Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
آج لاک ڈاون کو 28 دن سے زائد ہو چکے ہین۔۔اس دوران بے حساب واقعات نظروں کے سامنے سے گزرے ہیں۔۔جن میں سے بہت سے واقعات تو سوشل میڈیا۔۔الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔مثلاً ڈاکٹروں نرسوں اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف کی انتھک کوششیں تاکہ کورونا کے مریضوں کی جان بچائی جاسکے جبکہ یہ لوگ جن کا یہاں ذکر ہے، اکثر ہتھیار یعنی حفاظتی سامان کے بغیر ہی فرنٹ لائین پر جہاد کررہے ہیں۔
تنگ آمد بجنگ آمد۔۔مجبوراً کئی شہروں میں انہوں نے احتجاج بھی کیا لیکن افسوس کہ حکومت نے ملک میں عموماً اور کوئٹہ میں خصوصاً ان بے چاروں پر نہ صرف لاٹھی چارج کیا بلکہ گرفتاریاں بھی کیں جو بہت ہی قابل مذمت اقدام تھا۔ اسی دوران کئی ڈاکٹرز مثلاً ڈاکٹر اسامہ، ڈاکٹر عبدالقادر سومرو اور دیگر اسٹاف نے جام شہادت بھی نوش کیا اور کئی اسی مرض میں مبتلا ہوکر اسپتالوں مین پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ خدمت خلق کا کام بھی جنگی بنیادوں پر جاری و ساری ہے جس میں بے شمار ادارے، حکومتی اور غیر حکومتی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ یہ سارے لوگ یقیناً خراج تحسین اور تعاون کے مستحق ہیں۔
لوگوں کے گھروں کی دہلیز پر ہر طرح کی امداد پہنچ رہی ہے جس میں راشن اور نقد رقوم بھی شامل ہیں۔گھروں، مساجد اور اہم عوامی مقامات پر اسپرے بھی ہورہا ہے۔ ایمبولینس اور میت گاڑیون کی خدمات بھی جاری ہیں۔
لاک ڈاون پر عملدرآمد بھی جاری ہے۔۔کہیں تعلیم و ترغیب سے، کہیں رضاکارانہ طور پر اور کہیں کہیں کبھی کبھی پولیس کی طرف سے سختی بھی ہورہی ہے۔ اللہ خیر کرے۔ آمین۔
ان حالات میں؛ میں آج آپ سب کی توجہ جن لوگوں کی طرف مبزول کرانا چاہوں گا۔۔وہ ہیں گمنام سپاہی، گمنام سپاہی پر مجھے یاد آیا کہ جس طرح ہمارے فوجی کمانڈوز اور خفیہ ایجنسیاں کام کرتی ہیں جو ہمہ وقت جاگ رہے ہوتے ہیں اور ہمیشہ حالت جنگ مین ہوتے ہیں۔ کبھی بیرونی محاز پر اور کبھی اندرونی محاز پر۔۔اور دشمن کی چالوں کو ناکام بناتے ہیں۔۔اکثر وہ بڑے بڑے کارنامے بہت ہی خفیہ انداز مین کامیابی سے سر انجام دیتے ہین۔۔ان کے کارناموں کی کہیں تشہیر نہیں ہوتی۔۔ان مجاہدوں کی نہ ہی کوئ یوردی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی پہنچان۔۔۔بلکہ اکثر اوقات یہ گمنام سپاہی اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیتے ہین مگر اف تک نہی کرتے اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
ہم ایسے گمنام شہیدوں اور سپاہیوں کو سلام کرتے ہیں اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔۔مگر نہ تو ان کے ناموں سے واقف ہوتے ہیں۔۔اور نہ ہی ان کے چہروں سے۔۔یہاں تک کہ ان کے کارنامے بھی ملکی اور قومی مفاد کی وجہ سےتاریخ کی فائلوں میں دفن ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح آج کل خدمت خلق کے کاموں مین بھی بہت سی تنظیمین مصروف عمل ہیں جن کی شناخت بھی ہے جن کے ناموں اور کارناموں سے بھی لوگ واقف ہیں جو کسی نہ کسی جھنڈے یا بینر تلے کام کررہی ہین۔۔جن کے کارکن شناختی جیکٹ بھی پہنے ہوتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ الخدمت ہے، سیلانی ہے، ایدھی ہے یا کوئ اور۔ ان کی تشہیر بھی کسی نہ کسی شکل میں ہورہی ہے۔۔سو شل میڈیا۔۔اخبارات اور ٹی وی چینلز اس کے گواہ ہیں۔۔
لیکن کچھ ایسے بھی اللہ کے بندے ہیں۔۔۔جو نہ شناخت کراتے ہیں۔۔نہ ہی کوئی پہچان۔۔نہ کوئی وردی اور نہ کوئی شناختی جیکٹ۔۔مگر وہ نماز تہجد کی طرح دن رات خدمت خلق میں لگے ہوئے ہیں۔۔یا وہ جانتے ہیں یا پھر ان کا خدا جانتا ہے۔۔
۔۔نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ۔۔۔ یہ لوگ کبھی زلزلوں میں کشمیر اور شمالی علاقوں مین متحرک نظر آتے ہیں۔۔کبھی سیلابوں میں پنجاب کے سبزہ زارون میں دوڑتے نظر آتے ہیں تو کبھی تھر کے ریگزاروں میں لوگون کی بھوک پیاس بجھا رہے ہوتے ہیں۔۔
وہ فرشتوں اور سایوں کی طرح اپنے مشن پر رات دن مصروف عمل ہین۔۔کہین را شن بانٹ رہے ہین۔۔کہین راشن کا تھیلا گھروں کے دروازوں پر رات کی تاریکی میں رکھ کر دستک دے کر غائب ہوجاتے ہیں۔۔کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔۔ پوری تحقیق کے بعد مستحقین تک پہنچ رہے ہین۔۔ان کی عزت نفس کا بھی پوری طرح سے خیال کررہے ہیں۔۔کہیں نقد رقم پہنچارہے ہیں۔۔اور کہیں اسپرے کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔
اللہ جانے کون بشر ہے؟؟؟؟
صرف اللہ کی رضا۔۔امت مسلمہ اور انسانیت کا درد ہے۔
سارے جہان کا درد ہمارے جگر میں ہے۔
آج لاک ڈاون کو 28 دن سے زائد ہو چکے ہین۔۔اس دوران بے حساب واقعات نظروں کے سامنے سے گزرے ہیں۔۔جن میں سے بہت سے واقعات تو سوشل میڈیا۔۔الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔مثلاً ڈاکٹروں نرسوں اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف کی انتھک کوششیں تاکہ کورونا کے مریضوں کی جان بچائی جاسکے جبکہ یہ لوگ جن کا یہاں ذکر ہے، اکثر ہتھیار یعنی حفاظتی سامان کے بغیر ہی فرنٹ لائین پر جہاد کررہے ہیں۔
تنگ آمد بجنگ آمد۔۔مجبوراً کئی شہروں میں انہوں نے احتجاج بھی کیا لیکن افسوس کہ حکومت نے ملک میں عموماً اور کوئٹہ میں خصوصاً ان بے چاروں پر نہ صرف لاٹھی چارج کیا بلکہ گرفتاریاں بھی کیں جو بہت ہی قابل مذمت اقدام تھا۔ اسی دوران کئی ڈاکٹرز مثلاً ڈاکٹر اسامہ، ڈاکٹر عبدالقادر سومرو اور دیگر اسٹاف نے جام شہادت بھی نوش کیا اور کئی اسی مرض میں مبتلا ہوکر اسپتالوں مین پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ خدمت خلق کا کام بھی جنگی بنیادوں پر جاری و ساری ہے جس میں بے شمار ادارے، حکومتی اور غیر حکومتی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ یہ سارے لوگ یقیناً خراج تحسین اور تعاون کے مستحق ہیں۔
لوگوں کے گھروں کی دہلیز پر ہر طرح کی امداد پہنچ رہی ہے جس میں راشن اور نقد رقوم بھی شامل ہیں۔گھروں، مساجد اور اہم عوامی مقامات پر اسپرے بھی ہورہا ہے۔ ایمبولینس اور میت گاڑیون کی خدمات بھی جاری ہیں۔
لاک ڈاون پر عملدرآمد بھی جاری ہے۔۔کہیں تعلیم و ترغیب سے، کہیں رضاکارانہ طور پر اور کہیں کہیں کبھی کبھی پولیس کی طرف سے سختی بھی ہورہی ہے۔ اللہ خیر کرے۔ آمین۔
ان حالات میں؛ میں آج آپ سب کی توجہ جن لوگوں کی طرف مبزول کرانا چاہوں گا۔۔وہ ہیں گمنام سپاہی، گمنام سپاہی پر مجھے یاد آیا کہ جس طرح ہمارے فوجی کمانڈوز اور خفیہ ایجنسیاں کام کرتی ہیں جو ہمہ وقت جاگ رہے ہوتے ہیں اور ہمیشہ حالت جنگ مین ہوتے ہیں۔ کبھی بیرونی محاز پر اور کبھی اندرونی محاز پر۔۔اور دشمن کی چالوں کو ناکام بناتے ہیں۔۔اکثر وہ بڑے بڑے کارنامے بہت ہی خفیہ انداز مین کامیابی سے سر انجام دیتے ہین۔۔ان کے کارناموں کی کہیں تشہیر نہیں ہوتی۔۔ان مجاہدوں کی نہ ہی کوئ یوردی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی پہنچان۔۔۔بلکہ اکثر اوقات یہ گمنام سپاہی اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیتے ہین مگر اف تک نہی کرتے اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
ہم ایسے گمنام شہیدوں اور سپاہیوں کو سلام کرتے ہیں اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔۔مگر نہ تو ان کے ناموں سے واقف ہوتے ہیں۔۔اور نہ ہی ان کے چہروں سے۔۔یہاں تک کہ ان کے کارنامے بھی ملکی اور قومی مفاد کی وجہ سےتاریخ کی فائلوں میں دفن ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح آج کل خدمت خلق کے کاموں مین بھی بہت سی تنظیمین مصروف عمل ہیں جن کی شناخت بھی ہے جن کے ناموں اور کارناموں سے بھی لوگ واقف ہیں جو کسی نہ کسی جھنڈے یا بینر تلے کام کررہی ہین۔۔جن کے کارکن شناختی جیکٹ بھی پہنے ہوتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ الخدمت ہے، سیلانی ہے، ایدھی ہے یا کوئ اور۔ ان کی تشہیر بھی کسی نہ کسی شکل میں ہورہی ہے۔۔سو شل میڈیا۔۔اخبارات اور ٹی وی چینلز اس کے گواہ ہیں۔۔
لیکن کچھ ایسے بھی اللہ کے بندے ہیں۔۔۔جو نہ شناخت کراتے ہیں۔۔نہ ہی کوئی پہچان۔۔نہ کوئی وردی اور نہ کوئی شناختی جیکٹ۔۔مگر وہ نماز تہجد کی طرح دن رات خدمت خلق میں لگے ہوئے ہیں۔۔یا وہ جانتے ہیں یا پھر ان کا خدا جانتا ہے۔۔
۔۔نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ۔۔۔ یہ لوگ کبھی زلزلوں میں کشمیر اور شمالی علاقوں مین متحرک نظر آتے ہیں۔۔کبھی سیلابوں میں پنجاب کے سبزہ زارون میں دوڑتے نظر آتے ہیں تو کبھی تھر کے ریگزاروں میں لوگون کی بھوک پیاس بجھا رہے ہوتے ہیں۔۔
وہ فرشتوں اور سایوں کی طرح اپنے مشن پر رات دن مصروف عمل ہین۔۔کہین را شن بانٹ رہے ہین۔۔کہین راشن کا تھیلا گھروں کے دروازوں پر رات کی تاریکی میں رکھ کر دستک دے کر غائب ہوجاتے ہیں۔۔کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔۔ پوری تحقیق کے بعد مستحقین تک پہنچ رہے ہین۔۔ان کی عزت نفس کا بھی پوری طرح سے خیال کررہے ہیں۔۔کہیں نقد رقم پہنچارہے ہیں۔۔اور کہیں اسپرے کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔
اللہ جانے کون بشر ہے؟؟؟؟
صرف اللہ کی رضا۔۔امت مسلمہ اور انسانیت کا درد ہے۔
سارے جہان کا درد ہمارے جگر میں ہے۔
آج لاک ڈاون کو 28 دن سے زائد ہو چکے ہین۔۔اس دوران بے حساب واقعات نظروں کے سامنے سے گزرے ہیں۔۔جن میں سے بہت سے واقعات تو سوشل میڈیا۔۔الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔مثلاً ڈاکٹروں نرسوں اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف کی انتھک کوششیں تاکہ کورونا کے مریضوں کی جان بچائی جاسکے جبکہ یہ لوگ جن کا یہاں ذکر ہے، اکثر ہتھیار یعنی حفاظتی سامان کے بغیر ہی فرنٹ لائین پر جہاد کررہے ہیں۔
تنگ آمد بجنگ آمد۔۔مجبوراً کئی شہروں میں انہوں نے احتجاج بھی کیا لیکن افسوس کہ حکومت نے ملک میں عموماً اور کوئٹہ میں خصوصاً ان بے چاروں پر نہ صرف لاٹھی چارج کیا بلکہ گرفتاریاں بھی کیں جو بہت ہی قابل مذمت اقدام تھا۔ اسی دوران کئی ڈاکٹرز مثلاً ڈاکٹر اسامہ، ڈاکٹر عبدالقادر سومرو اور دیگر اسٹاف نے جام شہادت بھی نوش کیا اور کئی اسی مرض میں مبتلا ہوکر اسپتالوں مین پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ خدمت خلق کا کام بھی جنگی بنیادوں پر جاری و ساری ہے جس میں بے شمار ادارے، حکومتی اور غیر حکومتی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ یہ سارے لوگ یقیناً خراج تحسین اور تعاون کے مستحق ہیں۔
لوگوں کے گھروں کی دہلیز پر ہر طرح کی امداد پہنچ رہی ہے جس میں راشن اور نقد رقوم بھی شامل ہیں۔گھروں، مساجد اور اہم عوامی مقامات پر اسپرے بھی ہورہا ہے۔ ایمبولینس اور میت گاڑیون کی خدمات بھی جاری ہیں۔
لاک ڈاون پر عملدرآمد بھی جاری ہے۔۔کہیں تعلیم و ترغیب سے، کہیں رضاکارانہ طور پر اور کہیں کہیں کبھی کبھی پولیس کی طرف سے سختی بھی ہورہی ہے۔ اللہ خیر کرے۔ آمین۔
ان حالات میں؛ میں آج آپ سب کی توجہ جن لوگوں کی طرف مبزول کرانا چاہوں گا۔۔وہ ہیں گمنام سپاہی، گمنام سپاہی پر مجھے یاد آیا کہ جس طرح ہمارے فوجی کمانڈوز اور خفیہ ایجنسیاں کام کرتی ہیں جو ہمہ وقت جاگ رہے ہوتے ہیں اور ہمیشہ حالت جنگ مین ہوتے ہیں۔ کبھی بیرونی محاز پر اور کبھی اندرونی محاز پر۔۔اور دشمن کی چالوں کو ناکام بناتے ہیں۔۔اکثر وہ بڑے بڑے کارنامے بہت ہی خفیہ انداز مین کامیابی سے سر انجام دیتے ہین۔۔ان کے کارناموں کی کہیں تشہیر نہیں ہوتی۔۔ان مجاہدوں کی نہ ہی کوئ یوردی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی پہنچان۔۔۔بلکہ اکثر اوقات یہ گمنام سپاہی اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیتے ہین مگر اف تک نہی کرتے اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
ہم ایسے گمنام شہیدوں اور سپاہیوں کو سلام کرتے ہیں اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔۔مگر نہ تو ان کے ناموں سے واقف ہوتے ہیں۔۔اور نہ ہی ان کے چہروں سے۔۔یہاں تک کہ ان کے کارنامے بھی ملکی اور قومی مفاد کی وجہ سےتاریخ کی فائلوں میں دفن ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح آج کل خدمت خلق کے کاموں مین بھی بہت سی تنظیمین مصروف عمل ہیں جن کی شناخت بھی ہے جن کے ناموں اور کارناموں سے بھی لوگ واقف ہیں جو کسی نہ کسی جھنڈے یا بینر تلے کام کررہی ہین۔۔جن کے کارکن شناختی جیکٹ بھی پہنے ہوتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ الخدمت ہے، سیلانی ہے، ایدھی ہے یا کوئ اور۔ ان کی تشہیر بھی کسی نہ کسی شکل میں ہورہی ہے۔۔سو شل میڈیا۔۔اخبارات اور ٹی وی چینلز اس کے گواہ ہیں۔۔
لیکن کچھ ایسے بھی اللہ کے بندے ہیں۔۔۔جو نہ شناخت کراتے ہیں۔۔نہ ہی کوئی پہچان۔۔نہ کوئی وردی اور نہ کوئی شناختی جیکٹ۔۔مگر وہ نماز تہجد کی طرح دن رات خدمت خلق میں لگے ہوئے ہیں۔۔یا وہ جانتے ہیں یا پھر ان کا خدا جانتا ہے۔۔
۔۔نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ۔۔۔ یہ لوگ کبھی زلزلوں میں کشمیر اور شمالی علاقوں مین متحرک نظر آتے ہیں۔۔کبھی سیلابوں میں پنجاب کے سبزہ زارون میں دوڑتے نظر آتے ہیں تو کبھی تھر کے ریگزاروں میں لوگون کی بھوک پیاس بجھا رہے ہوتے ہیں۔۔
وہ فرشتوں اور سایوں کی طرح اپنے مشن پر رات دن مصروف عمل ہین۔۔کہین را شن بانٹ رہے ہین۔۔کہین راشن کا تھیلا گھروں کے دروازوں پر رات کی تاریکی میں رکھ کر دستک دے کر غائب ہوجاتے ہیں۔۔کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔۔ پوری تحقیق کے بعد مستحقین تک پہنچ رہے ہین۔۔ان کی عزت نفس کا بھی پوری طرح سے خیال کررہے ہیں۔۔کہیں نقد رقم پہنچارہے ہیں۔۔اور کہیں اسپرے کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔
اللہ جانے کون بشر ہے؟؟؟؟
صرف اللہ کی رضا۔۔امت مسلمہ اور انسانیت کا درد ہے۔
سارے جہان کا درد ہمارے جگر میں ہے۔
آج لاک ڈاون کو 28 دن سے زائد ہو چکے ہین۔۔اس دوران بے حساب واقعات نظروں کے سامنے سے گزرے ہیں۔۔جن میں سے بہت سے واقعات تو سوشل میڈیا۔۔الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔مثلاً ڈاکٹروں نرسوں اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف کی انتھک کوششیں تاکہ کورونا کے مریضوں کی جان بچائی جاسکے جبکہ یہ لوگ جن کا یہاں ذکر ہے، اکثر ہتھیار یعنی حفاظتی سامان کے بغیر ہی فرنٹ لائین پر جہاد کررہے ہیں۔
تنگ آمد بجنگ آمد۔۔مجبوراً کئی شہروں میں انہوں نے احتجاج بھی کیا لیکن افسوس کہ حکومت نے ملک میں عموماً اور کوئٹہ میں خصوصاً ان بے چاروں پر نہ صرف لاٹھی چارج کیا بلکہ گرفتاریاں بھی کیں جو بہت ہی قابل مذمت اقدام تھا۔ اسی دوران کئی ڈاکٹرز مثلاً ڈاکٹر اسامہ، ڈاکٹر عبدالقادر سومرو اور دیگر اسٹاف نے جام شہادت بھی نوش کیا اور کئی اسی مرض میں مبتلا ہوکر اسپتالوں مین پڑے ہیں۔ اس کے علاوہ خدمت خلق کا کام بھی جنگی بنیادوں پر جاری و ساری ہے جس میں بے شمار ادارے، حکومتی اور غیر حکومتی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ یہ سارے لوگ یقیناً خراج تحسین اور تعاون کے مستحق ہیں۔
لوگوں کے گھروں کی دہلیز پر ہر طرح کی امداد پہنچ رہی ہے جس میں راشن اور نقد رقوم بھی شامل ہیں۔گھروں، مساجد اور اہم عوامی مقامات پر اسپرے بھی ہورہا ہے۔ ایمبولینس اور میت گاڑیون کی خدمات بھی جاری ہیں۔
لاک ڈاون پر عملدرآمد بھی جاری ہے۔۔کہیں تعلیم و ترغیب سے، کہیں رضاکارانہ طور پر اور کہیں کہیں کبھی کبھی پولیس کی طرف سے سختی بھی ہورہی ہے۔ اللہ خیر کرے۔ آمین۔
ان حالات میں؛ میں آج آپ سب کی توجہ جن لوگوں کی طرف مبزول کرانا چاہوں گا۔۔وہ ہیں گمنام سپاہی، گمنام سپاہی پر مجھے یاد آیا کہ جس طرح ہمارے فوجی کمانڈوز اور خفیہ ایجنسیاں کام کرتی ہیں جو ہمہ وقت جاگ رہے ہوتے ہیں اور ہمیشہ حالت جنگ مین ہوتے ہیں۔ کبھی بیرونی محاز پر اور کبھی اندرونی محاز پر۔۔اور دشمن کی چالوں کو ناکام بناتے ہیں۔۔اکثر وہ بڑے بڑے کارنامے بہت ہی خفیہ انداز مین کامیابی سے سر انجام دیتے ہین۔۔ان کے کارناموں کی کہیں تشہیر نہیں ہوتی۔۔ان مجاہدوں کی نہ ہی کوئ یوردی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی پہنچان۔۔۔بلکہ اکثر اوقات یہ گمنام سپاہی اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کردیتے ہین مگر اف تک نہی کرتے اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
ہم ایسے گمنام شہیدوں اور سپاہیوں کو سلام کرتے ہیں اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔۔مگر نہ تو ان کے ناموں سے واقف ہوتے ہیں۔۔اور نہ ہی ان کے چہروں سے۔۔یہاں تک کہ ان کے کارنامے بھی ملکی اور قومی مفاد کی وجہ سےتاریخ کی فائلوں میں دفن ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح آج کل خدمت خلق کے کاموں مین بھی بہت سی تنظیمین مصروف عمل ہیں جن کی شناخت بھی ہے جن کے ناموں اور کارناموں سے بھی لوگ واقف ہیں جو کسی نہ کسی جھنڈے یا بینر تلے کام کررہی ہین۔۔جن کے کارکن شناختی جیکٹ بھی پہنے ہوتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ الخدمت ہے، سیلانی ہے، ایدھی ہے یا کوئ اور۔ ان کی تشہیر بھی کسی نہ کسی شکل میں ہورہی ہے۔۔سو شل میڈیا۔۔اخبارات اور ٹی وی چینلز اس کے گواہ ہیں۔۔
لیکن کچھ ایسے بھی اللہ کے بندے ہیں۔۔۔جو نہ شناخت کراتے ہیں۔۔نہ ہی کوئی پہچان۔۔نہ کوئی وردی اور نہ کوئی شناختی جیکٹ۔۔مگر وہ نماز تہجد کی طرح دن رات خدمت خلق میں لگے ہوئے ہیں۔۔یا وہ جانتے ہیں یا پھر ان کا خدا جانتا ہے۔۔
۔۔نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ۔۔۔ یہ لوگ کبھی زلزلوں میں کشمیر اور شمالی علاقوں مین متحرک نظر آتے ہیں۔۔کبھی سیلابوں میں پنجاب کے سبزہ زارون میں دوڑتے نظر آتے ہیں تو کبھی تھر کے ریگزاروں میں لوگون کی بھوک پیاس بجھا رہے ہوتے ہیں۔۔
وہ فرشتوں اور سایوں کی طرح اپنے مشن پر رات دن مصروف عمل ہین۔۔کہین را شن بانٹ رہے ہین۔۔کہین راشن کا تھیلا گھروں کے دروازوں پر رات کی تاریکی میں رکھ کر دستک دے کر غائب ہوجاتے ہیں۔۔کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔۔ پوری تحقیق کے بعد مستحقین تک پہنچ رہے ہین۔۔ان کی عزت نفس کا بھی پوری طرح سے خیال کررہے ہیں۔۔کہیں نقد رقم پہنچارہے ہیں۔۔اور کہیں اسپرے کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔
اللہ جانے کون بشر ہے؟؟؟؟
صرف اللہ کی رضا۔۔امت مسلمہ اور انسانیت کا درد ہے۔
سارے جہان کا درد ہمارے جگر میں ہے۔