پاکستان کا انداز سیاست کس طرف جارہاہے ، اگراس پہلو کا جائزہ لیاجائے تو خوفناک صورتحال سامنے آتی ہے، کسی وقت سیاست کو تدبیر کے ناخن سے گانٹھیں کھولنے کا عمل کہا جاتاتھا ، اس وقت نوابزادہ نصراللہ، مولانا مودودی ، مولانا نورانی اورمفتی محمود جیسے افراد میدان سیاست میں تھے ، ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم اور دھیمے مزاج کے معراج خالد اسپیکر اور ایسے ہی لوگ مرکزی دھارے میں تھے، آج پاکستان کی سیاست پر گفتگو ستر کے عشرے سے شروع ہوتی ہے جب ملک میں پہلی بار کوئی منتخب حکومت وجود میں آئی،
سیاست ایشوز اور نظریات سے شروع ہوئی لیکن وزیراعظم کی پھانسی پر عروج کو پہنچی ، ضیاءالحق کا مارشل لاءآئین کی تشکیل و ترویج کے بعد پہلا مارشل لاءتھا، تہتر کے آئین کو اس ستر کے عشرے میں دو چیلنجز پیش آئے ، قومی اتحاد کے نو ستاروں کی تحریک اور ضیاءالحق کا مارشل لا، مارشل لاء اپنے ہتھکنڈوں سے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک کو نگل گیا، آمریت کا کوڑا ملک پر لہرا رہا تھا، دور دور تک کوئی حریف نہیں تھا، تاہم تبدیلی دبے پاوں سفر کررہی تھی، ایم آرڈی کے پلیٹ فارم نے سیاست کو نیا رخ دیا، یہ پاکستان کی سڑکوں پر عوام کی تحریک نہیں تھی کہ چینی مہنگی ہونے پر ایوب کتا ہائے ہائے کے نعرے لگاتے ہوئے جمع ہوجائیں اور پولیس لاٹھی چارج کردے یا فائرنگ سے کوئی شہری شہید ہوجائے ، ایم آر ڈی کارکنوں کو اگر میدان یا سڑک پرجلسہ کرنے کی اجازت نہیں ملی تو بھی انھوں نے طاقت کا مظاہرہ کیا، قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی جانب سے فائرنگ ہوئی تو مظاہرین میں سے بھی کسی نے فائرنگ کی ، سڑکیں بند ہوئیں عوام کیلیے تو پھر حکومت کی ریل کی پٹریاں بھی محفوظ نہیں رہیں ، ملک کا رابطہ منقطع کردیا گیا، پاکستان کی عوام نے یہ سبق اپنے بچھڑے بھائی مشرقی پاکستان کی عوام سے سیکھا تھا، بنگالی عوام نے ہر طرح کی قوت استعمال کرکے اسٹیبلشمنٹ پر غلبہ حاصل کیا اور ایک نئی مثال قائم کردی ، ایم آرڈی کی تحریک اپنے مقاصد فوری حاصل نہ کرسکی ،
ایم آرڈی میں مرکزی کردار اندرون سندھ کے عوام نے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے ادا کیاتھا، اس کو سبق سکھانے کیلیے شہری سندھ میں ایک ایسی ہی طاقت پیدا کی گئی جو فائرنگ پاور رکھتی ہو، جماعت اسلامی جو پیپلزپارٹی کی مخالف تھی اور ایم آرڈی میں بھی شامل نہیں ہوئی تھی ، لیکن وہ پیپلزپارٹی سے اپنے اختلافات نظریات تک رکھتی تھے ، ضیاءالحق کی حمایت کے باوجود وہ مارشل لا کے ان مقاصد کی تکمیل کیلیے تیار نہیں تھی جو شہری کو شہری کا مقابل کھڑا کرسکے ،اس لیے ایم کیو ایم تشکیل دی گئی، ایم کیو ایم نے کچھ عرصہ آقا کے احکامات کی تکمیل کی ، پھر اسے خود اپنی بادشاہی کا مزہ و نشہ چڑھ گیا، اور یہاں تک کہ آقاوں کو انیس سو بانوے میں آپریشن کلین اپ کرنا پڑا، ایم کیوایم آپریشن کلین اپ سہار گئی، اب اسٹیبلشمنٹ کیلیے سندھ ایک جلتا ہوا انگارہ بن گیا، ایم آرڈی کی تحریک گو کہ اس وقت کامیاب نہیں ہوسکی تھی، لیکن اس نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنی طاقت دکھادی تھی، اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کو ایم کیو ایم سے بھی سمجھوتہ کرنا پڑا اور معین الدین حیدر کو گورنر مقرر کرکے درمیانی راہ نکالی گئی.
خیر صوبہ سندھ کے ماڈل سے دیگر قوتوں نے بھی استفادہ کیا۔ محمود اچکزئی سے لے کر پی ٹی ایم تک تمام سیاسی قوتوں نے سمجھ لیا کہ ووٹ کے ساتھ ساتھ طاقت کے دیگر ہتھکنڈے بھی کامیابی کیلیے ضروری ہیں ، جو قوتیں ایشوز اور جلسے جلوس کی سیاست پریقین رکھتی تھیںانمیں سے جماعت اسلامی کیلیے بھی میدان سکڑتا گیا کیونکہ وہ اپنے نوجوان اسٹیبلشمنٹ کے سامنے لانے کے بجائے انہیں کشمیر اور ا فغانستان میںمصروف رکھے ہوئے تھی ، اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سے پانی بہہ گیا،اب معاملہ پنجاب کے میدانوں کا تھا جہاںدریائے سیاست اب بھی ہموار بہہ رہاتھا، ہر جگہ سے ٹکراو کی کیفیت پاکر اسٹیبلشمنٹ کے لیے یہی سکون کی وادی تھی ،اور سکون پاکر اسٹیبلشمنٹ نے یہاں پھر اپنی روایتی سرگرمیاں شروع کیں ، اس مرحلے کا جائزہ لینا ضروری تھا، اسٹیبلشمنٹ سمجھتی تھی کہ پنجاب اس کی جاگیر ہے، یہاں کے لوگ اس سے پیار کرتے ہیں ، یہاں کے سیاست دان بھی جیسا کہو ویسا ہی کرلیتے ہیں، جسے اقتدار دیں وہ پاوں چومتا ہے اور جسے محروم کرتے ہیں وہ دم ہلاتا ہوا پوچھتا ہےکہ مجھ سے کیا غلطی ہوئیں بتادیں ، آئندہ ایسا نہیں ہوگا، ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہے ، لیکن نواز شریف سمجھ چکے ہیں جب تک آنکھیں نہ دکھائیں بات نہیں بنتی ، وہ وزیر اعلی کے وقت سے پنجاب کو دیکھ رہے تھے ،نئے نئے جوش میں وزیر اعلی کی حیثیت سے انھوں نے پنجاب میں کچھ کام بھی کیاہے ،انہیں اپنی حیثیت کا بھی اندازہ ہے ، اس لیے وہ مختلف وقتوں میں اسٹیبلشمنٹ کو کچوکے دیتے رہے ہیں اور اپنے مطالبات منواچکے ہیں، اب بھی انھوں نے طویل عرصہ خاموشی اختیار کی، مولانا فضل الرحمان کے پہلے دھرنوں کے موقع پر مصلحتوں سے کام لیا ،لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے انہیں اچھا بچہ بنانے کی روش جاری رہی تو وہ بھی اب کھل کر سامنے آگئے ہیں، مولانا فضل الرحمان کے جان نثاروں اور مسلم لیگ کے ہجوم کے اشتراک سے کچھ وہی صورتحال پیداہوگئی ہے جس کی جانب عمران نیازی اپوزیشن مین رہتے ہوئے اشارہ کرتے تھے کہ سو شیروں کی کمان اگر ایک گیدڑ کے ہاتھ ہوتو وہ کوئی جنگ نہیں جیت سکتے ، جبکہ سو گیدڑوں کی کمان اگر ایک شیر کررہا ہو تو نتیجہ مختلف ہوگا، اب کی بار مولانا فضل الرحمان، ن لیگ اور پی ڈی ایم کا کردار تحریک میں نمایاں ہوگا،جبکہ پیپلزپارٹی ثانوی کھلاڑی ہوگی ، لیکن شطرنج کے کھیل میں آخری چال تک کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی ہے ، آئیے کھیل شروع ہونے کا انتظار کریں۔