستقل درخواست کی جارہی ہے کہ وہ حفاظتی اقدامات کے تحت بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلیں۔ ماسک اور سینیٹائزر کا مستقل استعمال کریں اور ہاتھوں دن میں کئی بار کم از کم بیس سیکنڈ تک صابن سے ضرور دھوئیں۔ جرمنی کے صوبے زاکسن میں کرونا کے متاثرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ اس صوبے میں پناہ گزین کی ایک بڑی تعداد پناہ گزین کے طور پر مختلف ہاسٹلز میں مقیم ہے جہاں ان کو اپنے لیے حفاظتی اقدامات اور ہدایات سے مستقل آگاہی دی جارہی ہے۔ کرونا کی وبا نے برلن کی پاکستانی کمیونٹی کے افراد پر بھی جان لیوا حملہ کیا ہے۔ جرمنی کے مختلف صوبوں سے اس سلسلے میں اندوہ ناک اموات کی خبر نے پاکستانی کمیونٹی کو رنجیدہ و فکر مندکر دیا ہے۔
قوی امکان ہے کہ کرسمس کے موقع سے قبل ہی جرمن حکومت جزوی لاک ڈاؤن کو مکمل لاک ڈاؤن میں تبدیل کردے۔ جرمنی کے دارالحکومت نے کرسمس کے موقع پر بھی گھروں میں مختلف خاندان کے پانچ سے زائد افراد کے ملنے پہ پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ برانڈنبرگ اور دیگر صوبوں میں یہ تعداد دس افراد تک محدود ہے۔ اس سال روایتی کرسمس بازار نہایت کم لگائے گئے ہیں جن میں آنے والوں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ جب کہ کرسمس کے تہوار پر ہر تیسرا شخص آن لائین تحفے خریدنے اور اپنے پیاروں کو براہ راست ڈاک سے بھیج رہا ہے ۔