بھارت اور امریکا کے بعد پاکستان نے بھی چینی ایپ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر دی۔ ابتدائی خبروں کے مطابق یہ شکایت سامنے آئی ہے کہ حکومت پاکستان نے ٹک ٹاک انتظامیہ سے شکایت کی تھی اس ایپ پر قابل اعتراض مواد موجود ہے جسے ہٹا دیا جائے۔ خبروں کے مطابق یہ مواد نہ ہٹانے یہ فیصلہ گیا۔ بتایا گیا ہے اس فیصلے پر عمل درآمد آج ہی سے ہوگا۔
یہ کہنا تو آسان نہیں کہ اس ایپ پر کس قسم کا قابل اعتراض مواد موجود تھا لیکن یہ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ جب کوئی ملک اس قسم کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے پس پشت صرف مواد جیسی شکایات نہیں ہوتیں اس طرح کے انتہائی فیصلوں کے پس پشت دراصل سیاسی اور تزویراتی وجوہات ہوتی ہیں جیسے لائن آف کنٹرول پر حالیہ واقعات کے بعد چین اور بھارت کے باہنی تعلقات بدترین سطح پر جا پہنچے ہیں۔ اس کے بعد مختلف وجوہات ظاہر کر کے بھارت نے ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ امریکا کا بھی ہے جس کے چین کے ساتھ تعلقات ان دنوں کشیدہ چل رہے ہیں، بالکل ایسے ماحول میں چین دشمن ملکوں کی طرف چین کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات اگر پاکستان کی طرف سے بھی اٹھائے جائیں تو اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ اقدام چین سے دوستی اور قربت میں اضافے کی علامت ہے یا چین دشمن ملکوں کے نقش قدم پر چل کر اپنے قریب ترین دوست کو مشکل میں مبتلا کرنے کی کوشش ہے؟
آنے والے دنوں میں حکومت کی طرف سے اس فیصلے کی جو توجیہ بھی بیان کرے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس خبر کے سامنے آنے سے صرف ایک ہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اس فیصلے سے چین کے مخالف ملکوں کے ہاتھ مضبوط ہوئے ہیں۔
عام آدمی اگر اس فیصلے کو رزاق داؤد کے اس اعلان کے ساتھ جوڑ کر دیکھے جس میں انھوں نے پاک چین اقتصادی راہ داری پر کام بند کرنے کا اعلان کیا تھا تو یہ غیر منطقی نہیں ہوگا۔
اس پس منظر میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان کے چین مخالف کیمپ میں جانے کا تاثر بتدریج گہرا ہو رہا ہے جو قومی مفاد میں نہیں۔ حکومت کو اگر دیگر لڑائیوں سے فرصت مل سکے تو وہ اس اہم معاملے پر بھی توجہ دے تاکہ پاکستان اور چین کے درمیان دوری پیدا کرنے کا کوئی ناپاک منصوبہ کہیں پنپ رہا ہے تو ابتدا میں ہی اس کا قلعہ قمع کر دیا جائے۔