Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ایک طرف امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر منیاپولس میں ایک پولیس افیسر کے ھاتھوں ایک شہری “جارج فلوئیڈ” کی گرفتاری کے دوران ایک پولیس افسر کے گردن پر گھٹنا رکھنے کی وجہ سے ہونے والی موت کی فوٹیج سامنے آئی ہے۔ اس پر امریکی حکومت کی طرف سے پولیس آفیسر کو قتل کے الزام میں گرفتار کر کے فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اور اسے سوموار کو عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے جبکہ باقی تین پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔
امریکہ کے اس واقعہ کو آج پانچواں روز ہے۔ اس سانحے پر عوام کی طرف سے شروع میں پرامن قسم کا کا ردعمل سامنے آیا جو کہ بڑھتے بڑھتے نہایت پرتشدد قسم کے کے واقعات میں تبدیل ہوگیا ہے۔وائرل ہوئی ویڈیو میں متاثرہ شخص کی طرف سے “میں سانس نہیں لے سکتا” جیسے آخری الفاظ سنائی دیتے ہیں جو کہ اب مظاہرین کے پلے کارڈ کا نعرہ ہیں۔ مظاہرین کی طرف سے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کے علاوہ ریاست منیسوٹا کے کے پولیس سٹیشن اور کئی گاڑیوں کو نذر آتش بھی کر دیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں پولیس کی طرف سے ربڑ کی گولیوں کے ساتھ پانی اور مرچوں والے اسپرے کا چھڑکاؤ کر کے مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
امریکہ کی 11 ریاستوں جارجیا، کینٹکی۔ اوہایو، ویسکونسن، کولاراڈو، یوٹا، واشنگٹن، کیلیفورنیا، ٹینیسی، میزوری اورٹیکساس کے گورنرز نے بھی امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیشنل گارڈز کو امن عامہ کے لیے طلب کر لیا ہے۔ ان ریاستوں میں کئی مقامات پر مظاہرے پُر تشدد احتجاج میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ جہاں پر تشدد کے ساتھ ساتھ لوٹ مار کے واقعات بھی میڈیا پر دکھائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سی این این کے دفاتر کے باہر ہونے والے مظاہرے میں میں سی این این کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا اور پولیس کو بھی پتھراؤ کا نشانہ بنایا گیا۔
مزید براں کیلیفورنیا کے گورنر نے لاس اینجلس میں ہنگامی حالات نافذ کر دیے ہیں۔ ہفتے کی شب احتجاج میں لاس اینجلس میں مظاہرین نے کئی مقامات پر آگ لگا دی تھی۔
امریکہ کے کئی شہروں کے میئرز نے رات کا کرفیو بھی نافذ کر دیا ہے۔ جن شہروں میں کرفیو کا نفاذ کیا گیا ہے ان میں لاس اینجلس، سیٹل، ڈینور، فلاڈلفیا، پورٹ لینڈ، اوریگن، کولمبیا اور کیرلینا سمیت دیگر شامل ہیں۔
اس سے قبل وائٹ ہاؤس کے قریب ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ تھوڑی دیر کے لئے یے وائٹ ہاؤس کو بھی بند کرنا پڑا۔
اس کے جواب میں امریکی صدر کی طرف سے لوٹ مار کی صورت میں مظاہرین پر گولیاں چلائے جانے کی کی دھمکی بھی دی گئی جس پر ٹوئٹر نے ان کی ٹویٹ کو ڈلیٹ کر دیا اور بعدازاں ٹیگ کر کے دوبارہ بحال کر دیا۔ اس ہونے والے قضیئے میں امریکی صدر نے ٹوئٹر کو بھی بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس کے علاوہ خلاف آئین براہ راست پروگرام میں میں سی این این کے ایک رپورٹر کو بھی گرفتار کیا گیا جسے بعدازاں بغیر کسی الزام لگائے چھوڑ دیا گیا۔ اس سارے معاملے پر سیاہ فاموں کی طرف سے خصوصی احتجاج کیا جا رہا ہے۔
قارئین یہ ہے دنیا کی سب سے سے طاقتور اور بااثر سمجھی جانے والی حکومت کے خلاف اس کی اپنی عوام کا ردعمل۔ اب اس سپر پاور کے مقابلے میں ہم تیسری دنیا کے ایک چھوٹے سے ملک پاکستان کے چند مگر خصوصاً ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔
دوسری طرف
جنوری 2019 میں پاکستان میں بھی ایک ایسی ہی ویڈیو سامنے آئی جس میں پولیس کی ایک گاڑی ایک عام سی کار کو ھائی وے پر روکتی ہے اور اس گاڑی میں موجود مسافروں میں سے چار بچوں کو نکال کر ان کی نظروں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ رکی ہوئی ٹریفک میں سے بنائی گئی ویڈیوز سامنے آنے پر معاملات سوشل میڈیا پر آ جاتے ہیں اور پورا پاکستان غم و غصے کی ایک لہر میں ڈوب جاتا ہے۔فیس بک اور ٹویٹر پر ہیش ٹیگ بنتے ہیں اور عوام کی طرف سے انصاف کا مطالبہ اس حد تک بڑھتا ہے کہ وزیر اعلی، وزیر اعظم، چیف جسٹس، صدر تک اس معاملے میں براہ راست انصاف کا وعدہ کرتے ہیں یہاں تک کہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں بھی اس پر بحث ہوتی ہے اور انصاف کرنے کے دھواں دھار وعدے کیے جاتے ہیں۔ کیس چلتا ہے تو جے آئی ٹیز، جوڈیشل کمیٹیوں، 26 عینی شاہدین، سائنسی شواہد اور ویڈیوز کے ہونے، سرکاری گولیوں کے خول کی تصدیق ہونے کے باوجود بھی ملزمان پر قتل ثابت نہیں ہوپاتا۔ اس کے علاوہ حکومت اپنی طرف سے ھائیکورٹ اپیل کرنے کا بھی دعوی کرتی ہے مگر ثابت نہیں کر پاتی۔
20 مئی 2011 کو کوئٹہ کے نواحی علاقے خروٹ آباد میں ایف سی کی چوکی کے قریب دو خواتین سمیت پانچ چیچن پناہ گزینوں کو مشکوک سمجھ کر گولی ماری جاتی ہے۔ تصاویر کے مطابق ایک عورت نے زخمی حالت میں سفید رومال بھی لہرایا، تب بھی فائرنگ اس وقت تک بند نہیں ہوئی جب تک ان کے مرنے کا پورا اطمینان نہیں ہو جاتا۔
کراچی کی شاہراہ فیصل پر رکشے میں سوار ایک مسافر مقصود کو ڈاکو قرار دے کر اتارا جاتا ہے اور فٹ پاتھ پر بٹھا کے گولی مار دی جاتی ہے اور پھر یہ بیان جاری ہوتا ہے کہ مقصود کو اس کے ساتھی ڈاکو ہلاک کر کے فرار ہو گئے۔
راؤ انوار کے قتل تو مثالی حیثیت رکھتے ہیں جس کی دیگ کا ایک دانہ نقیب اللہ محسود کا اپنے تین ساتھیوں سمیت بے گناہ قتل دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں پولیس مقابلے الگ سے ہیں۔
یہ بھی بہت عجیب بات ہے کہ جو مجرم جیل یا تھانے میں ہلاک ہو جاتے ہیں ان میں سے 90 فیصد کو یا تو دل کا دورہ پڑتا ہے یا پھر وہ دوسری منزل سے کود کر خودکشی کر لیتے۔ یہاں تک کہ ایک یونیورسٹی کے سرکاری حراست ایک پروفیسر صاحب کو مردہ حالت میں ہسپتال لایا جاتا ہے جہاں ہتھکڑیوں میں جکڑی انکی لاش گھنٹوں تک سرکاری قتل کا نوحہ کرتی ہے۔
اس کے علاوہ بھی مختلف اداروں سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق 2017 میں صوبہ پنجاب میں کم از کم 203 مبینہ پولیس مقابلوں میں 226 افراد ہلاک ہوئے اور اس کے ساتھ وہ لوگ جن کو زمین کھا گئی یا آسمان ان مسنگ پرسنز کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔
ان ہر دو ریاستوں کی حکومت اور ان کے عوام کے متضاد رویوں کو کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے امریکی حکومت کے سپر پاور ہونے، امریکی عوام کے تعلیم یافتہ ہونے اور امریکی صدر کے طاقتور ہونے پر شدید تحفظات ہیں۔ وہ قوم کیسے تعلیم یافتہ کہلاسکتی ہے جو لاک ڈاؤن کے دنوں میں سوشل ڈسٹینسنگ کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک سیاہ فام کے قتل پر ٹویٹر اور فیس بک پر بحث کرنے کی بجائے سڑکوں پر موجود ہے۔ مجھے امریکی نظام انصاف پر بھی ترس آ رہا ہے جو مثالی انصاف کے باوجود سڑکوں پر رسوا ہو رہا ہے۔۔ مجھے امریکی ریاست اور حکومت کی مضبوطی اور طاقت پر بھی ہنسی آ رہی کہ وہ حکومت کیسے مضبوط ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے جو اپنے دوسرے درجے کے شہری کو بھی قتل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اس ضمن میں امریکیوں کو ہمارےعوام کی تعلیم، ہمارے نظام عدل وانصاف، اور ہمارے اداروں سے رہنمائی لینے کی اشد ضرورت ہے ورنہ امریکیو یاد رکھو…
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
ایک طرف امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر منیاپولس میں ایک پولیس افیسر کے ھاتھوں ایک شہری “جارج فلوئیڈ” کی گرفتاری کے دوران ایک پولیس افسر کے گردن پر گھٹنا رکھنے کی وجہ سے ہونے والی موت کی فوٹیج سامنے آئی ہے۔ اس پر امریکی حکومت کی طرف سے پولیس آفیسر کو قتل کے الزام میں گرفتار کر کے فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اور اسے سوموار کو عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے جبکہ باقی تین پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔
امریکہ کے اس واقعہ کو آج پانچواں روز ہے۔ اس سانحے پر عوام کی طرف سے شروع میں پرامن قسم کا کا ردعمل سامنے آیا جو کہ بڑھتے بڑھتے نہایت پرتشدد قسم کے کے واقعات میں تبدیل ہوگیا ہے۔وائرل ہوئی ویڈیو میں متاثرہ شخص کی طرف سے “میں سانس نہیں لے سکتا” جیسے آخری الفاظ سنائی دیتے ہیں جو کہ اب مظاہرین کے پلے کارڈ کا نعرہ ہیں۔ مظاہرین کی طرف سے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کے علاوہ ریاست منیسوٹا کے کے پولیس سٹیشن اور کئی گاڑیوں کو نذر آتش بھی کر دیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں پولیس کی طرف سے ربڑ کی گولیوں کے ساتھ پانی اور مرچوں والے اسپرے کا چھڑکاؤ کر کے مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
امریکہ کی 11 ریاستوں جارجیا، کینٹکی۔ اوہایو، ویسکونسن، کولاراڈو، یوٹا، واشنگٹن، کیلیفورنیا، ٹینیسی، میزوری اورٹیکساس کے گورنرز نے بھی امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیشنل گارڈز کو امن عامہ کے لیے طلب کر لیا ہے۔ ان ریاستوں میں کئی مقامات پر مظاہرے پُر تشدد احتجاج میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ جہاں پر تشدد کے ساتھ ساتھ لوٹ مار کے واقعات بھی میڈیا پر دکھائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سی این این کے دفاتر کے باہر ہونے والے مظاہرے میں میں سی این این کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا اور پولیس کو بھی پتھراؤ کا نشانہ بنایا گیا۔
مزید براں کیلیفورنیا کے گورنر نے لاس اینجلس میں ہنگامی حالات نافذ کر دیے ہیں۔ ہفتے کی شب احتجاج میں لاس اینجلس میں مظاہرین نے کئی مقامات پر آگ لگا دی تھی۔
امریکہ کے کئی شہروں کے میئرز نے رات کا کرفیو بھی نافذ کر دیا ہے۔ جن شہروں میں کرفیو کا نفاذ کیا گیا ہے ان میں لاس اینجلس، سیٹل، ڈینور، فلاڈلفیا، پورٹ لینڈ، اوریگن، کولمبیا اور کیرلینا سمیت دیگر شامل ہیں۔
اس سے قبل وائٹ ہاؤس کے قریب ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ تھوڑی دیر کے لئے یے وائٹ ہاؤس کو بھی بند کرنا پڑا۔
اس کے جواب میں امریکی صدر کی طرف سے لوٹ مار کی صورت میں مظاہرین پر گولیاں چلائے جانے کی کی دھمکی بھی دی گئی جس پر ٹوئٹر نے ان کی ٹویٹ کو ڈلیٹ کر دیا اور بعدازاں ٹیگ کر کے دوبارہ بحال کر دیا۔ اس ہونے والے قضیئے میں امریکی صدر نے ٹوئٹر کو بھی بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس کے علاوہ خلاف آئین براہ راست پروگرام میں میں سی این این کے ایک رپورٹر کو بھی گرفتار کیا گیا جسے بعدازاں بغیر کسی الزام لگائے چھوڑ دیا گیا۔ اس سارے معاملے پر سیاہ فاموں کی طرف سے خصوصی احتجاج کیا جا رہا ہے۔
قارئین یہ ہے دنیا کی سب سے سے طاقتور اور بااثر سمجھی جانے والی حکومت کے خلاف اس کی اپنی عوام کا ردعمل۔ اب اس سپر پاور کے مقابلے میں ہم تیسری دنیا کے ایک چھوٹے سے ملک پاکستان کے چند مگر خصوصاً ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔
دوسری طرف
جنوری 2019 میں پاکستان میں بھی ایک ایسی ہی ویڈیو سامنے آئی جس میں پولیس کی ایک گاڑی ایک عام سی کار کو ھائی وے پر روکتی ہے اور اس گاڑی میں موجود مسافروں میں سے چار بچوں کو نکال کر ان کی نظروں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ رکی ہوئی ٹریفک میں سے بنائی گئی ویڈیوز سامنے آنے پر معاملات سوشل میڈیا پر آ جاتے ہیں اور پورا پاکستان غم و غصے کی ایک لہر میں ڈوب جاتا ہے۔فیس بک اور ٹویٹر پر ہیش ٹیگ بنتے ہیں اور عوام کی طرف سے انصاف کا مطالبہ اس حد تک بڑھتا ہے کہ وزیر اعلی، وزیر اعظم، چیف جسٹس، صدر تک اس معاملے میں براہ راست انصاف کا وعدہ کرتے ہیں یہاں تک کہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں بھی اس پر بحث ہوتی ہے اور انصاف کرنے کے دھواں دھار وعدے کیے جاتے ہیں۔ کیس چلتا ہے تو جے آئی ٹیز، جوڈیشل کمیٹیوں، 26 عینی شاہدین، سائنسی شواہد اور ویڈیوز کے ہونے، سرکاری گولیوں کے خول کی تصدیق ہونے کے باوجود بھی ملزمان پر قتل ثابت نہیں ہوپاتا۔ اس کے علاوہ حکومت اپنی طرف سے ھائیکورٹ اپیل کرنے کا بھی دعوی کرتی ہے مگر ثابت نہیں کر پاتی۔
20 مئی 2011 کو کوئٹہ کے نواحی علاقے خروٹ آباد میں ایف سی کی چوکی کے قریب دو خواتین سمیت پانچ چیچن پناہ گزینوں کو مشکوک سمجھ کر گولی ماری جاتی ہے۔ تصاویر کے مطابق ایک عورت نے زخمی حالت میں سفید رومال بھی لہرایا، تب بھی فائرنگ اس وقت تک بند نہیں ہوئی جب تک ان کے مرنے کا پورا اطمینان نہیں ہو جاتا۔
کراچی کی شاہراہ فیصل پر رکشے میں سوار ایک مسافر مقصود کو ڈاکو قرار دے کر اتارا جاتا ہے اور فٹ پاتھ پر بٹھا کے گولی مار دی جاتی ہے اور پھر یہ بیان جاری ہوتا ہے کہ مقصود کو اس کے ساتھی ڈاکو ہلاک کر کے فرار ہو گئے۔
راؤ انوار کے قتل تو مثالی حیثیت رکھتے ہیں جس کی دیگ کا ایک دانہ نقیب اللہ محسود کا اپنے تین ساتھیوں سمیت بے گناہ قتل دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں پولیس مقابلے الگ سے ہیں۔
یہ بھی بہت عجیب بات ہے کہ جو مجرم جیل یا تھانے میں ہلاک ہو جاتے ہیں ان میں سے 90 فیصد کو یا تو دل کا دورہ پڑتا ہے یا پھر وہ دوسری منزل سے کود کر خودکشی کر لیتے۔ یہاں تک کہ ایک یونیورسٹی کے سرکاری حراست ایک پروفیسر صاحب کو مردہ حالت میں ہسپتال لایا جاتا ہے جہاں ہتھکڑیوں میں جکڑی انکی لاش گھنٹوں تک سرکاری قتل کا نوحہ کرتی ہے۔
اس کے علاوہ بھی مختلف اداروں سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق 2017 میں صوبہ پنجاب میں کم از کم 203 مبینہ پولیس مقابلوں میں 226 افراد ہلاک ہوئے اور اس کے ساتھ وہ لوگ جن کو زمین کھا گئی یا آسمان ان مسنگ پرسنز کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔
ان ہر دو ریاستوں کی حکومت اور ان کے عوام کے متضاد رویوں کو کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے امریکی حکومت کے سپر پاور ہونے، امریکی عوام کے تعلیم یافتہ ہونے اور امریکی صدر کے طاقتور ہونے پر شدید تحفظات ہیں۔ وہ قوم کیسے تعلیم یافتہ کہلاسکتی ہے جو لاک ڈاؤن کے دنوں میں سوشل ڈسٹینسنگ کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک سیاہ فام کے قتل پر ٹویٹر اور فیس بک پر بحث کرنے کی بجائے سڑکوں پر موجود ہے۔ مجھے امریکی نظام انصاف پر بھی ترس آ رہا ہے جو مثالی انصاف کے باوجود سڑکوں پر رسوا ہو رہا ہے۔۔ مجھے امریکی ریاست اور حکومت کی مضبوطی اور طاقت پر بھی ہنسی آ رہی کہ وہ حکومت کیسے مضبوط ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے جو اپنے دوسرے درجے کے شہری کو بھی قتل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اس ضمن میں امریکیوں کو ہمارےعوام کی تعلیم، ہمارے نظام عدل وانصاف، اور ہمارے اداروں سے رہنمائی لینے کی اشد ضرورت ہے ورنہ امریکیو یاد رکھو…
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
ایک طرف امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر منیاپولس میں ایک پولیس افیسر کے ھاتھوں ایک شہری “جارج فلوئیڈ” کی گرفتاری کے دوران ایک پولیس افسر کے گردن پر گھٹنا رکھنے کی وجہ سے ہونے والی موت کی فوٹیج سامنے آئی ہے۔ اس پر امریکی حکومت کی طرف سے پولیس آفیسر کو قتل کے الزام میں گرفتار کر کے فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اور اسے سوموار کو عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے جبکہ باقی تین پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔
امریکہ کے اس واقعہ کو آج پانچواں روز ہے۔ اس سانحے پر عوام کی طرف سے شروع میں پرامن قسم کا کا ردعمل سامنے آیا جو کہ بڑھتے بڑھتے نہایت پرتشدد قسم کے کے واقعات میں تبدیل ہوگیا ہے۔وائرل ہوئی ویڈیو میں متاثرہ شخص کی طرف سے “میں سانس نہیں لے سکتا” جیسے آخری الفاظ سنائی دیتے ہیں جو کہ اب مظاہرین کے پلے کارڈ کا نعرہ ہیں۔ مظاہرین کی طرف سے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کے علاوہ ریاست منیسوٹا کے کے پولیس سٹیشن اور کئی گاڑیوں کو نذر آتش بھی کر دیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں پولیس کی طرف سے ربڑ کی گولیوں کے ساتھ پانی اور مرچوں والے اسپرے کا چھڑکاؤ کر کے مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
امریکہ کی 11 ریاستوں جارجیا، کینٹکی۔ اوہایو، ویسکونسن، کولاراڈو، یوٹا، واشنگٹن، کیلیفورنیا، ٹینیسی، میزوری اورٹیکساس کے گورنرز نے بھی امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیشنل گارڈز کو امن عامہ کے لیے طلب کر لیا ہے۔ ان ریاستوں میں کئی مقامات پر مظاہرے پُر تشدد احتجاج میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ جہاں پر تشدد کے ساتھ ساتھ لوٹ مار کے واقعات بھی میڈیا پر دکھائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سی این این کے دفاتر کے باہر ہونے والے مظاہرے میں میں سی این این کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا اور پولیس کو بھی پتھراؤ کا نشانہ بنایا گیا۔
مزید براں کیلیفورنیا کے گورنر نے لاس اینجلس میں ہنگامی حالات نافذ کر دیے ہیں۔ ہفتے کی شب احتجاج میں لاس اینجلس میں مظاہرین نے کئی مقامات پر آگ لگا دی تھی۔
امریکہ کے کئی شہروں کے میئرز نے رات کا کرفیو بھی نافذ کر دیا ہے۔ جن شہروں میں کرفیو کا نفاذ کیا گیا ہے ان میں لاس اینجلس، سیٹل، ڈینور، فلاڈلفیا، پورٹ لینڈ، اوریگن، کولمبیا اور کیرلینا سمیت دیگر شامل ہیں۔
اس سے قبل وائٹ ہاؤس کے قریب ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ تھوڑی دیر کے لئے یے وائٹ ہاؤس کو بھی بند کرنا پڑا۔
اس کے جواب میں امریکی صدر کی طرف سے لوٹ مار کی صورت میں مظاہرین پر گولیاں چلائے جانے کی کی دھمکی بھی دی گئی جس پر ٹوئٹر نے ان کی ٹویٹ کو ڈلیٹ کر دیا اور بعدازاں ٹیگ کر کے دوبارہ بحال کر دیا۔ اس ہونے والے قضیئے میں امریکی صدر نے ٹوئٹر کو بھی بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس کے علاوہ خلاف آئین براہ راست پروگرام میں میں سی این این کے ایک رپورٹر کو بھی گرفتار کیا گیا جسے بعدازاں بغیر کسی الزام لگائے چھوڑ دیا گیا۔ اس سارے معاملے پر سیاہ فاموں کی طرف سے خصوصی احتجاج کیا جا رہا ہے۔
قارئین یہ ہے دنیا کی سب سے سے طاقتور اور بااثر سمجھی جانے والی حکومت کے خلاف اس کی اپنی عوام کا ردعمل۔ اب اس سپر پاور کے مقابلے میں ہم تیسری دنیا کے ایک چھوٹے سے ملک پاکستان کے چند مگر خصوصاً ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔
دوسری طرف
جنوری 2019 میں پاکستان میں بھی ایک ایسی ہی ویڈیو سامنے آئی جس میں پولیس کی ایک گاڑی ایک عام سی کار کو ھائی وے پر روکتی ہے اور اس گاڑی میں موجود مسافروں میں سے چار بچوں کو نکال کر ان کی نظروں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ رکی ہوئی ٹریفک میں سے بنائی گئی ویڈیوز سامنے آنے پر معاملات سوشل میڈیا پر آ جاتے ہیں اور پورا پاکستان غم و غصے کی ایک لہر میں ڈوب جاتا ہے۔فیس بک اور ٹویٹر پر ہیش ٹیگ بنتے ہیں اور عوام کی طرف سے انصاف کا مطالبہ اس حد تک بڑھتا ہے کہ وزیر اعلی، وزیر اعظم، چیف جسٹس، صدر تک اس معاملے میں براہ راست انصاف کا وعدہ کرتے ہیں یہاں تک کہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں بھی اس پر بحث ہوتی ہے اور انصاف کرنے کے دھواں دھار وعدے کیے جاتے ہیں۔ کیس چلتا ہے تو جے آئی ٹیز، جوڈیشل کمیٹیوں، 26 عینی شاہدین، سائنسی شواہد اور ویڈیوز کے ہونے، سرکاری گولیوں کے خول کی تصدیق ہونے کے باوجود بھی ملزمان پر قتل ثابت نہیں ہوپاتا۔ اس کے علاوہ حکومت اپنی طرف سے ھائیکورٹ اپیل کرنے کا بھی دعوی کرتی ہے مگر ثابت نہیں کر پاتی۔
20 مئی 2011 کو کوئٹہ کے نواحی علاقے خروٹ آباد میں ایف سی کی چوکی کے قریب دو خواتین سمیت پانچ چیچن پناہ گزینوں کو مشکوک سمجھ کر گولی ماری جاتی ہے۔ تصاویر کے مطابق ایک عورت نے زخمی حالت میں سفید رومال بھی لہرایا، تب بھی فائرنگ اس وقت تک بند نہیں ہوئی جب تک ان کے مرنے کا پورا اطمینان نہیں ہو جاتا۔
کراچی کی شاہراہ فیصل پر رکشے میں سوار ایک مسافر مقصود کو ڈاکو قرار دے کر اتارا جاتا ہے اور فٹ پاتھ پر بٹھا کے گولی مار دی جاتی ہے اور پھر یہ بیان جاری ہوتا ہے کہ مقصود کو اس کے ساتھی ڈاکو ہلاک کر کے فرار ہو گئے۔
راؤ انوار کے قتل تو مثالی حیثیت رکھتے ہیں جس کی دیگ کا ایک دانہ نقیب اللہ محسود کا اپنے تین ساتھیوں سمیت بے گناہ قتل دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں پولیس مقابلے الگ سے ہیں۔
یہ بھی بہت عجیب بات ہے کہ جو مجرم جیل یا تھانے میں ہلاک ہو جاتے ہیں ان میں سے 90 فیصد کو یا تو دل کا دورہ پڑتا ہے یا پھر وہ دوسری منزل سے کود کر خودکشی کر لیتے۔ یہاں تک کہ ایک یونیورسٹی کے سرکاری حراست ایک پروفیسر صاحب کو مردہ حالت میں ہسپتال لایا جاتا ہے جہاں ہتھکڑیوں میں جکڑی انکی لاش گھنٹوں تک سرکاری قتل کا نوحہ کرتی ہے۔
اس کے علاوہ بھی مختلف اداروں سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق 2017 میں صوبہ پنجاب میں کم از کم 203 مبینہ پولیس مقابلوں میں 226 افراد ہلاک ہوئے اور اس کے ساتھ وہ لوگ جن کو زمین کھا گئی یا آسمان ان مسنگ پرسنز کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔
ان ہر دو ریاستوں کی حکومت اور ان کے عوام کے متضاد رویوں کو کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے امریکی حکومت کے سپر پاور ہونے، امریکی عوام کے تعلیم یافتہ ہونے اور امریکی صدر کے طاقتور ہونے پر شدید تحفظات ہیں۔ وہ قوم کیسے تعلیم یافتہ کہلاسکتی ہے جو لاک ڈاؤن کے دنوں میں سوشل ڈسٹینسنگ کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک سیاہ فام کے قتل پر ٹویٹر اور فیس بک پر بحث کرنے کی بجائے سڑکوں پر موجود ہے۔ مجھے امریکی نظام انصاف پر بھی ترس آ رہا ہے جو مثالی انصاف کے باوجود سڑکوں پر رسوا ہو رہا ہے۔۔ مجھے امریکی ریاست اور حکومت کی مضبوطی اور طاقت پر بھی ہنسی آ رہی کہ وہ حکومت کیسے مضبوط ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے جو اپنے دوسرے درجے کے شہری کو بھی قتل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اس ضمن میں امریکیوں کو ہمارےعوام کی تعلیم، ہمارے نظام عدل وانصاف، اور ہمارے اداروں سے رہنمائی لینے کی اشد ضرورت ہے ورنہ امریکیو یاد رکھو…
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
ایک طرف امریکی ریاست مینیسوٹا کے شہر منیاپولس میں ایک پولیس افیسر کے ھاتھوں ایک شہری “جارج فلوئیڈ” کی گرفتاری کے دوران ایک پولیس افسر کے گردن پر گھٹنا رکھنے کی وجہ سے ہونے والی موت کی فوٹیج سامنے آئی ہے۔ اس پر امریکی حکومت کی طرف سے پولیس آفیسر کو قتل کے الزام میں گرفتار کر کے فرد جرم عائد کر دی گئی ہے اور اسے سوموار کو عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے جبکہ باقی تین پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔
امریکہ کے اس واقعہ کو آج پانچواں روز ہے۔ اس سانحے پر عوام کی طرف سے شروع میں پرامن قسم کا کا ردعمل سامنے آیا جو کہ بڑھتے بڑھتے نہایت پرتشدد قسم کے کے واقعات میں تبدیل ہوگیا ہے۔وائرل ہوئی ویڈیو میں متاثرہ شخص کی طرف سے “میں سانس نہیں لے سکتا” جیسے آخری الفاظ سنائی دیتے ہیں جو کہ اب مظاہرین کے پلے کارڈ کا نعرہ ہیں۔ مظاہرین کی طرف سے پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کے علاوہ ریاست منیسوٹا کے کے پولیس سٹیشن اور کئی گاڑیوں کو نذر آتش بھی کر دیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں پولیس کی طرف سے ربڑ کی گولیوں کے ساتھ پانی اور مرچوں والے اسپرے کا چھڑکاؤ کر کے مظاہرین کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
امریکہ کی 11 ریاستوں جارجیا، کینٹکی۔ اوہایو، ویسکونسن، کولاراڈو، یوٹا، واشنگٹن، کیلیفورنیا، ٹینیسی، میزوری اورٹیکساس کے گورنرز نے بھی امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیشنل گارڈز کو امن عامہ کے لیے طلب کر لیا ہے۔ ان ریاستوں میں کئی مقامات پر مظاہرے پُر تشدد احتجاج میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ جہاں پر تشدد کے ساتھ ساتھ لوٹ مار کے واقعات بھی میڈیا پر دکھائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سی این این کے دفاتر کے باہر ہونے والے مظاہرے میں میں سی این این کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا اور پولیس کو بھی پتھراؤ کا نشانہ بنایا گیا۔
مزید براں کیلیفورنیا کے گورنر نے لاس اینجلس میں ہنگامی حالات نافذ کر دیے ہیں۔ ہفتے کی شب احتجاج میں لاس اینجلس میں مظاہرین نے کئی مقامات پر آگ لگا دی تھی۔
امریکہ کے کئی شہروں کے میئرز نے رات کا کرفیو بھی نافذ کر دیا ہے۔ جن شہروں میں کرفیو کا نفاذ کیا گیا ہے ان میں لاس اینجلس، سیٹل، ڈینور، فلاڈلفیا، پورٹ لینڈ، اوریگن، کولمبیا اور کیرلینا سمیت دیگر شامل ہیں۔
اس سے قبل وائٹ ہاؤس کے قریب ہونے والے پرتشدد مظاہروں میں میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ تھوڑی دیر کے لئے یے وائٹ ہاؤس کو بھی بند کرنا پڑا۔
اس کے جواب میں امریکی صدر کی طرف سے لوٹ مار کی صورت میں مظاہرین پر گولیاں چلائے جانے کی کی دھمکی بھی دی گئی جس پر ٹوئٹر نے ان کی ٹویٹ کو ڈلیٹ کر دیا اور بعدازاں ٹیگ کر کے دوبارہ بحال کر دیا۔ اس ہونے والے قضیئے میں امریکی صدر نے ٹوئٹر کو بھی بند کرنے کی دھمکی دی ہے۔ اس کے علاوہ خلاف آئین براہ راست پروگرام میں میں سی این این کے ایک رپورٹر کو بھی گرفتار کیا گیا جسے بعدازاں بغیر کسی الزام لگائے چھوڑ دیا گیا۔ اس سارے معاملے پر سیاہ فاموں کی طرف سے خصوصی احتجاج کیا جا رہا ہے۔
قارئین یہ ہے دنیا کی سب سے سے طاقتور اور بااثر سمجھی جانے والی حکومت کے خلاف اس کی اپنی عوام کا ردعمل۔ اب اس سپر پاور کے مقابلے میں ہم تیسری دنیا کے ایک چھوٹے سے ملک پاکستان کے چند مگر خصوصاً ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔
دوسری طرف
جنوری 2019 میں پاکستان میں بھی ایک ایسی ہی ویڈیو سامنے آئی جس میں پولیس کی ایک گاڑی ایک عام سی کار کو ھائی وے پر روکتی ہے اور اس گاڑی میں موجود مسافروں میں سے چار بچوں کو نکال کر ان کی نظروں کے سامنے ان کے والدین کو گولیوں سے چھلنی کر دیا جاتا ہے۔ رکی ہوئی ٹریفک میں سے بنائی گئی ویڈیوز سامنے آنے پر معاملات سوشل میڈیا پر آ جاتے ہیں اور پورا پاکستان غم و غصے کی ایک لہر میں ڈوب جاتا ہے۔فیس بک اور ٹویٹر پر ہیش ٹیگ بنتے ہیں اور عوام کی طرف سے انصاف کا مطالبہ اس حد تک بڑھتا ہے کہ وزیر اعلی، وزیر اعظم، چیف جسٹس، صدر تک اس معاملے میں براہ راست انصاف کا وعدہ کرتے ہیں یہاں تک کہ صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں بھی اس پر بحث ہوتی ہے اور انصاف کرنے کے دھواں دھار وعدے کیے جاتے ہیں۔ کیس چلتا ہے تو جے آئی ٹیز، جوڈیشل کمیٹیوں، 26 عینی شاہدین، سائنسی شواہد اور ویڈیوز کے ہونے، سرکاری گولیوں کے خول کی تصدیق ہونے کے باوجود بھی ملزمان پر قتل ثابت نہیں ہوپاتا۔ اس کے علاوہ حکومت اپنی طرف سے ھائیکورٹ اپیل کرنے کا بھی دعوی کرتی ہے مگر ثابت نہیں کر پاتی۔
20 مئی 2011 کو کوئٹہ کے نواحی علاقے خروٹ آباد میں ایف سی کی چوکی کے قریب دو خواتین سمیت پانچ چیچن پناہ گزینوں کو مشکوک سمجھ کر گولی ماری جاتی ہے۔ تصاویر کے مطابق ایک عورت نے زخمی حالت میں سفید رومال بھی لہرایا، تب بھی فائرنگ اس وقت تک بند نہیں ہوئی جب تک ان کے مرنے کا پورا اطمینان نہیں ہو جاتا۔
کراچی کی شاہراہ فیصل پر رکشے میں سوار ایک مسافر مقصود کو ڈاکو قرار دے کر اتارا جاتا ہے اور فٹ پاتھ پر بٹھا کے گولی مار دی جاتی ہے اور پھر یہ بیان جاری ہوتا ہے کہ مقصود کو اس کے ساتھی ڈاکو ہلاک کر کے فرار ہو گئے۔
راؤ انوار کے قتل تو مثالی حیثیت رکھتے ہیں جس کی دیگ کا ایک دانہ نقیب اللہ محسود کا اپنے تین ساتھیوں سمیت بے گناہ قتل دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سینکڑوں پولیس مقابلے الگ سے ہیں۔
یہ بھی بہت عجیب بات ہے کہ جو مجرم جیل یا تھانے میں ہلاک ہو جاتے ہیں ان میں سے 90 فیصد کو یا تو دل کا دورہ پڑتا ہے یا پھر وہ دوسری منزل سے کود کر خودکشی کر لیتے۔ یہاں تک کہ ایک یونیورسٹی کے سرکاری حراست ایک پروفیسر صاحب کو مردہ حالت میں ہسپتال لایا جاتا ہے جہاں ہتھکڑیوں میں جکڑی انکی لاش گھنٹوں تک سرکاری قتل کا نوحہ کرتی ہے۔
اس کے علاوہ بھی مختلف اداروں سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق 2017 میں صوبہ پنجاب میں کم از کم 203 مبینہ پولیس مقابلوں میں 226 افراد ہلاک ہوئے اور اس کے ساتھ وہ لوگ جن کو زمین کھا گئی یا آسمان ان مسنگ پرسنز کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔
ان ہر دو ریاستوں کی حکومت اور ان کے عوام کے متضاد رویوں کو کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے امریکی حکومت کے سپر پاور ہونے، امریکی عوام کے تعلیم یافتہ ہونے اور امریکی صدر کے طاقتور ہونے پر شدید تحفظات ہیں۔ وہ قوم کیسے تعلیم یافتہ کہلاسکتی ہے جو لاک ڈاؤن کے دنوں میں سوشل ڈسٹینسنگ کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک سیاہ فام کے قتل پر ٹویٹر اور فیس بک پر بحث کرنے کی بجائے سڑکوں پر موجود ہے۔ مجھے امریکی نظام انصاف پر بھی ترس آ رہا ہے جو مثالی انصاف کے باوجود سڑکوں پر رسوا ہو رہا ہے۔۔ مجھے امریکی ریاست اور حکومت کی مضبوطی اور طاقت پر بھی ہنسی آ رہی کہ وہ حکومت کیسے مضبوط ہونے کا دعویٰ کر سکتی ہے جو اپنے دوسرے درجے کے شہری کو بھی قتل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اس ضمن میں امریکیوں کو ہمارےعوام کی تعلیم، ہمارے نظام عدل وانصاف، اور ہمارے اداروں سے رہنمائی لینے کی اشد ضرورت ہے ورنہ امریکیو یاد رکھو…
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں