Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25

کنوارے پن سے شادی تک کے سفر کو کوزے میں بند کرنا ہو تو کہہ لیجئے کہ بات لطیفوں سے وظیفوں تک آپہنچی ہے یا اگر یہ کہ لیا جائے تو یہ بھی غلط نہ ہو گا کہ یہ بات مرد کو شادی کے بعد ہی سمجھ آتی ہے کہ ہیرو اور ہیروئن کے ملتے ہی فلم کا خاتمہ کیوں ہوجاتا ہے تو یہ بھی غلط نہ ہو گا۔ پاکستانی عورتوں کی شرافت کی انتہا: وہ شوہر کو دیکھے بغیر شادی کر لیتی ہیں, اور شوہر کی شرافت کی انتہا: وہ خاتون کو بغیر میک اپ کے دیکھ کر بھی انکار نہیں کرتا. اس کے پیچھے وجہ بس یہی کہ مرد کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ بھی ہو تو بس بات بات پر منہ بنانے والی کی کمی جو رہتی ہے. اور عورت کو مسلسل ایک مرد الو بنانے کی کمی جو رہتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
شوہر وہ ہستی ہے۔ جس کو اسلام کا کچھ پتہ ہو نہ ہو یہ ضرور پتہ ہوتا، چار شادیاں کرنا اس کا حق ہے۔ اور بیوی وہ ہستی ہے جسے گھر گرہستی آتی ہو یا نہ آتی ہو، شوہر کی ٹھکائی بجائی اور پٹائی کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے، اس دنیا میں اچھا شوہر کسی کو نہیں ملتا ہے ۔بس شوہر کے رشتے داروں کو برا بنا کر ہی اسے اچھا بنایا جاتا ہے۔ ایک تحقیق یاد آگئی، جس کے مطابق دل کے امراض شادی شدہ لوگوں کو کم ہی ہوتے ہیں کیونکہ کے انھیں دماغی امراض سے چھٹکارا ہی نہیں ملتا۔
سنا ہے شوہر تو دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جو بنا کہیں دل کی بات سمجھ جاتے ہیں بات بات پر مسکراتے ہیں ہر خوشی غمی میں برابر کے حصے دار ہوتے ہیں جو دھوپ میں چھاؤں اور غمی سوکھ کے نہیں ہوتے ہیں اور دوسرے جو پاکستانی بیویوں کے پاس ہیں جو لونگ ڈرائیو کولانگ سفرنگ سمجھتے ہیں، دل کھول کر شاپنگ کروانے کو آ بیل مجھے مار سمجھتے ہیں، مووی دکھانے کو، امان خطرہ میں ڈالنے کے برابر سمجھتے ہیں۔ ہر جگہ کمانے کی بجائے بس باتوں میں گھماتے ہیں، اور تو اور برتھ ڈے کی بجائے ڈیٹھ دے زیادہ یاد رکھتے ہیں۔
اگر آپ عقل مند ہیں تو شوہروں کے تین بڑے سوالوں کے جواب دیں۔ پہلا پاکستانی شہروں کی سب سے بڑی پریشانی کیا ؟ جی مہنگائی ۔ ویسے جو آپ نے سوچا تھا، وہ سو فیصد ٹھیک تھا۔ دوسرا مرد سب سے زیادہ معافی کس سے مانگتے ہیں؟ جی فقیروں سے۔ جو آپ نے سوچا تھا وہ بھی ٹھیک ہے۔ تیسرا عشق میں مبتلا شخص کے نزدیک دنیا کی کل آبادی صرف ایک شخص ہے، اور شوہر کے نزدیک سارے مسئلے؟ جی گھرداری۔ کیا آپ گھر والی سمجھے تھے۔اگر سمجھے تھے تو ٹھیک سمجھے تھے۔
دیکھا جائے تو آج کل کی اولاد سے زیادہ شوہر فرمابردار ہیں، کام ختم ہوتے ہی، گھر آ جاتے ہیں۔ اور کبھی انہوں نے سوچا اپنی بیوی کو اپنی سو فیصد رقم دینے سے، دس فیصد سکون ملتا ہے۔ کسی دوسری کو دس فیصد دینے سے سوفیصد سکون ملتا ہے۔پیسہ آپ کا، فیصلہ آپ کا۔ شوہر اپنی بیوی کو مسکرا کر بھی دیکھے تو جواب ملتا ہے آج میں کچھ نہیں پکانے والی، اور یہی اگر کسی اور کو مسکرا کر دیکھو تو زندگی میں ایک نئی کک ملتی ہے، مسکراہٹ آپکی فیصلہ اپکا، اپنی بیوی کو شعر وشاعری سنائی جائے تو آگے سے سوجھا ہوا چہرہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے، کسی اور کو سناؤ تو وہاں مسکراہٹ کے ساتھ فون نمبر مل سکتا ہے۔ اور گھر میں میک اپ لانا ایسے ہی ہے جیسے پرانی کرولا کی ڈینٹنگ پینٹنگ، وہی میک اپ کسی اور کو دینا مراد اڑن کھٹولہ بھائی اڑن کھٹولہ اور ویسے بھی شوہر کو بیوی کی قدر صرف اس وقت محسوس ہوتی ہے جب پارک کے باہر گارڈ روک کے کہتا ہے فیملی کے بغیر اندر جانے کی اجازت نہیں۔ تو دماغ آپ کا فیصلہ اپکا۔ نیز لکھاری آنے والے واقعات و حادثات سے بری الذمہ سمجھا جائے گا۔

کنوارے پن سے شادی تک کے سفر کو کوزے میں بند کرنا ہو تو کہہ لیجئے کہ بات لطیفوں سے وظیفوں تک آپہنچی ہے یا اگر یہ کہ لیا جائے تو یہ بھی غلط نہ ہو گا کہ یہ بات مرد کو شادی کے بعد ہی سمجھ آتی ہے کہ ہیرو اور ہیروئن کے ملتے ہی فلم کا خاتمہ کیوں ہوجاتا ہے تو یہ بھی غلط نہ ہو گا۔ پاکستانی عورتوں کی شرافت کی انتہا: وہ شوہر کو دیکھے بغیر شادی کر لیتی ہیں, اور شوہر کی شرافت کی انتہا: وہ خاتون کو بغیر میک اپ کے دیکھ کر بھی انکار نہیں کرتا. اس کے پیچھے وجہ بس یہی کہ مرد کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ بھی ہو تو بس بات بات پر منہ بنانے والی کی کمی جو رہتی ہے. اور عورت کو مسلسل ایک مرد الو بنانے کی کمی جو رہتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
شوہر وہ ہستی ہے۔ جس کو اسلام کا کچھ پتہ ہو نہ ہو یہ ضرور پتہ ہوتا، چار شادیاں کرنا اس کا حق ہے۔ اور بیوی وہ ہستی ہے جسے گھر گرہستی آتی ہو یا نہ آتی ہو، شوہر کی ٹھکائی بجائی اور پٹائی کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے، اس دنیا میں اچھا شوہر کسی کو نہیں ملتا ہے ۔بس شوہر کے رشتے داروں کو برا بنا کر ہی اسے اچھا بنایا جاتا ہے۔ ایک تحقیق یاد آگئی، جس کے مطابق دل کے امراض شادی شدہ لوگوں کو کم ہی ہوتے ہیں کیونکہ کے انھیں دماغی امراض سے چھٹکارا ہی نہیں ملتا۔
سنا ہے شوہر تو دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جو بنا کہیں دل کی بات سمجھ جاتے ہیں بات بات پر مسکراتے ہیں ہر خوشی غمی میں برابر کے حصے دار ہوتے ہیں جو دھوپ میں چھاؤں اور غمی سوکھ کے نہیں ہوتے ہیں اور دوسرے جو پاکستانی بیویوں کے پاس ہیں جو لونگ ڈرائیو کولانگ سفرنگ سمجھتے ہیں، دل کھول کر شاپنگ کروانے کو آ بیل مجھے مار سمجھتے ہیں، مووی دکھانے کو، امان خطرہ میں ڈالنے کے برابر سمجھتے ہیں۔ ہر جگہ کمانے کی بجائے بس باتوں میں گھماتے ہیں، اور تو اور برتھ ڈے کی بجائے ڈیٹھ دے زیادہ یاد رکھتے ہیں۔
اگر آپ عقل مند ہیں تو شوہروں کے تین بڑے سوالوں کے جواب دیں۔ پہلا پاکستانی شہروں کی سب سے بڑی پریشانی کیا ؟ جی مہنگائی ۔ ویسے جو آپ نے سوچا تھا، وہ سو فیصد ٹھیک تھا۔ دوسرا مرد سب سے زیادہ معافی کس سے مانگتے ہیں؟ جی فقیروں سے۔ جو آپ نے سوچا تھا وہ بھی ٹھیک ہے۔ تیسرا عشق میں مبتلا شخص کے نزدیک دنیا کی کل آبادی صرف ایک شخص ہے، اور شوہر کے نزدیک سارے مسئلے؟ جی گھرداری۔ کیا آپ گھر والی سمجھے تھے۔اگر سمجھے تھے تو ٹھیک سمجھے تھے۔
دیکھا جائے تو آج کل کی اولاد سے زیادہ شوہر فرمابردار ہیں، کام ختم ہوتے ہی، گھر آ جاتے ہیں۔ اور کبھی انہوں نے سوچا اپنی بیوی کو اپنی سو فیصد رقم دینے سے، دس فیصد سکون ملتا ہے۔ کسی دوسری کو دس فیصد دینے سے سوفیصد سکون ملتا ہے۔پیسہ آپ کا، فیصلہ آپ کا۔ شوہر اپنی بیوی کو مسکرا کر بھی دیکھے تو جواب ملتا ہے آج میں کچھ نہیں پکانے والی، اور یہی اگر کسی اور کو مسکرا کر دیکھو تو زندگی میں ایک نئی کک ملتی ہے، مسکراہٹ آپکی فیصلہ اپکا، اپنی بیوی کو شعر وشاعری سنائی جائے تو آگے سے سوجھا ہوا چہرہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے، کسی اور کو سناؤ تو وہاں مسکراہٹ کے ساتھ فون نمبر مل سکتا ہے۔ اور گھر میں میک اپ لانا ایسے ہی ہے جیسے پرانی کرولا کی ڈینٹنگ پینٹنگ، وہی میک اپ کسی اور کو دینا مراد اڑن کھٹولہ بھائی اڑن کھٹولہ اور ویسے بھی شوہر کو بیوی کی قدر صرف اس وقت محسوس ہوتی ہے جب پارک کے باہر گارڈ روک کے کہتا ہے فیملی کے بغیر اندر جانے کی اجازت نہیں۔ تو دماغ آپ کا فیصلہ اپکا۔ نیز لکھاری آنے والے واقعات و حادثات سے بری الذمہ سمجھا جائے گا۔

کنوارے پن سے شادی تک کے سفر کو کوزے میں بند کرنا ہو تو کہہ لیجئے کہ بات لطیفوں سے وظیفوں تک آپہنچی ہے یا اگر یہ کہ لیا جائے تو یہ بھی غلط نہ ہو گا کہ یہ بات مرد کو شادی کے بعد ہی سمجھ آتی ہے کہ ہیرو اور ہیروئن کے ملتے ہی فلم کا خاتمہ کیوں ہوجاتا ہے تو یہ بھی غلط نہ ہو گا۔ پاکستانی عورتوں کی شرافت کی انتہا: وہ شوہر کو دیکھے بغیر شادی کر لیتی ہیں, اور شوہر کی شرافت کی انتہا: وہ خاتون کو بغیر میک اپ کے دیکھ کر بھی انکار نہیں کرتا. اس کے پیچھے وجہ بس یہی کہ مرد کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ بھی ہو تو بس بات بات پر منہ بنانے والی کی کمی جو رہتی ہے. اور عورت کو مسلسل ایک مرد الو بنانے کی کمی جو رہتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
شوہر وہ ہستی ہے۔ جس کو اسلام کا کچھ پتہ ہو نہ ہو یہ ضرور پتہ ہوتا، چار شادیاں کرنا اس کا حق ہے۔ اور بیوی وہ ہستی ہے جسے گھر گرہستی آتی ہو یا نہ آتی ہو، شوہر کی ٹھکائی بجائی اور پٹائی کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے، اس دنیا میں اچھا شوہر کسی کو نہیں ملتا ہے ۔بس شوہر کے رشتے داروں کو برا بنا کر ہی اسے اچھا بنایا جاتا ہے۔ ایک تحقیق یاد آگئی، جس کے مطابق دل کے امراض شادی شدہ لوگوں کو کم ہی ہوتے ہیں کیونکہ کے انھیں دماغی امراض سے چھٹکارا ہی نہیں ملتا۔
سنا ہے شوہر تو دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جو بنا کہیں دل کی بات سمجھ جاتے ہیں بات بات پر مسکراتے ہیں ہر خوشی غمی میں برابر کے حصے دار ہوتے ہیں جو دھوپ میں چھاؤں اور غمی سوکھ کے نہیں ہوتے ہیں اور دوسرے جو پاکستانی بیویوں کے پاس ہیں جو لونگ ڈرائیو کولانگ سفرنگ سمجھتے ہیں، دل کھول کر شاپنگ کروانے کو آ بیل مجھے مار سمجھتے ہیں، مووی دکھانے کو، امان خطرہ میں ڈالنے کے برابر سمجھتے ہیں۔ ہر جگہ کمانے کی بجائے بس باتوں میں گھماتے ہیں، اور تو اور برتھ ڈے کی بجائے ڈیٹھ دے زیادہ یاد رکھتے ہیں۔
اگر آپ عقل مند ہیں تو شوہروں کے تین بڑے سوالوں کے جواب دیں۔ پہلا پاکستانی شہروں کی سب سے بڑی پریشانی کیا ؟ جی مہنگائی ۔ ویسے جو آپ نے سوچا تھا، وہ سو فیصد ٹھیک تھا۔ دوسرا مرد سب سے زیادہ معافی کس سے مانگتے ہیں؟ جی فقیروں سے۔ جو آپ نے سوچا تھا وہ بھی ٹھیک ہے۔ تیسرا عشق میں مبتلا شخص کے نزدیک دنیا کی کل آبادی صرف ایک شخص ہے، اور شوہر کے نزدیک سارے مسئلے؟ جی گھرداری۔ کیا آپ گھر والی سمجھے تھے۔اگر سمجھے تھے تو ٹھیک سمجھے تھے۔
دیکھا جائے تو آج کل کی اولاد سے زیادہ شوہر فرمابردار ہیں، کام ختم ہوتے ہی، گھر آ جاتے ہیں۔ اور کبھی انہوں نے سوچا اپنی بیوی کو اپنی سو فیصد رقم دینے سے، دس فیصد سکون ملتا ہے۔ کسی دوسری کو دس فیصد دینے سے سوفیصد سکون ملتا ہے۔پیسہ آپ کا، فیصلہ آپ کا۔ شوہر اپنی بیوی کو مسکرا کر بھی دیکھے تو جواب ملتا ہے آج میں کچھ نہیں پکانے والی، اور یہی اگر کسی اور کو مسکرا کر دیکھو تو زندگی میں ایک نئی کک ملتی ہے، مسکراہٹ آپکی فیصلہ اپکا، اپنی بیوی کو شعر وشاعری سنائی جائے تو آگے سے سوجھا ہوا چہرہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے، کسی اور کو سناؤ تو وہاں مسکراہٹ کے ساتھ فون نمبر مل سکتا ہے۔ اور گھر میں میک اپ لانا ایسے ہی ہے جیسے پرانی کرولا کی ڈینٹنگ پینٹنگ، وہی میک اپ کسی اور کو دینا مراد اڑن کھٹولہ بھائی اڑن کھٹولہ اور ویسے بھی شوہر کو بیوی کی قدر صرف اس وقت محسوس ہوتی ہے جب پارک کے باہر گارڈ روک کے کہتا ہے فیملی کے بغیر اندر جانے کی اجازت نہیں۔ تو دماغ آپ کا فیصلہ اپکا۔ نیز لکھاری آنے والے واقعات و حادثات سے بری الذمہ سمجھا جائے گا۔

کنوارے پن سے شادی تک کے سفر کو کوزے میں بند کرنا ہو تو کہہ لیجئے کہ بات لطیفوں سے وظیفوں تک آپہنچی ہے یا اگر یہ کہ لیا جائے تو یہ بھی غلط نہ ہو گا کہ یہ بات مرد کو شادی کے بعد ہی سمجھ آتی ہے کہ ہیرو اور ہیروئن کے ملتے ہی فلم کا خاتمہ کیوں ہوجاتا ہے تو یہ بھی غلط نہ ہو گا۔ پاکستانی عورتوں کی شرافت کی انتہا: وہ شوہر کو دیکھے بغیر شادی کر لیتی ہیں, اور شوہر کی شرافت کی انتہا: وہ خاتون کو بغیر میک اپ کے دیکھ کر بھی انکار نہیں کرتا. اس کے پیچھے وجہ بس یہی کہ مرد کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ بھی ہو تو بس بات بات پر منہ بنانے والی کی کمی جو رہتی ہے. اور عورت کو مسلسل ایک مرد الو بنانے کی کمی جو رہتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔
شوہر وہ ہستی ہے۔ جس کو اسلام کا کچھ پتہ ہو نہ ہو یہ ضرور پتہ ہوتا، چار شادیاں کرنا اس کا حق ہے۔ اور بیوی وہ ہستی ہے جسے گھر گرہستی آتی ہو یا نہ آتی ہو، شوہر کی ٹھکائی بجائی اور پٹائی کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے، اس دنیا میں اچھا شوہر کسی کو نہیں ملتا ہے ۔بس شوہر کے رشتے داروں کو برا بنا کر ہی اسے اچھا بنایا جاتا ہے۔ ایک تحقیق یاد آگئی، جس کے مطابق دل کے امراض شادی شدہ لوگوں کو کم ہی ہوتے ہیں کیونکہ کے انھیں دماغی امراض سے چھٹکارا ہی نہیں ملتا۔
سنا ہے شوہر تو دو طرح کے ہوتے ہیں ایک جو بنا کہیں دل کی بات سمجھ جاتے ہیں بات بات پر مسکراتے ہیں ہر خوشی غمی میں برابر کے حصے دار ہوتے ہیں جو دھوپ میں چھاؤں اور غمی سوکھ کے نہیں ہوتے ہیں اور دوسرے جو پاکستانی بیویوں کے پاس ہیں جو لونگ ڈرائیو کولانگ سفرنگ سمجھتے ہیں، دل کھول کر شاپنگ کروانے کو آ بیل مجھے مار سمجھتے ہیں، مووی دکھانے کو، امان خطرہ میں ڈالنے کے برابر سمجھتے ہیں۔ ہر جگہ کمانے کی بجائے بس باتوں میں گھماتے ہیں، اور تو اور برتھ ڈے کی بجائے ڈیٹھ دے زیادہ یاد رکھتے ہیں۔
اگر آپ عقل مند ہیں تو شوہروں کے تین بڑے سوالوں کے جواب دیں۔ پہلا پاکستانی شہروں کی سب سے بڑی پریشانی کیا ؟ جی مہنگائی ۔ ویسے جو آپ نے سوچا تھا، وہ سو فیصد ٹھیک تھا۔ دوسرا مرد سب سے زیادہ معافی کس سے مانگتے ہیں؟ جی فقیروں سے۔ جو آپ نے سوچا تھا وہ بھی ٹھیک ہے۔ تیسرا عشق میں مبتلا شخص کے نزدیک دنیا کی کل آبادی صرف ایک شخص ہے، اور شوہر کے نزدیک سارے مسئلے؟ جی گھرداری۔ کیا آپ گھر والی سمجھے تھے۔اگر سمجھے تھے تو ٹھیک سمجھے تھے۔
دیکھا جائے تو آج کل کی اولاد سے زیادہ شوہر فرمابردار ہیں، کام ختم ہوتے ہی، گھر آ جاتے ہیں۔ اور کبھی انہوں نے سوچا اپنی بیوی کو اپنی سو فیصد رقم دینے سے، دس فیصد سکون ملتا ہے۔ کسی دوسری کو دس فیصد دینے سے سوفیصد سکون ملتا ہے۔پیسہ آپ کا، فیصلہ آپ کا۔ شوہر اپنی بیوی کو مسکرا کر بھی دیکھے تو جواب ملتا ہے آج میں کچھ نہیں پکانے والی، اور یہی اگر کسی اور کو مسکرا کر دیکھو تو زندگی میں ایک نئی کک ملتی ہے، مسکراہٹ آپکی فیصلہ اپکا، اپنی بیوی کو شعر وشاعری سنائی جائے تو آگے سے سوجھا ہوا چہرہ ہی دیکھنے کو ملتا ہے، کسی اور کو سناؤ تو وہاں مسکراہٹ کے ساتھ فون نمبر مل سکتا ہے۔ اور گھر میں میک اپ لانا ایسے ہی ہے جیسے پرانی کرولا کی ڈینٹنگ پینٹنگ، وہی میک اپ کسی اور کو دینا مراد اڑن کھٹولہ بھائی اڑن کھٹولہ اور ویسے بھی شوہر کو بیوی کی قدر صرف اس وقت محسوس ہوتی ہے جب پارک کے باہر گارڈ روک کے کہتا ہے فیملی کے بغیر اندر جانے کی اجازت نہیں۔ تو دماغ آپ کا فیصلہ اپکا۔ نیز لکھاری آنے والے واقعات و حادثات سے بری الذمہ سمجھا جائے گا۔