مطالعہ کرنا ایک فن ہے۔ اور شاہین نما طلبہ اسے FUN ہی سمجھتے ہیں۔ یہ ”ڈارون“ کی تھیوری کے مرکزی کردار ”بندر“ کی جیسی حرکات دوران پڑھائی کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان کے مطابق ذہن ایک برمودا ٹرائی اینگل ہے۔ جہاں انفارمیشن جاتی تو ہے پر واپس نہیں آتی ہے۔ انہیں اکثر دماغ سے خصوصاً شکایت رہتی ہے ۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ دماغ ایک ایسا جسمانی اعضاء ہے، جو انسان کے پیدا ہوتے ہی کام کرنے لگ جاتا ہے۔ جاگتے اور سوتے میں بھی کام کرتا ہے۔ دن میں 24 گھنٹے کام کرتا ہے۔ ہفتہ میں 7دن کام کرتا ہے۔ مہینہ میں 30دن کام کرتا ہے۔ سال میں 365دن کام کرتا ہے۔ پر کم بخت جیسے ہی کمرہ امتحان میں داخل ہوتا ہے، کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ہمیں اس حالت پر خاصا رحم بھی آیا۔ ایسے شاہین نما سٹوڈنٹس کا مقدر عموماً فیل ہونا ہوتا ہے۔ عقل و دانش سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ان کا۔ پورا تعلیمی سال ایک دیوانگی سی ان پر طاری ہوتی ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ میں ”جیسے شیطان نے چھو لیا ہو“۔ عمل اور اخلاق کم و بیش ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور رزلٹ والے دن ان کا لہجہ اور لفظ ٹوٹ گئے ہوتے ہیں۔ اور چہرے کا رنگ زرد ہوتا ہے۔ ان علامات کی مدد سے آپ شاہین نما سٹوڈنٹس کو بآسانی بھانپ سکتے ہیں۔
انہی شاہین نما سٹوڈنٹس کی کچھ علمی کاوشیں جو ہم نے دیکھیں اور سنیں اور خاصا لطف اندوز ہوئے، آپ کے لیے پیش کرتا ہوں۔ ایسا ہی ایک شاہین بچہ غلطی سے پڑھ لکھ کر M.B.A کی ڈگری لے کر ایک کمپنی کو درخواست برائے نوکری لکھتا ہے۔ ملاحضہ ہو ذرا درخواست۔
”میں آپ کی مینجمنٹ کے مینجر کی موت پر افسردہ ہوں اور مرحوم کی جگہ Apply کرنا چاہتا ہوں۔ جب جب میں نے آپ کے ادارے میں نوکری کے لیے درخواست دی، مجھے یہی جواب ادارہ نے دیا، کہ ادارہ میں کوئی آسامی خالی نہ ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں میں نے آپ کو رنگے ہاتھو ں پکڑ لیا ہے، اور اب آپ کوئی بہانہ نہیں بنا سکتے، کیونکہ مرحوم کا جنازہ میں نے خود پڑھا ہے۔ درخواست کے ساتھ میری C.V کی کاپی اور مرحوم کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ لگا دیا ہے۔
درخواست گزار
ان شاہینوں میں ایک عقابی روح پائی جاتی ہے۔ جس پے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
ادھر جھپٹے ادھر پلٹے اسے جکڑا اسے پکڑا
لہو گرم رکھنے کے بہانے ہیں اڑانوں میں
ہر اک لڑکی نظر آتی ہے ان کو فاختہ جیسی
عقابی روح جب پیدا ہوتی ہے جوانوں میں
ایک شاہین طالب علم کے انگلش پیپر میں بنائے گئے جملے ملاحظہ کریں۔
1: “SHE”
۔ شانی نے چار پائی پر SHE کر دیا۔
2: “HE”
۔ اعظم ہر وقت HE HE کرتا رہتا ہے۔
3: “They”
۔ کار والے نے سائیکل والے کو تھلے Theyدیا۔
4: “Kill”
۔ Kill دھیان سے ٹھوکو۔
5: “Bull”
۔ سردی سے پپو کے Bull پھٹ گئے۔
6: “What”
۔ تمہارے ماتھے پر What کیوں پڑے ہیں۔
7: “IT”
۔ مزدور کے سر پر IT وج گئی۔
8: “Lion”
۔ سارے بچے Lion بنا کر جاؤ۔
9: “Key”
۔ اے Key کیتا۔
یہ شاہین نما طالب علم لازمی نہیں صرف غریب گھرانوں میں پیدا ہوں۔ یہ امیر گھرانوں میں بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ایک امیر شاہین نے غریب خاندان پر مضمون لکھا۔ ملاحظہ فرمائیں۔
”ایک غریب خاندان تھا۔ باپ غریب، ماں غریب، بچے بھی غریب! خاندان میں صرف نوکر تھے وہ بھی غریب۔ کار بھی ٹوٹی ہوئی Accord تھی۔ ڈرائیور بچوں کو اس ٹوٹی ہوئی کار میں اسکول چھوڑتا تھا۔ بچوں کے پاس پرانے iPhone6 اور 7 تھے۔ انکا باپ بھی اکثر بیمار رہتا تھا۔ بچے ہفتے میں صرف 3 بار میکڈونلڈز جاتے تھے۔ گھر میں صرف 4سیکنڈ ہینڈ AC تھے۔ سارا خاندان بڑی ہی مشکل سے عیش کر رہا تھا۔
ایک اور سٹوڈنٹ کا موضوع ”برسات کا دن“ پے تحریر دیکھیں۔
آئے ہائے ہائے! کیا مضمون دے دیا سر جی آپ نے۔ واہ کیا یادیں تازہ کردیں، میرے بچپن کی بس چھوڑیں مضمون کو۔ میں آپ کو کیا بتاؤں کتنا مزہ آتا ہے، برسات میں نہانے کا۔ اوئے ہوئے چلو پھر آپکو ایک بات بتا تا ہوں کہ میں بارش میں بہت زیادہ نہاتا ہوں۔ سچی میں آپ بھی آجاؤ بہت مزہ آئے گا نہانے کا۔ ہر وقت سڑے سڑے رہتے ہو۔ آپ بھی تھوڑی دیر نہا لو chill مارتے ہیں۔
برسات کے دن آئے
ملاقات کے دن آئے
ہم سوچ میں تھے جن کے
وہ بارش میں نہانے آئے
یہ شاہین پن نامی وائرس طالبات میں بھی پایا جاتا ہے۔ ایک شاہین طلبہ کا محبت نامہ پڑھیں۔
40کے اخروٹ 80کے بادام
پیارے امجد کو میرا سلام
اسلام و علیکم!
کل آپ میرے پیچھے آتے آتے گر کیوں گئے تھے؟ Please آپ میری خاطر سائیکل آہستہ چلایا کریں۔ آپ کل پیلی شلوار قمیض میں بہت پیارے لگ رہے تھے۔ ویسے تو پورے شہر میں آپ جیسا کوئی نہیں۔
ڈبے میں ڈبہ، ڈبے میں کیک
میرا امجد لاکھوں میں ایک
ُPlease Pleaseمیری خاطر نسوار چھوڑ دو اور آج دودھ دینے آپ خود آنا۔ آپ مجھے ایک موبائل دے دیں۔ میں بستروں والی پیٹی میں چھپا لوں گی۔ ضرور آنا میں نے آپ کے لیے دوانہ بھی رکھا ہے۔
نیلی نیلی روشنی میں کمرے میں بند ہے۔
میں کیا کروں مجھے امجد پسند ہے۔
آپ کی جان
ایسی ہی ایک طلبہ کا اخلاقی کہانی جیسا کرو گے ویسا بھروگے پر جان افشانی دیکھیں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک دن میں اپنے دوست کے گھر گئی وہ سو رہی تھی۔ وہ دوسرے دن میرے گھر آئی میں سو رہی تھی۔
نتیجہ:۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
ایک شاہین طالبہ کی شکایت کا انداز بھی نرالا ہے۔ موصوفہ کہتی،
شہباز تاثیر مل گیا
علی حیدر گیلانی مل گیا
کیا تم مجھے نہیں مل سکتے؟
ویسے یہ شاہین کبھی کبھی عقلمند بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً شاہینوں کی گفتگو سنیں۔
پہلا شاہین: اس لڑکی کے اصرار پر تم نے شراب نوشی، سگریٹ نوشی، شطرنج اور آوارہ گردی چھوڑی دی۔
دوسرا شاہین: بے شک
پہلا شاہین: تو پھر تم نے اس سے شادی کیوں نہیں کی۔
دوسرا شاہین: میں نے سوچا اتنی مشکل سے زندگی سدھری ہے, تو اب اسے دوبارہ جہنم بنانے کی کیا ضرورت ہے؟
ان شاہینوں کو پاکستان کے موجودہ حالات پر بھی اعلی پائے کی دسترس حاصل ہے۔ جب ایسے ہی ایک شاہین کو منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم کا پوچھا گیا کہ کن دریاؤں پر واقع ہیں۔ اس کا جواب دیکھیں۔ ”دراصل منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم پیار ندی پر بن رہے تھے, لیکن پاکستان کی عجیب حکومت نے عجیب سی سیاست کے تحت ان کو دریائے سندھ پر بنایا, جو سراسر نا انصافی ہے۔ ہمیں اس نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے۔ ہم سب کو مل کر لیڈی پارک سے لے کر مین بازار تک اس ظلم کے خلاف مارچ کرنا چاہئے۔
ایک شاہین سٹوڈنٹ کی شاعری بھی سن لیں۔
کل رات کتاب میری طرف دیکھتی رہی
اور نیند مجھے اپنی طرف کھینچتی رہی
نیند کا جھونکا میرا من موہ گیا
اور کل رات پھر ایک ہونہار سٹوڈنٹ بنا پڑھے سوگیا
میں نے بھی ایسے ایک شاہین سے پوچھا۔ آج پہلی بار تم کلاس میں باتیں کر رہے ہو, ہمیشہ تم نظریں جھکا کر میرا لیکچر سنتی تھی۔ کیا ہوا آج تمہیں؟۔
جواب شاندار ملا۔ سر آج میرا SMS پیکج ختم ہوگیا ہے۔
ان کا انتقام کچھ ایسا ہوتا ہے۔ دو شاہین بچے امتحان پر گفتگو کرتے ہوئے۔Examiner نے مجھے امتحان میں وہ سوال دیئے جو مجھے بالکل نہیں آتے تھے۔ میں نے بھی خوب بدلہ لیا اور ایسے ایسے جوابات دیئے جن کی سمجھ Examiner کے والد صاحب کو بھی نہیں آسکتی۔
چند سوالات اور انتقامی جوابات بھی دیکھ لیں۔
س۔ زمین والے جانور بچے دیتے ہیں، اور ہوا میں اڑنے والے انڈے۔ وہ کون سی چیز ہے جو ہوا میں اڑتی ہے لیکن بچے دیتی ہے؟
ج۔ ایئر ہوسٹس۔
س۔ دریائے راوی کہاں بہتا ہے؟
ج۔ زمین پر
س۔ 3سیبوں کو 4 دوستوں میں کیسے تقسیم کر سکتے ہیں؟
ج۔ جنا ب ملک شیک بنا کر
س۔ پاکستان میں امن کیوں نہیں قائم ہوتا؟
ج۔ ہمارا جھنڈا ہی الٹا ہے سفید رنگ امن کا ہوتا ہے۔ اور سبز رنگ قوم کا امن کو تو ڈنڈا دیا ہوا ہے۔ اگر یہی ڈنڈا قوم کو دیا جاتا تو آج امن ہوتا۔
آج اقبال کے شاہین کا بسیرا نیو خان اور کوہستان کی بسوں کی چھتوں پر ہے۔ ستاروں سے اگلا جہاں شاہین نما طالب علموں کا آجکل ان مافیاز سے بھتہ لینا اور معافیاں منگوانا ہے۔ جس کے آگے ہماری لاچار اور مفلوج حکومت بے بس ہے۔ جس کی مثال گرتے ہوئے ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں کا فائدہ کم کرایوں کی شکل میں آج تک ہماری لولی لنگڑی سرکار ٹرانسپورٹ مافیا سے نہیں کروا پائی۔
اگر ان ہی شاہینوں کی تربیت طلباء یونین کو بحال کر کے ان میں کی جائے تو یہ واقعی اقبال کے شاہین بن سکتے ہیں۔ پاکستان کو امن کا گہوراہ بنا سکتے ہیں۔ کرپشن کے خلاف اٹھ سکتے ہیں۔ دہشت گردی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس ہمت تو ہے پر سوچ اور رستہ نہیں۔ ہمیں صرف صحیح سوچ اور رستہ ہی دینا ہے ان کو جس پر چل کر وہ اپنا اور پاکستان کا مستقبل درخشاں بنا دیں۔
*****
حسن نصیر سندھو یونیورسٹی آف گجرات سے ایم فل کرنے کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ سماجی مسائل کو اچھوتے انداز میں اپنی تحریروں میں بیان کرنا ان کا خاصاہے۔