غصہ تو بہت آ رہا تھا کہ کابل میں رات ٹھرنے کے لئیے بھی جگہ میسر نہیں تھی۔ جس ہوٹل میں بھی جاتے آو بھگت کی جاتی۔ مسکرا مسکرا کر “خوش آمدید” کہا جاتا۔ لیکن پھر کہا جاتا “ادرس” یعنی پتہ تو پاکستان کا سن کر کہا جاتا “برو” یعنی جاؤ۔ کچھ ہی دیر میں ہمیں احساس ہو گیا تھا کہ چہرہ دیکھ کر وہ افغانی سمجھنے لگتے لیکن جوں ہی پاکستان کا سنتے ایسی نظریں بدلتے جیسے ملا عمر نے ہمیں بھیجا ہو۔ رات گئے آریانا چوک پر ٹہلتے ٹہلتے چند پشتون افغان باشندوں سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے پاکستان میں وقت گزرا تھا اس لیے فری کا مشورہ دیا کہ ہمیں صرف اور صرف فائیو سٹار ہوٹل میں جگہ مل سکتی ہے جہاں ہم نے اچھے خاصے ڈالرز خرچ کرنے ہوں گے۔ مرتے کیا نہ کرتے رخ کر دیا فائیو سٹار ہوٹل کا اور رات کے قیام کا بندوبست ہو گیا۔ اگلے روز ناشتہ ڈالر میں کرنے کی بجائے افغانی میں کرنے کے لیئے سڑک کنارے ایک ہوٹل پہنچ گئے۔ یہ وہ دور تھا جب لگ بھگ ہر پگڑی داڑھی سے مزین پشتون کو طالبان سمجھا جاتا۔ یہ وبا بعد میں بارڈر کراس کرکے پاکستان بھی پہنچی۔ یہاں تک قبول کیا گیا کہ ہر طالب پشتون ہے لیکن ہر پشتون طالب نہیں ہے۔ جس ہوٹل میں ہم بیٹھے تھے اس میں کچھ پشتون افغانیوں پر نظر پڑی۔ لمبے کرتے، کالی پگڑی، لمبی سیاہ داڑھی اور ہاتھ میں تسبیح۔ ایک عجیب سی بات تھی ان میں،ا ہم جتنے دن بھی کابل میں رہے اس ہوٹل گئے تو یہ لوگ خاموش بیٹھ کر قہوے کے گھونٹ بھرتے رہے اور شیشے کی لمبی لمبی کھڑکیوں سے باہر کابل کی بلند وبالا عمارتوں اور بازار میں چلتے لوگوں کو گھورتے رہتے۔۔ صبح سے یہ سلسلہ شروع ہوتا اور جب ہم رات کا کھانا کھانے لگتے یہ یکے بعد دیگرے یہ ایک ایک کرکے رخصت ہوتے۔ کچھ عجیب سا لگتا تھا۔ ہم مسلسل ملاقاتیں کر رہے تھے۔ لیکن اس کا نچوڑ یہ تھا کہ ہمیں پاکستانی اینٹلی جنٹس کا اہلکار سمجھا گیا، کہیں کہیں تو باقاعدہ طعنے دئیے گئے۔ ہم پاکستانی تھے اور ظاہر ہے ہمارے ہی اداروں کے حوالہ سے ہمارے منہ پر بات ہو رہی تھی تو غصہ کا آنا فطری بات تھی۔ چونکہ اس وقت پشتون کم اور غیر پشتون زیادہ تھے بلکہ پشتون بھی دری ہی بولتے تھے ویسے آج بھی بولتے ہیں کیونکہ سرکاری زبان کا درجہ اسے بھی حاصل ہے۔ تو دری کی جتنی سمجھ آ جاتی تھی اتنا ردعمل تو دے ہی دیتے تھے۔ بہت کہانیاں ہیں جس پر تفصیل سے کبھی بات ہو گی لیکن اب اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ افغان طالبان شہر چھوڑ چکے تھے لیکن ہم نے تو ہر حال میں ملنا تھا۔ اس لیے کافی کوششوں کے بعد ایک اہم افغان طالبان رہنما سے ملاقات کا اہتمام ہو ہی گیا۔ ملاقات کے آغاز میں ہی میں نے چڑھائی کر دی کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ہمیں گالیاں پڑ رہی ہیں اور یہ کہ جو کچھ انہوں نے کیا اس سے افغانستان کی اکثریت پشتو بولنے والے اب دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور ہیں اور یہ کہ اب تو پشتو میں یہاں پشتون بھی بات نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔ اس طالب رہنما کے صبر و برداشت کی آج بھی میں داد دیتا ہوں۔ ہاتھوں میں تسبیح کے دانوں کو حرکت دیتا ہوا وہ میرا خطاب انہماک سے نہ صرف سنتا رہا الٹا مسلسل مسکراتا رہا (جو اس وقت مجھے مزید اشتعال دلا رہا تھا). تھوڑی دیر بعد میں چپ ہوا تو کہنے لگا بس یا اور بھی کچھ بولنا ہے۔ میں نے کہا اب اور کیا بولوں اس حد تک تو میں نے آپ کا کباڑہ کر دیا۔ قہقہ مار کر کہنے لگا۔ محترم، یہ ایک دن، ایک ہفتے، ایک مہینے، ایک سال کی لڑائی نہیں بلکہ نسلوں کی لڑائی ہے۔ اتنی جلدی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش نہ کرو۔ پاکستانی عوام نے زیادہ سے زیادہ کوئی لڑائی دیکھی ہو گی ہمارے عوام نے لڑائیاں لڑی ہیں، لڑرہے ہیں اور آگے بھی تم دیکھو گے ہم لڑیں گے۔ روس نہ ایک دن یا سال میں آیا تھا نہ گیا تھا۔ یہ (امریکہ اور اتحادی) بھی ایک دن میں نہیں آئے بلکہ آتے آتے ان کو کئی سال لگے۔ ابھی تو آئے ہیں۔ ابھی کچھ وقت گزاریں گے۔ ہمیں بھی جلدی نہیں اور تم نے خود بتایا کہ کچھ پگڑی داڑھی والے روزانہ آ کر ایک جگہ بیٹھ کر باہر دیکھتے دیکھتے دن گزار دیتے ہیں۔ کہا کہ نہیں؟
“ہاں!” میں نے جواب دیا۔
پتا ہے یہ سارا دن باہر دیکھ کر کیا سوچتے ہیں؟ اس نے دوسرا سوال داغا۔
“مجھے کیا پتا!” میں نے لاعلمی ظاہر کی۔
یہی تو مسئلہ ہے۔ میں طالب ہوں مجھے ان کی سوچ کا پتا ہے جو آپ پاکستانی صحافیوں کو نہیں پتا۔ یہ باہر ان عمارات اور لوگوں کو دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں ہنس رہے ہیں، انتظار کر رہے ہیں کہ جب امریکہ تھک ہار جائے گااور نکلنے کا ارادہ کرے گا۔ کتنے حملہ آور یہاں اس شہر میں آئے۔ تاریخ قریب میں پاکستان بننے سے پہلے ہندوستان کی جانب سے فرنگی آئے تھے، پاکستان بننے کے بعد شمال کی جانب سے روسی آئے، آج وہ کہاں ہیں۔ یہ بھی آئے ہیں، دیکھتے ہیں کب تک رکتے ہیں۔ یہ ہمیشہ کے لیے تو نہیں آئے کبھی نہ کبھی تو جائیں گے۔ وہ پگڑی والا سوچ کر مسکرا رہا ہوتا ہے کہ جب یہ جائیں گے پھر میں آؤں گا۔ تو ہم سے یہ اتنی نفرت کیوں کر رہے ہیں۔ یہ جائیں گے ہم رہیں گے۔ ہم حقیقت ہیں یہ عارضی ہیں۔ وہ یہ سمجھ کر دل ہی دل میں ان کا مزاق اڑا رہا ہے کہ ان کو اتنی سی بات کی سمجھ نہیں ہے۔
یہ آخری جملہ کہتے وقت اس نے میری طرف دیکھا۔ مجھے سمجھ آ چکی تھی۔ اس نے اجازت طلب کی اور کابل کے اندھیروں میں گم ہوگیا۔ میں نے ساتھیوں کی طرف دیکھا کہا کہ مجھے جس سوال کا جواب چاہیئے تھا وہ مل گیا۔ میں تو نکلا آپ رکے رہو۔ وہ رک گئے اور میں بارڈر کراس کرکے پاکستان آیا۔ آج اس ملاقات کو پندرہ سال سے زاید کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس نے جو کہا وہ ہونے جا رہا ہے۔ آگے کیا ہو گا؟ اس حوالہ سے پرانی ملاقاتوں کا احوال پھر سہی۔