ایک روز بادشاہ خاص شکاریوں کے ایک گروہ کے ساتھ شکار کو روانہ ہوا۔ انھوں نے جنگل میں ایک قوی ہیکل۳ وحشی ہاتھی کو پکڑنے کے جتن کیے، ایسا قوی ہیکل ہاتھی جو اپنے بڑے جُثے کے ساتھ بادشاہ کے فیل خانے میں تب تک نہیں دیکھا گیا تھا __ ایک تنومند اور ہیبت ناک ہاتھی جس کے برف کی مانند سفید دو بڑے بڑے دانت تھے، جو اپنی سونڈ کے ساتھ کسی بھی گائے کو ہوا میں اُچھال سکتا تھا اور جو بجلی کے کڑکے کی طرح چنگھاڑتا تھا۔ جو بجلی اور جھکّڑ کی طرح دوڑتا تھا اور دُور سے چار سنگین ستونوں پر بنے ایک گنبد کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ وہ جب اپنے بھاری بھرکم قدموں کے ساتھ چلتا تو اس کے پاؤں کے تلے کی زمین لرزتی تھی۔ وہ ایک ٹکر سے کسی بھی پرانے درخت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا تھا اور اپنے ایک حملے سے تمام ہاتھیوں کو خوف زدہ کرکے بھاگنے پر مجبور کردیتا تھا۔ وہ ہمیشہ جنگل میں بھاگ دوڑ میں مشغول رہتا تھا اور آدمی کی شکل و صورت سے بالکل واقف نہ تھا۔ اس نے زنجیر، رسّی، طویلے اور فیل خانے کا نام تک نہیں سنا تھا __ خوف ناک ، غُصیل اور وحشی ہاتھی!
شکاریوں نے اسے پکڑا اور اس کی ٹانگوں کو الگ الگ مضبوط زنجیروں سے جکڑ کر بادشاہ کے حضور لے آئے۔ بادشاہ نے ہاتھی کے توانا اور خوبصورت ڈیل ڈول کو پسند کیا اور اس کو اپنی ملکیت میں لائے جانے پر خوش ہوا۔ اس خوشی میں اس نے شکاریوں کو بھاری انعامات سے نوازا۔ پھر فیل بانوں کے سربراہ کو طلب کرکے اس سے پوچھا: اِس ہاتھی کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ سربراہ نے کہا: میں اس ہاتھی کے بارے میں کیا کہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس ڈیل ڈول کا ہاتھی اس سے پہلے نہیں دیکھا۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ یہ جنگلوں میں گھومنے پھرنے والا جانور ہے اور اسے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ رکھ کر نہیں سِدھایا جاسکتا۔
یہ بھی پڑھئے:
خود دار اونٹ
بادشاہ نے کہا: جو بھی ہو اس ہاتھی کو سِدھانا بہت ضروری ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں اس پر سواری کروں اور لوگ دیکھیں کہ اس سے پہلے کسی اور کے پاس اس ڈیل ڈول کا ہاتھی نہیں تھا۔
فیل بانوں کے افسر نے کہا: اس ہاتھی کی تربیت بہت مشکل ہے۔ اب یہ بچّہ نہیں، جنگل میں پلا بڑھا ہے اور اس نے بغیر کسی پابندی اور قید کے پرورش پائی ہے۔ کسی بھی جانور کو چھوٹی عمر میں سِدھانا چاہیے اور اسے جوانی میں کام اور رام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ یہ ہاتھی اگر بعض باتیں سیکھ بھی لے، اس کا دل وحشی ہی رہے گا اور اس کی تربیت کے لیے لمبی مدت درکار ہوگی۔
بادشاہ نے کہا: میں تمھیں تین سال کی مہلت دیتا ہوں۔ تمھیں چاہیے کہ اس ہاتھی کی اس طرح تربیت کرو کہ یہ خدمت کے لائق ہو جائے اور جنگ اور سفر میں کارآمد۔ میں آج ہی سے اسے تمھارے سپرد کرتا ہوں۔ اسے وعدے کے مطابق کام اور میدانِ جنگ کے لیے تیار ہونا چاہیے۔
فیل بان نے اطاعت کے لیے سر جھکایا۔ اس عظیم الجثّہ ہاتھی کو ہاتھیوں کے طویلے میں لے جایا گیا۔ ایک بڑا گھر اور باغ اس کے لیے مخصوص کردیا گیا اور فیل بان اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس کی تربیت میں مشغول ہوگیا۔ اس نے ایک مدت تک مضبوط زنجیروں میں جکڑ کر اس کی نگہداشت کی۔ وہ اسے اپنے ہاتھ سے خوراک اور پانی دیتا۔ رفتہ رفتہ ہاتھی تھوڑا تھوڑا رام ہوگیا۔ اب وہ فیل بان کو پہچاننے لگا اور اس کی مہربانیوں کا عادی ہونے لگا تھا۔
آہستہ آہستہ فیل بان ہاتھی کو یہ بات سکھانے میں کامیاب ہوگیا کہ وہ دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ کس طرح بیٹھے اُٹھے، حکم دینے پر کس طرح حرکت میں آئے اور کس طرح ”رُک“ کہنے پر رُک جائے۔ کبھی کبھی فیل بان اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا اور اسے جنگل میں لے جاتا اور کبھی ایک لمبے عرصے تک اسے طویلے میں باندھے رکھتا۔ بعض اوقات اُسے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ لڑاتا اور کبھی اسے اُن کے ساتھ راتب دیتا اور ضروری آداب اور عادتیں سکھاتا۔ یوں تین سال کی مدت گزر گئی اور وعدے کا دن آپہنچا۔ بادشاہ نے ہاتھی کو لانے کا حکم دیا تاکہ وہ خود دیکھے کہ اس کی تربیت کیسی ہوئی ہے۔ فیل بان نے ہاتھی کو حاضر کیا۔ اب اس کے ہاتھ پاؤں زنجیر سے آزاد تھے۔ بادشاہ نے دیکھا کہ وہ پہلے سے زیادہ طاقتور اور فرماں بردار ہوگیا ہے اور اس میں وحشی پن کے آثار نہیں رہے۔
بادشاہ نے پوچھا: کیا میں ہاتھی پر سوار ہوسکتا ہوں؟ فیل بان بولا: میں خود اس پر بیسیوں بار سوار ہوا ہوں، جنگل کو گیا ہوں اور صحیح سلامت واپس آیا ہوں۔ ہاتھی نے کبھی میرے حکم سے سرتابی نہیں کی۱۔
بادشاہ نے حکم دیا کہ ہاتھی کے نزدیک پائیدان رکھ دیا جائے۔ بادشاہ اس پر پاؤں رکھ کر ہاتھی پر سوار ہوگیا۔ فیل بان بھی ایک الگ ہاتھی پر سوار ہو کر بادشاہ کے ہمراہ ہوا۔ سفر شروع ہوا اور انھیں محسوس ہوا کہ ہاتھی آرام آرام سے آگے بڑھ رہا ہے اور حکم بجا لارہا ہے۔
جب انھیں اطمینان ہوگیا، بادشاہ نے حسب عادت، جیسا کہ دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ اس کا معمول تھا، اسے تیز بھاگنے کا حکم دیا۔ ہاتھی نے تیزی پکڑی اور فیل بان سے بھی آگے نکل گیا۔ اس نے جب یہ دیکھا کہ فیل بان کہیں پیچھے رہ گیا ہے، وہ شیر کی طرح جوش اور جَولانی میں آیا اور جنگل کا رُخ کیا اور گویا یہ کہتا ہوا سرپٹ دوڑنے لگا کہ اب نہیں دوڑو گے تو کب دوڑو گے، گویا ماضی کی طرح وہی وحشی اور جنگلی ہاتھی بن گیا جیسا کہ تین سال پہلے تھا۔ وہ اس قدر سرپٹ دوڑے جا رہا تھا جیسے تیرکمان سے نکلتا ہے۔ وہ بجلی اور جھکّڑ کی طرح پہاڑ اور صحرا عبور کرتا جا رہا تھا۔ بادشاہ نے ہر چند اسے قابو میں لانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ وہ ”رُک جا“ کا حکم دیے جانے پر اور غصّے میں آتا اور پہلے سے زیادہ تیزی دکھاتا۔ ایسی صورت میں ہاتھی پر سے چھلانگ لگانا ناممکن بھی تھا اور خطرناک بھی۔
یہ عظیم الجُثّہ ہاتھی صبح سے رات گئے تک پہاڑ اور صحرا کے اطراف میں بھاگتا دوڑتا رہا حتّٰی کہ تھک گیا۔ اس کی بھوک پیاس زوروں پر تھی۔ اب اُسے ناند، گھاس اور طویلے کی یاد آئی اور جیسا کہ پچھلے تین سال میں اس کی عادت پختہ ہوچلی تھی، وہ اپنے فیل خانے کے تھان پر لوٹ آیا اور پرسکون ہوگیا۔ بادشاہ ہراساں تھا۔ وہ شدید غصّے کے عالم میں ہاتھی سے نیچے اُترا اور فیل بان کو طلب کیا اور طلب کرتے ہی حکم جاری کیا کہ اس کی مُشکیں کس دی جائیں، اسے ایک کھلے رستے پر ڈال دیں اور طویلے کے چارسو کے چار سو ہاتھی اس کے اوپر سے گزار دیں تاکہ آئندہ کسی کو جرات نہ ہو کہ بادشاہ کی سواری کے لیے کسی ان گھڑ اور اکھّڑ ہاتھی کو پیش کریں۔
فیل بان کو موت اپنے سر پر منڈلاتی نظر آئی اور خوف اور دہشت سے اس کی زبان گنگ ہوگئی۔ خدمتگاروں نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھے اور اسے ایک کھلے رستے میں لاپھینکا۔ پھر حکم دیا کہ ہاتھیوں کو لایا جائے اور ان کا غول کا غول اسے کچل ڈالے۔
جونہی فیل بان نے موت کو اپنے قریب دستک دیتے سنا، اس نے نالہ و زاری کرتے ہوئے بادشاہ سے عرض کی: میں ایک مدت سے آپ کی خدمت میں کمربستہ رہا۔ کسی نے مجھ سے بدی سرزد ہوتے نہ دیکھی، نہ میں نے کوئی خیانت یا گناہ کیا۔ کیا یہ مناسب ہوگا کہ میں اُنھی ہاتھیوں تلے کچل دیا جاؤں جن کی خود میں نے تربیت کی تھی؟ مجھ پر رحم کھائیے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ آپ کی ناانصافی کا چرچا کریں کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ آخر میرا گناہ کیا ہے؟
بادشاہ نے کہا: اس سے بدتر کیا گناہ ہوگا کہ میں نے اِس ہاتھی کی تربیت کے لیے تمھیں تین سال کی مہلت دی۔ کیا کوئی کسر رہ گئی تھی کہ یہ مجھے ہلاک کر ڈالے۔ آخر تمھاری تربیت کا اس پر کیا اثر ہوا؟ فیل بان نے کہا: بادشاہ سلامت! اس میں شک نہیں کہ آج ہاتھی کا طرزِ عمل بڑا ہی ناپسندیدہ رہا اور اس لحاظ سے قابلِ افسوس ہے لیکن میں نے اس کی جو تربیت کی، اس کے اثر کی نشاندہی کرکے میں خود کو بیگناہ ثابت کرسکتا ہوں۔ اگر میں ایسا نہ کرسکا تو ہر طرح کی سزا کے لیے تیار ہوں۔ میری تجویز یہ ہے کہ بادشاہ سلامت اجازت دیں کہ میں ان کی موجودگی میں ہاتھی کا امتحان لوں۔اگر میں اُس تربیت کے اثر کی نشاندہی نہ کرسکوں تو پھر ہر طرح کی سزا کا مستحق ہوں۔ چونکہ میرے پاس کوئی راہِ فرار نہیں لہٰذا بہتر ہے کہ دشمنوں کی زباں بند رہنے دیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ آپ کی ناانصافی کے چرچے کریں۔
بادشاہ یقینا نہیں چاہتا تھا کہ لوگ اسے ظالم قرار دیں، سو اس نے اپنا غصہ ٹھنڈا کیا اور حکم دیا کہ فیل بان کے ہاتھ پاؤں کی رسیاں کھول دیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ ہاتھی لایا گیا۔ بادشاہ نے کہا: لو یہ رہے تم اور یہ رہا ہاتھی۔ اب بتاؤ تم نے اس کی کس طرح تربیت کی؟
ہاتھی نے جونہی فیل بان کو اپنے سامنے پایا، وہ پرسکون ہوگیا کیونکہ اُس نے اِس فیل بان کے ہاتھ سے راتب کھایا تھا اور اس کی طرف سے مہربانی دیکھی تھی۔ فیل بان نے معمول کے مطابق اس سے ہمدردی کی۔ پھر اس کی پیٹھ پر سوار ہوا اور کہا کہ گھاس کا پولا۱ اورپانی کی بڑی بالٹی لائی جائے۔ دونو چیزیں لائی گئیں اور ہاتھی کے سامنے رکھ دی گئیں۔ ہاتھی نے اپنی سونڈ بڑھائی تاکہ گھاس اُٹھائے۔ فیل بان نے اسے کہا: گھاس کو چھوڑ، پانی پی اور پانی کی بالٹی مجھے دے۔ ہاتھی نے اپنی سونڈ سے بالٹی اٹھائی اور اپنی دائیں طرف سے اسے اوپر لے گیا۔ فیل بان نے بالٹی تھام لی اور کہا: اب گھاس کھا۔ ہاتھی نے تھوڑی سی گھاس کھالی۔ فیل بان نے کہا: اب پانی کی بالٹی پکڑ۔ ہاتھی نے اپنی سونڈ بلند کی اور بالٹی پکڑ لی اور نیچے رکھ دی۔ فیل بان نے کہا: اچھا، دو قدم پیچھے ہٹ۔ ہاتھی دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ فیل بان نے کہا: اب، دو قدم آگے۔ ہاتھی نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر فیل بان نے کہا: اب بادشاہ کی تعظیم بجا لا۔ ہاتھی نے اپنا سر خم کیا اور اپنا ایک ہاتھ اپنے سینے کی طرف بڑھا کر سلام کیا۔
اب کیا تھا، فیل بان ہاتھی سے نیچے اُتر آیا اور کہا: اے بادشاہ! آپ سلامت رہیں۔ میں اپنی سی کوشش کرتا رہا اور ہاتھی کے دست و پا، سونڈ اور جسم سے جو کچھ ہونا ممکن تھا، اسے سکھا دیا اور اس کو راستے پر چلنے، رکنے، کھانے اور نہ کھانے کے آداب سکھائے۔ ہاتھی چونکہ میرے ہاتھ سے راتب کھاتا تھا اور میں اس سے مہربانی اور محبت کا برتاؤ کرتا تھا، لہٰذا وہ اپنی حیوانی عقل کے مطابق میری اطاعت کرتا تھا۔ میں اسے بارہا صحرا میں لے گیا اور واپس لایا۔ بارہا اسے چھڑی سے مارا پیٹا اور اس سارے عرصے میں اس نے وحشت نہ دکھائی اور میرا کہا کرتا رہا۔ لیکن میں ہاتھی کی زبان نہیں سمجھتا اور اس کے دل کی خواہشیں مجھ پر ظاہر نہیں اور میرے لیے ممکن نہیں کہ اس کی فکر اور سوچ کو بدل ڈالوں کیونکہ وہ عقل نہیں رکھتا اور سوائے گھاس پانی کے اور کسی شے کی پہچان نہیں رکھتا۔ تین برس پہلے بھی میں نے عرض کیا تھا کہ جنگلی جانور کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تربیت اس کے بچپن سے کی جائے کیونکہ تب تک وہ وحشی پن سے واقف نہیں ہوتا۔ وہ مخلوق جو ہمیشہ اور ہر حال میں تربیت قبول کرتی ہے، صرف انسان ہے کہ عقل رکھتا ہے، نپے تلے طریقوں کا شعور رکھتا ہے اور گھاس پانی اور اچھے برے کے باہمی فرق سے واقف ہوتا ہے۔ بس مجھے یہی کہنا تھا اور اب میں بادشاہ کے حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کرتا ہوں۔
بادشاہ نے انصاف سے کام لیا اور کہا: تم نے سچ کہا۔ اب چونکہ بات صاف ہوگئی لہٰذا یہ ہاتھی بھی میں تمھیں بخشتا ہوں۔ میرے لیے یہی کافی ہے کہ لوگ کہیں: بادشاہ کے پاس چارسو ہاتھی تھے اور وہ انصاف کرتا تھا۔ میری عظمت اور
میرا فخر یہ نہیں کہ میں کسی بڑے ہاتھی کا مالک بنوں بلکہ میری بزرگی عدل و انصاف کرنے میں ہے۔
٭٭٭