Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
مجھے ایک ایسے شخص کے بارے میں بات کرنی ہے جس سے میرا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا لیکن اسی لا تعلقی نے ایک ایسے تعلق کو جنم دیا، سماجی ربط ضبط میںں بالعموم جس کی کوئی مثال شاید ہی ملے۔ کچھ عرصہ ہوا، 1953ءکے اخبارات دیکھنے کا موقع ملا۔ اُس سال جنوری میں جامعہ کراچی اور شہر کے دیگر تعلیمی اداروں سے ایک تحریک پھوٹی۔ مسئلہ تو نہایت معمولی تھا، یعنی فیسوں میں اضافہ، طلبہ نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج شروع کر دیا، مقامی انتظامیہ اس معمولی سے احتجاج سے نمٹنے میں ناکام رہی۔ اس طرح احتجاج میں شدت پیدا ہوئی اور کچھ ہلاکتوں کے علاوہ شہر میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے واقعات رونما ہو گئے۔ اگلے روز ان واقعات کے بارے میں وضاحت دینے کے لیے کمشنر کراچی صحافیوں کے سامنے آئے لیکن ان کے تند و تیز سوالات کا جواب نہ دے پائے تو آسان راستہ اختیار کرتے ہوئے الزام لگا دیا ان ہنگاموں کے پس پشت کمیونسٹوں کی سازش کار فرما ہے۔
پاکستان کے ابتدائی برسوں میں مختلف طبقات کو مطعون کرنے کی جو روایت قائم ہوئی تھی، مختلف ادوار میں سفر کرتے ہوئے، وہ ہمارے زمانے تک بھی پہنچی اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں خود بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس لیے اس شخص کے بارے میں، جس کا یہاں ذکر ہے، اس کے بارے میں کچھ عرصے تک میرا تاثر کچھ ایسا ہی تھا ۔ اتنی تمہید کے بعد میرا خیال ہے کہ یہ بتانے کی ضرورت تو اب نہیں رہی ہے کہ یہاں جس شخص کا ذکر ہے، لوگ اسے احفاظ الرحمٰن کے نام جانتے ہیں۔
یہ 1997-98ءکی بات رہی ہوگی، احباب نے پریس کلب کے انتخابات میں مجھے بھی امیدوار بنا دیا۔ یہی سبب تھا کہ ووٹ مانگنے کے لیے ہم لوگ صحافی کالونی(بلاک 4 اے گلشن اقبال) بھی پہنچے اور گھر گھر جاتے ہوئے ان کے دروازے پر بھی پہنچ گئے، میں تنہا ہوتا تو شاید کبھی وہاں نہ جاتا کیونکہ ہمارا پینل اُس پینل کے مقابل کھڑا تھا جس کی حمایت احفاظ صاحب کرتے تھے۔ یوسف خان مرحوم نے میرے تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ارے بھئی، اپنے جبل پور کے ہیں، چلتے ہیں۔اطلاع ملنے پر احفاظ صاحب خیر مقدم کے لیے خود باہر آئے اور ہمیں لیے لیے گھر کے اندر داخل ہو گئے، ڈرائینگ روم میں نہیں بلکہ لاؤنج میں، جہاں دیگر افراد خانہ بھی موجود تھے۔ احفاظ صاحب نے ہمیں ووٹ دیا یا نہیں، یہ اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ ان کے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر ہم لوگوں نے بہت دیر اس طرح باتیں کیں جیسے قریبی رشتے دار بے تکلفی سے اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے احوال پوچھتے ہیں، گپ لگاتے ہیں اور شکوہ شکایت کرتے ہیں۔ یہ ایک منفرد واقعہ تھا، صرف اس انتخابی مہم کے دوران ہی نہیں بلکہ عمومی زندگی میں بھی۔ یہی واقعہ تھا جس کے سبب میرے دل میں ان کے لیے ایک جگہ بن گئی اور میں اس کھوج میں پڑ گیا کہ حلم اور تواضع کی وہ کیفیات جو بالعموم صوفیوں میں پائی جاتی ہیں، ایک “سرخے ” میں کیسے پیدا ہو گئی؟ اس جستجو کے نتیجے میں ایک ایسا راز مجھ پر کھلا جس نے پوری کہانی ہی بدل ڈالی۔
جس کسی کو ادب کا ذرا سا بھی ٹھرک رہا ہو، زمانہ طالب علمی میں اداس نسلیں اس کی نگاہ سے ضرور گزر تا ہے، اگر ایک بار ایسا ہو جائے تو پھر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور اگر یہ ضخیم ناول سارے کا سارا تو نہیں اس کے بہت سے حصے ازبر ہو کر رہتے ہیں، یہی تجربہ اُس زمانے کے اِس نوجوان کا بھی ہے۔ اس ناول کی بہت سی باتیں ہیں جو خواب بن کراب بھی آتی ہیں اور دیکھنے والے کو کسی اور جہان میں لے جاتی ہیں۔ ان خوابوں میں ایک خواب اس ناول کے ہیرو کے بارے میں بھی ہے جسے اس کی بے چینی اور لگن ہندوستان کے گھنے اور خوف ناک جنگلوں میں لے گئی جہاں اسے ایک ایسے گروہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو اپنے وطن کی آزادی کے لیے جلسہ جلوس کے بہ جائے اُس عملی جدو جہد پر یقین رکھتے تھے جو کسی عام سے زمین دار کو ماؤزے تنگ اور کسی باغی نوجوان کوچی گویرابنا دیتی ہے۔ احفاظ صاحب کو دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے ہمیشہ گھنے، خوف ناک اور تاریک جنگل سرسرانے لگتے اور محسوس ہوتا کہ یہ شخص جو یوں سر جھکائے خاموش بیٹھا ہے، جھرجھری لے کر اچانک اٹھ کھڑا ہو گا اور کچھ دیر میں شہر کے کسی غنڈے، بدمعاش، ذخیرہ اندوز اور غاصب کو گھسیٹتے ہوئے پریس کلب کے ٹیرس پر لا پٹخے گا۔ جنرل مشرف کے زمانے میں پھر ایک ایسا منظر ہماری نگاہوں کے سامنے آ بھی گیا جب پریس کلب چاروں طرف سے گھیرے میں تھا، خوف و ہراس کی اس کیفیت میں بوڑھا احفاظ الرحمٰن بالکل میرے خواب کی طرح تڑپ کر اٹھا اور پولیس سے جا ٹکرایا، ہمارا لاشعور بعض اوقات ہمیں کچھ ایسی تصاویربھی دکھادیتاہے جن کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے۔
احفاظ صاحب کے بارے اس طرح کا جو تاثر میرے ذہن میں بنا، اس کا ایک سبب اور بھی ہے۔ میرے عزیز دوست آفتاب اقبال کو کئی برس تک ان کے ساتھ کام کرنے کا ہی نہیں، دفتر سے گھر تک پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے اعزاز حاصل رہا ہے۔ ایک ساتھ کام کرنا اور مل کر سفر کرنا خواہ وہ کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو، انسان کا ظاہر و باطن کھول کر رکھ دیتا ہے، اس اعتبار سے احفاظ صاحب آفتاب کے لیے ایک کھلی کتاب تھے جس کے بیان کا حق صرف آفتاب ہی کو حاصل ہے لیکن میں وہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا جس کی وجہ سے انھیں دیکھ کر مجھے اداس نسلیں یاد آیا کرتا۔
1977ءکے مارشل لا کے دوران صحافیوں نے بہت جدو جہد کی، قید کاٹی، کوڑے کھائے، جبر کا کون سا حربہ تھا جو اس تحریک کے خلاف اختیار نہیں کیا گیا۔ ہر نئی گرفتاری کے بعد حکمراں توقع کرتے کہ اب اس مصیبت سے جان چھوٹ جائے گی لیکن اگلے روز سرفروشوں کا کوئی جتھہ کوئی نیا محاذ کھول دیتا، کیسے یہ تحریک اتنی سخت جان بن گئی اور وہ کون تھاجو اس شعلے کو بجھنے نہیں دیتا تھا؟ آفتاب اقبال نے کسی قصہ گو کی طرح ایک بار ہاتھ لہراتے ہوئے مجھ سے سوال کیا۔ میں خاموش رہا تو مسکراتے ہوئے اس نے میرے کان میں راز کی بات کہہ دی۔ آفتاب کا یہ کہنا تھا کہ سارے پردے ایک جھپاکے کے ساتھ اٹھ گئے ، یوں میری سمجھ میں آگیا کہ اس شخص کو دیکھتے ہوئے مجھے ہندوستان کے تاریک جنگلوں اور اداس نسلیں کے ہیرو کی یاد کیوں ٓتی تھی جس نے برطانوی میڈل(کراس)کی برکات کو ٹھکرایا اور بغاوت کا علم بلند کیے آزادی کی طلب میں نکل کھڑا ہوا ۔
مجھے ایک ایسے شخص کے بارے میں بات کرنی ہے جس سے میرا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا لیکن اسی لا تعلقی نے ایک ایسے تعلق کو جنم دیا، سماجی ربط ضبط میںں بالعموم جس کی کوئی مثال شاید ہی ملے۔ کچھ عرصہ ہوا، 1953ءکے اخبارات دیکھنے کا موقع ملا۔ اُس سال جنوری میں جامعہ کراچی اور شہر کے دیگر تعلیمی اداروں سے ایک تحریک پھوٹی۔ مسئلہ تو نہایت معمولی تھا، یعنی فیسوں میں اضافہ، طلبہ نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج شروع کر دیا، مقامی انتظامیہ اس معمولی سے احتجاج سے نمٹنے میں ناکام رہی۔ اس طرح احتجاج میں شدت پیدا ہوئی اور کچھ ہلاکتوں کے علاوہ شہر میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے واقعات رونما ہو گئے۔ اگلے روز ان واقعات کے بارے میں وضاحت دینے کے لیے کمشنر کراچی صحافیوں کے سامنے آئے لیکن ان کے تند و تیز سوالات کا جواب نہ دے پائے تو آسان راستہ اختیار کرتے ہوئے الزام لگا دیا ان ہنگاموں کے پس پشت کمیونسٹوں کی سازش کار فرما ہے۔
پاکستان کے ابتدائی برسوں میں مختلف طبقات کو مطعون کرنے کی جو روایت قائم ہوئی تھی، مختلف ادوار میں سفر کرتے ہوئے، وہ ہمارے زمانے تک بھی پہنچی اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں خود بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس لیے اس شخص کے بارے میں، جس کا یہاں ذکر ہے، اس کے بارے میں کچھ عرصے تک میرا تاثر کچھ ایسا ہی تھا ۔ اتنی تمہید کے بعد میرا خیال ہے کہ یہ بتانے کی ضرورت تو اب نہیں رہی ہے کہ یہاں جس شخص کا ذکر ہے، لوگ اسے احفاظ الرحمٰن کے نام جانتے ہیں۔
یہ 1997-98ءکی بات رہی ہوگی، احباب نے پریس کلب کے انتخابات میں مجھے بھی امیدوار بنا دیا۔ یہی سبب تھا کہ ووٹ مانگنے کے لیے ہم لوگ صحافی کالونی(بلاک 4 اے گلشن اقبال) بھی پہنچے اور گھر گھر جاتے ہوئے ان کے دروازے پر بھی پہنچ گئے، میں تنہا ہوتا تو شاید کبھی وہاں نہ جاتا کیونکہ ہمارا پینل اُس پینل کے مقابل کھڑا تھا جس کی حمایت احفاظ صاحب کرتے تھے۔ یوسف خان مرحوم نے میرے تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ارے بھئی، اپنے جبل پور کے ہیں، چلتے ہیں۔اطلاع ملنے پر احفاظ صاحب خیر مقدم کے لیے خود باہر آئے اور ہمیں لیے لیے گھر کے اندر داخل ہو گئے، ڈرائینگ روم میں نہیں بلکہ لاؤنج میں، جہاں دیگر افراد خانہ بھی موجود تھے۔ احفاظ صاحب نے ہمیں ووٹ دیا یا نہیں، یہ اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ ان کے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر ہم لوگوں نے بہت دیر اس طرح باتیں کیں جیسے قریبی رشتے دار بے تکلفی سے اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے احوال پوچھتے ہیں، گپ لگاتے ہیں اور شکوہ شکایت کرتے ہیں۔ یہ ایک منفرد واقعہ تھا، صرف اس انتخابی مہم کے دوران ہی نہیں بلکہ عمومی زندگی میں بھی۔ یہی واقعہ تھا جس کے سبب میرے دل میں ان کے لیے ایک جگہ بن گئی اور میں اس کھوج میں پڑ گیا کہ حلم اور تواضع کی وہ کیفیات جو بالعموم صوفیوں میں پائی جاتی ہیں، ایک “سرخے ” میں کیسے پیدا ہو گئی؟ اس جستجو کے نتیجے میں ایک ایسا راز مجھ پر کھلا جس نے پوری کہانی ہی بدل ڈالی۔
جس کسی کو ادب کا ذرا سا بھی ٹھرک رہا ہو، زمانہ طالب علمی میں اداس نسلیں اس کی نگاہ سے ضرور گزر تا ہے، اگر ایک بار ایسا ہو جائے تو پھر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور اگر یہ ضخیم ناول سارے کا سارا تو نہیں اس کے بہت سے حصے ازبر ہو کر رہتے ہیں، یہی تجربہ اُس زمانے کے اِس نوجوان کا بھی ہے۔ اس ناول کی بہت سی باتیں ہیں جو خواب بن کراب بھی آتی ہیں اور دیکھنے والے کو کسی اور جہان میں لے جاتی ہیں۔ ان خوابوں میں ایک خواب اس ناول کے ہیرو کے بارے میں بھی ہے جسے اس کی بے چینی اور لگن ہندوستان کے گھنے اور خوف ناک جنگلوں میں لے گئی جہاں اسے ایک ایسے گروہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو اپنے وطن کی آزادی کے لیے جلسہ جلوس کے بہ جائے اُس عملی جدو جہد پر یقین رکھتے تھے جو کسی عام سے زمین دار کو ماؤزے تنگ اور کسی باغی نوجوان کوچی گویرابنا دیتی ہے۔ احفاظ صاحب کو دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے ہمیشہ گھنے، خوف ناک اور تاریک جنگل سرسرانے لگتے اور محسوس ہوتا کہ یہ شخص جو یوں سر جھکائے خاموش بیٹھا ہے، جھرجھری لے کر اچانک اٹھ کھڑا ہو گا اور کچھ دیر میں شہر کے کسی غنڈے، بدمعاش، ذخیرہ اندوز اور غاصب کو گھسیٹتے ہوئے پریس کلب کے ٹیرس پر لا پٹخے گا۔ جنرل مشرف کے زمانے میں پھر ایک ایسا منظر ہماری نگاہوں کے سامنے آ بھی گیا جب پریس کلب چاروں طرف سے گھیرے میں تھا، خوف و ہراس کی اس کیفیت میں بوڑھا احفاظ الرحمٰن بالکل میرے خواب کی طرح تڑپ کر اٹھا اور پولیس سے جا ٹکرایا، ہمارا لاشعور بعض اوقات ہمیں کچھ ایسی تصاویربھی دکھادیتاہے جن کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے۔
احفاظ صاحب کے بارے اس طرح کا جو تاثر میرے ذہن میں بنا، اس کا ایک سبب اور بھی ہے۔ میرے عزیز دوست آفتاب اقبال کو کئی برس تک ان کے ساتھ کام کرنے کا ہی نہیں، دفتر سے گھر تک پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے اعزاز حاصل رہا ہے۔ ایک ساتھ کام کرنا اور مل کر سفر کرنا خواہ وہ کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو، انسان کا ظاہر و باطن کھول کر رکھ دیتا ہے، اس اعتبار سے احفاظ صاحب آفتاب کے لیے ایک کھلی کتاب تھے جس کے بیان کا حق صرف آفتاب ہی کو حاصل ہے لیکن میں وہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا جس کی وجہ سے انھیں دیکھ کر مجھے اداس نسلیں یاد آیا کرتا۔
1977ءکے مارشل لا کے دوران صحافیوں نے بہت جدو جہد کی، قید کاٹی، کوڑے کھائے، جبر کا کون سا حربہ تھا جو اس تحریک کے خلاف اختیار نہیں کیا گیا۔ ہر نئی گرفتاری کے بعد حکمراں توقع کرتے کہ اب اس مصیبت سے جان چھوٹ جائے گی لیکن اگلے روز سرفروشوں کا کوئی جتھہ کوئی نیا محاذ کھول دیتا، کیسے یہ تحریک اتنی سخت جان بن گئی اور وہ کون تھاجو اس شعلے کو بجھنے نہیں دیتا تھا؟ آفتاب اقبال نے کسی قصہ گو کی طرح ایک بار ہاتھ لہراتے ہوئے مجھ سے سوال کیا۔ میں خاموش رہا تو مسکراتے ہوئے اس نے میرے کان میں راز کی بات کہہ دی۔ آفتاب کا یہ کہنا تھا کہ سارے پردے ایک جھپاکے کے ساتھ اٹھ گئے ، یوں میری سمجھ میں آگیا کہ اس شخص کو دیکھتے ہوئے مجھے ہندوستان کے تاریک جنگلوں اور اداس نسلیں کے ہیرو کی یاد کیوں ٓتی تھی جس نے برطانوی میڈل(کراس)کی برکات کو ٹھکرایا اور بغاوت کا علم بلند کیے آزادی کی طلب میں نکل کھڑا ہوا ۔
مجھے ایک ایسے شخص کے بارے میں بات کرنی ہے جس سے میرا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا لیکن اسی لا تعلقی نے ایک ایسے تعلق کو جنم دیا، سماجی ربط ضبط میںں بالعموم جس کی کوئی مثال شاید ہی ملے۔ کچھ عرصہ ہوا، 1953ءکے اخبارات دیکھنے کا موقع ملا۔ اُس سال جنوری میں جامعہ کراچی اور شہر کے دیگر تعلیمی اداروں سے ایک تحریک پھوٹی۔ مسئلہ تو نہایت معمولی تھا، یعنی فیسوں میں اضافہ، طلبہ نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج شروع کر دیا، مقامی انتظامیہ اس معمولی سے احتجاج سے نمٹنے میں ناکام رہی۔ اس طرح احتجاج میں شدت پیدا ہوئی اور کچھ ہلاکتوں کے علاوہ شہر میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے واقعات رونما ہو گئے۔ اگلے روز ان واقعات کے بارے میں وضاحت دینے کے لیے کمشنر کراچی صحافیوں کے سامنے آئے لیکن ان کے تند و تیز سوالات کا جواب نہ دے پائے تو آسان راستہ اختیار کرتے ہوئے الزام لگا دیا ان ہنگاموں کے پس پشت کمیونسٹوں کی سازش کار فرما ہے۔
پاکستان کے ابتدائی برسوں میں مختلف طبقات کو مطعون کرنے کی جو روایت قائم ہوئی تھی، مختلف ادوار میں سفر کرتے ہوئے، وہ ہمارے زمانے تک بھی پہنچی اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں خود بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس لیے اس شخص کے بارے میں، جس کا یہاں ذکر ہے، اس کے بارے میں کچھ عرصے تک میرا تاثر کچھ ایسا ہی تھا ۔ اتنی تمہید کے بعد میرا خیال ہے کہ یہ بتانے کی ضرورت تو اب نہیں رہی ہے کہ یہاں جس شخص کا ذکر ہے، لوگ اسے احفاظ الرحمٰن کے نام جانتے ہیں۔
یہ 1997-98ءکی بات رہی ہوگی، احباب نے پریس کلب کے انتخابات میں مجھے بھی امیدوار بنا دیا۔ یہی سبب تھا کہ ووٹ مانگنے کے لیے ہم لوگ صحافی کالونی(بلاک 4 اے گلشن اقبال) بھی پہنچے اور گھر گھر جاتے ہوئے ان کے دروازے پر بھی پہنچ گئے، میں تنہا ہوتا تو شاید کبھی وہاں نہ جاتا کیونکہ ہمارا پینل اُس پینل کے مقابل کھڑا تھا جس کی حمایت احفاظ صاحب کرتے تھے۔ یوسف خان مرحوم نے میرے تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ارے بھئی، اپنے جبل پور کے ہیں، چلتے ہیں۔اطلاع ملنے پر احفاظ صاحب خیر مقدم کے لیے خود باہر آئے اور ہمیں لیے لیے گھر کے اندر داخل ہو گئے، ڈرائینگ روم میں نہیں بلکہ لاؤنج میں، جہاں دیگر افراد خانہ بھی موجود تھے۔ احفاظ صاحب نے ہمیں ووٹ دیا یا نہیں، یہ اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ ان کے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر ہم لوگوں نے بہت دیر اس طرح باتیں کیں جیسے قریبی رشتے دار بے تکلفی سے اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے احوال پوچھتے ہیں، گپ لگاتے ہیں اور شکوہ شکایت کرتے ہیں۔ یہ ایک منفرد واقعہ تھا، صرف اس انتخابی مہم کے دوران ہی نہیں بلکہ عمومی زندگی میں بھی۔ یہی واقعہ تھا جس کے سبب میرے دل میں ان کے لیے ایک جگہ بن گئی اور میں اس کھوج میں پڑ گیا کہ حلم اور تواضع کی وہ کیفیات جو بالعموم صوفیوں میں پائی جاتی ہیں، ایک “سرخے ” میں کیسے پیدا ہو گئی؟ اس جستجو کے نتیجے میں ایک ایسا راز مجھ پر کھلا جس نے پوری کہانی ہی بدل ڈالی۔
جس کسی کو ادب کا ذرا سا بھی ٹھرک رہا ہو، زمانہ طالب علمی میں اداس نسلیں اس کی نگاہ سے ضرور گزر تا ہے، اگر ایک بار ایسا ہو جائے تو پھر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور اگر یہ ضخیم ناول سارے کا سارا تو نہیں اس کے بہت سے حصے ازبر ہو کر رہتے ہیں، یہی تجربہ اُس زمانے کے اِس نوجوان کا بھی ہے۔ اس ناول کی بہت سی باتیں ہیں جو خواب بن کراب بھی آتی ہیں اور دیکھنے والے کو کسی اور جہان میں لے جاتی ہیں۔ ان خوابوں میں ایک خواب اس ناول کے ہیرو کے بارے میں بھی ہے جسے اس کی بے چینی اور لگن ہندوستان کے گھنے اور خوف ناک جنگلوں میں لے گئی جہاں اسے ایک ایسے گروہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو اپنے وطن کی آزادی کے لیے جلسہ جلوس کے بہ جائے اُس عملی جدو جہد پر یقین رکھتے تھے جو کسی عام سے زمین دار کو ماؤزے تنگ اور کسی باغی نوجوان کوچی گویرابنا دیتی ہے۔ احفاظ صاحب کو دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے ہمیشہ گھنے، خوف ناک اور تاریک جنگل سرسرانے لگتے اور محسوس ہوتا کہ یہ شخص جو یوں سر جھکائے خاموش بیٹھا ہے، جھرجھری لے کر اچانک اٹھ کھڑا ہو گا اور کچھ دیر میں شہر کے کسی غنڈے، بدمعاش، ذخیرہ اندوز اور غاصب کو گھسیٹتے ہوئے پریس کلب کے ٹیرس پر لا پٹخے گا۔ جنرل مشرف کے زمانے میں پھر ایک ایسا منظر ہماری نگاہوں کے سامنے آ بھی گیا جب پریس کلب چاروں طرف سے گھیرے میں تھا، خوف و ہراس کی اس کیفیت میں بوڑھا احفاظ الرحمٰن بالکل میرے خواب کی طرح تڑپ کر اٹھا اور پولیس سے جا ٹکرایا، ہمارا لاشعور بعض اوقات ہمیں کچھ ایسی تصاویربھی دکھادیتاہے جن کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے۔
احفاظ صاحب کے بارے اس طرح کا جو تاثر میرے ذہن میں بنا، اس کا ایک سبب اور بھی ہے۔ میرے عزیز دوست آفتاب اقبال کو کئی برس تک ان کے ساتھ کام کرنے کا ہی نہیں، دفتر سے گھر تک پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے اعزاز حاصل رہا ہے۔ ایک ساتھ کام کرنا اور مل کر سفر کرنا خواہ وہ کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو، انسان کا ظاہر و باطن کھول کر رکھ دیتا ہے، اس اعتبار سے احفاظ صاحب آفتاب کے لیے ایک کھلی کتاب تھے جس کے بیان کا حق صرف آفتاب ہی کو حاصل ہے لیکن میں وہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا جس کی وجہ سے انھیں دیکھ کر مجھے اداس نسلیں یاد آیا کرتا۔
1977ءکے مارشل لا کے دوران صحافیوں نے بہت جدو جہد کی، قید کاٹی، کوڑے کھائے، جبر کا کون سا حربہ تھا جو اس تحریک کے خلاف اختیار نہیں کیا گیا۔ ہر نئی گرفتاری کے بعد حکمراں توقع کرتے کہ اب اس مصیبت سے جان چھوٹ جائے گی لیکن اگلے روز سرفروشوں کا کوئی جتھہ کوئی نیا محاذ کھول دیتا، کیسے یہ تحریک اتنی سخت جان بن گئی اور وہ کون تھاجو اس شعلے کو بجھنے نہیں دیتا تھا؟ آفتاب اقبال نے کسی قصہ گو کی طرح ایک بار ہاتھ لہراتے ہوئے مجھ سے سوال کیا۔ میں خاموش رہا تو مسکراتے ہوئے اس نے میرے کان میں راز کی بات کہہ دی۔ آفتاب کا یہ کہنا تھا کہ سارے پردے ایک جھپاکے کے ساتھ اٹھ گئے ، یوں میری سمجھ میں آگیا کہ اس شخص کو دیکھتے ہوئے مجھے ہندوستان کے تاریک جنگلوں اور اداس نسلیں کے ہیرو کی یاد کیوں ٓتی تھی جس نے برطانوی میڈل(کراس)کی برکات کو ٹھکرایا اور بغاوت کا علم بلند کیے آزادی کی طلب میں نکل کھڑا ہوا ۔
مجھے ایک ایسے شخص کے بارے میں بات کرنی ہے جس سے میرا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا لیکن اسی لا تعلقی نے ایک ایسے تعلق کو جنم دیا، سماجی ربط ضبط میںں بالعموم جس کی کوئی مثال شاید ہی ملے۔ کچھ عرصہ ہوا، 1953ءکے اخبارات دیکھنے کا موقع ملا۔ اُس سال جنوری میں جامعہ کراچی اور شہر کے دیگر تعلیمی اداروں سے ایک تحریک پھوٹی۔ مسئلہ تو نہایت معمولی تھا، یعنی فیسوں میں اضافہ، طلبہ نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج شروع کر دیا، مقامی انتظامیہ اس معمولی سے احتجاج سے نمٹنے میں ناکام رہی۔ اس طرح احتجاج میں شدت پیدا ہوئی اور کچھ ہلاکتوں کے علاوہ شہر میں بڑے پیمانے پر لوٹ مار کے واقعات رونما ہو گئے۔ اگلے روز ان واقعات کے بارے میں وضاحت دینے کے لیے کمشنر کراچی صحافیوں کے سامنے آئے لیکن ان کے تند و تیز سوالات کا جواب نہ دے پائے تو آسان راستہ اختیار کرتے ہوئے الزام لگا دیا ان ہنگاموں کے پس پشت کمیونسٹوں کی سازش کار فرما ہے۔
پاکستان کے ابتدائی برسوں میں مختلف طبقات کو مطعون کرنے کی جو روایت قائم ہوئی تھی، مختلف ادوار میں سفر کرتے ہوئے، وہ ہمارے زمانے تک بھی پہنچی اور میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں خود بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس لیے اس شخص کے بارے میں، جس کا یہاں ذکر ہے، اس کے بارے میں کچھ عرصے تک میرا تاثر کچھ ایسا ہی تھا ۔ اتنی تمہید کے بعد میرا خیال ہے کہ یہ بتانے کی ضرورت تو اب نہیں رہی ہے کہ یہاں جس شخص کا ذکر ہے، لوگ اسے احفاظ الرحمٰن کے نام جانتے ہیں۔
یہ 1997-98ءکی بات رہی ہوگی، احباب نے پریس کلب کے انتخابات میں مجھے بھی امیدوار بنا دیا۔ یہی سبب تھا کہ ووٹ مانگنے کے لیے ہم لوگ صحافی کالونی(بلاک 4 اے گلشن اقبال) بھی پہنچے اور گھر گھر جاتے ہوئے ان کے دروازے پر بھی پہنچ گئے، میں تنہا ہوتا تو شاید کبھی وہاں نہ جاتا کیونکہ ہمارا پینل اُس پینل کے مقابل کھڑا تھا جس کی حمایت احفاظ صاحب کرتے تھے۔ یوسف خان مرحوم نے میرے تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ارے بھئی، اپنے جبل پور کے ہیں، چلتے ہیں۔اطلاع ملنے پر احفاظ صاحب خیر مقدم کے لیے خود باہر آئے اور ہمیں لیے لیے گھر کے اندر داخل ہو گئے، ڈرائینگ روم میں نہیں بلکہ لاؤنج میں، جہاں دیگر افراد خانہ بھی موجود تھے۔ احفاظ صاحب نے ہمیں ووٹ دیا یا نہیں، یہ اہم نہیں، اہم یہ ہے کہ ان کے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر ہم لوگوں نے بہت دیر اس طرح باتیں کیں جیسے قریبی رشتے دار بے تکلفی سے اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے احوال پوچھتے ہیں، گپ لگاتے ہیں اور شکوہ شکایت کرتے ہیں۔ یہ ایک منفرد واقعہ تھا، صرف اس انتخابی مہم کے دوران ہی نہیں بلکہ عمومی زندگی میں بھی۔ یہی واقعہ تھا جس کے سبب میرے دل میں ان کے لیے ایک جگہ بن گئی اور میں اس کھوج میں پڑ گیا کہ حلم اور تواضع کی وہ کیفیات جو بالعموم صوفیوں میں پائی جاتی ہیں، ایک “سرخے ” میں کیسے پیدا ہو گئی؟ اس جستجو کے نتیجے میں ایک ایسا راز مجھ پر کھلا جس نے پوری کہانی ہی بدل ڈالی۔
جس کسی کو ادب کا ذرا سا بھی ٹھرک رہا ہو، زمانہ طالب علمی میں اداس نسلیں اس کی نگاہ سے ضرور گزر تا ہے، اگر ایک بار ایسا ہو جائے تو پھر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور اگر یہ ضخیم ناول سارے کا سارا تو نہیں اس کے بہت سے حصے ازبر ہو کر رہتے ہیں، یہی تجربہ اُس زمانے کے اِس نوجوان کا بھی ہے۔ اس ناول کی بہت سی باتیں ہیں جو خواب بن کراب بھی آتی ہیں اور دیکھنے والے کو کسی اور جہان میں لے جاتی ہیں۔ ان خوابوں میں ایک خواب اس ناول کے ہیرو کے بارے میں بھی ہے جسے اس کی بے چینی اور لگن ہندوستان کے گھنے اور خوف ناک جنگلوں میں لے گئی جہاں اسے ایک ایسے گروہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو اپنے وطن کی آزادی کے لیے جلسہ جلوس کے بہ جائے اُس عملی جدو جہد پر یقین رکھتے تھے جو کسی عام سے زمین دار کو ماؤزے تنگ اور کسی باغی نوجوان کوچی گویرابنا دیتی ہے۔ احفاظ صاحب کو دیکھ کر میری آنکھوں کے سامنے ہمیشہ گھنے، خوف ناک اور تاریک جنگل سرسرانے لگتے اور محسوس ہوتا کہ یہ شخص جو یوں سر جھکائے خاموش بیٹھا ہے، جھرجھری لے کر اچانک اٹھ کھڑا ہو گا اور کچھ دیر میں شہر کے کسی غنڈے، بدمعاش، ذخیرہ اندوز اور غاصب کو گھسیٹتے ہوئے پریس کلب کے ٹیرس پر لا پٹخے گا۔ جنرل مشرف کے زمانے میں پھر ایک ایسا منظر ہماری نگاہوں کے سامنے آ بھی گیا جب پریس کلب چاروں طرف سے گھیرے میں تھا، خوف و ہراس کی اس کیفیت میں بوڑھا احفاظ الرحمٰن بالکل میرے خواب کی طرح تڑپ کر اٹھا اور پولیس سے جا ٹکرایا، ہمارا لاشعور بعض اوقات ہمیں کچھ ایسی تصاویربھی دکھادیتاہے جن کا تعلق مستقبل سے ہوتا ہے۔
احفاظ صاحب کے بارے اس طرح کا جو تاثر میرے ذہن میں بنا، اس کا ایک سبب اور بھی ہے۔ میرے عزیز دوست آفتاب اقبال کو کئی برس تک ان کے ساتھ کام کرنے کا ہی نہیں، دفتر سے گھر تک پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے اعزاز حاصل رہا ہے۔ ایک ساتھ کام کرنا اور مل کر سفر کرنا خواہ وہ کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو، انسان کا ظاہر و باطن کھول کر رکھ دیتا ہے، اس اعتبار سے احفاظ صاحب آفتاب کے لیے ایک کھلی کتاب تھے جس کے بیان کا حق صرف آفتاب ہی کو حاصل ہے لیکن میں وہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا جس کی وجہ سے انھیں دیکھ کر مجھے اداس نسلیں یاد آیا کرتا۔
1977ءکے مارشل لا کے دوران صحافیوں نے بہت جدو جہد کی، قید کاٹی، کوڑے کھائے، جبر کا کون سا حربہ تھا جو اس تحریک کے خلاف اختیار نہیں کیا گیا۔ ہر نئی گرفتاری کے بعد حکمراں توقع کرتے کہ اب اس مصیبت سے جان چھوٹ جائے گی لیکن اگلے روز سرفروشوں کا کوئی جتھہ کوئی نیا محاذ کھول دیتا، کیسے یہ تحریک اتنی سخت جان بن گئی اور وہ کون تھاجو اس شعلے کو بجھنے نہیں دیتا تھا؟ آفتاب اقبال نے کسی قصہ گو کی طرح ایک بار ہاتھ لہراتے ہوئے مجھ سے سوال کیا۔ میں خاموش رہا تو مسکراتے ہوئے اس نے میرے کان میں راز کی بات کہہ دی۔ آفتاب کا یہ کہنا تھا کہ سارے پردے ایک جھپاکے کے ساتھ اٹھ گئے ، یوں میری سمجھ میں آگیا کہ اس شخص کو دیکھتے ہوئے مجھے ہندوستان کے تاریک جنگلوں اور اداس نسلیں کے ہیرو کی یاد کیوں ٓتی تھی جس نے برطانوی میڈل(کراس)کی برکات کو ٹھکرایا اور بغاوت کا علم بلند کیے آزادی کی طلب میں نکل کھڑا ہوا ۔