شیخ الجبال حسن بن صباح تاریخ کا پراسرار ترین کردار ہے، متعدد کتابیں، تحقیقی مضامین، تھیٹرز، وڈیو گیمز، ٹی وی سیریلز اور فلمیں شاہد ہیں کہ حسن بن صباح کی شخصیت مشرق ہی نہیں مغرب میں بھی عوام کیلئے آج بھی دلچسپی کا باعث ہے۔ ایک ایسا انسان جو تن تنہا ایک قلعہ الاآموت پر قبضہ کر کے حکومت قائم کرتا ہے اور بغیر کسی فوج کے 166 سال اسکے خوف سے گونجتا رہتا ہے۔ حسن بن صباح سے جڑی پراسرار داستانوں کی حقیقت کیا ہے، کتنی مستند ہے زمین پر بنی جنت، زہر آلود خنجروں سے لیس خودکش حملہ آور جنہیں مغرب اساسنز نے نام سے پکارتا ہے۔ ساتھ دی گئی وڈیو ڈاکومنٹری میں حسن بن صباح کے بارے میں تاریخی حقائق کیساتھ مفصل جائزہ لیا گیا ہے۔
حسن بن صباح کے دشمن بھی قائل ہیں کہ وہ ایک ذھین و فطین سپہ سالار، بہترین منتظم اور بے مثال عالم تھےایک طرف بہیمانہ سفاکیت تو دوسری جانب کڑی انصاف پسندی، ایک جانب ظلم و بربریت تو دوسری جانب عالمانہ سادگی، سچ تو یہ ہے کہ حسن بن صباح کی شخصیت تضادات کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ 16 اکتوبر 1192، سلجوق سلطان الپ ارسلان کے دانشمند وزیر اعظم نظام الملک طوسی زہر آلود جنجر بردار خودکش حملے کا پہلا شکار بنے، یہ تاریخ کا سب سے پہلا خودکش حملہ ہے۔ خودکش حملہ آور کو ایسی جنت جانا ہے جہاں پہلے بھی وہ کچھ روز گزار چکا ہے۔ نظام الملک طوسی کے دو بیٹے بھی حسن بن صباح کے خود کش فدائین کا نشانہ بنتے ہیں۔ پورے علاقے میں دہشت پھیل گئی، حسن بن صباح کی جانب سے پہلے ہی اعلان کر دیا جاتا کہ کون مارا جائیگا۔ متعدد سلاطین، سپہ سالار، شہزادے، طویل فہرست ہے فدائین کا نشانہ بننے والوں کی، جن میں عیسائی بادشاہ اور حکام بھی شامل ہیں۔ بالاخر ہلاکو خان نے قلعہ فتح کیا، فدائین اور شہریوں کا قتال عام، جنت کی حوریں اور غلمان تک بے رحمی سے قتل کر دیئے گئے، یوں 166 سال موت و دہشت کی علامت قلعہ الاآموت کو فتح کر کے 1256 میں نزاری اسماعیلی ریاست کا خاتمہ کر ڈالا۔
تہران سے 100 کلومیٹر دور، قلعہ الموت دہشت کی علامت، کوئی فوج نہیں مگر پھر بھی 166 سال ناقابل تسخیر رہا۔ یہ قلعہ کوہ البرز کی سات ہزار فٹ بلند برفانی چوٹی پر واقع ہے، عظیم الشان پہاڑ پر اوپر جانے کا راستہ صرف ایک ہے اور وہ بھی نہایت تنگ، پہاڑ کی قدرتی شکل ہی قلعے کا سب سے بڑا دفاعی ہتھیار رہی، ہلاکو خان کے درباری مورخ عطا ملک جوینی اپنی کتاب “تاریخ جہاں کشائی” میں لکھتے ہیں کہ پہاڑ بالکل ایسا ہے جیسے گھٹنوں کے بل بیٹھا اونٹ، چار طرف ڈھلوان چٹانیں، صرف ایک تنگ راستہ اوپر جاتا ہے جہاں قلعہ تعمیر کیا گیا،،، فوج نہ ہونے ہوئے قلعہ ناقابل تسخیر کیوں رہا؟ ساتھ دی گئی ڈاکومنٹری میں قلعے کے دفاعی جغرافیائی محل وقوع کو بہتر انداز سے سمجھا جا سکتا ہے۔
قلعہ الموت میں حسن بن صباح کی مصنوعی جنت بھی آج تک ایک راز ہے، دودھ اور شہد کی نہریں، شراب کی فراوانی، حور و غلمان، مصنوعی جنت میں عیش اڑاتے فدائین، یہ نظارہ کھینچا ہے عبدالحلیم شرر نے اپنے مشہور ناول فردوس بریں میں، یہ کتاب 1899 میں شائع ہوئی، مگر صرف عبدالحلیم شرر ہی نہیں، یورپ اور امریکہ میں حسن بن صباح پر لاتعداد کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں مصنوعی جنت اور فدائین کو موضوع بنایا گیا ہے حسن بن صباح، فسانہ یا حقیقت، تاریخ کا جائزہ لیں تو حسن بن صباح کے بارے میں خاصے تضاد نظر آتے ہیں۔ مغرب میں حسن بن صباح کو اولڈ مین آف مائونٹین کے نام سے جانا جاتا ہے، سفاک فدائین کو اسساسنز یا حشاشین کے نام سے پکارا جاتا ہے، حشاشین اس باعث کہ فدائین کو حشیش کا نشہ دیا جاتا تھا۔ مغرب میں بیشمار وڈیو گیمز اور فلمیں اس موضوع پر بن چکی ہیں۔
سفاک خودکش فدائین کی حد تک تو تاریخ میں کوئی اختلاف نہیں مگر جنت پر ضرور ہے، مغرب میں حسن بن صباح کی شہرت مارکو پولو کے ذریعے پہنچی، مصنوعی جنت، حسین دوشیزائیں اور حشیش کے نشے نے سفر نامے میں رنگ بھرے تو فدائین کی بربریت سے اسکو مزید دلچسپ بنا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب مارکو پولو چین جاتے ہوئے 1272 میں مبینہ طور پر اس علاقے سے گزرے تو قلعہ الاآموت منگولوں کے ہاتھ تباہ ہوئے پندرہ برس گزر چکے تھے، صرف اتنا ہی نہیں، جدید تحقیق کے مطابق مارکو پولو کبھی ایران تو کیا چین بھی نہیں پہنچے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں مستند تاریخی حوالوں کا، اس سے پہلے ہلاکو خان کے درباری مورخ عطا ملک جوینی کی کتاب جہاں کشائی کا تذکرہ ہو چکا ہے، عطا ملک جوینی قلعہ الاآموت کی جنگ میں بحیثیت مورخ ہلاکو کیساتھ تھے مگر ان کی کتاب میں کہیں بھی کسی جنت کا تذکرہ نہیں ملتا، اسی طرح مشہور تاریخ دان رشید فضل اللہ ہمدانی کی کتاب “جامع التواریخ” مستند تاریخی دستاویز مانی جاتی ہے جو قلعہ الاآموت فتح ہونے کے صرف پچاس سال بعد یعنی 1307 میں لکھی گئی، رشید الدین ہمدانی بھی حسن بن صباح کی جنت سے واقف نہیں ہیں نہ ہی کتاب میں کوئی تذکرہ ہے، یہ اہم ترین تاریخی کتب جنت کی داستان پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔
حسن بن صباح کے بارے میں تٖفصیلات، مصنوعی جنت کے نظارے، خود کش فدائین کی کارروائیاں، قلعہ الموت کی جغرافیائی اہمیت اور تاریخ میں تضاد کے حوالے سے مزید جاننے کیلئے ساتھ دی گئی وڈیو ڈاکومنٹری دیکھنا نہ بھولیں۔
وڈیو بھی دیکھئے:
Comments 3