Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
کراچی غریب پرور شہر ہے۔ کوئی گاؤں سے آئے یا کسی قصبے سے۔ چاہے وہ یہاں صدیوں سے رہنے والا شیدی بلوچ ہو یا دکن، بہار، دہلی، یو پی وغیرہ سے تعلیم و تہذیب ساتھ لے کر آنے والا مہاجر ، حصول معاش کے لیے آنے والا پٹھان ہو یا دیہی سندھ کا باسی، رزق کی تلاش میں محنت کرنے والا پنجابی یا سرائیکی مزدور ہو۔ اس شہر کراچی نے سب کو پناہ دی۔ میمن اور بوہری سیٹھ بھی اس ہی شہر کی شان بڑھاتے ہیں ۔
یہاں اورنگی لیاری جیسی آبادیاں ہیں جہاں کوئی بھی اپنے بچپن میں ہی کئی مقامی زبانیں سیکھ لیتا ہے۔ کراچی کے لوگوں میں مہمان نوازی، وسیع قلبی اور غریب پروری تو آج بھی ہے مگر یہاں کسی دور میں امن و آشتی بھی ہوا کرتی تھی۔
یہ بھی دیکھئے:
پھر وقت بدلا۔ حکمران بدلے اور کراچی شہر کو “اپنوں” اور “پرائے” کیا۔ سب کی جیسے نظر لگ گئی. قومیت کا نعرہ لگا مگر حقوق کے بجائے ہزاروں نوجوانوں نے موت کو گلے لگالیا ۔ ہاں لیڈروں کے دن پھر گئے، کلفٹن اور ڈیفنس میں کوٹھیاں بنا لی۔۔ لندن، دبئی اور نیویارک میں ولاز خرید لیے۔ ہاں کچھ جنوبی افریقہ اور ملائشیا میں بھی ‘سیٹل’ ہوئے۔
دوسری جانب، پاکستان نہ کپھے یا کپھے کا نعرہ لگانے والے ملکی خزانے کو خالی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ کراچی تو ان کے لیے وہ بکری ہے جس کا دودھ دوہا گیا یہاں تک کہ خون نکل آیا۔۔۔اس کی بلبلاہٹ سے آسمان بھی شاید لرز اٹھا ہوگا مگر جن کے منہ کو ہی خون لگا ہو، وہ کب رکنے والے ہیں۔
ایسے میں کچھ کسی نے تبدیلی کا لارا لپا دیا تو کوئی شریک جرم ہوتے ہوئے بھی سارا ملبہ لندن میں بیٹھے “پیر صاحب” پر کمال مہارت سے ڈال دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
سوئز سیکرٹس میں شامل پاکستانی جرنیل ؛ جنرل اختر عبدالرحمٰن کون؟
بائس فروری:آج شاعر انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کی برسی ہے
اکادمی آف لیٹرز: میں مادری زبان کا ادبی میلہ
آج حال یہ کہ یہ تحریر گھر سے باہر موبائل پر لکھنا شروع کی۔ ارادہ تھا کہ گھر جا کر مکمل کروں گا۔ مگر پریشانی تو یہ ہے کہ گھر پہنچنے سے پہلے کوئی ضرورت مند نہ آجائے، پستول دکھائے اور پھر آپ کا موبائل ہی لے کر چلتا بنے۔
اطہر متین کے بڑے بھائی نے صحیح کہا کہ اس شہر میں چور کھلے عام واردات کرتے ہیں اور ہم عام لوگ چوروں کی طرح چھپ چھپ کر جیتے ہیں۔ قریب ہی بازار جانا ہو تو فون والٹ گھر پر رکھتے ہیں۔ گھر سے نکلتے اور واپس داخل ہوتے ہوئے خوف ہوتا ہے کہ بن بلائے مہمان آپ کی حق حلال کی کمائی سے ہونے والی اس بچت کو کھانے نہ آجائیں جس کی وفاقی و صوبائی حکومت پہلے سے دشمن ہے۔
رشتہ داروں کی محفل میں بیٹھے تو پتہ لگتا ہے کہ ایک خاندان بھی ایسا نہیں جس کا فرد کم از کم دو بار نہیں لٹ چکا۔ کئی تو ایسے ہیں کہ ایک ایک سال میں دو بار لٹتے ہیں۔ کوئی کورنگی کاز وے کا بتاتا ہے کہ سینکڑوں لوگوں سے فون نقدی ناکہ لگا کر لوٹا گیا۔ جریر اپنے گھر پر دو مہینے پہلے ہونے والی ڈکیتی کے بارے میں بتاتا ہے تو اسد اپنے اس دوست کو یاد کرتا ہے جسے مزاحمت پر قتل کردیا گیا۔
ظلم کے خلاف مزاحمت کراچی والوں کا شعار سمجھی جاتی۔ مگر اب اس کی کم از کم قیمت آپ کی جان ہے۔
ابو کی تاکید ہے گھر جلدی آجایا کرو۔ ماموں کا اصرار ہے کہ اسلحہ لائسنس بنوایا جائے۔ کزن مارشل آرٹس سیکھنے کا کہتا ہے۔ پھوپھی کا کہنا ہے کہ بیٹا جو چھیننے آئے، اس کے بولنے سے پہلے فون دے دو۔ دوستوں کی محفل میں تو امیگریشن کا پِراسیس بار بار دہرایا جاتا ہے۔
گھر سے نکلنے لگتا ہوں تو اماں دعائیں پڑھ کر پھونکتی ہیں۔ بہن ایسے دیکھتی ہے جیسے کوئی آخری دیدار کرتا ہے۔
سیاسی رہنما بھی مسئلہ کا حل بتاتے ہیں۔ خرم شیر زمان کا کہنا کہ رینجرز کو ‘مزید’ اختیارات دیے جائیں۔ کوئی پولیس مقامی ہونے کی بات کرتا ہے۔ حافظ نعیم کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ پولیس والوں کی VIP ڈیوٹی کا خاتمہ ہو۔ وزیر اعلی، وزراء اور آئی جی کے اتنی ہی سیکورٹی ہو جتنی ایک عام شہری کو میسر ہے تو شاید اس شہر کو امن نصیب ہو۔
اطلاع یہ بھی دینی تھی کہ الحمدللہ بخیریت گھر پہنچ چکا ہوں۔ تحریر بھی تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ کل پھر گھر سے باہر نکلنا ہوگا۔۔۔گھر واپسی ایک آگ کا دریا ہے جو کراچی والے ہر روز ہی عبور کرتے ہیں۔
میں شہر مظلوم کا مجبور بیٹا ہوں۔ میری اور اس شہر کے کروڑوں لوگوں کی ایک ہی کہانی ہے۔ بیان کرنے والے بھی بہت ہیں مگر فرق کیا پڑتا ہے۔ کسی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ ‘کسی’ میں آپ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، فوج، پولیس اور رینجرز سب کو ہی شامل کرلیں۔
مجھے اداروں کے اختیارات اور آئینی پیچیدگیوں کے بارے میں نہیں بتائیے کہ آپ اور آپ کے بچے تو پہرے داروں کی فوج کے درمیان رہتے ہیں۔ ہم کراچی والے تو لٹیروں کے بیچ زندہ رہنے کی اپنی سی کوشش کرہے ہیں۔
کراچی غریب پرور شہر ہے۔ کوئی گاؤں سے آئے یا کسی قصبے سے۔ چاہے وہ یہاں صدیوں سے رہنے والا شیدی بلوچ ہو یا دکن، بہار، دہلی، یو پی وغیرہ سے تعلیم و تہذیب ساتھ لے کر آنے والا مہاجر ، حصول معاش کے لیے آنے والا پٹھان ہو یا دیہی سندھ کا باسی، رزق کی تلاش میں محنت کرنے والا پنجابی یا سرائیکی مزدور ہو۔ اس شہر کراچی نے سب کو پناہ دی۔ میمن اور بوہری سیٹھ بھی اس ہی شہر کی شان بڑھاتے ہیں ۔
یہاں اورنگی لیاری جیسی آبادیاں ہیں جہاں کوئی بھی اپنے بچپن میں ہی کئی مقامی زبانیں سیکھ لیتا ہے۔ کراچی کے لوگوں میں مہمان نوازی، وسیع قلبی اور غریب پروری تو آج بھی ہے مگر یہاں کسی دور میں امن و آشتی بھی ہوا کرتی تھی۔
یہ بھی دیکھئے:
پھر وقت بدلا۔ حکمران بدلے اور کراچی شہر کو “اپنوں” اور “پرائے” کیا۔ سب کی جیسے نظر لگ گئی. قومیت کا نعرہ لگا مگر حقوق کے بجائے ہزاروں نوجوانوں نے موت کو گلے لگالیا ۔ ہاں لیڈروں کے دن پھر گئے، کلفٹن اور ڈیفنس میں کوٹھیاں بنا لی۔۔ لندن، دبئی اور نیویارک میں ولاز خرید لیے۔ ہاں کچھ جنوبی افریقہ اور ملائشیا میں بھی ‘سیٹل’ ہوئے۔
دوسری جانب، پاکستان نہ کپھے یا کپھے کا نعرہ لگانے والے ملکی خزانے کو خالی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ کراچی تو ان کے لیے وہ بکری ہے جس کا دودھ دوہا گیا یہاں تک کہ خون نکل آیا۔۔۔اس کی بلبلاہٹ سے آسمان بھی شاید لرز اٹھا ہوگا مگر جن کے منہ کو ہی خون لگا ہو، وہ کب رکنے والے ہیں۔
ایسے میں کچھ کسی نے تبدیلی کا لارا لپا دیا تو کوئی شریک جرم ہوتے ہوئے بھی سارا ملبہ لندن میں بیٹھے “پیر صاحب” پر کمال مہارت سے ڈال دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
سوئز سیکرٹس میں شامل پاکستانی جرنیل ؛ جنرل اختر عبدالرحمٰن کون؟
بائس فروری:آج شاعر انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کی برسی ہے
اکادمی آف لیٹرز: میں مادری زبان کا ادبی میلہ
آج حال یہ کہ یہ تحریر گھر سے باہر موبائل پر لکھنا شروع کی۔ ارادہ تھا کہ گھر جا کر مکمل کروں گا۔ مگر پریشانی تو یہ ہے کہ گھر پہنچنے سے پہلے کوئی ضرورت مند نہ آجائے، پستول دکھائے اور پھر آپ کا موبائل ہی لے کر چلتا بنے۔
اطہر متین کے بڑے بھائی نے صحیح کہا کہ اس شہر میں چور کھلے عام واردات کرتے ہیں اور ہم عام لوگ چوروں کی طرح چھپ چھپ کر جیتے ہیں۔ قریب ہی بازار جانا ہو تو فون والٹ گھر پر رکھتے ہیں۔ گھر سے نکلتے اور واپس داخل ہوتے ہوئے خوف ہوتا ہے کہ بن بلائے مہمان آپ کی حق حلال کی کمائی سے ہونے والی اس بچت کو کھانے نہ آجائیں جس کی وفاقی و صوبائی حکومت پہلے سے دشمن ہے۔
رشتہ داروں کی محفل میں بیٹھے تو پتہ لگتا ہے کہ ایک خاندان بھی ایسا نہیں جس کا فرد کم از کم دو بار نہیں لٹ چکا۔ کئی تو ایسے ہیں کہ ایک ایک سال میں دو بار لٹتے ہیں۔ کوئی کورنگی کاز وے کا بتاتا ہے کہ سینکڑوں لوگوں سے فون نقدی ناکہ لگا کر لوٹا گیا۔ جریر اپنے گھر پر دو مہینے پہلے ہونے والی ڈکیتی کے بارے میں بتاتا ہے تو اسد اپنے اس دوست کو یاد کرتا ہے جسے مزاحمت پر قتل کردیا گیا۔
ظلم کے خلاف مزاحمت کراچی والوں کا شعار سمجھی جاتی۔ مگر اب اس کی کم از کم قیمت آپ کی جان ہے۔
ابو کی تاکید ہے گھر جلدی آجایا کرو۔ ماموں کا اصرار ہے کہ اسلحہ لائسنس بنوایا جائے۔ کزن مارشل آرٹس سیکھنے کا کہتا ہے۔ پھوپھی کا کہنا ہے کہ بیٹا جو چھیننے آئے، اس کے بولنے سے پہلے فون دے دو۔ دوستوں کی محفل میں تو امیگریشن کا پِراسیس بار بار دہرایا جاتا ہے۔
گھر سے نکلنے لگتا ہوں تو اماں دعائیں پڑھ کر پھونکتی ہیں۔ بہن ایسے دیکھتی ہے جیسے کوئی آخری دیدار کرتا ہے۔
سیاسی رہنما بھی مسئلہ کا حل بتاتے ہیں۔ خرم شیر زمان کا کہنا کہ رینجرز کو ‘مزید’ اختیارات دیے جائیں۔ کوئی پولیس مقامی ہونے کی بات کرتا ہے۔ حافظ نعیم کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ پولیس والوں کی VIP ڈیوٹی کا خاتمہ ہو۔ وزیر اعلی، وزراء اور آئی جی کے اتنی ہی سیکورٹی ہو جتنی ایک عام شہری کو میسر ہے تو شاید اس شہر کو امن نصیب ہو۔
اطلاع یہ بھی دینی تھی کہ الحمدللہ بخیریت گھر پہنچ چکا ہوں۔ تحریر بھی تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ کل پھر گھر سے باہر نکلنا ہوگا۔۔۔گھر واپسی ایک آگ کا دریا ہے جو کراچی والے ہر روز ہی عبور کرتے ہیں۔
میں شہر مظلوم کا مجبور بیٹا ہوں۔ میری اور اس شہر کے کروڑوں لوگوں کی ایک ہی کہانی ہے۔ بیان کرنے والے بھی بہت ہیں مگر فرق کیا پڑتا ہے۔ کسی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ ‘کسی’ میں آپ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، فوج، پولیس اور رینجرز سب کو ہی شامل کرلیں۔
مجھے اداروں کے اختیارات اور آئینی پیچیدگیوں کے بارے میں نہیں بتائیے کہ آپ اور آپ کے بچے تو پہرے داروں کی فوج کے درمیان رہتے ہیں۔ ہم کراچی والے تو لٹیروں کے بیچ زندہ رہنے کی اپنی سی کوشش کرہے ہیں۔
کراچی غریب پرور شہر ہے۔ کوئی گاؤں سے آئے یا کسی قصبے سے۔ چاہے وہ یہاں صدیوں سے رہنے والا شیدی بلوچ ہو یا دکن، بہار، دہلی، یو پی وغیرہ سے تعلیم و تہذیب ساتھ لے کر آنے والا مہاجر ، حصول معاش کے لیے آنے والا پٹھان ہو یا دیہی سندھ کا باسی، رزق کی تلاش میں محنت کرنے والا پنجابی یا سرائیکی مزدور ہو۔ اس شہر کراچی نے سب کو پناہ دی۔ میمن اور بوہری سیٹھ بھی اس ہی شہر کی شان بڑھاتے ہیں ۔
یہاں اورنگی لیاری جیسی آبادیاں ہیں جہاں کوئی بھی اپنے بچپن میں ہی کئی مقامی زبانیں سیکھ لیتا ہے۔ کراچی کے لوگوں میں مہمان نوازی، وسیع قلبی اور غریب پروری تو آج بھی ہے مگر یہاں کسی دور میں امن و آشتی بھی ہوا کرتی تھی۔
یہ بھی دیکھئے:
پھر وقت بدلا۔ حکمران بدلے اور کراچی شہر کو “اپنوں” اور “پرائے” کیا۔ سب کی جیسے نظر لگ گئی. قومیت کا نعرہ لگا مگر حقوق کے بجائے ہزاروں نوجوانوں نے موت کو گلے لگالیا ۔ ہاں لیڈروں کے دن پھر گئے، کلفٹن اور ڈیفنس میں کوٹھیاں بنا لی۔۔ لندن، دبئی اور نیویارک میں ولاز خرید لیے۔ ہاں کچھ جنوبی افریقہ اور ملائشیا میں بھی ‘سیٹل’ ہوئے۔
دوسری جانب، پاکستان نہ کپھے یا کپھے کا نعرہ لگانے والے ملکی خزانے کو خالی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ کراچی تو ان کے لیے وہ بکری ہے جس کا دودھ دوہا گیا یہاں تک کہ خون نکل آیا۔۔۔اس کی بلبلاہٹ سے آسمان بھی شاید لرز اٹھا ہوگا مگر جن کے منہ کو ہی خون لگا ہو، وہ کب رکنے والے ہیں۔
ایسے میں کچھ کسی نے تبدیلی کا لارا لپا دیا تو کوئی شریک جرم ہوتے ہوئے بھی سارا ملبہ لندن میں بیٹھے “پیر صاحب” پر کمال مہارت سے ڈال دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
سوئز سیکرٹس میں شامل پاکستانی جرنیل ؛ جنرل اختر عبدالرحمٰن کون؟
بائس فروری:آج شاعر انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کی برسی ہے
اکادمی آف لیٹرز: میں مادری زبان کا ادبی میلہ
آج حال یہ کہ یہ تحریر گھر سے باہر موبائل پر لکھنا شروع کی۔ ارادہ تھا کہ گھر جا کر مکمل کروں گا۔ مگر پریشانی تو یہ ہے کہ گھر پہنچنے سے پہلے کوئی ضرورت مند نہ آجائے، پستول دکھائے اور پھر آپ کا موبائل ہی لے کر چلتا بنے۔
اطہر متین کے بڑے بھائی نے صحیح کہا کہ اس شہر میں چور کھلے عام واردات کرتے ہیں اور ہم عام لوگ چوروں کی طرح چھپ چھپ کر جیتے ہیں۔ قریب ہی بازار جانا ہو تو فون والٹ گھر پر رکھتے ہیں۔ گھر سے نکلتے اور واپس داخل ہوتے ہوئے خوف ہوتا ہے کہ بن بلائے مہمان آپ کی حق حلال کی کمائی سے ہونے والی اس بچت کو کھانے نہ آجائیں جس کی وفاقی و صوبائی حکومت پہلے سے دشمن ہے۔
رشتہ داروں کی محفل میں بیٹھے تو پتہ لگتا ہے کہ ایک خاندان بھی ایسا نہیں جس کا فرد کم از کم دو بار نہیں لٹ چکا۔ کئی تو ایسے ہیں کہ ایک ایک سال میں دو بار لٹتے ہیں۔ کوئی کورنگی کاز وے کا بتاتا ہے کہ سینکڑوں لوگوں سے فون نقدی ناکہ لگا کر لوٹا گیا۔ جریر اپنے گھر پر دو مہینے پہلے ہونے والی ڈکیتی کے بارے میں بتاتا ہے تو اسد اپنے اس دوست کو یاد کرتا ہے جسے مزاحمت پر قتل کردیا گیا۔
ظلم کے خلاف مزاحمت کراچی والوں کا شعار سمجھی جاتی۔ مگر اب اس کی کم از کم قیمت آپ کی جان ہے۔
ابو کی تاکید ہے گھر جلدی آجایا کرو۔ ماموں کا اصرار ہے کہ اسلحہ لائسنس بنوایا جائے۔ کزن مارشل آرٹس سیکھنے کا کہتا ہے۔ پھوپھی کا کہنا ہے کہ بیٹا جو چھیننے آئے، اس کے بولنے سے پہلے فون دے دو۔ دوستوں کی محفل میں تو امیگریشن کا پِراسیس بار بار دہرایا جاتا ہے۔
گھر سے نکلنے لگتا ہوں تو اماں دعائیں پڑھ کر پھونکتی ہیں۔ بہن ایسے دیکھتی ہے جیسے کوئی آخری دیدار کرتا ہے۔
سیاسی رہنما بھی مسئلہ کا حل بتاتے ہیں۔ خرم شیر زمان کا کہنا کہ رینجرز کو ‘مزید’ اختیارات دیے جائیں۔ کوئی پولیس مقامی ہونے کی بات کرتا ہے۔ حافظ نعیم کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ پولیس والوں کی VIP ڈیوٹی کا خاتمہ ہو۔ وزیر اعلی، وزراء اور آئی جی کے اتنی ہی سیکورٹی ہو جتنی ایک عام شہری کو میسر ہے تو شاید اس شہر کو امن نصیب ہو۔
اطلاع یہ بھی دینی تھی کہ الحمدللہ بخیریت گھر پہنچ چکا ہوں۔ تحریر بھی تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ کل پھر گھر سے باہر نکلنا ہوگا۔۔۔گھر واپسی ایک آگ کا دریا ہے جو کراچی والے ہر روز ہی عبور کرتے ہیں۔
میں شہر مظلوم کا مجبور بیٹا ہوں۔ میری اور اس شہر کے کروڑوں لوگوں کی ایک ہی کہانی ہے۔ بیان کرنے والے بھی بہت ہیں مگر فرق کیا پڑتا ہے۔ کسی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ ‘کسی’ میں آپ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، فوج، پولیس اور رینجرز سب کو ہی شامل کرلیں۔
مجھے اداروں کے اختیارات اور آئینی پیچیدگیوں کے بارے میں نہیں بتائیے کہ آپ اور آپ کے بچے تو پہرے داروں کی فوج کے درمیان رہتے ہیں۔ ہم کراچی والے تو لٹیروں کے بیچ زندہ رہنے کی اپنی سی کوشش کرہے ہیں۔
کراچی غریب پرور شہر ہے۔ کوئی گاؤں سے آئے یا کسی قصبے سے۔ چاہے وہ یہاں صدیوں سے رہنے والا شیدی بلوچ ہو یا دکن، بہار، دہلی، یو پی وغیرہ سے تعلیم و تہذیب ساتھ لے کر آنے والا مہاجر ، حصول معاش کے لیے آنے والا پٹھان ہو یا دیہی سندھ کا باسی، رزق کی تلاش میں محنت کرنے والا پنجابی یا سرائیکی مزدور ہو۔ اس شہر کراچی نے سب کو پناہ دی۔ میمن اور بوہری سیٹھ بھی اس ہی شہر کی شان بڑھاتے ہیں ۔
یہاں اورنگی لیاری جیسی آبادیاں ہیں جہاں کوئی بھی اپنے بچپن میں ہی کئی مقامی زبانیں سیکھ لیتا ہے۔ کراچی کے لوگوں میں مہمان نوازی، وسیع قلبی اور غریب پروری تو آج بھی ہے مگر یہاں کسی دور میں امن و آشتی بھی ہوا کرتی تھی۔
یہ بھی دیکھئے:
پھر وقت بدلا۔ حکمران بدلے اور کراچی شہر کو “اپنوں” اور “پرائے” کیا۔ سب کی جیسے نظر لگ گئی. قومیت کا نعرہ لگا مگر حقوق کے بجائے ہزاروں نوجوانوں نے موت کو گلے لگالیا ۔ ہاں لیڈروں کے دن پھر گئے، کلفٹن اور ڈیفنس میں کوٹھیاں بنا لی۔۔ لندن، دبئی اور نیویارک میں ولاز خرید لیے۔ ہاں کچھ جنوبی افریقہ اور ملائشیا میں بھی ‘سیٹل’ ہوئے۔
دوسری جانب، پاکستان نہ کپھے یا کپھے کا نعرہ لگانے والے ملکی خزانے کو خالی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ کراچی تو ان کے لیے وہ بکری ہے جس کا دودھ دوہا گیا یہاں تک کہ خون نکل آیا۔۔۔اس کی بلبلاہٹ سے آسمان بھی شاید لرز اٹھا ہوگا مگر جن کے منہ کو ہی خون لگا ہو، وہ کب رکنے والے ہیں۔
ایسے میں کچھ کسی نے تبدیلی کا لارا لپا دیا تو کوئی شریک جرم ہوتے ہوئے بھی سارا ملبہ لندن میں بیٹھے “پیر صاحب” پر کمال مہارت سے ڈال دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
سوئز سیکرٹس میں شامل پاکستانی جرنیل ؛ جنرل اختر عبدالرحمٰن کون؟
بائس فروری:آج شاعر انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کی برسی ہے
اکادمی آف لیٹرز: میں مادری زبان کا ادبی میلہ
آج حال یہ کہ یہ تحریر گھر سے باہر موبائل پر لکھنا شروع کی۔ ارادہ تھا کہ گھر جا کر مکمل کروں گا۔ مگر پریشانی تو یہ ہے کہ گھر پہنچنے سے پہلے کوئی ضرورت مند نہ آجائے، پستول دکھائے اور پھر آپ کا موبائل ہی لے کر چلتا بنے۔
اطہر متین کے بڑے بھائی نے صحیح کہا کہ اس شہر میں چور کھلے عام واردات کرتے ہیں اور ہم عام لوگ چوروں کی طرح چھپ چھپ کر جیتے ہیں۔ قریب ہی بازار جانا ہو تو فون والٹ گھر پر رکھتے ہیں۔ گھر سے نکلتے اور واپس داخل ہوتے ہوئے خوف ہوتا ہے کہ بن بلائے مہمان آپ کی حق حلال کی کمائی سے ہونے والی اس بچت کو کھانے نہ آجائیں جس کی وفاقی و صوبائی حکومت پہلے سے دشمن ہے۔
رشتہ داروں کی محفل میں بیٹھے تو پتہ لگتا ہے کہ ایک خاندان بھی ایسا نہیں جس کا فرد کم از کم دو بار نہیں لٹ چکا۔ کئی تو ایسے ہیں کہ ایک ایک سال میں دو بار لٹتے ہیں۔ کوئی کورنگی کاز وے کا بتاتا ہے کہ سینکڑوں لوگوں سے فون نقدی ناکہ لگا کر لوٹا گیا۔ جریر اپنے گھر پر دو مہینے پہلے ہونے والی ڈکیتی کے بارے میں بتاتا ہے تو اسد اپنے اس دوست کو یاد کرتا ہے جسے مزاحمت پر قتل کردیا گیا۔
ظلم کے خلاف مزاحمت کراچی والوں کا شعار سمجھی جاتی۔ مگر اب اس کی کم از کم قیمت آپ کی جان ہے۔
ابو کی تاکید ہے گھر جلدی آجایا کرو۔ ماموں کا اصرار ہے کہ اسلحہ لائسنس بنوایا جائے۔ کزن مارشل آرٹس سیکھنے کا کہتا ہے۔ پھوپھی کا کہنا ہے کہ بیٹا جو چھیننے آئے، اس کے بولنے سے پہلے فون دے دو۔ دوستوں کی محفل میں تو امیگریشن کا پِراسیس بار بار دہرایا جاتا ہے۔
گھر سے نکلنے لگتا ہوں تو اماں دعائیں پڑھ کر پھونکتی ہیں۔ بہن ایسے دیکھتی ہے جیسے کوئی آخری دیدار کرتا ہے۔
سیاسی رہنما بھی مسئلہ کا حل بتاتے ہیں۔ خرم شیر زمان کا کہنا کہ رینجرز کو ‘مزید’ اختیارات دیے جائیں۔ کوئی پولیس مقامی ہونے کی بات کرتا ہے۔ حافظ نعیم کی یہ بات دل کو لگتی ہے کہ پولیس والوں کی VIP ڈیوٹی کا خاتمہ ہو۔ وزیر اعلی، وزراء اور آئی جی کے اتنی ہی سیکورٹی ہو جتنی ایک عام شہری کو میسر ہے تو شاید اس شہر کو امن نصیب ہو۔
اطلاع یہ بھی دینی تھی کہ الحمدللہ بخیریت گھر پہنچ چکا ہوں۔ تحریر بھی تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ کل پھر گھر سے باہر نکلنا ہوگا۔۔۔گھر واپسی ایک آگ کا دریا ہے جو کراچی والے ہر روز ہی عبور کرتے ہیں۔
میں شہر مظلوم کا مجبور بیٹا ہوں۔ میری اور اس شہر کے کروڑوں لوگوں کی ایک ہی کہانی ہے۔ بیان کرنے والے بھی بہت ہیں مگر فرق کیا پڑتا ہے۔ کسی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ ‘کسی’ میں آپ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، فوج، پولیس اور رینجرز سب کو ہی شامل کرلیں۔
مجھے اداروں کے اختیارات اور آئینی پیچیدگیوں کے بارے میں نہیں بتائیے کہ آپ اور آپ کے بچے تو پہرے داروں کی فوج کے درمیان رہتے ہیں۔ ہم کراچی والے تو لٹیروں کے بیچ زندہ رہنے کی اپنی سی کوشش کرہے ہیں۔