• تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • تفریحات
    • شوبز
    • کھیل
    • کھانا پینا
    • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
    • صحت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home محشر خیال

فخر اور اس جیسے بائیس کروڑ

آوازہ: فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل by ڈاکٹر فاروق عادل
May 31, 2020
in محشر خیال
0
فارق عادل
150
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM

فخر الدین سیّدیوں چلا گیا جیسے جھونکا ہوا کا جاتاہے۔اس جواناں مرگ سے کبھی ملاقات نہ ہو سکی لیکن ایک زمانہ تھا ،صبح شام اس سے بات ہواکرتی۔ حدیث کے الفاظ ہیں:” سنو اور اطاعت کرو“۔فخر کا معاملہ کچھ ایسا ہی تھا۔اِسے جو کہا جاتا، خاموشی کے ساتھ سنتا اور پھر کام میں جت جاتا، کچھ دیر کے بعد وہ مشکل سے مشکل مہم بھی سر ہو جاتی جس کا بیڑا اٹھانے سے بڑے بڑے دھانسو صحافی بھی کنی کاٹ جایاکرتے ۔ کبھی کوئی ڈانٹ بھی اس کے حصے میں آجاتی تو وہ سمجھتا کہ ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، پھر وہ ساتھیوں سے خفا ہو تا کہ تم کسی اور کے ساتھ خلط ملط کرکے میرے لیے شرمندگی کا سامان کرتے ہو۔بات ہنسی مذاق میں ختم ہوجاتی ، اگلے روز فخر دوبارہ اسی چنگل میں گرفتار ہوتا ۔اب اس کے جانے کی خبر آئی ہے تو فون اور ٹیلی لنک پر ہونے والے وہ چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑے اور بحث مباحثے یاد آتے ہیں نیز فخر کا گورا چٹا مسکراتا ہواچہرہ۔
پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران اونچ نیچ تو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ لوگ فخر کے ساتھ محبت کرتے تھے اور ساتھیوں کے لیے اس کے دل میں بھی محبت کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ فخر دراصل اپنے مزاج کا اسیر تھااور مزاج بھی ایسا جس کے لیے اتنا بڑا جگر درکار ہے جس میں سارے جہان کا درد سما سکے۔بس، یہی درد تھا جو اسے نچلا بیٹھنے نہ دیتا اور مدد کے لیے جو بھی پکارتا، فخر کھنچا چلا آتا۔عین اس زمانے میں بھی جب کورونا نے اپنے خون آشام پنجے چہار سو پھیلا رکھے ہیں، وہ میدان ِ عمل میں تھا۔ اس کا ایک سبب تو یقینا پیشہ ورانہ مجبوری رہی ہوگی لیکن دمہ کا مریض آخر کب تک مقابلہ کرتا؟ بس، ہمارے فخر کی کہانی بس اتنی سی ہی ہے اور یہ کہانی صرف فخر ہی کی نہیں، اس ملک کے بائیس کروڑ لوگوں کی ہے۔
کورونا کا علاج کوئی نہیں جانتا،جو لوگ جانتے ہیں، نہیں معلوم کب وہ اس کاآزارکا چارہ تیار کر یں گے اور بیمار شفا پائیں گے لیکن جب تک یہ نہیں ہوتا، اس کا واحد علاج تنہائی ہے، گھر بیٹھنا ہے لیکن دنیا اگر اتنی آسانی کے ساتھ گھر میں بیٹھ پاتی تو آج فخراپنے خاندان کے ساتھ ہوتااور اپنی بیٹیوںکے ناز اٹھاتا ۔ گویا اس آزمائش کا واحد علاج گھروں کے اندر خود کو محدود کرلینااور لوگوں کو اس پر مجبور کرنے کے لیے لاک ڈاؤن کا نفاذ ہے لیکن لاک ڈاؤن اتنا بھی آسان نہیں جتنا کبھی اسے سمجھا گیا تھا۔یہ راز ایک ٹھیلے والے نے سمجھایا۔
یوں، کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، بین الاقوامی سیاست کے سینے میں تو بالکل ہی نہیں ہوتا۔ہمارے شجاعت بھائی کی ساری تعلیم اسی شعبے کی ہے۔ ایران طوران تو ہمارے دائیں بائیں کی بات ہے،امریکا اور مغرب کو سمجھے بغیر اپنے عہد کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا لیکن ہمارے یہ دوست تو دورازکار دیسوں کے حالات سے بھی باخبر رہتے ہیں ، نہ صرف باخبر رہتے ہیں بلکہ ان کی باریکیوں سے بھی خوب آگا ہ ہوتے ہیں۔ چند برس ہوتے ہیں، استاد گرامی پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کا قرب انھیں حاصل ہو گیا۔ استاد کی صحبت انھیں خوب راس آئی اور انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی ایٹمی سیاست پر ڈاکٹریٹ کر ڈالی، گویا سنگ دلی کی ایک اور دنیا کی راز داری انھیں حاصل ہو گئی۔اپنے اس علم کی مہارت اپنی جگہ لیکن اس سب کے باوجود انھوں نے دل ایک شاعر ہی کا پایا ہے جو چڑیا کے بچے کو بھی مصیبت میں دیکھ کر پھڑپھڑانے لگتا ہے۔
وہ شاید آخری روزے کی بات ہوگی یا اس سے ایک روز پہلے کی کہ چہرے پر ماسک لگا ،ہاتھوں پر دستانے چڑھا وہ افطاری کا سامان لینے کے لیے گھر سے نکلے۔ ہمارے بزرگوں کی بعض عادتیں کمال تھیں جب کبھی بھی وہ گھر سے نکلتے،چھڑی اور تھیلا ساتھ رکھتے۔ہمارے بھائی ڈاکٹر شجاعت حسین اگرچہ بزرگ نہیں ہیں لیکن بزرگوں کا سا مزاج ضرور پایا ہے، لہٰذا کچھ خریدنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں تو ایک دو شاپنگ بیگ تہہ کر کے جیب میںڈال لیتے ہیں۔ محلے کے دوکان دار اور ٹھیلے والے بھی ان سے خوش رہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے انھیں روپے دو روپے کی ہمیشہ بچت ہو جاتی ہے۔اُس روز انھوں نے افطاری کے لیے کچھ پھل خریدے اور جیب سے نکال کر تھیلی ٹھیلے والے کی طرف بڑھائی تو اس نے ایک عجب بات کہی۔ کہنے لگا کہ آج رہنے دیں صاحب! آپ کی تھیلی شفاف (Transparent)ہے ۔آج آپ کالی تھیلی میں یہ سامان لے جائیے ۔ قوت خرید آپ نہیں جانتے کتنی محدود ہو چکی ہے، کسی بچے یا کسی غریب لاچار کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے پاکر خود آپ کااپنا دل دکھے گا۔ڈاکٹر شجاعت اُس روز سے دکھی ہیں، کس قدر؟ بیان سے باہر ہے۔
تو معلوم یہ ہوا کہ لاک ڈاؤن نہ کریں توفخر کی طرح بیماری سے مرتے ہیں اور کریں تو بھوک سے ، گویا آگے پہاڑ ہے اور پیچھے کھائی، اس مشکل سے نکلیں تو کیوں کر؟ گزشتہ دو ڈھائی ماہ کے تجربے نے دنیا کو اور خود ہمیں بہت کچھ سکھا دیا ہے۔یہی سبق جو ہمیں کبھی اسمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف لے جاتا ہے، کبھی سفری سہولتوں میں نرمی کراتا ہے اور کبھی کوئی اور نیا تجربہ۔ شاعر پر جانے کیا بیتی ہوگی جب اس نے کہا ہوگا
جہاں جس کی ضرورت تھی، وہی تدبیر کی تو نے
کبھی کشتی کو جنبش دی کبھی موجو ں کو ٹھہر ایا
کورونا کی آزمائش میں بھی اسی حکمت کی ضرورت ہے ۔لاک ڈاو¿ن کو ہم نے مفید پایا لیکن قفل بندی کا یہ طریقہ پیٹ کی آگ بجھانے سے قاصر ہے ۔ پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے کچھ شرائط کے ساتھ لاک ڈاون ختم تو کردیا گیا ہے لیکن گھروں سے نکلنا آج بھی موت کو آواز دیناہے۔ لوگ باگ غیر محتاط ہیں، اپنا خیال کرتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کا۔ کاروباری طبقہ بھی احتیا ط کا دامن تھامنے سے انکاری ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ موت کا دامن پھیلتا چلا جارہا ہے،اسپتال بھر چکے ہیں ، کون جانے آنے والے دن میں کسے اجل سے پکار آجائے؟ ایسے بحرانوں میں قیادت بروئے کار آتی ہے۔
دنیا کی تاریخ کے اس بدترین آشوب میں اگر ہم کچھ دنوں کے لیے اپنی جبلتوں کوزیر کرکے اس جانب توجہ دیں، کاروبار کھول دیں اوران دنوں جیسی نہیں بلکہ حقیقی اور سخت احتیاطیں نافذ کردیں ۔ اس کے بعد آنکھیں کھول کر اس طرح بیٹھیں کہ کوئی خلاف ورزی کی جرات نہ کرسکے۔یہ ایک امتحان ہے۔قومیں ایسے امتحانوں میں بیدار اور فعال قیادت کی رہنمائی میں ہی کامیاب ہوپاتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ دہائیوں کی اونچ نیچ کے نتیجے میں قانون کی حکمرانی کے تصور اور نظم و ضبط کی نعمت سے محروم ہو چکا ہے۔اس پس منظر میں کورونا کی مصیبت ایک قیمتی موقع(Opportunity)کی حیثیت رکھتی ہے جس کی مدد سے ہم نہ صرف اس وبا کی تباہ کاریوں سے بچ سکتے ہیں بلکہ اپنی قوم کا مستقبل بھی سنوار سکتے ہیں ۔ بس، ضرورت ہے، اپنی جبلتوں پر تھوڑا سا قابو پانے اور قیادت کے تقاضوں پر پورا اترنے کی۔ یہ ایک خواب ہے، نسبتاً بڑا ہی سہی لیکن بڑے بڑے خواب ہی بڑی منزلوں پر پہنچاتے ہیں۔

WhatsApp Image 2021-12-02 at 3.54.35 PM
ADVERTISEMENT
Tags: پاکستانڈاکٹر شجاعت حسینڈاکٹر طاہر مسعودصحافیفخر الدین سیدقوت خریدکورونالاک ڈاؤن
Previous Post

امریکا میں سانحہ ساہیوال

Next Post

خواجہ احمد عباس کا یوم وفات آج ہے

ڈاکٹر فاروق عادل

ڈاکٹر فاروق عادل

فاروق عادل صحافی ہیں یا ادیب؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہو سکا، ان کی صحافت میں ادب کی چاشنی ہے اور ادب میں تحقیق کی آمیزش جس کے سبب ان کی تحریر کا ذایقہ ذرا مختلف ہو گیا ہے۔ بعض احباب اسے اسلوب قرار دیتے ہیں لیکن "صاحب اسلوب"کا خیال ہے کہ وہ ابھی تک اپنی منزل کی تلاش میں ہیں۔

Next Post
خواجہ احمد عباس کا یوم وفات آج ہے

خواجہ احمد عباس کا یوم وفات آج ہے

محشر خیال

مریم نواز
محشر خیال

مریم نواز سے وابستہ اصل امید

عمران خان
محشر خیال

قریشی صاحب کا ٹوٹا تارا اور عمران خان

مولانا فضل الرحمان
محشر خیال

مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی کی خواتین

عمران خان
محشر خیال

عمران خان بچاؤ کا آخری طریقہ

تبادلہ خیال

وفاقی محتسب
تبادلہ خیال

وفاقی محتسب۔چا لیس سال کا سفر

پختون خوا میپ
تبادلہ خیال

پختونخوا میپ: ایک جماعت تین سربراہ

کراچی
تبادلہ خیال

کراچی: ٹوٹا کیسے، بچائیں کیسے؟

سیاست
تبادلہ خیال

سیاست چھوڑ دی میں نے، کیا واقعی سچ؟

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

    Categories

    • Aawaza
    • Ads
    • آج کی شخصیت
    • اہم خبریں
    • پاکستان
    • تاریخ
    • تبادلہ خیال
    • تصوف , روحانیت
    • تصویر وطن
    • تفریحات
    • ٹیکنالوجی
    • حرف و حکایت
    • خامہ و خیال
    • خطاطی
    • زراعت
    • زندگی
    • سیاحت
    • شوبز
    • صحت
    • صراط مستقیم
    • عالم تمام
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
    • فکر و خیال
    • کتاب اور صاحب کتاب
    • کھابے، کھاجے
    • کھانا پینا
    • کھیل
    • کھیل
    • کیمرے کی آنکھ سے
    • لٹریچر
    • ماہ صیام
    • محشر خیال
    • مخزن ادب
    • مصوری
    • معیشت
    • مو قلم
    • ورثہ

    About Us

    اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
    • Privacy Policy
    • Urdu news – aawaza
    • ہم سے رابطہ
    • ہمارے بارے میں

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

    No Result
    View All Result
    • تفریحات
      • شوبز
      • کھیل
      • کھانا پینا
      • سیاحت
    • مخزن ادب
      • مخزن ادب
      • کتاب اور صاحب کتاب
    • زندگی
      • زندگی
      • تصوف , روحانیت
      • صحت
    • معیشت
      • معیشت
      • زراعت
      • ٹیکنالوجی
    • فکر و خیال
      • فکر و خیال
      • تاریخ
      • لٹریچر
    • محشر خیال
      • محشر خیال
      • تبادلہ خیال
      • فاروق عادل کے خاکے
      • فاروق عادل کے سفر نامے
    • اہم خبریں
      • تصویر وطن
      • عالم تمام
    • یو ٹیوب چینل
    • صفحہ اوّل

    © 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions