دروازے پر دستک دیتے ہوئے سمن شاہ چائے کا کپ لے کر کمرے میں داخل ہوئیں،
“بیڈ ٹی تو لیتی ہونگی آپ ؟
سمن نے صبح بخیر کہہ کر چائے کا کپ مجھے تھما دیا ۔ میں نے شکریہ کہہ کر چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا کہ واقعی اس وقت چائے کی طلب تھی لیکن میں بیڈ ٹی وغیرہ نہیں لیتی ہوں بلکہ کچن میں صبح سب کے لنچ بکس تیار کرتے کرتے بلیک ٹی کا ایک کپ ضرور پی لیتی ہوں۔ ہم کچھ دیر تک وہیں کمرے میں بات چیت کرتے رہے ۔ مجھے برابر کے کمرے سے بچوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں نے سمن سے ان کے بچوں کی تعداد دریافت کرنا چاہی ہی تھی کہ ایک سات آٹھ سال کی سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والی بچی نے کمرے میں جھانک کر سمن سے کچھ کہا، سمن شاہ معذرت کرتی ہوئی برابر والے کمرے میں گئیں وہاں ایک تقریباً دس برس کا گورا لڑکا فرانسسی زبان میں سمن سے اس بچی کی بابت کچھ کہہ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ اس بچی کی کوئی شکایت کر رہا ہے۔ میں نے متجسس ہوکر باہر جھانکا، وہ رات والا لڑکا بچوں کو کچھ تنبیہ کر رہا تھا سمن نے پیار سے اس بچی اور دس سالہ لڑکے کا ہاتھ پکڑ کر کچھ فرانسسی زبان میں سمجھایا اور اپنے ساتھ نیچے لے کر چلی گئیں۔ میں راہداری سے یہ منظر دیکھنے کے بعد واپس اپنے کمرے میں آئی ہی تھی کہ دائیں جانب ایک کمرے سے باہر نکل کر آنے والی ایک بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت سی پاکستانی لڑکی نے مجھے سلام کیا اور شستہ اردو میں خوش آمدید کہتے ہوئے پوچھا کہ میرا سفر کیسا رہا ؟ رات مجھے اچھی نیند آئی کہ نہیں؟ ابھی میں سوالوں کا جواب دے ہی رہی تھی کہ سمن شاہ دوبارہ اوپر آئیں اور میرے کمرے میں داخل ہوتے ہی اپنی بیٹی کا تعارف کروایا اور یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ ان کے گھر میں وہ رات والا لڑکا اور یہ فرانسسی بچے دراصل ان کے لے پالک بچے ہیں ۔ وہ سوشل ورکر ہیں اور گھریلو مسائل کے شکار بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری بطور پیشہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ٹوٹے ہوئے خاندانوں کے یہ بچے یورپ میں ماں اور باپ سے شاکی ہوکر گھر چھوڑ دیتے ہیں یا سرکار انہیں اپنی سر پرستی میں لے کر شہر کے معتبر اور معزز گھرانوں میں تربیت کے لیے رکھتی ہے۔ سماجی تنظیموں اور رفاحی اداروں کے تحت یہ بچے کسی نفسیاتی دباؤ اور زبردستی کئے بغیر ایسے گھرانوں میں بھیجے جاتے ہیں جہاں وہ آزادی سے اپنے بنیادی حقوق پاسکیں اور جذبات کی تسکین پا کر بھی ایک اچھے شہری بنیں۔ اس ضمن میں تربیت کرنے والے خاندانوں کی اچھی طرح چھان پٹک کر کے انہیں تربیتی والدین یا نگہبان خاندان کا لائسنس دیا جاتا ہے۔ بچوں کی عمر اور تعداد کے مطابق ان کی رہائش گاہ بھی مطلوبہ سائز اور علاقے میں ہونا ضروری ہیں تاکہ بچے اپنے اسکول اور کھیل کود یا مشاغل سے دور نہ ہوں اور ان کے رہنے ، کھانے پینے اور تعلیم و تربیت میں کسی بھی طرح کی کمی کی گنجائش نہ ہو۔ فرانس میں بھی جرمنی کی طرح یہاں پلنے والے نوجوانوں اور بچوں کی نگہداشت و تربیت کے لیے باقائدہ سماجی بہبود کے قوانین میں نہایت سختی ہے۔ سماجی سطح پر ایسے اداروں اور خاندانوں کا انتخاب وزارت داخلہ کے تحت سرکاری محکمہ براہ فلاح بہبود اور بچوں و نوجوانوں کی نگہداشت” کے زمرے میں آتا ہے۔ بحیثیت مترجم میرا بھی اکثر ایسے کئی پلیٹ فارم پر پاکستانی خاندانوں سے ابلاغی رابطہ رہتا ہے جہاں بچوں کی تربیت میں کمی یا ان کی نگہداشت کے حوالے سے کوئی ایسی خبر سامنے آئے جہاں سرکار ان کی تربیت سے غیر مطمئن ہوکر بچوں کو ان کے اصل والدین سے لے کر اداروں یا نگہبان خاندان کے سپرد کر دیتی ہے۔
مالی طور پر بچے کی تربیت اور تعلیم کے لیے یورپ بھر میں ہر خاندان کو معینہ امداد دی جاتی ہے۔ تاکہ نسل نو کی تعلیم و تربیت میں کسی طرح کی کمی نہ رہے۔ لیکن جب بچوں کو ان کے گھروں میں استحصال یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو حقیقی والدین سے وہ بچے زبردستی لے کر ایسے خاندانوں میں تحفظ کے لیے دے دیے جاتے ہیں جو بچوں کی پرورش کے حوالے سے معروف ہونے کے ساتھ ساتھ لائسنس یافتہ بھی ہوں۔ ایسے بچے کی تربیت عموماً مشکل ترین کام ہوتا ہے۔ لیکن سلام ہے سمن شاہ کو کہ وہ یہ کام گذشتہ کئی سالوں سے کر رہی ہیں اور کئی بچوں کو بڑا کر کے عملی زندگی میں کامیاب انسان بنا چکی ہیں۔ وہ بڑا لڑکا جس کو رات انہوں نے اپنا بیٹا بتایا تھا وہ بھی بہت کم عمری سے ان کے پاس پلا تھا اور بالغ ہونے کے باوجود وہ سمن شاہ کے خاندان سے الگ نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس لڑکے کی گھر کے فرد جیسی حیثیت اور سمن شاہ کے لیے فرمانبردار بیٹے جیسی محبت دیکھ کر میں بہت متاثر ہوئی اور سمن کا احترام دل میں مذید بڑھ گیا۔
ہم ناشتے کی میز پر ایک دوسرے سے متعارف ہوئے ۔ سمن شاہ کی بیٹی نے مترجم کے فرائض ادا کئے ۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد سمن نے ناشتے کے بعد جلدی جلدی دوپہر کا کھانا تیار کیا ان کے منہ بولے بیٹے نے پروگرام کے لیے تکنیکی کاموں کی مشق کی ۔ چھوٹے بچے باغ میں کھیلتے رہے ۔ سمن نے بتایا کہ وہ پروگرام کی تیاری کے لیے دو تین گھنٹے پہلے چلی جائیں گی اور میں ان کی بیٹی کے ساتھ ہال پہنچونگی ۔