ایک وقت تھا کہ عرب ممالک مسئلہ فلسطین کو اپنی غیرت و حمیت سے منسوب کرتے تھے اور ایک عزم سے مسئلہ فلسطین پر متحد تھے اور عالمی سطح پر اسرائیل کے حوالے سے دو ٹوک انداز اپناتے ہوئے نظر آتے تھے مسئلہ فلسطین پر کسی قیمت میں بھی جھکنے پہ تیار نہ تھے لیکن اب وہ وقت گزر گیا ،دنیائے عرب کی قیادتیں بدل گئیں،سیاست بدل گئی،اوسلو معاہدہ ہوگیا،شام،مصر،لیبیا اور عراق اس امریکی کیمپ میں شامل ہوگئے جس کے سر پر اسرائیل کی پیداوار کا سہرا سجایا جاتا ہے۔دنیائے عرب میں عراق ایک اہم فوجی قوت سمجھا جاتا تھا لیکن پھر ایران عراق جنگ ، گلف کرائسس اور امریکہ کے عراق پر حملے نے عراق کی فوجی قوت کو مفلوج کر کے رکھ دیا، 1979 میں مصر اسرائیل کو تسلیم کر کے دنیائے عرب کا وہ پہلا ملک بن گیا جس نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اس کے بعد 1994 میں اردن نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ پھر آہستہ آہستہ باقی عرب ممالک نے اگر چہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تو نہیں البتہ تجارتی تعلقات ضرور قائم کرلیے۔مسئلہ فلسطین بھی آہستہ آہستہ مفادات کی نظر ہوتا گیا۔
کافی عرصہ تک امریکہ اپنا سفارتخانہ بیت المقدس کی منتقل کرنے کی ہمت نہیں کر پایا تھا شاید امریکہ ردعمل سے خوفزدہ تھا لیکن جب امریکہ نے عرب دنیا کی نئی قیادتوں کی عدم دلچسپی دیکھی تو 2017 میں اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کردیا جو کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 181 کہ یروشلم کی حیثیت corpus separatum کی ہوگی، کی خلاف ورزی تھی۔امید تھی کہ اقوام متحدہ کوئی ایکشن لے گا لیکن ساتھ ہی دنیائے عرب سے بھی بہت امیدیں وابستہ تھیں کہ عرب دنیا عالمی سطح پر امریکہ کے خلاف دو ٹوک انداز اپنائے گی تجارتی تعلقات منقطع کرے گی،اقوام متحدہ نے تو حسب روایت خاموشی سادھی ہوئی تھی لیکن عرب دنیا کا رویہ بھئ انتہائی مایوس کن تھا۔
غیروں سے کیا گلہ غیر تو غیر ہیں۔
گذشتہ ہفتے دنیائے عرب کے ایک اہم ملک متحدہ امارات نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔مصر اور اردن کے بعد امارات وہ تیسرا عرب ملک بن گیا ہے جو اسرائیل کو تسلیم کرچکا ہے۔ اسلامی ممالک کی موجودہ حالت کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہوجاتا ہے کہ 57 اسلامی ممالک میں سے فلسطین کو چھوڑ کر صرف دو اسلامی ملکوں ترکی اور ایران نے دو ٹوک انداز سے اس فیصلے کی مخالفت کی یے ایران نے امارات کے اس اقدام کو اسٹریٹجک حماقت قرار دیا ہے اور ترکی کے صدر طیب اردگان نے کہا ہے کہ ترکی امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا ارداہ رکھتا ہے فلسطینی صدر محمود عباس نے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے اور احتجاجا اپنا سفیر بھی واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔فلسطینی قیادت نے اپنے بیان میں اس معاہدے کو مسجد اقصی ، بیت المقدس اور فلسطینی قیادت سے غداری بھی کہا ہے۔
سعودی عرب نے جو یو اے ای کا سب سے قریبی حلیف ہے کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اس وقت تک تسلیم نہیں کیا جاسکتا جب تک اس کا فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدہ نہیں ہوجاتا۔۔ بحرین،عمان، اور مصر جیسے ممالک نے تو اسرائیل اور امارات کے مابین معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔
امارات کا اسرائیل کو تسلیم کرلینے کے بعد یہ بیان سامنے آیا کہ اس معاہدے کی وجہ سے اسرائیل مغربی کنارے کو اپنے ملک میں ضم کرنے سے باز رہے گا لیکن معاہدے کے اگلے روز ہی اسرائیل نے یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ مغربی کنارہ انضمام منصوبے برقرار رہے گا،حقوق اور اراضی سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
امریکہ کا صدر ٹرمپ بے پناہ خوش ہے کہ دو دوستوں کے درمیان ایک طرح کا بریک تھرو ہوا ہے۔یاد رہے کئی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان تعلقات میں پیشرفت ٹرمپ کاوشوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔جب امریکی صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی معیت میں کھڑے اپنے پلان ڈیل آف سنچری کو ریلیز کررہے تھے تو سامعین میں امارات ، عمان اور بحرین کے سفیر شامل تھے جس سے یہی سمجھا گیا تھا کہ اسرائیل اور ان عرب ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آرہی ہے اور بہت جلد ان عرب ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں۔
عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی قربتیں اب عالم اسلام سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہیں۔اب کہا جارہا ہے کہ عمان اور بحرین بھی جلد ہی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیں گے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین بھی بڑھتے تعلقات بھی اب پوشیدہ نہیں رہے۔ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں واضح الفاظ میں کہا کہ عنقریب سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرلے گا۔ایک سروے کے مطابق اس وقت سعودی عرب کی یوتھ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کی حامی ہے۔اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہوائیں کس رخ پر چل رہی ہیں۔
یاد رہے عرب ممالک کی موجودہ قیادتیں اسرائیل سے زیادہ ایران کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتی ہیں۔نیو کلئیر ڈیل کے بعد عرب ممالک ایران سے مزید خوف و خطر محسوس کرنا شروع ہوگئیں تھیں،عرب ممالک میں ہر طرف یہی شور تھا کہ بس اب ایران مڈل ایسٹ پر حاوی ہونے والا ہے۔اوپر سے شامی محاذ پر عرب ممالک کی ناکامی اور تنہائی نے عرب ملکوں کو اسرائیل سے مزید قریب کردیا کیونکہ اسرائیل ایک طرف تو ایران کا ایک بڑا دشمن سمجھا جاتا ہے۔اور دوسری طرف شام کے محاذ پر بھی اسد کا مخالف۔ناقدین نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اسد کو دلوائی گئی فتح کا انجام اچھا نہ ہوگا۔یاد رہے شامی صدر اسد کی فتح نے بھی اسرائیل اور عربوں کو قریب لانے میں کردار ادا کیا ہے۔
امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرکے او آئی سی کے لیے سوال کھڑا کردیا ہے کہ وہ تنظیم جو اسرائیل کی جانب سے مسجد اقصی کو آگ لگائے جانے والے واقعہ کی وجہ سے معرض وجود میں آئی تھی،اب اس کا ردعمل کیا ہوگا؟اگر او آئی سی کے رکن ممالک امارات سے تعلقات ختم کرلیتے ہیں تو یہ احسن اقدام ہوگا اور وہ مسلمان جو امارات کے اس فیصلے پر غمزدہ ہیں،ان کے غم میں بھی کمی آئی گی لیکن تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عرب ممالک امارات سے تعلقات ختم نہیں کریں گے،اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو مسلم دنیا میں او آئی سی کی حیثیت مزید بے وقعتی کا شکار ہوجائے گی۔۔
کئی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ امارات کا اسرائیل کو تسلیم کرلینے کی وجہ سے دو حریف ممالک ایران اور ترکی ایک دوسرے کے کافی قریب آجائیں گے یاد رہے کہ ترکی اور ایران کے عرب دنیا سے تعلقات کافی کشیدہ ہیں۔دونوں ممالک ہی عالمی سطح پر عرب ممالک پر تنفید کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ترکی اور ایران کے تعلقات میں بہتری اگر ایک جانب پاکستان کے لیے مفید ہیں تو دوسری جانب عرب ممالک کے لیے خطرہ کا باعث بھی ہیں۔ترکی اور ایران کا ایک دوسرے کے قریب آنا عرب ممالک اور اسرائیل کو مزید قریب کرسکتا ہے۔
کئی تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے ایران اور امارات کے تعلقات مزید کشیدگی کا شکار ہوجائیں گے۔
امارات کا اسرائیل کو تسلیم کرلینے کے حوالے سے یہ بات بھی گردش کررہی ہے کہ اب پاکستان میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرلینے کے حوالے سے کیمپین چلائی جائے گی گوکہ پاکستان میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلینے چاہیے نہیں تو کم از کم تجارتی تعلقات ضرور قائم کرلینے چاہیے کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے،ساتھ ہی عرب ممالک کی بھی اسرائیل سے بڑھتے تعلقات کی مثال دی جاتی ہے۔لیکن موجودہ وزیر اعظم عمران خان کا رد عمل میں دو ٹوک الفاظ میں یہ واضح کردینا کہ فلسطین کی آزادی تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا،اس خدشہ کو غلط ثابت کرتا ہے۔گوکہ عمران خان کے اس بیان کو تنفید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ موجودہ حالات میں عمران خان کا محض اتنا بیان دینا مایوس کن ہے۔ لیکن اس بیان سے ایک چیز تو واضح ہے کہ پاکستان کی اسرائیل کے حوالے سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔اور پاکستان آج تک لیاقت علی خان کی کہی ہوئی پر قائم ہے کہ:
اگر تمام عرب ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو بھی پاکستان نہیں کرے گا”
بانی پاکستان قائد اعظم نے بھی کہہ دیا تھا کہ پاکستان کبھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گا۔کیونکہ پاکستان کے ایسا کرنے سے پاکستان کا مسئلہ کشمیر پر موقف کمزور پڑجائے گا۔اور یہ بات طہ ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر اس خطے میں امن نہیں ہوسکتا۔
یاد رہے کہ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی میں بھی شریک رہا ہے۔1981 میں عراق کے نیوکلیرری ایکٹر کو تباہ کرنے کے بعد اسرائیل نے پاکستان کی نیوکلیائی تنصیبات جو کہ کہوٹہ میں واقع ہے پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا اور یہ حملہ اسرائیل نے بھارتی ریاست گجرات سے کرنا تھا۔1984 میں وزیراعظم اندراگاندھی نے اپنی رضامندی بھی ظاہر کردی تھی لیکن جنرل ضیا الحق کی دانشمندی نے پاکستان کو ایک بڑے حملے سے محفوظ کردیا تھا۔
پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ عالمی تنازعات سے خود کو دور رکھے اور عرب ممالک سے اپنے تعلقات کو خراب نہ کرے لیکن عرب ممالک کی موجودہ قیادتیں جس طرح اسرائیل سے اپنے تعلقات استوار کر رہی ہیں اور امریکی و بھارتی کیمپ میں شامل ہو رہی ہیں،تو یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان اور عرب ممالک کے تعلقات کی نوعیت وہ نہ رہے گی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔کیونکہ پاکستان اب امریکہ کی مسلسل بے وفائیوں سے تنگ آکر چین کے کیمپ میں داخل ہورہا ہے یہ امر پاکستان کے لیے تکلیف دہ ہوگا کہ اس کے مسلمان عرب ممالک امریکہ کے ساتھ کھڑے ہوں اور وہ امریکہ کے دشمن چائنہ کے ساتھ کھڑا ہو لیکن بدلتی دنیا کا شاید یہی تقاضا ہے۔