Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے. سبب یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو دوران اقتدار فسطائیت ہی بھاتی ہے، اور اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد جمھوریت کی عملبرداری، ذوالفقار علی بھٹو تو اس فقیر کے زندگی کا بدترین فاشسٹ حکمران تھا، پھر نواز شریف بھی وہی بننے کی کوشش کرتے رہے پر دال مکمل نہ گلی۔
موجودہ حکمرانوں بھی فسطائیت کے جراثیم سے بھر پور شاہکار بلکہ بھٹو نہ بھی بن پائیں تو بھی کوشش پوری ہے، ایک تو بھائی خود شاہانہ مزاج رکھتے ہیں دوسرے “کمپنی بہادر” کا سایہ سر پر فنگ ہے یا تھا۔ یعنی کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا۔ لیکن خدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا اور ویسے بھی “کمپنی بہادر” نے بھی انہیں انتہائی تنگ پٹّہ پہنایا ہوا ہے کہ اچھلنے کی کوشش تو کیا خواب دیکھنے پر دم گھُنٹے لگتاہے۔
یہ بھی دیکھئے:
پارلیمان سے سادہ قانون سازی کرنا بھی پُل صراط سے گذرنے کے مانند لگتا ہے، اس لئے زیادہ تر آرڈینینسوں کے ذریعے کام چلایا جارہا ہے ۔ ویسے ہم لوگ بھی عجیب ہیں جمھوریت کی بات تو کرتے ہیں لیکن جمھوریت کے لبادے میں بادشاہ سلامت ہی کو چنتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر نواز شریف تک اور موجودہ “ بہادر شاہ ظفر “ بھی ۔ یہ سب ہی باد شاہ سلامت تھے اور ہیں ۔
ہم جمھوریت نامی چڑیا سے چند دہائیوں پہلے ہی متعارف ہوئے ہیں کہ اس سے پہلے یہی تلوار کی نوک پر اقتدار و بادشاہتیں سنبھالنے والے ہی ہمارے ہیرو ہوا کرتے رھے، پر اب ہم ماڈرن بن گئے ہیں اس لئے جمھورئت کی مالا جپنے لگے جو ہمارے لیے نیا فیشن تو ہے لیکن فطرت تو وہی رہتی ہے کہ چولہ بدلنے سے فطرت نہیں بدلتی ہے اور ہماری حالت بھی اوپر جمھوریت کی شرٹ وٹائی کے نیچے آمریت کی دھوتی پہن کر کام چلا رہے ہیں۔
موجودہ بادشاہ فطری طور پر فسطائیت کے اتنے قائل ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھلا دیں لیکن خدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا اور ۔۔ ویسے بھی “کمپنی بہادر” نے بھی انہیں انتہائی تنگ پٹّہ پہنایا ہوا ہے کہ اچھلنے کی کوشش تو کیا خواب دیکھنے پر دم گھُنٹے لگتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
یہ نوحہ ہے ہمارے کراچی کا جو کبھی عروس البلاد تھا
سوئز سیکرٹس میں شامل پاکستانی جرنیل ؛ جنرل اختر عبدالرحمٰن کون؟
اکادمی آف لیٹرز: میں مادری زبان کا ادبی میلہ
پارلیمان سے سادہ قانون سازی کرتے ہوئے بھی دم پھولنے لگتا ہے، زیادہ تر آرڈینینسوں کے ذریعے کام چلایا جارہا ہے ۔ موجودہ فیک نیوز ودیگر آرڈینینس خوفزدہ کرنے کے لئے تو کافی ہیں لیکن کیا آرڈینینس کی معیاد کے خاتمے کے بعد پارلیمان سے منظور کرپائیں گے، اگر کسی نے اسے عدالت میں چلینج کیا تو عدالتی رویہ کیا ہو گا؟ آثار تو عجیب ہیں، اب تو سوال یہ بھی پیدا ہو گیا کہ کیا یہ آرڈیننس پہلے ختم ہو گا یا یہ حکومت ؟
مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں بھی شاید ایسا ہی ہوتا ہو گا۔ جب قلعے میں بھی “کمپنی بہادر” راج تھا۔ویسے بھی یہ تو شاید کمزور ترین بادشاہ ہے کہ جس کے “محل” میں بھی “کمپنی بہادر “ کا راج ہے۔ (ایک حدتک مغلیہ سلطنت کے آخری دنوں کی یاد دلا رہا ہے) مجھے یقین اسکا “رنگون” بھی قریب ہی ہے۔ تاریخ نے خود کو دھرانا ہی ہے۔
کیا ایک بار پھر “کمپنی بہادر” جمھوریت کا چولہ اُتار کر کھلے بندوں ملکیت سنبھالنے کے لئے تیار ہے؟ ناممکنات تو نہیں پر مشکل لگتا ہے۔ کہ “کمپنی بہادر” بھی ملکہ عظمی یا بادشاہ اصلی کی آشیرواد کے بغیر نہیں کرسکتی تھی۔ اُس زمانے کا بادشاہ لندن میں تھا اب قبلہ واشنگٹن میں منتقل ہو گیا ہے۔ اور قبلہ نمرود واشنگٹن کی پلیٹ پہلے ہی مکمل طور پر بھری ہوئی ہے وہ ہمارے بادشاہ کو رسمی طور پر دعاء سلام کے بھی روادار نہیں ۔
موجودہ حکومت درحقیقت عوام کی اسٹیٹس کو سے بیزاری اور نوجوانوں کی ملک میں حالات میں تبدیلی کی خواہش کی پیداوار تو ہے ، لیکن جو علامات سامنے آرہی ہیں وہ خاصی تشویشناک ہیں۔ غیر جانبدار اور تنقید کرنے والے الیکڑونک و پرنٹ میڈیا پر شکنجہ اس حدتک تنگ کردیا گیا کہ بہت سے اداروں کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا، سینکڑوں نہیں ہزاروں میڈیا کےچھوٹے و درمیانہ درجے کے کارکنان ملازمتوں سے محروم ہوگئے ۔
حکومت کا اصل شکار لاکھوں کے مشاہرہ لینے والے اینکر و کالم نگار ہیں لیکن ان کا تو بڑی حدتک کچھ نہ بگاڑ سکے وہ بھی بیروزگار ہوکر یوٹیوب چینلوں پر آگئے لیکن ان میں نامی گرامی حضرات کے سبسکرائیبر ہی اتنے ہوتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ کام چل ہی جاتا ہے، درحقیقت اس کا نشانہ اخبارات و میڈیا میں کم تنخواہوں پر کام کرنے والے ملازمین بن گئے، جس کے نتیجے میں انسانی المیے بھی جنم پائے۔
اس سے بدترین حالات ۱۹۷۰ کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کے دوران تھے اس زمانے میں شوشل میڈیا موجودہ نہیں تھا لیکن پرنٹڈ میڈیا اخبارات و رسائل پر آہنی کنٹرول ، اخباروں و رسائل کی بندش اور اخبار نویسوں کو جیلوں میں ڈالنا روزمرہ کی بات تھی۔ لیکن اس وقت حکومت کے پاس تمام ایوانوں میں مکمل اکثریت تھی اور ملک میں مسلسل ہنگامی حالات نافذ تھے جن کی رو سے بنیادی آزادیاں معطل تھیں۔
اس کے باوجود حالات بہت بہتر بھی تھے کہ اس زمانے میں کچھ اقدار باقی تھیں، اس لئے (سب نہیں) بعض صحافیوں ہی نہیں ان کے اداروں و مالکان نے بھی اصولوں کی بالادستی کے لئے مالی و جسمانی نقصانات و تکالیف بھی بھگتیں۔
لیکن اب بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کی بھر مار کی وجہ سے صحافت مشن سے زیادہ کاروبار بن چُکی ہے اس صورت میں یقیناً صحافیوں خبر رساں اداروں کی مالی منفعت یا نقصان سے محفوظ رہنے کے لئے طاقتور حلقوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں مین اسٹریم میڈیا پر بڑی حدتک مکمل قابو پایا جاچکا ہے، تھوڑی بہت آزادی کا احساس شوشل میڈیا کی وجہ سے ہے کہ اپنی تمام خواہشات کے باوجود حکومت اس پر کنٹرول نہیں کرپائی لیکن شوشل میڈیا پراس لحاظ سے مسابقتی فضا ہے کہ ان کے حامی بھی وہاں پر موجود ہیں، پھر بھی یہ تھوڑی بہت آزاد فضا بھی ناقابل برداشت نظر آرہی ہے۔پر اس کے لیےنئی قانون سازی کرنا مشکل ہے اس لیے فی الوقت آرڈینینس کی فیکٹریاں لگا کر کام چلایا جارہا ہے۔
احتساب بذات خود کوئی غلط یا قابل اعتراض چیز نہیں ہے؟ لیکن یکطرفہ اور جانبدارنہ احتساب کے نام پر جو تماشا جاری ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ یہی کچھ فاشسٹ حکومتیں کرتی ہیں، اپنی نااہلی کی بناء پر جُرائم عدالتوں میں ثابت کرنے میں ناکامی کا نزلہ عدالتوں پر ڈال کر اپنے حامیوں کا غصہ عدلیہ کی طرف منتقل کردیں۔
فاشسزم کی مقامی مثال ایم کیو ایم دیکھی جاسکتی ہے۔ ایک شاندار ترقی پذیر اور تعلیم یافتہ لسانی اقلیت کو تباہ حال کردیا۔۔کراچی اور اردو بولنے والوں کی موجودہ صورتحال میں یقیناً ایم کیو ایم کا بہت بڑا کردار ہے۔
موجودہ حکومت بھی سادہ اکثریت سے محروم ہے تو لیکن اسکی اپنے حلقے میں مقبولیت سے انکار کرنا سچّائی سے آنکھیں چُرانے کے مترادف ہے۔لیکن ساڑہے تین سالہ نااہلی نے انہیں عوام کے سامنے عیاں کردیا ہے نتیجہ اپنی نااہلی بدترین گورنینس کو چھپانے کے لئے فسطائیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
عمونا فاشسٹ حکومتیں و حکمران سرکاری طاقت اور جذباتی حامیوں کی محبتوں مسلح اپنے فاشزم کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو سکتی ہیں لیکن ساری فاشسٹ حکومتوں اور ممالک کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔
یادرہے کہ جرمنی کا ہٹلر بھی مقبول ووٹوں کے ذریعے منتخب ہوا تھا۔اور اٹلی کا مسولینی بھی مقبول تھا۔ لیکن دونوں آخر میں اپنے ملک وقوم کی تباہی کا ہی بنے۔
فاشسٹ رویوں کی تروریح کانتیجہ یہی نکلے گا کہ جو عوام آپکے مولاجٹ رویئے کو اپنے غصّے کے اظہار کے ذریعے کے طور پر تحسین کررہے ہیں۔ لیکن بڑہتی ہوئی مہنگائی ٹیکسوں کے ناقابل برداشت بوجھ سے بے حال بھی ہیں ۔اس وقت کا سوچ کر خوف آتا ہے جب عوام واقعتاًپھٹ پڑیں۔۔۔۔۔۔۔ پھر نہ محلات بچیں گے اور نہ انمیں رہنے والے شھزادے و شھزادیاں۔۔۔۔
وہ تو شکر ہے فسطائیت کے مرض کے آثار اور مکمل فاشسٹ بننےمیں فرق یہ ہے کہ مکمل فاشسٹ بننے کے لئے ٹوٹل کنٹرول چاہئے ۔جیسے ۱۹۷۱ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کےاور بعد میں کراچی میں الطاف حسین کو ملتا رہا۔ ویسے نواز شریف کو بھی ہیوی مینڈیٹ ملا ضرور تھا لیکن انکا کنٹرول ٹوٹل نہ ہو سکا کہ سینٹ انکے قابو میں نہیں تھی۔۔ ورنہ کوشش تو ان کی بھی امیرالمومنین بنّے لی تھی۔
اگر موجودہ حکومت کی کارکردگی متاثر کن ہوتی تو یقیناً اس بات کا امکان تھاکہ اگلی ٹرم میں بھرپور اکثریت بھی مل سکتی ہے۔ اب تو ماشاء اللہ انہوں نے خود ہی اپنی کشتی میں بڑے بڑے سوراخ کردئیے ہیں۔
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
پوری دنیا میں اس قسم کے قوانین کی خلاف ورزی پر جیل نہیں لیکن متعلقہ فرد یا ادارے پر عدالتی کاروائی کے زرئعے بھاری جُرمانہ و تاوان عائد کیا جاتا ہے۔یہاں بھی بھی ہتک عزت و فیک نیوز کے قوانین کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ فسطائیت کے ذریعے لوگوں کی زبانیں گُدّی سے کھینچنے کی کوشش کرنے کی۔
کئی ہمارے کئی دوستوں نے جن کی ہمدردیاں حکمران طبقے کے ساتھ ہیں حالیہ پیکا کے آرڈینینس کے دفاع میں قلم توڑ دئیے، پتہ نہیں جان بوجھ کر اغماض برت رہے ہیں یا علم کی کمی ہے، کہ پوری دنیا کی مثال دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے پیکا آرڈینینس اور باقی دنیا کے قوانیُن میں واضع فرق یہ ہے کہ باقی دنیا میں مجرم کو عدالت سے سزایابی کے بعد سزا ملتی ہے ، جبکہ پاکستان کا پی کا آرڈینینس کے مطابق سزا کا عمل مقدمہ درج ہونے کے بعد ہی ناقابل ضمانت گرفتاری سے ہی شروع ہو جانا ہے۔ کہ اگر عدالت سے بری بھی ہو جائیں تب عدالتی کاروائی کے دوران تو جیلوں میں سڑتے رہیں گے ۔
اس سے سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عدالت سے بے گناہ ثابت ہونے والے کی قید بے گناہی کے ماہ و سال کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ یہ قانون نہیں ہے فاشزم ہے۔ اور صرف اور صرف گھبراہٹ کا اظہار ہے۔ تاکہ تنقیدی آوازوں کا گلا گھونٹ کر خاموش کردیا جائے۔
جن دوستوں کا یہ فرنانا کہ اگر حکومتی حامی بھی جھوٹا پروپیگنڈہ کریں گے تو وہ بھی اسی قانون زد میں آسکتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ ایک غلط و جھوٹی دلیل ہے کیونکہ کسی کے خلاف فوجداری جُرم میں کاروائی اور استغاثہ کا اختیار صرف حکومت کا ہوتا ہے اور ہماری حکومتیں اب تک قانون کا نفاذ مخالفین ہی کی گردنوں پر کرتی ہیں۔اس کا مطلب پرنالے نے ایک کی طرف بہنا ہے۔
مشتری ہو شیار باش۔۔
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے. سبب یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو دوران اقتدار فسطائیت ہی بھاتی ہے، اور اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد جمھوریت کی عملبرداری، ذوالفقار علی بھٹو تو اس فقیر کے زندگی کا بدترین فاشسٹ حکمران تھا، پھر نواز شریف بھی وہی بننے کی کوشش کرتے رہے پر دال مکمل نہ گلی۔
موجودہ حکمرانوں بھی فسطائیت کے جراثیم سے بھر پور شاہکار بلکہ بھٹو نہ بھی بن پائیں تو بھی کوشش پوری ہے، ایک تو بھائی خود شاہانہ مزاج رکھتے ہیں دوسرے “کمپنی بہادر” کا سایہ سر پر فنگ ہے یا تھا۔ یعنی کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا۔ لیکن خدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا اور ویسے بھی “کمپنی بہادر” نے بھی انہیں انتہائی تنگ پٹّہ پہنایا ہوا ہے کہ اچھلنے کی کوشش تو کیا خواب دیکھنے پر دم گھُنٹے لگتاہے۔
یہ بھی دیکھئے:
پارلیمان سے سادہ قانون سازی کرنا بھی پُل صراط سے گذرنے کے مانند لگتا ہے، اس لئے زیادہ تر آرڈینینسوں کے ذریعے کام چلایا جارہا ہے ۔ ویسے ہم لوگ بھی عجیب ہیں جمھوریت کی بات تو کرتے ہیں لیکن جمھوریت کے لبادے میں بادشاہ سلامت ہی کو چنتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر نواز شریف تک اور موجودہ “ بہادر شاہ ظفر “ بھی ۔ یہ سب ہی باد شاہ سلامت تھے اور ہیں ۔
ہم جمھوریت نامی چڑیا سے چند دہائیوں پہلے ہی متعارف ہوئے ہیں کہ اس سے پہلے یہی تلوار کی نوک پر اقتدار و بادشاہتیں سنبھالنے والے ہی ہمارے ہیرو ہوا کرتے رھے، پر اب ہم ماڈرن بن گئے ہیں اس لئے جمھورئت کی مالا جپنے لگے جو ہمارے لیے نیا فیشن تو ہے لیکن فطرت تو وہی رہتی ہے کہ چولہ بدلنے سے فطرت نہیں بدلتی ہے اور ہماری حالت بھی اوپر جمھوریت کی شرٹ وٹائی کے نیچے آمریت کی دھوتی پہن کر کام چلا رہے ہیں۔
موجودہ بادشاہ فطری طور پر فسطائیت کے اتنے قائل ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھلا دیں لیکن خدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا اور ۔۔ ویسے بھی “کمپنی بہادر” نے بھی انہیں انتہائی تنگ پٹّہ پہنایا ہوا ہے کہ اچھلنے کی کوشش تو کیا خواب دیکھنے پر دم گھُنٹے لگتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
یہ نوحہ ہے ہمارے کراچی کا جو کبھی عروس البلاد تھا
سوئز سیکرٹس میں شامل پاکستانی جرنیل ؛ جنرل اختر عبدالرحمٰن کون؟
اکادمی آف لیٹرز: میں مادری زبان کا ادبی میلہ
پارلیمان سے سادہ قانون سازی کرتے ہوئے بھی دم پھولنے لگتا ہے، زیادہ تر آرڈینینسوں کے ذریعے کام چلایا جارہا ہے ۔ موجودہ فیک نیوز ودیگر آرڈینینس خوفزدہ کرنے کے لئے تو کافی ہیں لیکن کیا آرڈینینس کی معیاد کے خاتمے کے بعد پارلیمان سے منظور کرپائیں گے، اگر کسی نے اسے عدالت میں چلینج کیا تو عدالتی رویہ کیا ہو گا؟ آثار تو عجیب ہیں، اب تو سوال یہ بھی پیدا ہو گیا کہ کیا یہ آرڈیننس پہلے ختم ہو گا یا یہ حکومت ؟
مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں بھی شاید ایسا ہی ہوتا ہو گا۔ جب قلعے میں بھی “کمپنی بہادر” راج تھا۔ویسے بھی یہ تو شاید کمزور ترین بادشاہ ہے کہ جس کے “محل” میں بھی “کمپنی بہادر “ کا راج ہے۔ (ایک حدتک مغلیہ سلطنت کے آخری دنوں کی یاد دلا رہا ہے) مجھے یقین اسکا “رنگون” بھی قریب ہی ہے۔ تاریخ نے خود کو دھرانا ہی ہے۔
کیا ایک بار پھر “کمپنی بہادر” جمھوریت کا چولہ اُتار کر کھلے بندوں ملکیت سنبھالنے کے لئے تیار ہے؟ ناممکنات تو نہیں پر مشکل لگتا ہے۔ کہ “کمپنی بہادر” بھی ملکہ عظمی یا بادشاہ اصلی کی آشیرواد کے بغیر نہیں کرسکتی تھی۔ اُس زمانے کا بادشاہ لندن میں تھا اب قبلہ واشنگٹن میں منتقل ہو گیا ہے۔ اور قبلہ نمرود واشنگٹن کی پلیٹ پہلے ہی مکمل طور پر بھری ہوئی ہے وہ ہمارے بادشاہ کو رسمی طور پر دعاء سلام کے بھی روادار نہیں ۔
موجودہ حکومت درحقیقت عوام کی اسٹیٹس کو سے بیزاری اور نوجوانوں کی ملک میں حالات میں تبدیلی کی خواہش کی پیداوار تو ہے ، لیکن جو علامات سامنے آرہی ہیں وہ خاصی تشویشناک ہیں۔ غیر جانبدار اور تنقید کرنے والے الیکڑونک و پرنٹ میڈیا پر شکنجہ اس حدتک تنگ کردیا گیا کہ بہت سے اداروں کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا، سینکڑوں نہیں ہزاروں میڈیا کےچھوٹے و درمیانہ درجے کے کارکنان ملازمتوں سے محروم ہوگئے ۔
حکومت کا اصل شکار لاکھوں کے مشاہرہ لینے والے اینکر و کالم نگار ہیں لیکن ان کا تو بڑی حدتک کچھ نہ بگاڑ سکے وہ بھی بیروزگار ہوکر یوٹیوب چینلوں پر آگئے لیکن ان میں نامی گرامی حضرات کے سبسکرائیبر ہی اتنے ہوتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ کام چل ہی جاتا ہے، درحقیقت اس کا نشانہ اخبارات و میڈیا میں کم تنخواہوں پر کام کرنے والے ملازمین بن گئے، جس کے نتیجے میں انسانی المیے بھی جنم پائے۔
اس سے بدترین حالات ۱۹۷۰ کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کے دوران تھے اس زمانے میں شوشل میڈیا موجودہ نہیں تھا لیکن پرنٹڈ میڈیا اخبارات و رسائل پر آہنی کنٹرول ، اخباروں و رسائل کی بندش اور اخبار نویسوں کو جیلوں میں ڈالنا روزمرہ کی بات تھی۔ لیکن اس وقت حکومت کے پاس تمام ایوانوں میں مکمل اکثریت تھی اور ملک میں مسلسل ہنگامی حالات نافذ تھے جن کی رو سے بنیادی آزادیاں معطل تھیں۔
اس کے باوجود حالات بہت بہتر بھی تھے کہ اس زمانے میں کچھ اقدار باقی تھیں، اس لئے (سب نہیں) بعض صحافیوں ہی نہیں ان کے اداروں و مالکان نے بھی اصولوں کی بالادستی کے لئے مالی و جسمانی نقصانات و تکالیف بھی بھگتیں۔
لیکن اب بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کی بھر مار کی وجہ سے صحافت مشن سے زیادہ کاروبار بن چُکی ہے اس صورت میں یقیناً صحافیوں خبر رساں اداروں کی مالی منفعت یا نقصان سے محفوظ رہنے کے لئے طاقتور حلقوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں مین اسٹریم میڈیا پر بڑی حدتک مکمل قابو پایا جاچکا ہے، تھوڑی بہت آزادی کا احساس شوشل میڈیا کی وجہ سے ہے کہ اپنی تمام خواہشات کے باوجود حکومت اس پر کنٹرول نہیں کرپائی لیکن شوشل میڈیا پراس لحاظ سے مسابقتی فضا ہے کہ ان کے حامی بھی وہاں پر موجود ہیں، پھر بھی یہ تھوڑی بہت آزاد فضا بھی ناقابل برداشت نظر آرہی ہے۔پر اس کے لیےنئی قانون سازی کرنا مشکل ہے اس لیے فی الوقت آرڈینینس کی فیکٹریاں لگا کر کام چلایا جارہا ہے۔
احتساب بذات خود کوئی غلط یا قابل اعتراض چیز نہیں ہے؟ لیکن یکطرفہ اور جانبدارنہ احتساب کے نام پر جو تماشا جاری ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ یہی کچھ فاشسٹ حکومتیں کرتی ہیں، اپنی نااہلی کی بناء پر جُرائم عدالتوں میں ثابت کرنے میں ناکامی کا نزلہ عدالتوں پر ڈال کر اپنے حامیوں کا غصہ عدلیہ کی طرف منتقل کردیں۔
فاشسزم کی مقامی مثال ایم کیو ایم دیکھی جاسکتی ہے۔ ایک شاندار ترقی پذیر اور تعلیم یافتہ لسانی اقلیت کو تباہ حال کردیا۔۔کراچی اور اردو بولنے والوں کی موجودہ صورتحال میں یقیناً ایم کیو ایم کا بہت بڑا کردار ہے۔
موجودہ حکومت بھی سادہ اکثریت سے محروم ہے تو لیکن اسکی اپنے حلقے میں مقبولیت سے انکار کرنا سچّائی سے آنکھیں چُرانے کے مترادف ہے۔لیکن ساڑہے تین سالہ نااہلی نے انہیں عوام کے سامنے عیاں کردیا ہے نتیجہ اپنی نااہلی بدترین گورنینس کو چھپانے کے لئے فسطائیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
عمونا فاشسٹ حکومتیں و حکمران سرکاری طاقت اور جذباتی حامیوں کی محبتوں مسلح اپنے فاشزم کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو سکتی ہیں لیکن ساری فاشسٹ حکومتوں اور ممالک کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔
یادرہے کہ جرمنی کا ہٹلر بھی مقبول ووٹوں کے ذریعے منتخب ہوا تھا۔اور اٹلی کا مسولینی بھی مقبول تھا۔ لیکن دونوں آخر میں اپنے ملک وقوم کی تباہی کا ہی بنے۔
فاشسٹ رویوں کی تروریح کانتیجہ یہی نکلے گا کہ جو عوام آپکے مولاجٹ رویئے کو اپنے غصّے کے اظہار کے ذریعے کے طور پر تحسین کررہے ہیں۔ لیکن بڑہتی ہوئی مہنگائی ٹیکسوں کے ناقابل برداشت بوجھ سے بے حال بھی ہیں ۔اس وقت کا سوچ کر خوف آتا ہے جب عوام واقعتاًپھٹ پڑیں۔۔۔۔۔۔۔ پھر نہ محلات بچیں گے اور نہ انمیں رہنے والے شھزادے و شھزادیاں۔۔۔۔
وہ تو شکر ہے فسطائیت کے مرض کے آثار اور مکمل فاشسٹ بننےمیں فرق یہ ہے کہ مکمل فاشسٹ بننے کے لئے ٹوٹل کنٹرول چاہئے ۔جیسے ۱۹۷۱ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کےاور بعد میں کراچی میں الطاف حسین کو ملتا رہا۔ ویسے نواز شریف کو بھی ہیوی مینڈیٹ ملا ضرور تھا لیکن انکا کنٹرول ٹوٹل نہ ہو سکا کہ سینٹ انکے قابو میں نہیں تھی۔۔ ورنہ کوشش تو ان کی بھی امیرالمومنین بنّے لی تھی۔
اگر موجودہ حکومت کی کارکردگی متاثر کن ہوتی تو یقیناً اس بات کا امکان تھاکہ اگلی ٹرم میں بھرپور اکثریت بھی مل سکتی ہے۔ اب تو ماشاء اللہ انہوں نے خود ہی اپنی کشتی میں بڑے بڑے سوراخ کردئیے ہیں۔
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
پوری دنیا میں اس قسم کے قوانین کی خلاف ورزی پر جیل نہیں لیکن متعلقہ فرد یا ادارے پر عدالتی کاروائی کے زرئعے بھاری جُرمانہ و تاوان عائد کیا جاتا ہے۔یہاں بھی بھی ہتک عزت و فیک نیوز کے قوانین کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ فسطائیت کے ذریعے لوگوں کی زبانیں گُدّی سے کھینچنے کی کوشش کرنے کی۔
کئی ہمارے کئی دوستوں نے جن کی ہمدردیاں حکمران طبقے کے ساتھ ہیں حالیہ پیکا کے آرڈینینس کے دفاع میں قلم توڑ دئیے، پتہ نہیں جان بوجھ کر اغماض برت رہے ہیں یا علم کی کمی ہے، کہ پوری دنیا کی مثال دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے پیکا آرڈینینس اور باقی دنیا کے قوانیُن میں واضع فرق یہ ہے کہ باقی دنیا میں مجرم کو عدالت سے سزایابی کے بعد سزا ملتی ہے ، جبکہ پاکستان کا پی کا آرڈینینس کے مطابق سزا کا عمل مقدمہ درج ہونے کے بعد ہی ناقابل ضمانت گرفتاری سے ہی شروع ہو جانا ہے۔ کہ اگر عدالت سے بری بھی ہو جائیں تب عدالتی کاروائی کے دوران تو جیلوں میں سڑتے رہیں گے ۔
اس سے سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عدالت سے بے گناہ ثابت ہونے والے کی قید بے گناہی کے ماہ و سال کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ یہ قانون نہیں ہے فاشزم ہے۔ اور صرف اور صرف گھبراہٹ کا اظہار ہے۔ تاکہ تنقیدی آوازوں کا گلا گھونٹ کر خاموش کردیا جائے۔
جن دوستوں کا یہ فرنانا کہ اگر حکومتی حامی بھی جھوٹا پروپیگنڈہ کریں گے تو وہ بھی اسی قانون زد میں آسکتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ ایک غلط و جھوٹی دلیل ہے کیونکہ کسی کے خلاف فوجداری جُرم میں کاروائی اور استغاثہ کا اختیار صرف حکومت کا ہوتا ہے اور ہماری حکومتیں اب تک قانون کا نفاذ مخالفین ہی کی گردنوں پر کرتی ہیں۔اس کا مطلب پرنالے نے ایک کی طرف بہنا ہے۔
مشتری ہو شیار باش۔۔
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے. سبب یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو دوران اقتدار فسطائیت ہی بھاتی ہے، اور اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد جمھوریت کی عملبرداری، ذوالفقار علی بھٹو تو اس فقیر کے زندگی کا بدترین فاشسٹ حکمران تھا، پھر نواز شریف بھی وہی بننے کی کوشش کرتے رہے پر دال مکمل نہ گلی۔
موجودہ حکمرانوں بھی فسطائیت کے جراثیم سے بھر پور شاہکار بلکہ بھٹو نہ بھی بن پائیں تو بھی کوشش پوری ہے، ایک تو بھائی خود شاہانہ مزاج رکھتے ہیں دوسرے “کمپنی بہادر” کا سایہ سر پر فنگ ہے یا تھا۔ یعنی کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا۔ لیکن خدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا اور ویسے بھی “کمپنی بہادر” نے بھی انہیں انتہائی تنگ پٹّہ پہنایا ہوا ہے کہ اچھلنے کی کوشش تو کیا خواب دیکھنے پر دم گھُنٹے لگتاہے۔
یہ بھی دیکھئے:
پارلیمان سے سادہ قانون سازی کرنا بھی پُل صراط سے گذرنے کے مانند لگتا ہے، اس لئے زیادہ تر آرڈینینسوں کے ذریعے کام چلایا جارہا ہے ۔ ویسے ہم لوگ بھی عجیب ہیں جمھوریت کی بات تو کرتے ہیں لیکن جمھوریت کے لبادے میں بادشاہ سلامت ہی کو چنتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر نواز شریف تک اور موجودہ “ بہادر شاہ ظفر “ بھی ۔ یہ سب ہی باد شاہ سلامت تھے اور ہیں ۔
ہم جمھوریت نامی چڑیا سے چند دہائیوں پہلے ہی متعارف ہوئے ہیں کہ اس سے پہلے یہی تلوار کی نوک پر اقتدار و بادشاہتیں سنبھالنے والے ہی ہمارے ہیرو ہوا کرتے رھے، پر اب ہم ماڈرن بن گئے ہیں اس لئے جمھورئت کی مالا جپنے لگے جو ہمارے لیے نیا فیشن تو ہے لیکن فطرت تو وہی رہتی ہے کہ چولہ بدلنے سے فطرت نہیں بدلتی ہے اور ہماری حالت بھی اوپر جمھوریت کی شرٹ وٹائی کے نیچے آمریت کی دھوتی پہن کر کام چلا رہے ہیں۔
موجودہ بادشاہ فطری طور پر فسطائیت کے اتنے قائل ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھلا دیں لیکن خدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا اور ۔۔ ویسے بھی “کمپنی بہادر” نے بھی انہیں انتہائی تنگ پٹّہ پہنایا ہوا ہے کہ اچھلنے کی کوشش تو کیا خواب دیکھنے پر دم گھُنٹے لگتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
یہ نوحہ ہے ہمارے کراچی کا جو کبھی عروس البلاد تھا
سوئز سیکرٹس میں شامل پاکستانی جرنیل ؛ جنرل اختر عبدالرحمٰن کون؟
اکادمی آف لیٹرز: میں مادری زبان کا ادبی میلہ
پارلیمان سے سادہ قانون سازی کرتے ہوئے بھی دم پھولنے لگتا ہے، زیادہ تر آرڈینینسوں کے ذریعے کام چلایا جارہا ہے ۔ موجودہ فیک نیوز ودیگر آرڈینینس خوفزدہ کرنے کے لئے تو کافی ہیں لیکن کیا آرڈینینس کی معیاد کے خاتمے کے بعد پارلیمان سے منظور کرپائیں گے، اگر کسی نے اسے عدالت میں چلینج کیا تو عدالتی رویہ کیا ہو گا؟ آثار تو عجیب ہیں، اب تو سوال یہ بھی پیدا ہو گیا کہ کیا یہ آرڈیننس پہلے ختم ہو گا یا یہ حکومت ؟
مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں بھی شاید ایسا ہی ہوتا ہو گا۔ جب قلعے میں بھی “کمپنی بہادر” راج تھا۔ویسے بھی یہ تو شاید کمزور ترین بادشاہ ہے کہ جس کے “محل” میں بھی “کمپنی بہادر “ کا راج ہے۔ (ایک حدتک مغلیہ سلطنت کے آخری دنوں کی یاد دلا رہا ہے) مجھے یقین اسکا “رنگون” بھی قریب ہی ہے۔ تاریخ نے خود کو دھرانا ہی ہے۔
کیا ایک بار پھر “کمپنی بہادر” جمھوریت کا چولہ اُتار کر کھلے بندوں ملکیت سنبھالنے کے لئے تیار ہے؟ ناممکنات تو نہیں پر مشکل لگتا ہے۔ کہ “کمپنی بہادر” بھی ملکہ عظمی یا بادشاہ اصلی کی آشیرواد کے بغیر نہیں کرسکتی تھی۔ اُس زمانے کا بادشاہ لندن میں تھا اب قبلہ واشنگٹن میں منتقل ہو گیا ہے۔ اور قبلہ نمرود واشنگٹن کی پلیٹ پہلے ہی مکمل طور پر بھری ہوئی ہے وہ ہمارے بادشاہ کو رسمی طور پر دعاء سلام کے بھی روادار نہیں ۔
موجودہ حکومت درحقیقت عوام کی اسٹیٹس کو سے بیزاری اور نوجوانوں کی ملک میں حالات میں تبدیلی کی خواہش کی پیداوار تو ہے ، لیکن جو علامات سامنے آرہی ہیں وہ خاصی تشویشناک ہیں۔ غیر جانبدار اور تنقید کرنے والے الیکڑونک و پرنٹ میڈیا پر شکنجہ اس حدتک تنگ کردیا گیا کہ بہت سے اداروں کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا، سینکڑوں نہیں ہزاروں میڈیا کےچھوٹے و درمیانہ درجے کے کارکنان ملازمتوں سے محروم ہوگئے ۔
حکومت کا اصل شکار لاکھوں کے مشاہرہ لینے والے اینکر و کالم نگار ہیں لیکن ان کا تو بڑی حدتک کچھ نہ بگاڑ سکے وہ بھی بیروزگار ہوکر یوٹیوب چینلوں پر آگئے لیکن ان میں نامی گرامی حضرات کے سبسکرائیبر ہی اتنے ہوتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ کام چل ہی جاتا ہے، درحقیقت اس کا نشانہ اخبارات و میڈیا میں کم تنخواہوں پر کام کرنے والے ملازمین بن گئے، جس کے نتیجے میں انسانی المیے بھی جنم پائے۔
اس سے بدترین حالات ۱۹۷۰ کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کے دوران تھے اس زمانے میں شوشل میڈیا موجودہ نہیں تھا لیکن پرنٹڈ میڈیا اخبارات و رسائل پر آہنی کنٹرول ، اخباروں و رسائل کی بندش اور اخبار نویسوں کو جیلوں میں ڈالنا روزمرہ کی بات تھی۔ لیکن اس وقت حکومت کے پاس تمام ایوانوں میں مکمل اکثریت تھی اور ملک میں مسلسل ہنگامی حالات نافذ تھے جن کی رو سے بنیادی آزادیاں معطل تھیں۔
اس کے باوجود حالات بہت بہتر بھی تھے کہ اس زمانے میں کچھ اقدار باقی تھیں، اس لئے (سب نہیں) بعض صحافیوں ہی نہیں ان کے اداروں و مالکان نے بھی اصولوں کی بالادستی کے لئے مالی و جسمانی نقصانات و تکالیف بھی بھگتیں۔
لیکن اب بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کی بھر مار کی وجہ سے صحافت مشن سے زیادہ کاروبار بن چُکی ہے اس صورت میں یقیناً صحافیوں خبر رساں اداروں کی مالی منفعت یا نقصان سے محفوظ رہنے کے لئے طاقتور حلقوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں مین اسٹریم میڈیا پر بڑی حدتک مکمل قابو پایا جاچکا ہے، تھوڑی بہت آزادی کا احساس شوشل میڈیا کی وجہ سے ہے کہ اپنی تمام خواہشات کے باوجود حکومت اس پر کنٹرول نہیں کرپائی لیکن شوشل میڈیا پراس لحاظ سے مسابقتی فضا ہے کہ ان کے حامی بھی وہاں پر موجود ہیں، پھر بھی یہ تھوڑی بہت آزاد فضا بھی ناقابل برداشت نظر آرہی ہے۔پر اس کے لیےنئی قانون سازی کرنا مشکل ہے اس لیے فی الوقت آرڈینینس کی فیکٹریاں لگا کر کام چلایا جارہا ہے۔
احتساب بذات خود کوئی غلط یا قابل اعتراض چیز نہیں ہے؟ لیکن یکطرفہ اور جانبدارنہ احتساب کے نام پر جو تماشا جاری ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ یہی کچھ فاشسٹ حکومتیں کرتی ہیں، اپنی نااہلی کی بناء پر جُرائم عدالتوں میں ثابت کرنے میں ناکامی کا نزلہ عدالتوں پر ڈال کر اپنے حامیوں کا غصہ عدلیہ کی طرف منتقل کردیں۔
فاشسزم کی مقامی مثال ایم کیو ایم دیکھی جاسکتی ہے۔ ایک شاندار ترقی پذیر اور تعلیم یافتہ لسانی اقلیت کو تباہ حال کردیا۔۔کراچی اور اردو بولنے والوں کی موجودہ صورتحال میں یقیناً ایم کیو ایم کا بہت بڑا کردار ہے۔
موجودہ حکومت بھی سادہ اکثریت سے محروم ہے تو لیکن اسکی اپنے حلقے میں مقبولیت سے انکار کرنا سچّائی سے آنکھیں چُرانے کے مترادف ہے۔لیکن ساڑہے تین سالہ نااہلی نے انہیں عوام کے سامنے عیاں کردیا ہے نتیجہ اپنی نااہلی بدترین گورنینس کو چھپانے کے لئے فسطائیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
عمونا فاشسٹ حکومتیں و حکمران سرکاری طاقت اور جذباتی حامیوں کی محبتوں مسلح اپنے فاشزم کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو سکتی ہیں لیکن ساری فاشسٹ حکومتوں اور ممالک کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔
یادرہے کہ جرمنی کا ہٹلر بھی مقبول ووٹوں کے ذریعے منتخب ہوا تھا۔اور اٹلی کا مسولینی بھی مقبول تھا۔ لیکن دونوں آخر میں اپنے ملک وقوم کی تباہی کا ہی بنے۔
فاشسٹ رویوں کی تروریح کانتیجہ یہی نکلے گا کہ جو عوام آپکے مولاجٹ رویئے کو اپنے غصّے کے اظہار کے ذریعے کے طور پر تحسین کررہے ہیں۔ لیکن بڑہتی ہوئی مہنگائی ٹیکسوں کے ناقابل برداشت بوجھ سے بے حال بھی ہیں ۔اس وقت کا سوچ کر خوف آتا ہے جب عوام واقعتاًپھٹ پڑیں۔۔۔۔۔۔۔ پھر نہ محلات بچیں گے اور نہ انمیں رہنے والے شھزادے و شھزادیاں۔۔۔۔
وہ تو شکر ہے فسطائیت کے مرض کے آثار اور مکمل فاشسٹ بننےمیں فرق یہ ہے کہ مکمل فاشسٹ بننے کے لئے ٹوٹل کنٹرول چاہئے ۔جیسے ۱۹۷۱ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کےاور بعد میں کراچی میں الطاف حسین کو ملتا رہا۔ ویسے نواز شریف کو بھی ہیوی مینڈیٹ ملا ضرور تھا لیکن انکا کنٹرول ٹوٹل نہ ہو سکا کہ سینٹ انکے قابو میں نہیں تھی۔۔ ورنہ کوشش تو ان کی بھی امیرالمومنین بنّے لی تھی۔
اگر موجودہ حکومت کی کارکردگی متاثر کن ہوتی تو یقیناً اس بات کا امکان تھاکہ اگلی ٹرم میں بھرپور اکثریت بھی مل سکتی ہے۔ اب تو ماشاء اللہ انہوں نے خود ہی اپنی کشتی میں بڑے بڑے سوراخ کردئیے ہیں۔
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
پوری دنیا میں اس قسم کے قوانین کی خلاف ورزی پر جیل نہیں لیکن متعلقہ فرد یا ادارے پر عدالتی کاروائی کے زرئعے بھاری جُرمانہ و تاوان عائد کیا جاتا ہے۔یہاں بھی بھی ہتک عزت و فیک نیوز کے قوانین کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ فسطائیت کے ذریعے لوگوں کی زبانیں گُدّی سے کھینچنے کی کوشش کرنے کی۔
کئی ہمارے کئی دوستوں نے جن کی ہمدردیاں حکمران طبقے کے ساتھ ہیں حالیہ پیکا کے آرڈینینس کے دفاع میں قلم توڑ دئیے، پتہ نہیں جان بوجھ کر اغماض برت رہے ہیں یا علم کی کمی ہے، کہ پوری دنیا کی مثال دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے پیکا آرڈینینس اور باقی دنیا کے قوانیُن میں واضع فرق یہ ہے کہ باقی دنیا میں مجرم کو عدالت سے سزایابی کے بعد سزا ملتی ہے ، جبکہ پاکستان کا پی کا آرڈینینس کے مطابق سزا کا عمل مقدمہ درج ہونے کے بعد ہی ناقابل ضمانت گرفتاری سے ہی شروع ہو جانا ہے۔ کہ اگر عدالت سے بری بھی ہو جائیں تب عدالتی کاروائی کے دوران تو جیلوں میں سڑتے رہیں گے ۔
اس سے سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عدالت سے بے گناہ ثابت ہونے والے کی قید بے گناہی کے ماہ و سال کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ یہ قانون نہیں ہے فاشزم ہے۔ اور صرف اور صرف گھبراہٹ کا اظہار ہے۔ تاکہ تنقیدی آوازوں کا گلا گھونٹ کر خاموش کردیا جائے۔
جن دوستوں کا یہ فرنانا کہ اگر حکومتی حامی بھی جھوٹا پروپیگنڈہ کریں گے تو وہ بھی اسی قانون زد میں آسکتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ ایک غلط و جھوٹی دلیل ہے کیونکہ کسی کے خلاف فوجداری جُرم میں کاروائی اور استغاثہ کا اختیار صرف حکومت کا ہوتا ہے اور ہماری حکومتیں اب تک قانون کا نفاذ مخالفین ہی کی گردنوں پر کرتی ہیں۔اس کا مطلب پرنالے نے ایک کی طرف بہنا ہے۔
مشتری ہو شیار باش۔۔
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے. سبب یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو دوران اقتدار فسطائیت ہی بھاتی ہے، اور اقتدار سے باہر نکلنے کے بعد جمھوریت کی عملبرداری، ذوالفقار علی بھٹو تو اس فقیر کے زندگی کا بدترین فاشسٹ حکمران تھا، پھر نواز شریف بھی وہی بننے کی کوشش کرتے رہے پر دال مکمل نہ گلی۔
موجودہ حکمرانوں بھی فسطائیت کے جراثیم سے بھر پور شاہکار بلکہ بھٹو نہ بھی بن پائیں تو بھی کوشش پوری ہے، ایک تو بھائی خود شاہانہ مزاج رکھتے ہیں دوسرے “کمپنی بہادر” کا سایہ سر پر فنگ ہے یا تھا۔ یعنی کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا۔ لیکن خدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا اور ویسے بھی “کمپنی بہادر” نے بھی انہیں انتہائی تنگ پٹّہ پہنایا ہوا ہے کہ اچھلنے کی کوشش تو کیا خواب دیکھنے پر دم گھُنٹے لگتاہے۔
یہ بھی دیکھئے:
پارلیمان سے سادہ قانون سازی کرنا بھی پُل صراط سے گذرنے کے مانند لگتا ہے، اس لئے زیادہ تر آرڈینینسوں کے ذریعے کام چلایا جارہا ہے ۔ ویسے ہم لوگ بھی عجیب ہیں جمھوریت کی بات تو کرتے ہیں لیکن جمھوریت کے لبادے میں بادشاہ سلامت ہی کو چنتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر نواز شریف تک اور موجودہ “ بہادر شاہ ظفر “ بھی ۔ یہ سب ہی باد شاہ سلامت تھے اور ہیں ۔
ہم جمھوریت نامی چڑیا سے چند دہائیوں پہلے ہی متعارف ہوئے ہیں کہ اس سے پہلے یہی تلوار کی نوک پر اقتدار و بادشاہتیں سنبھالنے والے ہی ہمارے ہیرو ہوا کرتے رھے، پر اب ہم ماڈرن بن گئے ہیں اس لئے جمھورئت کی مالا جپنے لگے جو ہمارے لیے نیا فیشن تو ہے لیکن فطرت تو وہی رہتی ہے کہ چولہ بدلنے سے فطرت نہیں بدلتی ہے اور ہماری حالت بھی اوپر جمھوریت کی شرٹ وٹائی کے نیچے آمریت کی دھوتی پہن کر کام چلا رہے ہیں۔
موجودہ بادشاہ فطری طور پر فسطائیت کے اتنے قائل ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو بھلا دیں لیکن خدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا اور ۔۔ ویسے بھی “کمپنی بہادر” نے بھی انہیں انتہائی تنگ پٹّہ پہنایا ہوا ہے کہ اچھلنے کی کوشش تو کیا خواب دیکھنے پر دم گھُنٹے لگتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
یہ نوحہ ہے ہمارے کراچی کا جو کبھی عروس البلاد تھا
سوئز سیکرٹس میں شامل پاکستانی جرنیل ؛ جنرل اختر عبدالرحمٰن کون؟
اکادمی آف لیٹرز: میں مادری زبان کا ادبی میلہ
پارلیمان سے سادہ قانون سازی کرتے ہوئے بھی دم پھولنے لگتا ہے، زیادہ تر آرڈینینسوں کے ذریعے کام چلایا جارہا ہے ۔ موجودہ فیک نیوز ودیگر آرڈینینس خوفزدہ کرنے کے لئے تو کافی ہیں لیکن کیا آرڈینینس کی معیاد کے خاتمے کے بعد پارلیمان سے منظور کرپائیں گے، اگر کسی نے اسے عدالت میں چلینج کیا تو عدالتی رویہ کیا ہو گا؟ آثار تو عجیب ہیں، اب تو سوال یہ بھی پیدا ہو گیا کہ کیا یہ آرڈیننس پہلے ختم ہو گا یا یہ حکومت ؟
مغلیہ سلطنت کے آخری دور میں بھی شاید ایسا ہی ہوتا ہو گا۔ جب قلعے میں بھی “کمپنی بہادر” راج تھا۔ویسے بھی یہ تو شاید کمزور ترین بادشاہ ہے کہ جس کے “محل” میں بھی “کمپنی بہادر “ کا راج ہے۔ (ایک حدتک مغلیہ سلطنت کے آخری دنوں کی یاد دلا رہا ہے) مجھے یقین اسکا “رنگون” بھی قریب ہی ہے۔ تاریخ نے خود کو دھرانا ہی ہے۔
کیا ایک بار پھر “کمپنی بہادر” جمھوریت کا چولہ اُتار کر کھلے بندوں ملکیت سنبھالنے کے لئے تیار ہے؟ ناممکنات تو نہیں پر مشکل لگتا ہے۔ کہ “کمپنی بہادر” بھی ملکہ عظمی یا بادشاہ اصلی کی آشیرواد کے بغیر نہیں کرسکتی تھی۔ اُس زمانے کا بادشاہ لندن میں تھا اب قبلہ واشنگٹن میں منتقل ہو گیا ہے۔ اور قبلہ نمرود واشنگٹن کی پلیٹ پہلے ہی مکمل طور پر بھری ہوئی ہے وہ ہمارے بادشاہ کو رسمی طور پر دعاء سلام کے بھی روادار نہیں ۔
موجودہ حکومت درحقیقت عوام کی اسٹیٹس کو سے بیزاری اور نوجوانوں کی ملک میں حالات میں تبدیلی کی خواہش کی پیداوار تو ہے ، لیکن جو علامات سامنے آرہی ہیں وہ خاصی تشویشناک ہیں۔ غیر جانبدار اور تنقید کرنے والے الیکڑونک و پرنٹ میڈیا پر شکنجہ اس حدتک تنگ کردیا گیا کہ بہت سے اداروں کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا، سینکڑوں نہیں ہزاروں میڈیا کےچھوٹے و درمیانہ درجے کے کارکنان ملازمتوں سے محروم ہوگئے ۔
حکومت کا اصل شکار لاکھوں کے مشاہرہ لینے والے اینکر و کالم نگار ہیں لیکن ان کا تو بڑی حدتک کچھ نہ بگاڑ سکے وہ بھی بیروزگار ہوکر یوٹیوب چینلوں پر آگئے لیکن ان میں نامی گرامی حضرات کے سبسکرائیبر ہی اتنے ہوتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ کام چل ہی جاتا ہے، درحقیقت اس کا نشانہ اخبارات و میڈیا میں کم تنخواہوں پر کام کرنے والے ملازمین بن گئے، جس کے نتیجے میں انسانی المیے بھی جنم پائے۔
اس سے بدترین حالات ۱۹۷۰ کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کے دوران تھے اس زمانے میں شوشل میڈیا موجودہ نہیں تھا لیکن پرنٹڈ میڈیا اخبارات و رسائل پر آہنی کنٹرول ، اخباروں و رسائل کی بندش اور اخبار نویسوں کو جیلوں میں ڈالنا روزمرہ کی بات تھی۔ لیکن اس وقت حکومت کے پاس تمام ایوانوں میں مکمل اکثریت تھی اور ملک میں مسلسل ہنگامی حالات نافذ تھے جن کی رو سے بنیادی آزادیاں معطل تھیں۔
اس کے باوجود حالات بہت بہتر بھی تھے کہ اس زمانے میں کچھ اقدار باقی تھیں، اس لئے (سب نہیں) بعض صحافیوں ہی نہیں ان کے اداروں و مالکان نے بھی اصولوں کی بالادستی کے لئے مالی و جسمانی نقصانات و تکالیف بھی بھگتیں۔
لیکن اب بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کی بھر مار کی وجہ سے صحافت مشن سے زیادہ کاروبار بن چُکی ہے اس صورت میں یقیناً صحافیوں خبر رساں اداروں کی مالی منفعت یا نقصان سے محفوظ رہنے کے لئے طاقتور حلقوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں مین اسٹریم میڈیا پر بڑی حدتک مکمل قابو پایا جاچکا ہے، تھوڑی بہت آزادی کا احساس شوشل میڈیا کی وجہ سے ہے کہ اپنی تمام خواہشات کے باوجود حکومت اس پر کنٹرول نہیں کرپائی لیکن شوشل میڈیا پراس لحاظ سے مسابقتی فضا ہے کہ ان کے حامی بھی وہاں پر موجود ہیں، پھر بھی یہ تھوڑی بہت آزاد فضا بھی ناقابل برداشت نظر آرہی ہے۔پر اس کے لیےنئی قانون سازی کرنا مشکل ہے اس لیے فی الوقت آرڈینینس کی فیکٹریاں لگا کر کام چلایا جارہا ہے۔
احتساب بذات خود کوئی غلط یا قابل اعتراض چیز نہیں ہے؟ لیکن یکطرفہ اور جانبدارنہ احتساب کے نام پر جو تماشا جاری ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ یہی کچھ فاشسٹ حکومتیں کرتی ہیں، اپنی نااہلی کی بناء پر جُرائم عدالتوں میں ثابت کرنے میں ناکامی کا نزلہ عدالتوں پر ڈال کر اپنے حامیوں کا غصہ عدلیہ کی طرف منتقل کردیں۔
فاشسزم کی مقامی مثال ایم کیو ایم دیکھی جاسکتی ہے۔ ایک شاندار ترقی پذیر اور تعلیم یافتہ لسانی اقلیت کو تباہ حال کردیا۔۔کراچی اور اردو بولنے والوں کی موجودہ صورتحال میں یقیناً ایم کیو ایم کا بہت بڑا کردار ہے۔
موجودہ حکومت بھی سادہ اکثریت سے محروم ہے تو لیکن اسکی اپنے حلقے میں مقبولیت سے انکار کرنا سچّائی سے آنکھیں چُرانے کے مترادف ہے۔لیکن ساڑہے تین سالہ نااہلی نے انہیں عوام کے سامنے عیاں کردیا ہے نتیجہ اپنی نااہلی بدترین گورنینس کو چھپانے کے لئے فسطائیت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
عمونا فاشسٹ حکومتیں و حکمران سرکاری طاقت اور جذباتی حامیوں کی محبتوں مسلح اپنے فاشزم کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو سکتی ہیں لیکن ساری فاشسٹ حکومتوں اور ممالک کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔
یادرہے کہ جرمنی کا ہٹلر بھی مقبول ووٹوں کے ذریعے منتخب ہوا تھا۔اور اٹلی کا مسولینی بھی مقبول تھا۔ لیکن دونوں آخر میں اپنے ملک وقوم کی تباہی کا ہی بنے۔
فاشسٹ رویوں کی تروریح کانتیجہ یہی نکلے گا کہ جو عوام آپکے مولاجٹ رویئے کو اپنے غصّے کے اظہار کے ذریعے کے طور پر تحسین کررہے ہیں۔ لیکن بڑہتی ہوئی مہنگائی ٹیکسوں کے ناقابل برداشت بوجھ سے بے حال بھی ہیں ۔اس وقت کا سوچ کر خوف آتا ہے جب عوام واقعتاًپھٹ پڑیں۔۔۔۔۔۔۔ پھر نہ محلات بچیں گے اور نہ انمیں رہنے والے شھزادے و شھزادیاں۔۔۔۔
وہ تو شکر ہے فسطائیت کے مرض کے آثار اور مکمل فاشسٹ بننےمیں فرق یہ ہے کہ مکمل فاشسٹ بننے کے لئے ٹوٹل کنٹرول چاہئے ۔جیسے ۱۹۷۱ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کےاور بعد میں کراچی میں الطاف حسین کو ملتا رہا۔ ویسے نواز شریف کو بھی ہیوی مینڈیٹ ملا ضرور تھا لیکن انکا کنٹرول ٹوٹل نہ ہو سکا کہ سینٹ انکے قابو میں نہیں تھی۔۔ ورنہ کوشش تو ان کی بھی امیرالمومنین بنّے لی تھی۔
اگر موجودہ حکومت کی کارکردگی متاثر کن ہوتی تو یقیناً اس بات کا امکان تھاکہ اگلی ٹرم میں بھرپور اکثریت بھی مل سکتی ہے۔ اب تو ماشاء اللہ انہوں نے خود ہی اپنی کشتی میں بڑے بڑے سوراخ کردئیے ہیں۔
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
پوری دنیا میں اس قسم کے قوانین کی خلاف ورزی پر جیل نہیں لیکن متعلقہ فرد یا ادارے پر عدالتی کاروائی کے زرئعے بھاری جُرمانہ و تاوان عائد کیا جاتا ہے۔یہاں بھی بھی ہتک عزت و فیک نیوز کے قوانین کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ فسطائیت کے ذریعے لوگوں کی زبانیں گُدّی سے کھینچنے کی کوشش کرنے کی۔
کئی ہمارے کئی دوستوں نے جن کی ہمدردیاں حکمران طبقے کے ساتھ ہیں حالیہ پیکا کے آرڈینینس کے دفاع میں قلم توڑ دئیے، پتہ نہیں جان بوجھ کر اغماض برت رہے ہیں یا علم کی کمی ہے، کہ پوری دنیا کی مثال دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے پیکا آرڈینینس اور باقی دنیا کے قوانیُن میں واضع فرق یہ ہے کہ باقی دنیا میں مجرم کو عدالت سے سزایابی کے بعد سزا ملتی ہے ، جبکہ پاکستان کا پی کا آرڈینینس کے مطابق سزا کا عمل مقدمہ درج ہونے کے بعد ہی ناقابل ضمانت گرفتاری سے ہی شروع ہو جانا ہے۔ کہ اگر عدالت سے بری بھی ہو جائیں تب عدالتی کاروائی کے دوران تو جیلوں میں سڑتے رہیں گے ۔
اس سے سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عدالت سے بے گناہ ثابت ہونے والے کی قید بے گناہی کے ماہ و سال کی ذمہ داری کس پر ہوگی؟ یہ قانون نہیں ہے فاشزم ہے۔ اور صرف اور صرف گھبراہٹ کا اظہار ہے۔ تاکہ تنقیدی آوازوں کا گلا گھونٹ کر خاموش کردیا جائے۔
جن دوستوں کا یہ فرنانا کہ اگر حکومتی حامی بھی جھوٹا پروپیگنڈہ کریں گے تو وہ بھی اسی قانون زد میں آسکتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ ایک غلط و جھوٹی دلیل ہے کیونکہ کسی کے خلاف فوجداری جُرم میں کاروائی اور استغاثہ کا اختیار صرف حکومت کا ہوتا ہے اور ہماری حکومتیں اب تک قانون کا نفاذ مخالفین ہی کی گردنوں پر کرتی ہیں۔اس کا مطلب پرنالے نے ایک کی طرف بہنا ہے۔
مشتری ہو شیار باش۔۔