Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
دھند اور سردی سے لاہور کی سڑکیں اُن دنوں ٹھٹھر رہی تھیں ، اسی ہیجان میں ٹریفک کی تندی میں بھی تھوڑا اضافہ ہو گیا تاکہ لوگ باگ جاڑے کے بے رحم جھکڑوں سے بچ کر محفوظ ٹھکانوں پر پہنچ سکیں۔اسی اثنا میں شہر گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھا ، اس کے بعد کیا سردی اورکیا جھکڑ، جذبات میں طلاطم پیدا ہوگئے ، پھر سارا ملک اسی کیفیت میں مبتلا ہوتا چلا گیا۔یہ واقعہ ایک امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو افراد کے قتل کا تھا ، آنے والے دنوں میں جس سے پاک امریکا تعلقات ہی نہیں بلکہ قومی سیاست پر بھی انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔پیسے کی ریل پیل، دباؤ اور دیگر ہتھ کنڈوں کے زور پر قاتل جب امریکا جا پہنچا تو اس نے عافیت کی گود میں بیٹھ کر لاہور کے واقعات کو یاد کیا ۔ یوں اس کی یاداشتوں کا مجموعہ ”The Contractor: How I Landed in a Pakistani Prison and Ignited a Diplomatic Crisis“ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔قاتل نے اس کتاب میں ایک عجب بات لکھی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس نے لکھا ہے کہ اس کی گرفتاری کے بعد مقامی سطح پر ہی سرگرمیاں تیز نہیں ہو گئیں بلکہ اسلام آباد سے واشنگٹن تک طوفان بپا ہو گیا۔ اسی طوفان نے بعد میں قاتل کی رہائی کاراستہ ہموار کیا۔ اس نے لکھا ہے کہ امریکا روانگی سے قبل ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں کوئی ایک حلقہ بھی ایسا نہیں بچاتھا جس نے اس معاملے میں خاموشی اختیار نہ کی ہو، سوائے ایک شخص کے۔ ریمنڈ ڈیوس کے دعوے کے مطابق ترغیب، تحریص اور دھمکی سمیت تمام حربے اختیار کر کے دیکھ لیا گیا لیکن یہ شخص ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس شخص کا نام تھا، سید منور حسن ۔اس انکشاف کے بعد ریمنڈ ڈیوس نے اس واقعے پر جو تبصرہ کیا ،وہ بڑا دلچسپ ہے۔ اس نے لکھا کہ قومی غیرت کے اس مظاہرے، اپنے مؤقف کی سچائی پر اعتماد اور کردار کی پختگی نے مجھے حیران کردیا اور میں نے یہ جانا کہ قومی قیادت کیا ہوتی ہے اور کیسا اسے ہونا چاہئے۔اس تبصرے کے بعد اس نے ایک سوال اٹھایا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستانی قوم نے اپنی قیادت کے انتخاب کے مرحلے پر غیر معمولی کردار کے حامل اس راہنما اور اس کی جماعت کو نظر انداز کیوں کردیا؟
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے اور سید منور حسن جیسے راہنما کی رحلت کے موقع پر ایسے واقعات کی بازگشت کا سنائی دینا فطری ہے ۔ کسی سیاسی جماعت پر عوام کے اعتماد کا اظہار یا نظر انداز کردینے کا عمل اپنی جگہ ایک پیچیدہ واقعہ ہے جس میں بہت سے عوامل کردار ادا کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے غیر متوقع واقعات صرف سیاست کے میدان میں ہی رونما نہیں ہوتے بلکہ خارجہ تعلقات اور قومی سلامتی کے معاملات میں بھی ان کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال چین اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر رونما ہونے والی صورت حال ہے جس میں بھارت کو تاریخی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔لائن آف کنٹرول پر وادیِ گلوان میں رونما ہونے والے واقعات ممکن ہے کہ کسی اتفاق کا نتیجہ رہے ہوں لیکن ان واقعات کو جنوبی ایشیا میں تسلسل کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔
دنیا کی واحد ہندو ریاست نیپال کو فطری طور پر بھارت کے دم چھلے کا کردار ادا کرنا چاہئے لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں اگر نیپالی عوام اور حکومت کے حقیقی جذبات کا مطالعہ ذرا باریک بینی سے کیا جائے تو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ ان دونوں قوموں کے درمیان تعلقات حقیقی معنوں میں کبھی خوش گوار نہیں رہے۔ نیپال اگر کھل کر بھارت کی مخالفت نہیں کرتا تو اس کا سبب یہ ہے کہ اپنے طاقت ور پڑوسی کے خفیہ اداروں کی ریشہ دوانیوں ، جارہانہ رویے رکھنے والی فوج کے دباو¿ اور بیرونی تجارت کے لیے بھارتی بندرگاہوں کا دست نگر ہونا اس کی بڑی مجبوری ہے۔ اسی وجہ سے یہ ملک بھارت کے معاملے میں اپنے قومی مفادات کے مطابق آزادانہ رائے کے اظہار سے معذور رہتا ہے لیکن حال ہی میں ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ کا ایک غیر معمولی اور تاریخی واقعہ رونما ہوا ہے جس میں نیپال نے بڑی جرات مندی کے ساتھ کہا ہے کہ بھارت نے کالا پانی اور ملحقہ علاقوں پر غیر قانونی طور پر تسلط جما رکھا ہے۔ نیپال نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت اپنا قبضہ فوری طور پر ختم کرکے یہ علاقے اس کے حوالے کرے۔بھارت نیپال تعلقات میں یہ واقعہ ایک ایسی انگڑائی کی حیثیت رکھتا ہے جو مستقبل میں ا س خطے کی سیاسی اور جغرافیائی صورت گری کی بنیاد بن جائے گا۔
پاکستان سے مشرقی پاکستا ن کی علیحدگی کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات کی نوعیت بھارت نیپال تعلقات جیسی ہی ہونی چاہئے تھی لیکن ابتدائی کچھ عرصے کے بعد ان دونوں ملکوں کے تعلقات کو اونچ نیچ ہی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ کئی مواقع تو ایسے بھی آئے جن میں بھارت کے مقابلے میں بنگلہ دیش پاکستا ن کے زیادہ قریب آگیا۔عوامی سطح پر ممکن ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ضمن میں بنگلہ دیشی عوام کے روّیوں میں زیادہ فرق نہ آیا ہو لیکن حسینہ واجد کے اقتدار میں آنے کے بعد صورت حال میں جوہری تبدیلی رونما ہو گئی اور دونوں ملک ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی لیکن اگر اب اگر اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور چین کے تعلقات پاک چین تعلقات جیسی کیفیت اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بتدریج دوری کے آثاردکھائی دیتے ہیں۔چین بنگلہ دیش تعلقات کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے محض اتنی مثال ہی کافی ہے کہ چین گوادر کی طرز پر بنگلہ دیش میں ایک بندگاہ کی تعمیر کے علاوہ بہت سے دیگر منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے۔چین کے مقابلے میں بھارت کی سرمایہ کاری آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔
چین اور جنوبی ایشیا کے دو اہم ملکوں کے ساتھ بھارت کے تیزی کے ساتھ رو بہ زوال تعلقات دراصل پاکستان کے لیے پیش بہا مواقعوں کی نوید کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کو دنیا میں تنہائی سے دوچار کرنے کی ڈیڑھ دو دہائی پرانی بھارتی حکمت عملی کے تناظر میں ان تبدیلیوں کی حیثیت دو چند ہو جاتی ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اس وقت ہمارے قومی ایجنڈے پر خطے میں تیزی سے ظہور پزیر ہونے والی یہ صورت حال کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ہماری حکومت اور سیاسی جماعتیں داخلی سیاسی جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہیں جب کہ ذرائع ابلاغ کے ایجنڈے پر ان تاریخی تبدیلیوں پر کوئی مکالمہ اور بحث دکھائی نہیں دیتی۔ یہی صورت حال ہے جو ریمنڈ ڈیوس کی برسوں پرانی حیرت کی یاد تازہ کردیتی ہے۔
دھند اور سردی سے لاہور کی سڑکیں اُن دنوں ٹھٹھر رہی تھیں ، اسی ہیجان میں ٹریفک کی تندی میں بھی تھوڑا اضافہ ہو گیا تاکہ لوگ باگ جاڑے کے بے رحم جھکڑوں سے بچ کر محفوظ ٹھکانوں پر پہنچ سکیں۔اسی اثنا میں شہر گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھا ، اس کے بعد کیا سردی اورکیا جھکڑ، جذبات میں طلاطم پیدا ہوگئے ، پھر سارا ملک اسی کیفیت میں مبتلا ہوتا چلا گیا۔یہ واقعہ ایک امریکی کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دو افراد کے قتل کا تھا ، آنے والے دنوں میں جس سے پاک امریکا تعلقات ہی نہیں بلکہ قومی سیاست پر بھی انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔پیسے کی ریل پیل، دباؤ اور دیگر ہتھ کنڈوں کے زور پر قاتل جب امریکا جا پہنچا تو اس نے عافیت کی گود میں بیٹھ کر لاہور کے واقعات کو یاد کیا ۔ یوں اس کی یاداشتوں کا مجموعہ ”The Contractor: How I Landed in a Pakistani Prison and Ignited a Diplomatic Crisis“ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔قاتل نے اس کتاب میں ایک عجب بات لکھی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس نے لکھا ہے کہ اس کی گرفتاری کے بعد مقامی سطح پر ہی سرگرمیاں تیز نہیں ہو گئیں بلکہ اسلام آباد سے واشنگٹن تک طوفان بپا ہو گیا۔ اسی طوفان نے بعد میں قاتل کی رہائی کاراستہ ہموار کیا۔ اس نے لکھا ہے کہ امریکا روانگی سے قبل ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستان میں کوئی ایک حلقہ بھی ایسا نہیں بچاتھا جس نے اس معاملے میں خاموشی اختیار نہ کی ہو، سوائے ایک شخص کے۔ ریمنڈ ڈیوس کے دعوے کے مطابق ترغیب، تحریص اور دھمکی سمیت تمام حربے اختیار کر کے دیکھ لیا گیا لیکن یہ شخص ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس شخص کا نام تھا، سید منور حسن ۔اس انکشاف کے بعد ریمنڈ ڈیوس نے اس واقعے پر جو تبصرہ کیا ،وہ بڑا دلچسپ ہے۔ اس نے لکھا کہ قومی غیرت کے اس مظاہرے، اپنے مؤقف کی سچائی پر اعتماد اور کردار کی پختگی نے مجھے حیران کردیا اور میں نے یہ جانا کہ قومی قیادت کیا ہوتی ہے اور کیسا اسے ہونا چاہئے۔اس تبصرے کے بعد اس نے ایک سوال اٹھایا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستانی قوم نے اپنی قیادت کے انتخاب کے مرحلے پر غیر معمولی کردار کے حامل اس راہنما اور اس کی جماعت کو نظر انداز کیوں کردیا؟
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے اور سید منور حسن جیسے راہنما کی رحلت کے موقع پر ایسے واقعات کی بازگشت کا سنائی دینا فطری ہے ۔ کسی سیاسی جماعت پر عوام کے اعتماد کا اظہار یا نظر انداز کردینے کا عمل اپنی جگہ ایک پیچیدہ واقعہ ہے جس میں بہت سے عوامل کردار ادا کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے غیر متوقع واقعات صرف سیاست کے میدان میں ہی رونما نہیں ہوتے بلکہ خارجہ تعلقات اور قومی سلامتی کے معاملات میں بھی ان کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال چین اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول پر رونما ہونے والی صورت حال ہے جس میں بھارت کو تاریخی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔لائن آف کنٹرول پر وادیِ گلوان میں رونما ہونے والے واقعات ممکن ہے کہ کسی اتفاق کا نتیجہ رہے ہوں لیکن ان واقعات کو جنوبی ایشیا میں تسلسل کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔
دنیا کی واحد ہندو ریاست نیپال کو فطری طور پر بھارت کے دم چھلے کا کردار ادا کرنا چاہئے لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات کے ضمن میں اگر نیپالی عوام اور حکومت کے حقیقی جذبات کا مطالعہ ذرا باریک بینی سے کیا جائے تو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ ان دونوں قوموں کے درمیان تعلقات حقیقی معنوں میں کبھی خوش گوار نہیں رہے۔ نیپال اگر کھل کر بھارت کی مخالفت نہیں کرتا تو اس کا سبب یہ ہے کہ اپنے طاقت ور پڑوسی کے خفیہ اداروں کی ریشہ دوانیوں ، جارہانہ رویے رکھنے والی فوج کے دباو¿ اور بیرونی تجارت کے لیے بھارتی بندرگاہوں کا دست نگر ہونا اس کی بڑی مجبوری ہے۔ اسی وجہ سے یہ ملک بھارت کے معاملے میں اپنے قومی مفادات کے مطابق آزادانہ رائے کے اظہار سے معذور رہتا ہے لیکن حال ہی میں ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ کا ایک غیر معمولی اور تاریخی واقعہ رونما ہوا ہے جس میں نیپال نے بڑی جرات مندی کے ساتھ کہا ہے کہ بھارت نے کالا پانی اور ملحقہ علاقوں پر غیر قانونی طور پر تسلط جما رکھا ہے۔ نیپال نے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت اپنا قبضہ فوری طور پر ختم کرکے یہ علاقے اس کے حوالے کرے۔بھارت نیپال تعلقات میں یہ واقعہ ایک ایسی انگڑائی کی حیثیت رکھتا ہے جو مستقبل میں ا س خطے کی سیاسی اور جغرافیائی صورت گری کی بنیاد بن جائے گا۔
پاکستان سے مشرقی پاکستا ن کی علیحدگی کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات کی نوعیت بھارت نیپال تعلقات جیسی ہی ہونی چاہئے تھی لیکن ابتدائی کچھ عرصے کے بعد ان دونوں ملکوں کے تعلقات کو اونچ نیچ ہی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ کئی مواقع تو ایسے بھی آئے جن میں بھارت کے مقابلے میں بنگلہ دیش پاکستا ن کے زیادہ قریب آگیا۔عوامی سطح پر ممکن ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ضمن میں بنگلہ دیشی عوام کے روّیوں میں زیادہ فرق نہ آیا ہو لیکن حسینہ واجد کے اقتدار میں آنے کے بعد صورت حال میں جوہری تبدیلی رونما ہو گئی اور دونوں ملک ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی لیکن اگر اب اگر اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور چین کے تعلقات پاک چین تعلقات جیسی کیفیت اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بتدریج دوری کے آثاردکھائی دیتے ہیں۔چین بنگلہ دیش تعلقات کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے محض اتنی مثال ہی کافی ہے کہ چین گوادر کی طرز پر بنگلہ دیش میں ایک بندگاہ کی تعمیر کے علاوہ بہت سے دیگر منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے۔چین کے مقابلے میں بھارت کی سرمایہ کاری آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔
چین اور جنوبی ایشیا کے دو اہم ملکوں کے ساتھ بھارت کے تیزی کے ساتھ رو بہ زوال تعلقات دراصل پاکستان کے لیے پیش بہا مواقعوں کی نوید کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کو دنیا میں تنہائی سے دوچار کرنے کی ڈیڑھ دو دہائی پرانی بھارتی حکمت عملی کے تناظر میں ان تبدیلیوں کی حیثیت دو چند ہو جاتی ہے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اس وقت ہمارے قومی ایجنڈے پر خطے میں تیزی سے ظہور پزیر ہونے والی یہ صورت حال کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ہماری حکومت اور سیاسی جماعتیں داخلی سیاسی جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہیں جب کہ ذرائع ابلاغ کے ایجنڈے پر ان تاریخی تبدیلیوں پر کوئی مکالمہ اور بحث دکھائی نہیں دیتی۔ یہی صورت حال ہے جو ریمنڈ ڈیوس کی برسوں پرانی حیرت کی یاد تازہ کردیتی ہے۔