بشیر احمد 19 نومبر 1939 کو کلکتہ کے ایک اردو زبان بولنے والے خاندان میں پیدا ہوئے انھیں بچپن ہی سے موسیقی سے لگاؤ تھا۔ اس لیے 15 سال کی عمر میں استاد ولایت حسین خان کے شاگرد ہوگئے اور ان سے موسیقی کے ساتھ ساتھ گلوکاری کی تعلیم بھی حاصل کی۔ پھر کچھ عرصے بعد جب بمبئی پہنچنے تو استاد بڑے غلام علی خان صاحب کی سرپرستی میں موسیقی کا علم حاصل کرتے رہے۔
بشیر احمد کا تعلق دہلی کی سوداگران برادری سے تھا۔ 1960 میں بشیر احمد ڈھاکا آئے جہاں ان کے بہنوئی عشرت کلکتوی نے ان کا تعارف روبن گھوش سے کرایا۔ یہ وہ دور تھا جب ڈھاکا میں اردو فلمیں بننا شروع ہوئیں تو بشیر احمد بطور گلوکار فلمی دنیا میں آگئے اور سب سے پہلے انھیں ہدایت کار مستفیض نے اپنی فلم ’’تلاش‘‘ میں گلوکاری کا موقع دیا۔ اس فلم کے گیت بشیر احمد کے بہنوئی عشرت کلکتوی لکھ رہے تھے جو کہ مشہور شاعر تھے اور ان کا اصل نام روشن علی عشرت تھا۔
فلم تلاش میں بشیر احمد نے پہلی مرتبہ روبن گھوش کی موسیقی میں اپنی آواز کا جادو جگایا اور اس فلم کا ٹائٹل سونگ کچھ اپنی کہیے کچھ میری سنیے انھوں نے اور فردوسی بیگم نے الگ الگ گایا تھا۔ یہ گیت اپنے دور کا ایک یادگار اور مقبول گیت تھا آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور گیت میں رکشہ والا متوالا بھی مشہور ہوا تھا۔ یہ ان کی ابتدا تھی۔
بشیر احمد کی آواز کو خدا نے وہ صلاحیت اور تاثیر بخشی کہ اس آواز نے لاکھوں انسانوں کے دلوں کو سرور بخشا، ان کی سریلی آواز نے بے شمار گیتوں میں جادو کی تاثیر پیدا کردی اور وہ کانوں میں رس گھولنے لگی۔ بشیر احمد اپنے ہم عصر گلوکاروں میں اس لحاظ سے ممتاز تھے کہ وہ نہ صرف ایک اچھے اور سریلے گلوکار تھے بلکہ بہت اچھے موسیقار اور گیت نگار تھے۔ تینوں شعبوں میں خدا نے انھیں بے پناہ صلاحیتیں عطا کی تھیں۔ ایک شاعر کی حیثیت سے انھوں نے کئی گیت لکھے وہ اپنا تخلص بی اے دیپ لکھا کرتے تھے۔ ہدایت کار مستفیض نے اپنی فلم ساگر کے لیے بطور نغمہ نگار بشیر احمد سے ایک گیت لکھوایا، جو کہ گایا بھی بشیر احمد نے خود تھا۔ اس کے بول تھے جا دیکھ لیا تیرا پیار اس کی دھن موسیقار خان عطاء الرحمن نے بنائی تھی ۔ یہ گیت اس دور میں کافی مقبول ہوا۔
۔ 1964ء میں روبن گھوش نے فلم کارواں کےگیت بشیر احمد سے لکھوائے بھی اور انھی کی آواز میں ریکارڈ بھی کیے ۔ اس فلم کا گیت جب تم اکیلے ہوگے ہم یاد آئیں گے انہوں نے اپنی خوب صورت آواز میں گاکر امر گیتوں میں شامل کردیا۔ یہ گیت نہ صرف گلوکاری کے حوالے سے بلکہ شاعری کے لحاظ سے بھی بہت پسند کیا گیا۔ اسی برس جب اداکار رحمان نے اپنی ذاتی فلم ملن شروع کی تو اس کی موسیقی عطاالرحمٰن نے ترتیب دی۔ اس فلم میں بشیر احمد کے ساتھ ملکہ ترنم نور جہاں نے بڑا خوب صورت دوگانا گایا تھا جس کے بول تھے تم جو ملے پیار ملا، دل کو قرار آگیا یہ گیت سرور بارہ بنکوی مرحوم نے لکھا تھا۔
۔ 1967ء میں جب اداکار رحمان نے اپنی فلم درشن شروع کی تو ان کی نظرِانتخاب بشیر احمد پر تھی، جو کہ اب تک بطور گلوکار اور نغمہ نگار اپنی پہچان بناچکے تھے۔ رحمان نے انھیں پہلی بار بطور موسیقار اپنی فلم درشن میں موقع دیا۔ سابق مشرقی پاکستان کے حوالے سے فلم درشن ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ اس فلم کے تمام گیت بے حد مقبول ہوئے اس فلم کی خاص بات یہ تھی کہ
فلم کے گیت بشیر احمد نے بی اے دیپ کے نام سے تحریر کیے تھے اور ان کی دھنیں بھی انھوں نے خود کمپوز کی تھیں۔ جب کہ یہ گیت گائے بھی انھوں نے خود ہی تھے، بشیراحمد فلم درشن میں پہلی بار بطور موسیقار متعارف ہوئے تھے۔ وہ اپنے اس تجربے میں بے حد کام یاب رہے۔
اب ان کو گلوکار، نغمہ نگار کے ساتھ ساتھ موسیقار بھی تسلیم کیا کرلیا گیا تھا۔ درشن نہ صرف مشرقی پاکستان بلکہ مغربی پاکستان میں بھی بڑی کام یاب رہی، اس فلم کی کام یابی میں بشیر احمد کے کبھی نہ بھولنے والے گیتوں کا بھی کمال تھا۔ انہوں نے بہت خوب صورت گیت گائے تھے، جن میں یہ موسم یہ مست نظارے پیار کرو تو ان سے کرو،تمہارے لیے اس دل میں کتنی محبت ہے،دن رات خیالوں میں تجھے یاد کروں گا،ہم چلے چھوڑ کر تیری محفل صنم،گلشن میں بہاروں میں تو ہےشامل ہیں۔ دوگانا چن لیا ایک پھول کوانھوں نے میڈم نورجہاں کے ساتھ گیا تھا۔ فلم درشن نے مقبولیت کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ ہر طرف اس فلم کا چرچا اور اس کے گیتوں کی گونج تھی۔ آج بھی ان گیتوں کا شمار سدا بہار گیتوں میں ہوتا ہے۔ بشیر احمد اپنے گیتوں میں پیانو، بانسری، ستار اور سارنگی جیسے مشرقی سازوں کا استعمال زیادہ کرتے تھے۔ وہ گٹار، سکیسو فون جیسے اونچے سازوں کا استعمال کم کرتے تھے۔ فلم درشن میں گانے ہم چلے چھوڑ کر تیری محفل صنم، میں اونچے سر ہونے کے باوجود بشیر احمد نے پیانو سے کام لیا اور بہت خوب لیا۔
فلم درشن کے بعد بشیر احمد نے مشرقی پاکستان میں بننے والی مزید پانچ فلموں کی موسیقی ترتیب دی، جن میں جہاں باجے شہنائی،کنگن ،چلو مان گئے،مینااورمہربان شامل ہیں۔ مگر افسوس یہ سب فلمیں ناکام رہیں اور ان کا کوئی گیت بھی مقبول نہ ہوا۔
1971 میں مشرقی پاکستان میں حالات خراب ہوئے تو بشیر احمد لاہور آگئے اور یہاں اپنی گلوکارہ بیوی مینا کے ساتھ 1975 تک رہے۔ اس دوران انھوں نے لاہور اور کراچی کی کئی فلموں میں گیت گائے۔ 70ء کی دہائی میں بننے والی فلم سنگ تراش میں بھی بشیر احمد کے گائے ہوئے گیت تھے، مگرفلم ساز کی بے حد کوششوں کے باوجود یہ فلم یہاں ریلیز نہ ہوسکی۔ 1975 میں بشیر احمد بھی مشرقی پاکستان جو کہ بنگلادیش بن چکا تھا واپس چلے گئے۔
بشیر احمد فلم کے ساتھ ساتھ اسٹیج پر بھی گاتے رہے۔ ان کا شمار لیجنڈ گلوکاروں میں ہوتا تھا۔ بشیر احمد کے مقبول گیتوں میں تم سلامت رہو گیت گاؤ ہنسو، میں تمہارے لیے گیت گاتا رہوں، پھر ایک بار وہ نغمہ گنگنا دو ذرا، ذرا کتابوں سے نظر اٹھائیے،میرا دل نہ جانے کب سے تیرا پیار ڈھونڈتا ہے، میرے سینے پہ سر رکھ دو،میرے دل میں سما جاؤ بھی شامل ہیں۔
بشیر احمد کا انتقال 19 اپریل 2014ء کو ڈھاکا میں ہوا اور وہ وہیں محمد پور کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔