اپنے مرد کی نظروں میں “خاص” بننے کی فکر میں ہمیشہ بے چاری عورت کا ہی استحصال ہوتا رہا- عورت کی عمر بھر کی ریاضت بس مرد کے ایک جملے کی محتاج ہوتی ہے۔ خاص سے عام کا سرٹیفکیٹ لمحہ بھر میں جاری کر دیا جاتا ہے
عملی میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتی عورت اپنی ذاتی زندگی میں کوئی بھی بات کرنے سے پہلے، کسی بھی کام کے کرنے سے پہلے، اپنی سوچ کو بیان کرنے سے پہلے، جذبات کے اظہار سے پہلے یا کچھ برا لگے تو کھل کر شکوہ کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچتی ہے کہ کہیں اس کے ماتھے پر ایک “عام” سی شکوہ کرنے والی عورت کا لیبل نہ چسپاں کر دیا جائے۔ عورت اپنی عمر کا بہترین حصہ صرف اس عام و خاص کے پلڑوں والے ترازو میں تُلتے ہوئے گزار دیتی ہے- مرد کا جب دل کرتا ہے اپنی مرضی کے پلڑے میں باٹ رکھتا ہے اور عورت کو عام سے خاص کر دیتا ہے یا پھر خاص سے عام۔
ساری عمر عورت اسی ترازو میں تُلتی ہے، پلڑے اوپر نیچے ہوتے ہیں اور باٹ اِدھر سے اُدھر۔ مرد پھر بھی خوش نہیں ہوتا۔
یہ خاص و عام کے وزنی باٹ ایک عورت کی اصل قیمت کتنا گرا دیتے ہیں نا!!
عام سے خاص.. خاص سے عام.. سفر در سفر۔
ارے بھئی کیا خاص کیا عام؟
عورت تو بس عورت ہے- کھل کر جینا چاہتی ہے۔ اظہار کرنا چاہتی ہے۔
جب اسے اچھا لگتا ہے، ہنستی ہے مسکراتی ہے، کھلکھلاتی ہے، اٹھلاتی ہے۔
جب اسے کچھ برا لگتا ہے تو چیختی ہے چِلاّتی ہے، دھاڑیں مار مار کر روتی بھی ہے- سسکیاں بھی لیتی ہے – وہ روتی ہے، بولتی ہے، احتجاج کرتی ہے۔
لیکن یہ مرد بڑا ہی ظالم ہے۔ پہلے اس کو بہت “خاص” ہونے کی سریلی دھن سنا کر، اس کی سمجھ اور عقل و شعور کی تعریفوں کے پل باندھ دیتا ہے اور پھر اس کی سلجھی ہوئی فطرت کا ذکر کر کر کے اس کو آسن پر بٹھا دیتا ہے اور جب مرد پر یقین کر کے عورت مدتوں سے سختی سے بند اپنے دل کے دَر وا کرنا شروع کر دیتی ہے- اپنے خول سے باہر نکل آتی ہے۔ اپنا دکھ اپنی سوچ اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہے تو اس کو “تم بھی عام عورت جیسی ہو” کا طوق پہنا کر مانو سولی پر چڑھا دیتا ہے۔
خاص سے عام بننے کا سفر آسان نہیں ہوتا- مرد کے پاس بہترے راستے ہوتے ہیں لیکن عورت اسی راستے پر کھڑی رہ جاتی ہے۔ مرد آگے بڑھ جاتا ہے۔
خاص الخاص کا لقب حاصل کرنے کی تگ ودد میں عورت صبر کے گھونٹ پی کر ایک بار پھر چپ ہو جاتی ہے۔ یہ چُپ بھی کتنی قاتل ہوتی ہے- اپنے اندر سسکیوں کا طوفان لیے ہوتی ہے- لیکن خاص ہونے کی سند تھامے عورت خاموش ہو جاتی ہے-
ایک جاہل عورت شاید پڑھی لکھی عورت کے مقابلے میں زیادہ فائدے میں رہتی ہے کیونکہ جب اس کو کوئی چیز الجھاتی ہے تو کم از کم وہ چیخ و پکار کر کے اپنا موقف تو پیش کر دیتی ہے- اپنی بھڑاس بھی اچھی طرح باہر نکال لیتی ہے- جو محسوس کرتی ہے بول لیتی ہے، اپنے طریقے سے، اپنے انداز سے، کسی ڈر خوف کے بغیر کہ اس کو مرد سے جاہل ہونے کا طعنہ ملے گا تو بھی اس کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑنے والا کہ وہ ایسے بھی جاہل ہے اور ویسے بھی جاہل ہی ہے- اپنی شناخت بنانے اور پڑھے لکھے ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے کون سا اس نے پہاڑ توڑے- یا خود پر ایک قلعی چڑھا کر رکھی کہ وہ اتر جائے گی تو پھر کیا ہوگا-
ایک عام سی جاہل عورت ڈرتی نہیں کہ اس کو اپنی پہچان کی یا شناخت کی فکر نہیں ہوتی-
جاہل عورت کتنے فائدے میں ہوتی ہے نا!!!
دیکھا جائے تو ایک پڑھی لکھی عورت زیادہ مجبور و لاچار ہو جاتی ہے کہ وہ ایک عام عورت کی طرح سینہ کوبی نہیں کر سکتی- دو ہتڑ مار کر اپنا دکھ بیان نہیں کر پاتی- مرد کا گریبان پکڑ کر شکوہ نہیں کر سکتی، شکایت نہیں کر سکتی- اور تو اور اپنی آواز بھی اونچی نہیں کر سکتی کہ اونچا لہجہ بے ادبوں کی نشانی ہے- اور اگر وہ یہ سب کرنے کا صرف سوچ بھی لے تو اس کو فوراً “پڑھی لکھی جاہل عورت” ہونے کا طعنہ مل جاتا ہے- ساری عمر وہ اپنے پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دینے کے لیے گھٹ گھٹ کر جیتی رہتی ہے- بہت کچھ بولنا چاہتی ہے لیکن خاموش رہتی ہے کہ کہیں لفظ گرفت میں نہ آجائیں- کہیں اس کی ڈگریاں نہ گنوا دی جائیں اور اس کی قابلیت کو چولہے میں نہ جھونک دیا جائے- اور غلطی سے جہاں کوئی شکوہ اس کی زبان پر آ بھی گیا تو مرد سے فوراً اس کو یہ طعنہ مل جاتا ہے کہ….
” تم بھی عام عورت جیسی ہو”
ارے بھئی عورت تو عورت ہے نا…. کیا عام کیا خاص؟
اس کو بھڑکاؤ گے وہ بھڑکے گی، اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھو گے تو پھڑکے گی جو اس کو تڑپاؤ گے تو تڑپے گی-
عورت تو عورت ہی ہے نا!!!
جذبات سے گوندھی گئی-
محبت سے سینچی گئی-
نفرت سے مرجھاتی ہوئی-
تو جب کوئی احساس اس کو پریشان کرے تو کیا وہ اظہار نہ کرے؟
عورت محبت تو اپنےاندر روک لیتی ہے، چھپا لیتی ہے لیکن نفرت نہیں-
توجہ ملے تو کِھل جاتی ہے- جذبات کے اظہار کی کشمکش لیے کبھی کبھی کنی کترا کر بھی گزر جاتی ہے لیکن عورت کا ایک مسئلہ ہے-ایک عورت چاہے عام ہو یا خاص، نظرانداز ہونا برداشت نہیں کر پاتی-
شکوہ کر جاتی ہے- شکایتی ہو جاتی ہے- کچھ نہیں تو آنکھوں سے ہی بول جاتی ہے-
اگر وہ یہ سب نہ کرے تو کیسی عورت کہاں کی عورت؟
عورت “خاص” ہونے کا لیبل ماتھے پر سجا کر اپنے مرد کی ساری ضروریات پوری کرتی ہے- لیکن شکوہ کرتے ہی، احتجاج کرتے ہی، مرد کی کمزوری بیان کرتے ہی اس کی نظر میں ایک عام سی عورت بن جاتی ہے-
ہر عورت ایک بند سیپ کی مانند ہوتی ہے- بند عورت کو وقت کے ساتھ کھولنا آسان… لیکن تھوڑا کھل جانے کے بعد جب وہ واپس اپنی ذات کے خول میں بند ہونا شروع ہو جاتی ہے تو پھر اس کو پہلے کی طرح کھولنا بہت مشکل کام ہے-
عورت کو سمجھنا واقعی بہت مشکل ہے- ایک دفعہ کھل کر بند ہونا شروع ہوجائے تو پھر مرد اس کو دوبارہ کھلنے پر مجبور نہیں کر سکتا… عورت اگر اپنے مرد کو اپنی ذات کے خاص رنگ دکھا رہی ہو تو خود کو خوش نصیب سمجھتے ہوئے ان رنگوں کو جذب کرنے کا اہل بھی ثابت کرنا پڑتا ہے- ہر مرد کا اتنا ظرف نہیں ہوتا کہ وہ ان رنگوں کو جذب کر سکے اور اپنی زندگی میں سمیٹ سکے- عورت مرد کو اپنا سب کچھ مان کر اس پر اپنا آپ عیاں کرنا شروع کرتی ہے- لیکن مرد کے لیے عورت جب تک اپنی ذات میں بند ہے، وہ خاص ہے، تجسّس کے پردے پڑے رہیں تو مرد اس کی طرف متوجہ رہتا ہے- ایک کے بعد ایک نیا رنگ ملتا رہے تو خوش رہتا ہے-
لیکن عورت ساری زندگی مرد کو اس کے پسند کا رنگ دکھاتی ہے- لیکن جب مرد نے اپنی پسند کا ہر رنگ عورت میں دیکھ لیا تو بچا کیا؟
بس اب جہاں وہ کھل کر مرد کے مزاج سے الگ کوئی اور رنگ دکھا دے تو مرد برداشت نہیں کر پاتا،
پھر وہ خاص نہیں رہی، عام ہو گئی-
سوچنے کی بات یہ ہے کہ عورت اگر اپنے جذبات خود تک روک لے اور اپنی کسی بھی کیفیت کا اظہار نہ کرے تو مرد تو شاید اس کی گرد بھی نہ پا سکے-
جب تک عورت مرد کی ہر جاٸز نا جاٸز خواہشات پوری کرتی رہتی ہے وہ خاص رہتی ہے-
اور جہاں وہ اسکے سامنے سوال اٹھانا شروع کر دے، وضاحتیں طلب کرنا شروع کردے، وہ عام ہو جاتی ہے- مرد چڑنا شروع کر دیتا ہے، جان چھڑانا شروع کر دیتا ہے- مرد کو اپنا انتخاب غلط لگتا ہے اور وہ مزے سے بس ایک جملہ دے دیتا ہے-
تم بھی ایک عام سی عورت ہی ہو!!!
ایسے مرد کو ایک کام کرنا چاہیے کہ عورت کی جگہ ایک روبوٹ اپنے گھر میں، اپنی دنیا میں لا کر سجا لے کہ روبوٹ نہ تو شکوہ کرتا ہے اور نہ ہی برا مانتا ہے- نہ سسکتا ہے، نہ تڑپتا ہے- چپ چاپ سر جھکائے اپنے کام کیے جاتا ہے… کیے جاتا ہے!
لیکن…. روبوٹ اور عورت میں کچھ تو فرق ہے نا!!