Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
فخر الدین سیّدیوں چلا گیا جیسے جھونکا ہوا کا جاتاہے۔اس جواناں مرگ سے کبھی ملاقات نہ ہو سکی لیکن ایک زمانہ تھا ،صبح شام اس سے بات ہواکرتی۔ حدیث کے الفاظ ہیں:” سنو اور اطاعت کرو“۔فخر کا معاملہ کچھ ایسا ہی تھا۔اِسے جو کہا جاتا، خاموشی کے ساتھ سنتا اور پھر کام میں جت جاتا، کچھ دیر کے بعد وہ مشکل سے مشکل مہم بھی سر ہو جاتی جس کا بیڑا اٹھانے سے بڑے بڑے دھانسو صحافی بھی کنی کاٹ جایاکرتے ۔ کبھی کوئی ڈانٹ بھی اس کے حصے میں آجاتی تو وہ سمجھتا کہ ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، پھر وہ ساتھیوں سے خفا ہو تا کہ تم کسی اور کے ساتھ خلط ملط کرکے میرے لیے شرمندگی کا سامان کرتے ہو۔بات ہنسی مذاق میں ختم ہوجاتی ، اگلے روز فخر دوبارہ اسی چنگل میں گرفتار ہوتا ۔اب اس کے جانے کی خبر آئی ہے تو فون اور ٹیلی لنک پر ہونے والے وہ چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑے اور بحث مباحثے یاد آتے ہیں نیز فخر کا گورا چٹا مسکراتا ہواچہرہ۔
پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران اونچ نیچ تو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ لوگ فخر کے ساتھ محبت کرتے تھے اور ساتھیوں کے لیے اس کے دل میں بھی محبت کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ فخر دراصل اپنے مزاج کا اسیر تھااور مزاج بھی ایسا جس کے لیے اتنا بڑا جگر درکار ہے جس میں سارے جہان کا درد سما سکے۔بس، یہی درد تھا جو اسے نچلا بیٹھنے نہ دیتا اور مدد کے لیے جو بھی پکارتا، فخر کھنچا چلا آتا۔عین اس زمانے میں بھی جب کورونا نے اپنے خون آشام پنجے چہار سو پھیلا رکھے ہیں، وہ میدان ِ عمل میں تھا۔ اس کا ایک سبب تو یقینا پیشہ ورانہ مجبوری رہی ہوگی لیکن دمہ کا مریض آخر کب تک مقابلہ کرتا؟ بس، ہمارے فخر کی کہانی بس اتنی سی ہی ہے اور یہ کہانی صرف فخر ہی کی نہیں، اس ملک کے بائیس کروڑ لوگوں کی ہے۔
کورونا کا علاج کوئی نہیں جانتا،جو لوگ جانتے ہیں، نہیں معلوم کب وہ اس کاآزارکا چارہ تیار کر یں گے اور بیمار شفا پائیں گے لیکن جب تک یہ نہیں ہوتا، اس کا واحد علاج تنہائی ہے، گھر بیٹھنا ہے لیکن دنیا اگر اتنی آسانی کے ساتھ گھر میں بیٹھ پاتی تو آج فخراپنے خاندان کے ساتھ ہوتااور اپنی بیٹیوںکے ناز اٹھاتا ۔ گویا اس آزمائش کا واحد علاج گھروں کے اندر خود کو محدود کرلینااور لوگوں کو اس پر مجبور کرنے کے لیے لاک ڈاؤن کا نفاذ ہے لیکن لاک ڈاؤن اتنا بھی آسان نہیں جتنا کبھی اسے سمجھا گیا تھا۔یہ راز ایک ٹھیلے والے نے سمجھایا۔
یوں، کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، بین الاقوامی سیاست کے سینے میں تو بالکل ہی نہیں ہوتا۔ہمارے شجاعت بھائی کی ساری تعلیم اسی شعبے کی ہے۔ ایران طوران تو ہمارے دائیں بائیں کی بات ہے،امریکا اور مغرب کو سمجھے بغیر اپنے عہد کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا لیکن ہمارے یہ دوست تو دورازکار دیسوں کے حالات سے بھی باخبر رہتے ہیں ، نہ صرف باخبر رہتے ہیں بلکہ ان کی باریکیوں سے بھی خوب آگا ہ ہوتے ہیں۔ چند برس ہوتے ہیں، استاد گرامی پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کا قرب انھیں حاصل ہو گیا۔ استاد کی صحبت انھیں خوب راس آئی اور انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی ایٹمی سیاست پر ڈاکٹریٹ کر ڈالی، گویا سنگ دلی کی ایک اور دنیا کی راز داری انھیں حاصل ہو گئی۔اپنے اس علم کی مہارت اپنی جگہ لیکن اس سب کے باوجود انھوں نے دل ایک شاعر ہی کا پایا ہے جو چڑیا کے بچے کو بھی مصیبت میں دیکھ کر پھڑپھڑانے لگتا ہے۔
وہ شاید آخری روزے کی بات ہوگی یا اس سے ایک روز پہلے کی کہ چہرے پر ماسک لگا ،ہاتھوں پر دستانے چڑھا وہ افطاری کا سامان لینے کے لیے گھر سے نکلے۔ ہمارے بزرگوں کی بعض عادتیں کمال تھیں جب کبھی بھی وہ گھر سے نکلتے،چھڑی اور تھیلا ساتھ رکھتے۔ہمارے بھائی ڈاکٹر شجاعت حسین اگرچہ بزرگ نہیں ہیں لیکن بزرگوں کا سا مزاج ضرور پایا ہے، لہٰذا کچھ خریدنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں تو ایک دو شاپنگ بیگ تہہ کر کے جیب میںڈال لیتے ہیں۔ محلے کے دوکان دار اور ٹھیلے والے بھی ان سے خوش رہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے انھیں روپے دو روپے کی ہمیشہ بچت ہو جاتی ہے۔اُس روز انھوں نے افطاری کے لیے کچھ پھل خریدے اور جیب سے نکال کر تھیلی ٹھیلے والے کی طرف بڑھائی تو اس نے ایک عجب بات کہی۔ کہنے لگا کہ آج رہنے دیں صاحب! آپ کی تھیلی شفاف (Transparent)ہے ۔آج آپ کالی تھیلی میں یہ سامان لے جائیے ۔ قوت خرید آپ نہیں جانتے کتنی محدود ہو چکی ہے، کسی بچے یا کسی غریب لاچار کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے پاکر خود آپ کااپنا دل دکھے گا۔ڈاکٹر شجاعت اُس روز سے دکھی ہیں، کس قدر؟ بیان سے باہر ہے۔
تو معلوم یہ ہوا کہ لاک ڈاؤن نہ کریں توفخر کی طرح بیماری سے مرتے ہیں اور کریں تو بھوک سے ، گویا آگے پہاڑ ہے اور پیچھے کھائی، اس مشکل سے نکلیں تو کیوں کر؟ گزشتہ دو ڈھائی ماہ کے تجربے نے دنیا کو اور خود ہمیں بہت کچھ سکھا دیا ہے۔یہی سبق جو ہمیں کبھی اسمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف لے جاتا ہے، کبھی سفری سہولتوں میں نرمی کراتا ہے اور کبھی کوئی اور نیا تجربہ۔ شاعر پر جانے کیا بیتی ہوگی جب اس نے کہا ہوگا
جہاں جس کی ضرورت تھی، وہی تدبیر کی تو نے
کبھی کشتی کو جنبش دی کبھی موجو ں کو ٹھہر ایا
کورونا کی آزمائش میں بھی اسی حکمت کی ضرورت ہے ۔لاک ڈاو¿ن کو ہم نے مفید پایا لیکن قفل بندی کا یہ طریقہ پیٹ کی آگ بجھانے سے قاصر ہے ۔ پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے کچھ شرائط کے ساتھ لاک ڈاون ختم تو کردیا گیا ہے لیکن گھروں سے نکلنا آج بھی موت کو آواز دیناہے۔ لوگ باگ غیر محتاط ہیں، اپنا خیال کرتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کا۔ کاروباری طبقہ بھی احتیا ط کا دامن تھامنے سے انکاری ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ موت کا دامن پھیلتا چلا جارہا ہے،اسپتال بھر چکے ہیں ، کون جانے آنے والے دن میں کسے اجل سے پکار آجائے؟ ایسے بحرانوں میں قیادت بروئے کار آتی ہے۔
دنیا کی تاریخ کے اس بدترین آشوب میں اگر ہم کچھ دنوں کے لیے اپنی جبلتوں کوزیر کرکے اس جانب توجہ دیں، کاروبار کھول دیں اوران دنوں جیسی نہیں بلکہ حقیقی اور سخت احتیاطیں نافذ کردیں ۔ اس کے بعد آنکھیں کھول کر اس طرح بیٹھیں کہ کوئی خلاف ورزی کی جرات نہ کرسکے۔یہ ایک امتحان ہے۔قومیں ایسے امتحانوں میں بیدار اور فعال قیادت کی رہنمائی میں ہی کامیاب ہوپاتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ دہائیوں کی اونچ نیچ کے نتیجے میں قانون کی حکمرانی کے تصور اور نظم و ضبط کی نعمت سے محروم ہو چکا ہے۔اس پس منظر میں کورونا کی مصیبت ایک قیمتی موقع(Opportunity)کی حیثیت رکھتی ہے جس کی مدد سے ہم نہ صرف اس وبا کی تباہ کاریوں سے بچ سکتے ہیں بلکہ اپنی قوم کا مستقبل بھی سنوار سکتے ہیں ۔ بس، ضرورت ہے، اپنی جبلتوں پر تھوڑا سا قابو پانے اور قیادت کے تقاضوں پر پورا اترنے کی۔ یہ ایک خواب ہے، نسبتاً بڑا ہی سہی لیکن بڑے بڑے خواب ہی بڑی منزلوں پر پہنچاتے ہیں۔
فخر الدین سیّدیوں چلا گیا جیسے جھونکا ہوا کا جاتاہے۔اس جواناں مرگ سے کبھی ملاقات نہ ہو سکی لیکن ایک زمانہ تھا ،صبح شام اس سے بات ہواکرتی۔ حدیث کے الفاظ ہیں:” سنو اور اطاعت کرو“۔فخر کا معاملہ کچھ ایسا ہی تھا۔اِسے جو کہا جاتا، خاموشی کے ساتھ سنتا اور پھر کام میں جت جاتا، کچھ دیر کے بعد وہ مشکل سے مشکل مہم بھی سر ہو جاتی جس کا بیڑا اٹھانے سے بڑے بڑے دھانسو صحافی بھی کنی کاٹ جایاکرتے ۔ کبھی کوئی ڈانٹ بھی اس کے حصے میں آجاتی تو وہ سمجھتا کہ ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، پھر وہ ساتھیوں سے خفا ہو تا کہ تم کسی اور کے ساتھ خلط ملط کرکے میرے لیے شرمندگی کا سامان کرتے ہو۔بات ہنسی مذاق میں ختم ہوجاتی ، اگلے روز فخر دوبارہ اسی چنگل میں گرفتار ہوتا ۔اب اس کے جانے کی خبر آئی ہے تو فون اور ٹیلی لنک پر ہونے والے وہ چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑے اور بحث مباحثے یاد آتے ہیں نیز فخر کا گورا چٹا مسکراتا ہواچہرہ۔
پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران اونچ نیچ تو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ لوگ فخر کے ساتھ محبت کرتے تھے اور ساتھیوں کے لیے اس کے دل میں بھی محبت کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ فخر دراصل اپنے مزاج کا اسیر تھااور مزاج بھی ایسا جس کے لیے اتنا بڑا جگر درکار ہے جس میں سارے جہان کا درد سما سکے۔بس، یہی درد تھا جو اسے نچلا بیٹھنے نہ دیتا اور مدد کے لیے جو بھی پکارتا، فخر کھنچا چلا آتا۔عین اس زمانے میں بھی جب کورونا نے اپنے خون آشام پنجے چہار سو پھیلا رکھے ہیں، وہ میدان ِ عمل میں تھا۔ اس کا ایک سبب تو یقینا پیشہ ورانہ مجبوری رہی ہوگی لیکن دمہ کا مریض آخر کب تک مقابلہ کرتا؟ بس، ہمارے فخر کی کہانی بس اتنی سی ہی ہے اور یہ کہانی صرف فخر ہی کی نہیں، اس ملک کے بائیس کروڑ لوگوں کی ہے۔
کورونا کا علاج کوئی نہیں جانتا،جو لوگ جانتے ہیں، نہیں معلوم کب وہ اس کاآزارکا چارہ تیار کر یں گے اور بیمار شفا پائیں گے لیکن جب تک یہ نہیں ہوتا، اس کا واحد علاج تنہائی ہے، گھر بیٹھنا ہے لیکن دنیا اگر اتنی آسانی کے ساتھ گھر میں بیٹھ پاتی تو آج فخراپنے خاندان کے ساتھ ہوتااور اپنی بیٹیوںکے ناز اٹھاتا ۔ گویا اس آزمائش کا واحد علاج گھروں کے اندر خود کو محدود کرلینااور لوگوں کو اس پر مجبور کرنے کے لیے لاک ڈاؤن کا نفاذ ہے لیکن لاک ڈاؤن اتنا بھی آسان نہیں جتنا کبھی اسے سمجھا گیا تھا۔یہ راز ایک ٹھیلے والے نے سمجھایا۔
یوں، کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، بین الاقوامی سیاست کے سینے میں تو بالکل ہی نہیں ہوتا۔ہمارے شجاعت بھائی کی ساری تعلیم اسی شعبے کی ہے۔ ایران طوران تو ہمارے دائیں بائیں کی بات ہے،امریکا اور مغرب کو سمجھے بغیر اپنے عہد کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا لیکن ہمارے یہ دوست تو دورازکار دیسوں کے حالات سے بھی باخبر رہتے ہیں ، نہ صرف باخبر رہتے ہیں بلکہ ان کی باریکیوں سے بھی خوب آگا ہ ہوتے ہیں۔ چند برس ہوتے ہیں، استاد گرامی پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کا قرب انھیں حاصل ہو گیا۔ استاد کی صحبت انھیں خوب راس آئی اور انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی ایٹمی سیاست پر ڈاکٹریٹ کر ڈالی، گویا سنگ دلی کی ایک اور دنیا کی راز داری انھیں حاصل ہو گئی۔اپنے اس علم کی مہارت اپنی جگہ لیکن اس سب کے باوجود انھوں نے دل ایک شاعر ہی کا پایا ہے جو چڑیا کے بچے کو بھی مصیبت میں دیکھ کر پھڑپھڑانے لگتا ہے۔
وہ شاید آخری روزے کی بات ہوگی یا اس سے ایک روز پہلے کی کہ چہرے پر ماسک لگا ،ہاتھوں پر دستانے چڑھا وہ افطاری کا سامان لینے کے لیے گھر سے نکلے۔ ہمارے بزرگوں کی بعض عادتیں کمال تھیں جب کبھی بھی وہ گھر سے نکلتے،چھڑی اور تھیلا ساتھ رکھتے۔ہمارے بھائی ڈاکٹر شجاعت حسین اگرچہ بزرگ نہیں ہیں لیکن بزرگوں کا سا مزاج ضرور پایا ہے، لہٰذا کچھ خریدنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں تو ایک دو شاپنگ بیگ تہہ کر کے جیب میںڈال لیتے ہیں۔ محلے کے دوکان دار اور ٹھیلے والے بھی ان سے خوش رہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے انھیں روپے دو روپے کی ہمیشہ بچت ہو جاتی ہے۔اُس روز انھوں نے افطاری کے لیے کچھ پھل خریدے اور جیب سے نکال کر تھیلی ٹھیلے والے کی طرف بڑھائی تو اس نے ایک عجب بات کہی۔ کہنے لگا کہ آج رہنے دیں صاحب! آپ کی تھیلی شفاف (Transparent)ہے ۔آج آپ کالی تھیلی میں یہ سامان لے جائیے ۔ قوت خرید آپ نہیں جانتے کتنی محدود ہو چکی ہے، کسی بچے یا کسی غریب لاچار کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے پاکر خود آپ کااپنا دل دکھے گا۔ڈاکٹر شجاعت اُس روز سے دکھی ہیں، کس قدر؟ بیان سے باہر ہے۔
تو معلوم یہ ہوا کہ لاک ڈاؤن نہ کریں توفخر کی طرح بیماری سے مرتے ہیں اور کریں تو بھوک سے ، گویا آگے پہاڑ ہے اور پیچھے کھائی، اس مشکل سے نکلیں تو کیوں کر؟ گزشتہ دو ڈھائی ماہ کے تجربے نے دنیا کو اور خود ہمیں بہت کچھ سکھا دیا ہے۔یہی سبق جو ہمیں کبھی اسمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف لے جاتا ہے، کبھی سفری سہولتوں میں نرمی کراتا ہے اور کبھی کوئی اور نیا تجربہ۔ شاعر پر جانے کیا بیتی ہوگی جب اس نے کہا ہوگا
جہاں جس کی ضرورت تھی، وہی تدبیر کی تو نے
کبھی کشتی کو جنبش دی کبھی موجو ں کو ٹھہر ایا
کورونا کی آزمائش میں بھی اسی حکمت کی ضرورت ہے ۔لاک ڈاو¿ن کو ہم نے مفید پایا لیکن قفل بندی کا یہ طریقہ پیٹ کی آگ بجھانے سے قاصر ہے ۔ پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے کچھ شرائط کے ساتھ لاک ڈاون ختم تو کردیا گیا ہے لیکن گھروں سے نکلنا آج بھی موت کو آواز دیناہے۔ لوگ باگ غیر محتاط ہیں، اپنا خیال کرتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کا۔ کاروباری طبقہ بھی احتیا ط کا دامن تھامنے سے انکاری ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ موت کا دامن پھیلتا چلا جارہا ہے،اسپتال بھر چکے ہیں ، کون جانے آنے والے دن میں کسے اجل سے پکار آجائے؟ ایسے بحرانوں میں قیادت بروئے کار آتی ہے۔
دنیا کی تاریخ کے اس بدترین آشوب میں اگر ہم کچھ دنوں کے لیے اپنی جبلتوں کوزیر کرکے اس جانب توجہ دیں، کاروبار کھول دیں اوران دنوں جیسی نہیں بلکہ حقیقی اور سخت احتیاطیں نافذ کردیں ۔ اس کے بعد آنکھیں کھول کر اس طرح بیٹھیں کہ کوئی خلاف ورزی کی جرات نہ کرسکے۔یہ ایک امتحان ہے۔قومیں ایسے امتحانوں میں بیدار اور فعال قیادت کی رہنمائی میں ہی کامیاب ہوپاتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ دہائیوں کی اونچ نیچ کے نتیجے میں قانون کی حکمرانی کے تصور اور نظم و ضبط کی نعمت سے محروم ہو چکا ہے۔اس پس منظر میں کورونا کی مصیبت ایک قیمتی موقع(Opportunity)کی حیثیت رکھتی ہے جس کی مدد سے ہم نہ صرف اس وبا کی تباہ کاریوں سے بچ سکتے ہیں بلکہ اپنی قوم کا مستقبل بھی سنوار سکتے ہیں ۔ بس، ضرورت ہے، اپنی جبلتوں پر تھوڑا سا قابو پانے اور قیادت کے تقاضوں پر پورا اترنے کی۔ یہ ایک خواب ہے، نسبتاً بڑا ہی سہی لیکن بڑے بڑے خواب ہی بڑی منزلوں پر پہنچاتے ہیں۔
فخر الدین سیّدیوں چلا گیا جیسے جھونکا ہوا کا جاتاہے۔اس جواناں مرگ سے کبھی ملاقات نہ ہو سکی لیکن ایک زمانہ تھا ،صبح شام اس سے بات ہواکرتی۔ حدیث کے الفاظ ہیں:” سنو اور اطاعت کرو“۔فخر کا معاملہ کچھ ایسا ہی تھا۔اِسے جو کہا جاتا، خاموشی کے ساتھ سنتا اور پھر کام میں جت جاتا، کچھ دیر کے بعد وہ مشکل سے مشکل مہم بھی سر ہو جاتی جس کا بیڑا اٹھانے سے بڑے بڑے دھانسو صحافی بھی کنی کاٹ جایاکرتے ۔ کبھی کوئی ڈانٹ بھی اس کے حصے میں آجاتی تو وہ سمجھتا کہ ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، پھر وہ ساتھیوں سے خفا ہو تا کہ تم کسی اور کے ساتھ خلط ملط کرکے میرے لیے شرمندگی کا سامان کرتے ہو۔بات ہنسی مذاق میں ختم ہوجاتی ، اگلے روز فخر دوبارہ اسی چنگل میں گرفتار ہوتا ۔اب اس کے جانے کی خبر آئی ہے تو فون اور ٹیلی لنک پر ہونے والے وہ چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑے اور بحث مباحثے یاد آتے ہیں نیز فخر کا گورا چٹا مسکراتا ہواچہرہ۔
پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران اونچ نیچ تو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ لوگ فخر کے ساتھ محبت کرتے تھے اور ساتھیوں کے لیے اس کے دل میں بھی محبت کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ فخر دراصل اپنے مزاج کا اسیر تھااور مزاج بھی ایسا جس کے لیے اتنا بڑا جگر درکار ہے جس میں سارے جہان کا درد سما سکے۔بس، یہی درد تھا جو اسے نچلا بیٹھنے نہ دیتا اور مدد کے لیے جو بھی پکارتا، فخر کھنچا چلا آتا۔عین اس زمانے میں بھی جب کورونا نے اپنے خون آشام پنجے چہار سو پھیلا رکھے ہیں، وہ میدان ِ عمل میں تھا۔ اس کا ایک سبب تو یقینا پیشہ ورانہ مجبوری رہی ہوگی لیکن دمہ کا مریض آخر کب تک مقابلہ کرتا؟ بس، ہمارے فخر کی کہانی بس اتنی سی ہی ہے اور یہ کہانی صرف فخر ہی کی نہیں، اس ملک کے بائیس کروڑ لوگوں کی ہے۔
کورونا کا علاج کوئی نہیں جانتا،جو لوگ جانتے ہیں، نہیں معلوم کب وہ اس کاآزارکا چارہ تیار کر یں گے اور بیمار شفا پائیں گے لیکن جب تک یہ نہیں ہوتا، اس کا واحد علاج تنہائی ہے، گھر بیٹھنا ہے لیکن دنیا اگر اتنی آسانی کے ساتھ گھر میں بیٹھ پاتی تو آج فخراپنے خاندان کے ساتھ ہوتااور اپنی بیٹیوںکے ناز اٹھاتا ۔ گویا اس آزمائش کا واحد علاج گھروں کے اندر خود کو محدود کرلینااور لوگوں کو اس پر مجبور کرنے کے لیے لاک ڈاؤن کا نفاذ ہے لیکن لاک ڈاؤن اتنا بھی آسان نہیں جتنا کبھی اسے سمجھا گیا تھا۔یہ راز ایک ٹھیلے والے نے سمجھایا۔
یوں، کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، بین الاقوامی سیاست کے سینے میں تو بالکل ہی نہیں ہوتا۔ہمارے شجاعت بھائی کی ساری تعلیم اسی شعبے کی ہے۔ ایران طوران تو ہمارے دائیں بائیں کی بات ہے،امریکا اور مغرب کو سمجھے بغیر اپنے عہد کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا لیکن ہمارے یہ دوست تو دورازکار دیسوں کے حالات سے بھی باخبر رہتے ہیں ، نہ صرف باخبر رہتے ہیں بلکہ ان کی باریکیوں سے بھی خوب آگا ہ ہوتے ہیں۔ چند برس ہوتے ہیں، استاد گرامی پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کا قرب انھیں حاصل ہو گیا۔ استاد کی صحبت انھیں خوب راس آئی اور انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی ایٹمی سیاست پر ڈاکٹریٹ کر ڈالی، گویا سنگ دلی کی ایک اور دنیا کی راز داری انھیں حاصل ہو گئی۔اپنے اس علم کی مہارت اپنی جگہ لیکن اس سب کے باوجود انھوں نے دل ایک شاعر ہی کا پایا ہے جو چڑیا کے بچے کو بھی مصیبت میں دیکھ کر پھڑپھڑانے لگتا ہے۔
وہ شاید آخری روزے کی بات ہوگی یا اس سے ایک روز پہلے کی کہ چہرے پر ماسک لگا ،ہاتھوں پر دستانے چڑھا وہ افطاری کا سامان لینے کے لیے گھر سے نکلے۔ ہمارے بزرگوں کی بعض عادتیں کمال تھیں جب کبھی بھی وہ گھر سے نکلتے،چھڑی اور تھیلا ساتھ رکھتے۔ہمارے بھائی ڈاکٹر شجاعت حسین اگرچہ بزرگ نہیں ہیں لیکن بزرگوں کا سا مزاج ضرور پایا ہے، لہٰذا کچھ خریدنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں تو ایک دو شاپنگ بیگ تہہ کر کے جیب میںڈال لیتے ہیں۔ محلے کے دوکان دار اور ٹھیلے والے بھی ان سے خوش رہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے انھیں روپے دو روپے کی ہمیشہ بچت ہو جاتی ہے۔اُس روز انھوں نے افطاری کے لیے کچھ پھل خریدے اور جیب سے نکال کر تھیلی ٹھیلے والے کی طرف بڑھائی تو اس نے ایک عجب بات کہی۔ کہنے لگا کہ آج رہنے دیں صاحب! آپ کی تھیلی شفاف (Transparent)ہے ۔آج آپ کالی تھیلی میں یہ سامان لے جائیے ۔ قوت خرید آپ نہیں جانتے کتنی محدود ہو چکی ہے، کسی بچے یا کسی غریب لاچار کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے پاکر خود آپ کااپنا دل دکھے گا۔ڈاکٹر شجاعت اُس روز سے دکھی ہیں، کس قدر؟ بیان سے باہر ہے۔
تو معلوم یہ ہوا کہ لاک ڈاؤن نہ کریں توفخر کی طرح بیماری سے مرتے ہیں اور کریں تو بھوک سے ، گویا آگے پہاڑ ہے اور پیچھے کھائی، اس مشکل سے نکلیں تو کیوں کر؟ گزشتہ دو ڈھائی ماہ کے تجربے نے دنیا کو اور خود ہمیں بہت کچھ سکھا دیا ہے۔یہی سبق جو ہمیں کبھی اسمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف لے جاتا ہے، کبھی سفری سہولتوں میں نرمی کراتا ہے اور کبھی کوئی اور نیا تجربہ۔ شاعر پر جانے کیا بیتی ہوگی جب اس نے کہا ہوگا
جہاں جس کی ضرورت تھی، وہی تدبیر کی تو نے
کبھی کشتی کو جنبش دی کبھی موجو ں کو ٹھہر ایا
کورونا کی آزمائش میں بھی اسی حکمت کی ضرورت ہے ۔لاک ڈاو¿ن کو ہم نے مفید پایا لیکن قفل بندی کا یہ طریقہ پیٹ کی آگ بجھانے سے قاصر ہے ۔ پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے کچھ شرائط کے ساتھ لاک ڈاون ختم تو کردیا گیا ہے لیکن گھروں سے نکلنا آج بھی موت کو آواز دیناہے۔ لوگ باگ غیر محتاط ہیں، اپنا خیال کرتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کا۔ کاروباری طبقہ بھی احتیا ط کا دامن تھامنے سے انکاری ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ موت کا دامن پھیلتا چلا جارہا ہے،اسپتال بھر چکے ہیں ، کون جانے آنے والے دن میں کسے اجل سے پکار آجائے؟ ایسے بحرانوں میں قیادت بروئے کار آتی ہے۔
دنیا کی تاریخ کے اس بدترین آشوب میں اگر ہم کچھ دنوں کے لیے اپنی جبلتوں کوزیر کرکے اس جانب توجہ دیں، کاروبار کھول دیں اوران دنوں جیسی نہیں بلکہ حقیقی اور سخت احتیاطیں نافذ کردیں ۔ اس کے بعد آنکھیں کھول کر اس طرح بیٹھیں کہ کوئی خلاف ورزی کی جرات نہ کرسکے۔یہ ایک امتحان ہے۔قومیں ایسے امتحانوں میں بیدار اور فعال قیادت کی رہنمائی میں ہی کامیاب ہوپاتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ دہائیوں کی اونچ نیچ کے نتیجے میں قانون کی حکمرانی کے تصور اور نظم و ضبط کی نعمت سے محروم ہو چکا ہے۔اس پس منظر میں کورونا کی مصیبت ایک قیمتی موقع(Opportunity)کی حیثیت رکھتی ہے جس کی مدد سے ہم نہ صرف اس وبا کی تباہ کاریوں سے بچ سکتے ہیں بلکہ اپنی قوم کا مستقبل بھی سنوار سکتے ہیں ۔ بس، ضرورت ہے، اپنی جبلتوں پر تھوڑا سا قابو پانے اور قیادت کے تقاضوں پر پورا اترنے کی۔ یہ ایک خواب ہے، نسبتاً بڑا ہی سہی لیکن بڑے بڑے خواب ہی بڑی منزلوں پر پہنچاتے ہیں۔
فخر الدین سیّدیوں چلا گیا جیسے جھونکا ہوا کا جاتاہے۔اس جواناں مرگ سے کبھی ملاقات نہ ہو سکی لیکن ایک زمانہ تھا ،صبح شام اس سے بات ہواکرتی۔ حدیث کے الفاظ ہیں:” سنو اور اطاعت کرو“۔فخر کا معاملہ کچھ ایسا ہی تھا۔اِسے جو کہا جاتا، خاموشی کے ساتھ سنتا اور پھر کام میں جت جاتا، کچھ دیر کے بعد وہ مشکل سے مشکل مہم بھی سر ہو جاتی جس کا بیڑا اٹھانے سے بڑے بڑے دھانسو صحافی بھی کنی کاٹ جایاکرتے ۔ کبھی کوئی ڈانٹ بھی اس کے حصے میں آجاتی تو وہ سمجھتا کہ ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، پھر وہ ساتھیوں سے خفا ہو تا کہ تم کسی اور کے ساتھ خلط ملط کرکے میرے لیے شرمندگی کا سامان کرتے ہو۔بات ہنسی مذاق میں ختم ہوجاتی ، اگلے روز فخر دوبارہ اسی چنگل میں گرفتار ہوتا ۔اب اس کے جانے کی خبر آئی ہے تو فون اور ٹیلی لنک پر ہونے والے وہ چھوٹے چھوٹے لڑائی جھگڑے اور بحث مباحثے یاد آتے ہیں نیز فخر کا گورا چٹا مسکراتا ہواچہرہ۔
پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران اونچ نیچ تو ہوتی ہی رہتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ لوگ فخر کے ساتھ محبت کرتے تھے اور ساتھیوں کے لیے اس کے دل میں بھی محبت کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ فخر دراصل اپنے مزاج کا اسیر تھااور مزاج بھی ایسا جس کے لیے اتنا بڑا جگر درکار ہے جس میں سارے جہان کا درد سما سکے۔بس، یہی درد تھا جو اسے نچلا بیٹھنے نہ دیتا اور مدد کے لیے جو بھی پکارتا، فخر کھنچا چلا آتا۔عین اس زمانے میں بھی جب کورونا نے اپنے خون آشام پنجے چہار سو پھیلا رکھے ہیں، وہ میدان ِ عمل میں تھا۔ اس کا ایک سبب تو یقینا پیشہ ورانہ مجبوری رہی ہوگی لیکن دمہ کا مریض آخر کب تک مقابلہ کرتا؟ بس، ہمارے فخر کی کہانی بس اتنی سی ہی ہے اور یہ کہانی صرف فخر ہی کی نہیں، اس ملک کے بائیس کروڑ لوگوں کی ہے۔
کورونا کا علاج کوئی نہیں جانتا،جو لوگ جانتے ہیں، نہیں معلوم کب وہ اس کاآزارکا چارہ تیار کر یں گے اور بیمار شفا پائیں گے لیکن جب تک یہ نہیں ہوتا، اس کا واحد علاج تنہائی ہے، گھر بیٹھنا ہے لیکن دنیا اگر اتنی آسانی کے ساتھ گھر میں بیٹھ پاتی تو آج فخراپنے خاندان کے ساتھ ہوتااور اپنی بیٹیوںکے ناز اٹھاتا ۔ گویا اس آزمائش کا واحد علاج گھروں کے اندر خود کو محدود کرلینااور لوگوں کو اس پر مجبور کرنے کے لیے لاک ڈاؤن کا نفاذ ہے لیکن لاک ڈاؤن اتنا بھی آسان نہیں جتنا کبھی اسے سمجھا گیا تھا۔یہ راز ایک ٹھیلے والے نے سمجھایا۔
یوں، کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، بین الاقوامی سیاست کے سینے میں تو بالکل ہی نہیں ہوتا۔ہمارے شجاعت بھائی کی ساری تعلیم اسی شعبے کی ہے۔ ایران طوران تو ہمارے دائیں بائیں کی بات ہے،امریکا اور مغرب کو سمجھے بغیر اپنے عہد کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا لیکن ہمارے یہ دوست تو دورازکار دیسوں کے حالات سے بھی باخبر رہتے ہیں ، نہ صرف باخبر رہتے ہیں بلکہ ان کی باریکیوں سے بھی خوب آگا ہ ہوتے ہیں۔ چند برس ہوتے ہیں، استاد گرامی پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود کا قرب انھیں حاصل ہو گیا۔ استاد کی صحبت انھیں خوب راس آئی اور انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی ایٹمی سیاست پر ڈاکٹریٹ کر ڈالی، گویا سنگ دلی کی ایک اور دنیا کی راز داری انھیں حاصل ہو گئی۔اپنے اس علم کی مہارت اپنی جگہ لیکن اس سب کے باوجود انھوں نے دل ایک شاعر ہی کا پایا ہے جو چڑیا کے بچے کو بھی مصیبت میں دیکھ کر پھڑپھڑانے لگتا ہے۔
وہ شاید آخری روزے کی بات ہوگی یا اس سے ایک روز پہلے کی کہ چہرے پر ماسک لگا ،ہاتھوں پر دستانے چڑھا وہ افطاری کا سامان لینے کے لیے گھر سے نکلے۔ ہمارے بزرگوں کی بعض عادتیں کمال تھیں جب کبھی بھی وہ گھر سے نکلتے،چھڑی اور تھیلا ساتھ رکھتے۔ہمارے بھائی ڈاکٹر شجاعت حسین اگرچہ بزرگ نہیں ہیں لیکن بزرگوں کا سا مزاج ضرور پایا ہے، لہٰذا کچھ خریدنے کے لیے گھر سے نکلتے ہیں تو ایک دو شاپنگ بیگ تہہ کر کے جیب میںڈال لیتے ہیں۔ محلے کے دوکان دار اور ٹھیلے والے بھی ان سے خوش رہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے انھیں روپے دو روپے کی ہمیشہ بچت ہو جاتی ہے۔اُس روز انھوں نے افطاری کے لیے کچھ پھل خریدے اور جیب سے نکال کر تھیلی ٹھیلے والے کی طرف بڑھائی تو اس نے ایک عجب بات کہی۔ کہنے لگا کہ آج رہنے دیں صاحب! آپ کی تھیلی شفاف (Transparent)ہے ۔آج آپ کالی تھیلی میں یہ سامان لے جائیے ۔ قوت خرید آپ نہیں جانتے کتنی محدود ہو چکی ہے، کسی بچے یا کسی غریب لاچار کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے پاکر خود آپ کااپنا دل دکھے گا۔ڈاکٹر شجاعت اُس روز سے دکھی ہیں، کس قدر؟ بیان سے باہر ہے۔
تو معلوم یہ ہوا کہ لاک ڈاؤن نہ کریں توفخر کی طرح بیماری سے مرتے ہیں اور کریں تو بھوک سے ، گویا آگے پہاڑ ہے اور پیچھے کھائی، اس مشکل سے نکلیں تو کیوں کر؟ گزشتہ دو ڈھائی ماہ کے تجربے نے دنیا کو اور خود ہمیں بہت کچھ سکھا دیا ہے۔یہی سبق جو ہمیں کبھی اسمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف لے جاتا ہے، کبھی سفری سہولتوں میں نرمی کراتا ہے اور کبھی کوئی اور نیا تجربہ۔ شاعر پر جانے کیا بیتی ہوگی جب اس نے کہا ہوگا
جہاں جس کی ضرورت تھی، وہی تدبیر کی تو نے
کبھی کشتی کو جنبش دی کبھی موجو ں کو ٹھہر ایا
کورونا کی آزمائش میں بھی اسی حکمت کی ضرورت ہے ۔لاک ڈاو¿ن کو ہم نے مفید پایا لیکن قفل بندی کا یہ طریقہ پیٹ کی آگ بجھانے سے قاصر ہے ۔ پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے کچھ شرائط کے ساتھ لاک ڈاون ختم تو کردیا گیا ہے لیکن گھروں سے نکلنا آج بھی موت کو آواز دیناہے۔ لوگ باگ غیر محتاط ہیں، اپنا خیال کرتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کا۔ کاروباری طبقہ بھی احتیا ط کا دامن تھامنے سے انکاری ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ موت کا دامن پھیلتا چلا جارہا ہے،اسپتال بھر چکے ہیں ، کون جانے آنے والے دن میں کسے اجل سے پکار آجائے؟ ایسے بحرانوں میں قیادت بروئے کار آتی ہے۔
دنیا کی تاریخ کے اس بدترین آشوب میں اگر ہم کچھ دنوں کے لیے اپنی جبلتوں کوزیر کرکے اس جانب توجہ دیں، کاروبار کھول دیں اوران دنوں جیسی نہیں بلکہ حقیقی اور سخت احتیاطیں نافذ کردیں ۔ اس کے بعد آنکھیں کھول کر اس طرح بیٹھیں کہ کوئی خلاف ورزی کی جرات نہ کرسکے۔یہ ایک امتحان ہے۔قومیں ایسے امتحانوں میں بیدار اور فعال قیادت کی رہنمائی میں ہی کامیاب ہوپاتی ہیں۔ ہمارا معاشرہ دہائیوں کی اونچ نیچ کے نتیجے میں قانون کی حکمرانی کے تصور اور نظم و ضبط کی نعمت سے محروم ہو چکا ہے۔اس پس منظر میں کورونا کی مصیبت ایک قیمتی موقع(Opportunity)کی حیثیت رکھتی ہے جس کی مدد سے ہم نہ صرف اس وبا کی تباہ کاریوں سے بچ سکتے ہیں بلکہ اپنی قوم کا مستقبل بھی سنوار سکتے ہیں ۔ بس، ضرورت ہے، اپنی جبلتوں پر تھوڑا سا قابو پانے اور قیادت کے تقاضوں پر پورا اترنے کی۔ یہ ایک خواب ہے، نسبتاً بڑا ہی سہی لیکن بڑے بڑے خواب ہی بڑی منزلوں پر پہنچاتے ہیں۔