Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
نجانے کم بخت کہاں سے ہم کو بیٹھے بٹھائے یہ الہام ہوگیا کہ ہم میں شاعری کے بھی جراثیم ہیں۔ اسے ہمارے یار دوستوں کی کارستانی ہی کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے کسی بات کا ہم سے بدلہ لیتے ہوئے اٹھتے بیٹھتے ہمارے اندر یہ ’وائرس‘ چھوڑ دیا کہ ہم شاعر بھی اچھے بن سکتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ ہم نے کہیں سے ڈبلیو گیارہ اور رکشاؤں کے پیچھے لکھے اشعار میں تھوڑی بہت ترمیم کرکے ایک قریبی دوست کی سال گرہ پر اس کی فیس بک پر چپکا دیے۔ بس جی پھر کیا تھا ’واہ واہ‘ کے ایسے نعرے لگے کہ ہمیں بھی گمان ہونے لگا کہ کم از کم شاعری تو ہم کرہی سکتے ہیں۔ابتدا میں ہمارا اپنا خیال تو یہ تھا کہ اس میں بھی کون سے پہاڑ توڑنے ہوتے ہیں۔ محبوب، حالات، زخمی دل، نامراد محبت یا پھر دسمبربس انہی موضوعات کے گرد ہی گھوم رہی ہے شاعری۔ اچھا سا ’ قافیہ ‘ ملا کر لفظوں کی ہیرا پھیری کو اِدھر سے اُدھر ہی تو کرنا ہوتا ہے۔لیجئے جناب بس پھر کیا تھا۔دوستوں کے اصرار پر اپنے اندر چھپے بیٹھے شاعر کی ہم نے خود کھوج شروع کردی۔۔شاعری کی’الف بے‘ تو ہمیں اسکول کے زمانے سے نہیں آتی تھی بالخصوص کسی بھی شعر کی تشریح سے جان جاتی تھی۔ ’شاعر یہ کہتا ہے‘ یا پھر ’اس شعر میں شاعر کی مراد‘ جیسے جملے لکھ لکھ کر خیال آتا تھا کہ آخر اس شاعر نے کیوں اس قدر گھما پھر کر بات کی کہ اب یہ ہمیں گھن چکر بنا رہا ہے ۔ خیرجی جب اوکھلی میں سر دے دیا تھا مسلوں کا کیا ڈرکے مصداق شاعری کو واقعی سمجھنے کے لیے کتب کا مطالعہ شروع کیا تو لمحے بھر کو خیال آیا کہ کیا دردسر پال رہے ہیں، چھوڑیں، جس کا کام اسی کو سانجھے، کہاں سمجھ پائیں گے مصرع، مقطع، ثلاثی، ردیف، رباعی، مثنوی، بیت الغزل اور نجانے کون کون سی شاعری کی اصناف کو۔۔۔۔ لیکن شوق اور پھر طرم خان بننے کا خبط بھی عجیب ہے۔ جو انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ ابتدا میں ہم ’فیس بک شاعر‘ رہے۔ کبھی طنزیہ تو کبھی سنجیدہ اشعار پوسٹ کرتے رہے۔ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ’بھئی پہلے فیصلہ تو کرلو مزاحیہ شاعر بننا ہے‘ عشقیہ یا انقلابی۔ کسی ایک صنف میں طبع آزمائی کرو کہیں ایسا نہ ہو، نہ تین میں رہو نہ تیرہ میں۔ بات تو واقعی پتے کی تھی جس کا ہمیں اب تک پتا نہیں تھا۔ تب ایک رات چھت پر لمبی تان کرلیٹتے ہوئے فیصلہ کیا ہم ساری حدیں پار کرتے ہوئے خود کو ’ہر فن مولا شاعر‘ کے طور پر پیش کریں گے۔ شرمندگی تو ابتدا میں ہی اُس وقت اٹھانی پڑی‘ جب کسی صاحب ِعلم نے دریافت کرلیا کہ ’ آپ چھوٹی بحر کو پسند کرتے ہیں یا بڑی کو۔۔۔‘ بغلیں جھانکنے لگے کیونکہ ہم تو بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس کو ہی جانتے تھے۔ہم نے کسی ماہر اور گھاگ سیاست دان کی طرح موضوع ہی بدل ڈالا۔ خیر جی اشعار تو اب تک سوشل میڈیا کی زینت بن رہے تھے لیکن پھر بھی تشنگی رہ جاتی۔ سوچا کہ چلو کوشش کرکے اب کوئی غزل بھی لکھ ڈالتے ہیں۔ کاغذ قلم سنبھالا اور لکھنا شروع کیا۔ خلاؤں میں گھورتے ہوئے کسی مستری کی طرح اشعار کی عمارت کھڑی کی لیکن مزا نہ آیا۔ جل بھن کر جو لکھا تھا وہ پھاڑ ڈالا۔ اور جناب کوئی چار گھنٹے کچھ نہ کچھ لکھنے کے باوجود ایک غزل تک لکھ نہ پائے۔ جھلا کر ایک پرانے شاعر دوست کو فون کیا اور ساری صورتحال بتائی‘ انہوں نے بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا ’بھائی صاحب اشعار کی باقاعدہ ’ آمد‘ ہوتی ہے۔ یہ تخیل، وجود اور تخلیقی نوعیت والا ہنر ہے۔ اینٹیں اٹھانے والا کام تھوڑی ہے۔ کسی نے کہا اور آپ حکم بجا لائے۔انتظار کرو جب کوئی شعر ذہن میں گونجے تو اسے ذہن نشین کرلو۔ ممکن ہے ایک غزل مکمل ہونے میں ہفتہ لگ جائے لیکن انتظار کرو۔‘ یہ کہہ کر انہوں نے تو فون رکھ دیا، لیکن ہمارے خدشات کو اور زیادہ اٹھا دیا۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ لو بتاؤ ہمارا حافظہ تو اس قدر کمزور ہے کہ اگر کسی سے ایک مرتبہ قرض لے لیں تو اس کی بار بار یاد دہانی کے بعد جا کر ادا کرتے ہیں۔ اب یہ اشعار، مہنگے بادام کھا کر کیا ذہن نشین کرنے ہوں گے؟۔ ہماری طرح کے ایک دو نمبری شاعر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ہماری مشکل آسان کرنے کی ٹھانی۔ کہنے لگے کہ ’ چالیس چالیس پرانے جریدے خریدو، ان میں کم معروف شاعروں کی نگارشات اٹھاؤ، ترتیب آگے پیچھے کرکے کسی اور جریدے کو روانہ کردو، دیکھو کیا کامیاب شاعر بنو گے۔‘ ہم نے ہونقوں کی طرح سوال داغا کہ ’ اگر پکڑے گئے تو۔ ؟ ‘ توانہوں نے مسکراتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا ’میاں آج تک ہم پکڑ ے گئے ہیں کیا ؟ چالیس پچاس سال پرانے جرائد اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ان میں سے اکثر شعرا اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے ہوں گے‘ اسی لیے ان کی ملکیت کا دعوے دار بھی کوئی سامنے نہیں آئے گا پھر ویسے بھی پرانے شعرا کرام سے کوئی اور نہیں ان کے گھر والے زیادہ تنگ رہتے تھے۔‘ کامیابی کی کنجی تو انہوں نے ہمیں تھما دی تھی۔ لیکن سچی بات بتائیں ان کے اس مشورے پر کسی صورت دل نہیں مانا۔ہم اپنے قلم اور خیالات کے سہارے کھڑا ہونا چاہتے تھے۔ اسی جہد مسلسل کے پیش نظر اب ہم نے ادبی تقریبات میں باقاعدگی سے جانا شروع کردیا۔ اگلی صف میں بیٹھتے اور سمجھ آئے یا نہ آئے ’واہ واہ‘ کی ایسی زور زور سے گردان کرتے کہ شاعر بے چارہ سمجھتا کہ واقعی اس نے کوئی تڑپتا، سلگاتا بلکہ پانی میں آگ لگاتا ہوا کوئی شعر تخلیق کردیا ہے ۔ ہماری اس ’واہ واہ‘ اور ’مکر ر مکرر‘ نے ایسا رنگ دکھایا کہ اب ہم مشاعروں کی جان سمجھے جانے لگے۔ اس عرصے میں ہم اس فن سے تو آشنا ہوگئے تھے کہ کون سا شاعر، کس قدر ’پاور فل‘ ہے اور کس کے کہنے پر کس شاعر کو کیا مقام ملتا ہے، اسی لیے ہم نے بدمست گائے کی طرح ادھر ادھر بھٹکنے کے بجائے انہی کے کھوٹے سے بندھنے میں عافیت جانی۔ ان کے اشعار پر فلک شگاف ’واہ واہ‘ ایسے کرتے وہ ہمیں بطور خاص مخاطب کرکے اپنا کوئی شعر مکرر کرتے۔ پہلے ہمیں ایسی تقریبات کی نظامت ملنے لگی پھر تعزیتی اجلاس ہو، کتب رونمائی ، فکری نشست ہو یا پھر مشاعرہ کم از کم ہمیں کوئی نہیں بھولتا اور دیکھتے ہی دیکھتے قربتیں کام آنے لگیں۔ فیس بک پر انہی مستند شعرا کرام کے ساتھ تصویریں لگا کر ہم نے ثابت کردکھایا کہ ہم بھی شاعر ہی ہیں۔۔سامعین کی منزلیں طے کرتے ہوئے چھلانگ ما ر کر ہم انہی شعرا کرام کے سنگ بیٹھک لگانے لگے۔۔ ایسی تقریبات کے دوران ہم اپنے اشعار بھی سنادیتے اور پھر نہ نہ کرتے ہمارا شماربھی شعرا میں ہونے لگا۔ وہ اور بات ہے کہ ’شمع محفل‘ بننے کا موقع نہیں ملا ۔ جبکہ ہم نے اپنا تخلص بھی ’شاعر‘ رکھ لیا۔ اور اسی مناسبت سے سب ہمیں ’شاعر صاحب‘ کہہ کر پکارنے لگے تو احساس ہوا کہ واقعی ہم شاعر ہو ہی گئے ہیں۔حالانکہ ایک بھی غزل ہم لکھ نہ پائے تھے۔ ہاں اشعار دھڑ ادھڑ کسی نئی فلم کی طرح فیس بک پر چپکاتے رہے۔ کئی بار دل میں یہ بھی خیال آیا کہ کسی شاعر کی شاگردی قبول کرلی جائے لیکن پھر سوچا کہ کچھ عجیب نہیں لگے گا کہ جب احباب کو معلوم ہوگا کہ ’شاعر صاحب ابھی بھی شاعری کے اسرار رو موز سیکھ رہے ہیں۔ اسی لیے اب ہم تھے اور ’بااثر شعر‘ جن کے ہم ’دم چھلے‘ نہیں بلکہ ان کے ساتھ ’کمبل کی طرح چپکے‘ رہتے۔ لیکن ایک بھرپور غزل لکھنے کی آرزو دل میں قلابازیاں کھاتی رہی۔کئی بار کوشش کی لیکن چار پانچ اشعار کے بعد ہمت اور سارا تخیل اڑن چھو ہونے لگتا۔ تبھی تھک ہار کر فیصلہ کیا چاہے کچھ بھی ہوجائے، اب غزل نہیں لکھیں گے، کیونکہ ابھی تک ہم خود یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہم ہیں کس صنف کے شاعراس کی اب تک ہم پہچان نہیں بنا پائے۔ ہاں ایک پہچان ضرور ہ قائم کردی ہم نے‘ جس کے ذریعے آپ بھی ہمیں بخوبی تلاش کرسکتے ہیں، اور وہ یہ کہ کسی مشاعرے میں کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لگی شعرا کرام کی تصاویر میں ہنستے مسکراتے ہوئے ’مان نہ مان میں میرا مہمان‘ کی عکاسی کرتے ہوئے آپ اس خادم یعنی ’شاعر نامراد‘ کو ڈھونڈ ہی نکالیں گے۔ ٭
نجانے کم بخت کہاں سے ہم کو بیٹھے بٹھائے یہ الہام ہوگیا کہ ہم میں شاعری کے بھی جراثیم ہیں۔ اسے ہمارے یار دوستوں کی کارستانی ہی کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے کسی بات کا ہم سے بدلہ لیتے ہوئے اٹھتے بیٹھتے ہمارے اندر یہ ’وائرس‘ چھوڑ دیا کہ ہم شاعر بھی اچھے بن سکتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ ہم نے کہیں سے ڈبلیو گیارہ اور رکشاؤں کے پیچھے لکھے اشعار میں تھوڑی بہت ترمیم کرکے ایک قریبی دوست کی سال گرہ پر اس کی فیس بک پر چپکا دیے۔ بس جی پھر کیا تھا ’واہ واہ‘ کے ایسے نعرے لگے کہ ہمیں بھی گمان ہونے لگا کہ کم از کم شاعری تو ہم کرہی سکتے ہیں۔ابتدا میں ہمارا اپنا خیال تو یہ تھا کہ اس میں بھی کون سے پہاڑ توڑنے ہوتے ہیں۔ محبوب، حالات، زخمی دل، نامراد محبت یا پھر دسمبربس انہی موضوعات کے گرد ہی گھوم رہی ہے شاعری۔ اچھا سا ’ قافیہ ‘ ملا کر لفظوں کی ہیرا پھیری کو اِدھر سے اُدھر ہی تو کرنا ہوتا ہے۔لیجئے جناب بس پھر کیا تھا۔دوستوں کے اصرار پر اپنے اندر چھپے بیٹھے شاعر کی ہم نے خود کھوج شروع کردی۔۔شاعری کی’الف بے‘ تو ہمیں اسکول کے زمانے سے نہیں آتی تھی بالخصوص کسی بھی شعر کی تشریح سے جان جاتی تھی۔ ’شاعر یہ کہتا ہے‘ یا پھر ’اس شعر میں شاعر کی مراد‘ جیسے جملے لکھ لکھ کر خیال آتا تھا کہ آخر اس شاعر نے کیوں اس قدر گھما پھر کر بات کی کہ اب یہ ہمیں گھن چکر بنا رہا ہے ۔ خیرجی جب اوکھلی میں سر دے دیا تھا مسلوں کا کیا ڈرکے مصداق شاعری کو واقعی سمجھنے کے لیے کتب کا مطالعہ شروع کیا تو لمحے بھر کو خیال آیا کہ کیا دردسر پال رہے ہیں، چھوڑیں، جس کا کام اسی کو سانجھے، کہاں سمجھ پائیں گے مصرع، مقطع، ثلاثی، ردیف، رباعی، مثنوی، بیت الغزل اور نجانے کون کون سی شاعری کی اصناف کو۔۔۔۔ لیکن شوق اور پھر طرم خان بننے کا خبط بھی عجیب ہے۔ جو انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ ابتدا میں ہم ’فیس بک شاعر‘ رہے۔ کبھی طنزیہ تو کبھی سنجیدہ اشعار پوسٹ کرتے رہے۔ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ’بھئی پہلے فیصلہ تو کرلو مزاحیہ شاعر بننا ہے‘ عشقیہ یا انقلابی۔ کسی ایک صنف میں طبع آزمائی کرو کہیں ایسا نہ ہو، نہ تین میں رہو نہ تیرہ میں۔ بات تو واقعی پتے کی تھی جس کا ہمیں اب تک پتا نہیں تھا۔ تب ایک رات چھت پر لمبی تان کرلیٹتے ہوئے فیصلہ کیا ہم ساری حدیں پار کرتے ہوئے خود کو ’ہر فن مولا شاعر‘ کے طور پر پیش کریں گے۔ شرمندگی تو ابتدا میں ہی اُس وقت اٹھانی پڑی‘ جب کسی صاحب ِعلم نے دریافت کرلیا کہ ’ آپ چھوٹی بحر کو پسند کرتے ہیں یا بڑی کو۔۔۔‘ بغلیں جھانکنے لگے کیونکہ ہم تو بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس کو ہی جانتے تھے۔ہم نے کسی ماہر اور گھاگ سیاست دان کی طرح موضوع ہی بدل ڈالا۔ خیر جی اشعار تو اب تک سوشل میڈیا کی زینت بن رہے تھے لیکن پھر بھی تشنگی رہ جاتی۔ سوچا کہ چلو کوشش کرکے اب کوئی غزل بھی لکھ ڈالتے ہیں۔ کاغذ قلم سنبھالا اور لکھنا شروع کیا۔ خلاؤں میں گھورتے ہوئے کسی مستری کی طرح اشعار کی عمارت کھڑی کی لیکن مزا نہ آیا۔ جل بھن کر جو لکھا تھا وہ پھاڑ ڈالا۔ اور جناب کوئی چار گھنٹے کچھ نہ کچھ لکھنے کے باوجود ایک غزل تک لکھ نہ پائے۔ جھلا کر ایک پرانے شاعر دوست کو فون کیا اور ساری صورتحال بتائی‘ انہوں نے بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا ’بھائی صاحب اشعار کی باقاعدہ ’ آمد‘ ہوتی ہے۔ یہ تخیل، وجود اور تخلیقی نوعیت والا ہنر ہے۔ اینٹیں اٹھانے والا کام تھوڑی ہے۔ کسی نے کہا اور آپ حکم بجا لائے۔انتظار کرو جب کوئی شعر ذہن میں گونجے تو اسے ذہن نشین کرلو۔ ممکن ہے ایک غزل مکمل ہونے میں ہفتہ لگ جائے لیکن انتظار کرو۔‘ یہ کہہ کر انہوں نے تو فون رکھ دیا، لیکن ہمارے خدشات کو اور زیادہ اٹھا دیا۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ لو بتاؤ ہمارا حافظہ تو اس قدر کمزور ہے کہ اگر کسی سے ایک مرتبہ قرض لے لیں تو اس کی بار بار یاد دہانی کے بعد جا کر ادا کرتے ہیں۔ اب یہ اشعار، مہنگے بادام کھا کر کیا ذہن نشین کرنے ہوں گے؟۔ ہماری طرح کے ایک دو نمبری شاعر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ہماری مشکل آسان کرنے کی ٹھانی۔ کہنے لگے کہ ’ چالیس چالیس پرانے جریدے خریدو، ان میں کم معروف شاعروں کی نگارشات اٹھاؤ، ترتیب آگے پیچھے کرکے کسی اور جریدے کو روانہ کردو، دیکھو کیا کامیاب شاعر بنو گے۔‘ ہم نے ہونقوں کی طرح سوال داغا کہ ’ اگر پکڑے گئے تو۔ ؟ ‘ توانہوں نے مسکراتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا ’میاں آج تک ہم پکڑ ے گئے ہیں کیا ؟ چالیس پچاس سال پرانے جرائد اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ان میں سے اکثر شعرا اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے ہوں گے‘ اسی لیے ان کی ملکیت کا دعوے دار بھی کوئی سامنے نہیں آئے گا پھر ویسے بھی پرانے شعرا کرام سے کوئی اور نہیں ان کے گھر والے زیادہ تنگ رہتے تھے۔‘ کامیابی کی کنجی تو انہوں نے ہمیں تھما دی تھی۔ لیکن سچی بات بتائیں ان کے اس مشورے پر کسی صورت دل نہیں مانا۔ہم اپنے قلم اور خیالات کے سہارے کھڑا ہونا چاہتے تھے۔ اسی جہد مسلسل کے پیش نظر اب ہم نے ادبی تقریبات میں باقاعدگی سے جانا شروع کردیا۔ اگلی صف میں بیٹھتے اور سمجھ آئے یا نہ آئے ’واہ واہ‘ کی ایسی زور زور سے گردان کرتے کہ شاعر بے چارہ سمجھتا کہ واقعی اس نے کوئی تڑپتا، سلگاتا بلکہ پانی میں آگ لگاتا ہوا کوئی شعر تخلیق کردیا ہے ۔ ہماری اس ’واہ واہ‘ اور ’مکر ر مکرر‘ نے ایسا رنگ دکھایا کہ اب ہم مشاعروں کی جان سمجھے جانے لگے۔ اس عرصے میں ہم اس فن سے تو آشنا ہوگئے تھے کہ کون سا شاعر، کس قدر ’پاور فل‘ ہے اور کس کے کہنے پر کس شاعر کو کیا مقام ملتا ہے، اسی لیے ہم نے بدمست گائے کی طرح ادھر ادھر بھٹکنے کے بجائے انہی کے کھوٹے سے بندھنے میں عافیت جانی۔ ان کے اشعار پر فلک شگاف ’واہ واہ‘ ایسے کرتے وہ ہمیں بطور خاص مخاطب کرکے اپنا کوئی شعر مکرر کرتے۔ پہلے ہمیں ایسی تقریبات کی نظامت ملنے لگی پھر تعزیتی اجلاس ہو، کتب رونمائی ، فکری نشست ہو یا پھر مشاعرہ کم از کم ہمیں کوئی نہیں بھولتا اور دیکھتے ہی دیکھتے قربتیں کام آنے لگیں۔ فیس بک پر انہی مستند شعرا کرام کے ساتھ تصویریں لگا کر ہم نے ثابت کردکھایا کہ ہم بھی شاعر ہی ہیں۔۔سامعین کی منزلیں طے کرتے ہوئے چھلانگ ما ر کر ہم انہی شعرا کرام کے سنگ بیٹھک لگانے لگے۔۔ ایسی تقریبات کے دوران ہم اپنے اشعار بھی سنادیتے اور پھر نہ نہ کرتے ہمارا شماربھی شعرا میں ہونے لگا۔ وہ اور بات ہے کہ ’شمع محفل‘ بننے کا موقع نہیں ملا ۔ جبکہ ہم نے اپنا تخلص بھی ’شاعر‘ رکھ لیا۔ اور اسی مناسبت سے سب ہمیں ’شاعر صاحب‘ کہہ کر پکارنے لگے تو احساس ہوا کہ واقعی ہم شاعر ہو ہی گئے ہیں۔حالانکہ ایک بھی غزل ہم لکھ نہ پائے تھے۔ ہاں اشعار دھڑ ادھڑ کسی نئی فلم کی طرح فیس بک پر چپکاتے رہے۔ کئی بار دل میں یہ بھی خیال آیا کہ کسی شاعر کی شاگردی قبول کرلی جائے لیکن پھر سوچا کہ کچھ عجیب نہیں لگے گا کہ جب احباب کو معلوم ہوگا کہ ’شاعر صاحب ابھی بھی شاعری کے اسرار رو موز سیکھ رہے ہیں۔ اسی لیے اب ہم تھے اور ’بااثر شعر‘ جن کے ہم ’دم چھلے‘ نہیں بلکہ ان کے ساتھ ’کمبل کی طرح چپکے‘ رہتے۔ لیکن ایک بھرپور غزل لکھنے کی آرزو دل میں قلابازیاں کھاتی رہی۔کئی بار کوشش کی لیکن چار پانچ اشعار کے بعد ہمت اور سارا تخیل اڑن چھو ہونے لگتا۔ تبھی تھک ہار کر فیصلہ کیا چاہے کچھ بھی ہوجائے، اب غزل نہیں لکھیں گے، کیونکہ ابھی تک ہم خود یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہم ہیں کس صنف کے شاعراس کی اب تک ہم پہچان نہیں بنا پائے۔ ہاں ایک پہچان ضرور ہ قائم کردی ہم نے‘ جس کے ذریعے آپ بھی ہمیں بخوبی تلاش کرسکتے ہیں، اور وہ یہ کہ کسی مشاعرے میں کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لگی شعرا کرام کی تصاویر میں ہنستے مسکراتے ہوئے ’مان نہ مان میں میرا مہمان‘ کی عکاسی کرتے ہوئے آپ اس خادم یعنی ’شاعر نامراد‘ کو ڈھونڈ ہی نکالیں گے۔ ٭
نجانے کم بخت کہاں سے ہم کو بیٹھے بٹھائے یہ الہام ہوگیا کہ ہم میں شاعری کے بھی جراثیم ہیں۔ اسے ہمارے یار دوستوں کی کارستانی ہی کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے کسی بات کا ہم سے بدلہ لیتے ہوئے اٹھتے بیٹھتے ہمارے اندر یہ ’وائرس‘ چھوڑ دیا کہ ہم شاعر بھی اچھے بن سکتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ ہم نے کہیں سے ڈبلیو گیارہ اور رکشاؤں کے پیچھے لکھے اشعار میں تھوڑی بہت ترمیم کرکے ایک قریبی دوست کی سال گرہ پر اس کی فیس بک پر چپکا دیے۔ بس جی پھر کیا تھا ’واہ واہ‘ کے ایسے نعرے لگے کہ ہمیں بھی گمان ہونے لگا کہ کم از کم شاعری تو ہم کرہی سکتے ہیں۔ابتدا میں ہمارا اپنا خیال تو یہ تھا کہ اس میں بھی کون سے پہاڑ توڑنے ہوتے ہیں۔ محبوب، حالات، زخمی دل، نامراد محبت یا پھر دسمبربس انہی موضوعات کے گرد ہی گھوم رہی ہے شاعری۔ اچھا سا ’ قافیہ ‘ ملا کر لفظوں کی ہیرا پھیری کو اِدھر سے اُدھر ہی تو کرنا ہوتا ہے۔لیجئے جناب بس پھر کیا تھا۔دوستوں کے اصرار پر اپنے اندر چھپے بیٹھے شاعر کی ہم نے خود کھوج شروع کردی۔۔شاعری کی’الف بے‘ تو ہمیں اسکول کے زمانے سے نہیں آتی تھی بالخصوص کسی بھی شعر کی تشریح سے جان جاتی تھی۔ ’شاعر یہ کہتا ہے‘ یا پھر ’اس شعر میں شاعر کی مراد‘ جیسے جملے لکھ لکھ کر خیال آتا تھا کہ آخر اس شاعر نے کیوں اس قدر گھما پھر کر بات کی کہ اب یہ ہمیں گھن چکر بنا رہا ہے ۔ خیرجی جب اوکھلی میں سر دے دیا تھا مسلوں کا کیا ڈرکے مصداق شاعری کو واقعی سمجھنے کے لیے کتب کا مطالعہ شروع کیا تو لمحے بھر کو خیال آیا کہ کیا دردسر پال رہے ہیں، چھوڑیں، جس کا کام اسی کو سانجھے، کہاں سمجھ پائیں گے مصرع، مقطع، ثلاثی، ردیف، رباعی، مثنوی، بیت الغزل اور نجانے کون کون سی شاعری کی اصناف کو۔۔۔۔ لیکن شوق اور پھر طرم خان بننے کا خبط بھی عجیب ہے۔ جو انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ ابتدا میں ہم ’فیس بک شاعر‘ رہے۔ کبھی طنزیہ تو کبھی سنجیدہ اشعار پوسٹ کرتے رہے۔ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ’بھئی پہلے فیصلہ تو کرلو مزاحیہ شاعر بننا ہے‘ عشقیہ یا انقلابی۔ کسی ایک صنف میں طبع آزمائی کرو کہیں ایسا نہ ہو، نہ تین میں رہو نہ تیرہ میں۔ بات تو واقعی پتے کی تھی جس کا ہمیں اب تک پتا نہیں تھا۔ تب ایک رات چھت پر لمبی تان کرلیٹتے ہوئے فیصلہ کیا ہم ساری حدیں پار کرتے ہوئے خود کو ’ہر فن مولا شاعر‘ کے طور پر پیش کریں گے۔ شرمندگی تو ابتدا میں ہی اُس وقت اٹھانی پڑی‘ جب کسی صاحب ِعلم نے دریافت کرلیا کہ ’ آپ چھوٹی بحر کو پسند کرتے ہیں یا بڑی کو۔۔۔‘ بغلیں جھانکنے لگے کیونکہ ہم تو بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس کو ہی جانتے تھے۔ہم نے کسی ماہر اور گھاگ سیاست دان کی طرح موضوع ہی بدل ڈالا۔ خیر جی اشعار تو اب تک سوشل میڈیا کی زینت بن رہے تھے لیکن پھر بھی تشنگی رہ جاتی۔ سوچا کہ چلو کوشش کرکے اب کوئی غزل بھی لکھ ڈالتے ہیں۔ کاغذ قلم سنبھالا اور لکھنا شروع کیا۔ خلاؤں میں گھورتے ہوئے کسی مستری کی طرح اشعار کی عمارت کھڑی کی لیکن مزا نہ آیا۔ جل بھن کر جو لکھا تھا وہ پھاڑ ڈالا۔ اور جناب کوئی چار گھنٹے کچھ نہ کچھ لکھنے کے باوجود ایک غزل تک لکھ نہ پائے۔ جھلا کر ایک پرانے شاعر دوست کو فون کیا اور ساری صورتحال بتائی‘ انہوں نے بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا ’بھائی صاحب اشعار کی باقاعدہ ’ آمد‘ ہوتی ہے۔ یہ تخیل، وجود اور تخلیقی نوعیت والا ہنر ہے۔ اینٹیں اٹھانے والا کام تھوڑی ہے۔ کسی نے کہا اور آپ حکم بجا لائے۔انتظار کرو جب کوئی شعر ذہن میں گونجے تو اسے ذہن نشین کرلو۔ ممکن ہے ایک غزل مکمل ہونے میں ہفتہ لگ جائے لیکن انتظار کرو۔‘ یہ کہہ کر انہوں نے تو فون رکھ دیا، لیکن ہمارے خدشات کو اور زیادہ اٹھا دیا۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ لو بتاؤ ہمارا حافظہ تو اس قدر کمزور ہے کہ اگر کسی سے ایک مرتبہ قرض لے لیں تو اس کی بار بار یاد دہانی کے بعد جا کر ادا کرتے ہیں۔ اب یہ اشعار، مہنگے بادام کھا کر کیا ذہن نشین کرنے ہوں گے؟۔ ہماری طرح کے ایک دو نمبری شاعر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ہماری مشکل آسان کرنے کی ٹھانی۔ کہنے لگے کہ ’ چالیس چالیس پرانے جریدے خریدو، ان میں کم معروف شاعروں کی نگارشات اٹھاؤ، ترتیب آگے پیچھے کرکے کسی اور جریدے کو روانہ کردو، دیکھو کیا کامیاب شاعر بنو گے۔‘ ہم نے ہونقوں کی طرح سوال داغا کہ ’ اگر پکڑے گئے تو۔ ؟ ‘ توانہوں نے مسکراتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا ’میاں آج تک ہم پکڑ ے گئے ہیں کیا ؟ چالیس پچاس سال پرانے جرائد اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ان میں سے اکثر شعرا اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے ہوں گے‘ اسی لیے ان کی ملکیت کا دعوے دار بھی کوئی سامنے نہیں آئے گا پھر ویسے بھی پرانے شعرا کرام سے کوئی اور نہیں ان کے گھر والے زیادہ تنگ رہتے تھے۔‘ کامیابی کی کنجی تو انہوں نے ہمیں تھما دی تھی۔ لیکن سچی بات بتائیں ان کے اس مشورے پر کسی صورت دل نہیں مانا۔ہم اپنے قلم اور خیالات کے سہارے کھڑا ہونا چاہتے تھے۔ اسی جہد مسلسل کے پیش نظر اب ہم نے ادبی تقریبات میں باقاعدگی سے جانا شروع کردیا۔ اگلی صف میں بیٹھتے اور سمجھ آئے یا نہ آئے ’واہ واہ‘ کی ایسی زور زور سے گردان کرتے کہ شاعر بے چارہ سمجھتا کہ واقعی اس نے کوئی تڑپتا، سلگاتا بلکہ پانی میں آگ لگاتا ہوا کوئی شعر تخلیق کردیا ہے ۔ ہماری اس ’واہ واہ‘ اور ’مکر ر مکرر‘ نے ایسا رنگ دکھایا کہ اب ہم مشاعروں کی جان سمجھے جانے لگے۔ اس عرصے میں ہم اس فن سے تو آشنا ہوگئے تھے کہ کون سا شاعر، کس قدر ’پاور فل‘ ہے اور کس کے کہنے پر کس شاعر کو کیا مقام ملتا ہے، اسی لیے ہم نے بدمست گائے کی طرح ادھر ادھر بھٹکنے کے بجائے انہی کے کھوٹے سے بندھنے میں عافیت جانی۔ ان کے اشعار پر فلک شگاف ’واہ واہ‘ ایسے کرتے وہ ہمیں بطور خاص مخاطب کرکے اپنا کوئی شعر مکرر کرتے۔ پہلے ہمیں ایسی تقریبات کی نظامت ملنے لگی پھر تعزیتی اجلاس ہو، کتب رونمائی ، فکری نشست ہو یا پھر مشاعرہ کم از کم ہمیں کوئی نہیں بھولتا اور دیکھتے ہی دیکھتے قربتیں کام آنے لگیں۔ فیس بک پر انہی مستند شعرا کرام کے ساتھ تصویریں لگا کر ہم نے ثابت کردکھایا کہ ہم بھی شاعر ہی ہیں۔۔سامعین کی منزلیں طے کرتے ہوئے چھلانگ ما ر کر ہم انہی شعرا کرام کے سنگ بیٹھک لگانے لگے۔۔ ایسی تقریبات کے دوران ہم اپنے اشعار بھی سنادیتے اور پھر نہ نہ کرتے ہمارا شماربھی شعرا میں ہونے لگا۔ وہ اور بات ہے کہ ’شمع محفل‘ بننے کا موقع نہیں ملا ۔ جبکہ ہم نے اپنا تخلص بھی ’شاعر‘ رکھ لیا۔ اور اسی مناسبت سے سب ہمیں ’شاعر صاحب‘ کہہ کر پکارنے لگے تو احساس ہوا کہ واقعی ہم شاعر ہو ہی گئے ہیں۔حالانکہ ایک بھی غزل ہم لکھ نہ پائے تھے۔ ہاں اشعار دھڑ ادھڑ کسی نئی فلم کی طرح فیس بک پر چپکاتے رہے۔ کئی بار دل میں یہ بھی خیال آیا کہ کسی شاعر کی شاگردی قبول کرلی جائے لیکن پھر سوچا کہ کچھ عجیب نہیں لگے گا کہ جب احباب کو معلوم ہوگا کہ ’شاعر صاحب ابھی بھی شاعری کے اسرار رو موز سیکھ رہے ہیں۔ اسی لیے اب ہم تھے اور ’بااثر شعر‘ جن کے ہم ’دم چھلے‘ نہیں بلکہ ان کے ساتھ ’کمبل کی طرح چپکے‘ رہتے۔ لیکن ایک بھرپور غزل لکھنے کی آرزو دل میں قلابازیاں کھاتی رہی۔کئی بار کوشش کی لیکن چار پانچ اشعار کے بعد ہمت اور سارا تخیل اڑن چھو ہونے لگتا۔ تبھی تھک ہار کر فیصلہ کیا چاہے کچھ بھی ہوجائے، اب غزل نہیں لکھیں گے، کیونکہ ابھی تک ہم خود یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہم ہیں کس صنف کے شاعراس کی اب تک ہم پہچان نہیں بنا پائے۔ ہاں ایک پہچان ضرور ہ قائم کردی ہم نے‘ جس کے ذریعے آپ بھی ہمیں بخوبی تلاش کرسکتے ہیں، اور وہ یہ کہ کسی مشاعرے میں کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لگی شعرا کرام کی تصاویر میں ہنستے مسکراتے ہوئے ’مان نہ مان میں میرا مہمان‘ کی عکاسی کرتے ہوئے آپ اس خادم یعنی ’شاعر نامراد‘ کو ڈھونڈ ہی نکالیں گے۔ ٭
نجانے کم بخت کہاں سے ہم کو بیٹھے بٹھائے یہ الہام ہوگیا کہ ہم میں شاعری کے بھی جراثیم ہیں۔ اسے ہمارے یار دوستوں کی کارستانی ہی کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے کسی بات کا ہم سے بدلہ لیتے ہوئے اٹھتے بیٹھتے ہمارے اندر یہ ’وائرس‘ چھوڑ دیا کہ ہم شاعر بھی اچھے بن سکتے ہیں۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ ہم نے کہیں سے ڈبلیو گیارہ اور رکشاؤں کے پیچھے لکھے اشعار میں تھوڑی بہت ترمیم کرکے ایک قریبی دوست کی سال گرہ پر اس کی فیس بک پر چپکا دیے۔ بس جی پھر کیا تھا ’واہ واہ‘ کے ایسے نعرے لگے کہ ہمیں بھی گمان ہونے لگا کہ کم از کم شاعری تو ہم کرہی سکتے ہیں۔ابتدا میں ہمارا اپنا خیال تو یہ تھا کہ اس میں بھی کون سے پہاڑ توڑنے ہوتے ہیں۔ محبوب، حالات، زخمی دل، نامراد محبت یا پھر دسمبربس انہی موضوعات کے گرد ہی گھوم رہی ہے شاعری۔ اچھا سا ’ قافیہ ‘ ملا کر لفظوں کی ہیرا پھیری کو اِدھر سے اُدھر ہی تو کرنا ہوتا ہے۔لیجئے جناب بس پھر کیا تھا۔دوستوں کے اصرار پر اپنے اندر چھپے بیٹھے شاعر کی ہم نے خود کھوج شروع کردی۔۔شاعری کی’الف بے‘ تو ہمیں اسکول کے زمانے سے نہیں آتی تھی بالخصوص کسی بھی شعر کی تشریح سے جان جاتی تھی۔ ’شاعر یہ کہتا ہے‘ یا پھر ’اس شعر میں شاعر کی مراد‘ جیسے جملے لکھ لکھ کر خیال آتا تھا کہ آخر اس شاعر نے کیوں اس قدر گھما پھر کر بات کی کہ اب یہ ہمیں گھن چکر بنا رہا ہے ۔ خیرجی جب اوکھلی میں سر دے دیا تھا مسلوں کا کیا ڈرکے مصداق شاعری کو واقعی سمجھنے کے لیے کتب کا مطالعہ شروع کیا تو لمحے بھر کو خیال آیا کہ کیا دردسر پال رہے ہیں، چھوڑیں، جس کا کام اسی کو سانجھے، کہاں سمجھ پائیں گے مصرع، مقطع، ثلاثی، ردیف، رباعی، مثنوی، بیت الغزل اور نجانے کون کون سی شاعری کی اصناف کو۔۔۔۔ لیکن شوق اور پھر طرم خان بننے کا خبط بھی عجیب ہے۔ جو انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ ابتدا میں ہم ’فیس بک شاعر‘ رہے۔ کبھی طنزیہ تو کبھی سنجیدہ اشعار پوسٹ کرتے رہے۔ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ ’بھئی پہلے فیصلہ تو کرلو مزاحیہ شاعر بننا ہے‘ عشقیہ یا انقلابی۔ کسی ایک صنف میں طبع آزمائی کرو کہیں ایسا نہ ہو، نہ تین میں رہو نہ تیرہ میں۔ بات تو واقعی پتے کی تھی جس کا ہمیں اب تک پتا نہیں تھا۔ تب ایک رات چھت پر لمبی تان کرلیٹتے ہوئے فیصلہ کیا ہم ساری حدیں پار کرتے ہوئے خود کو ’ہر فن مولا شاعر‘ کے طور پر پیش کریں گے۔ شرمندگی تو ابتدا میں ہی اُس وقت اٹھانی پڑی‘ جب کسی صاحب ِعلم نے دریافت کرلیا کہ ’ آپ چھوٹی بحر کو پسند کرتے ہیں یا بڑی کو۔۔۔‘ بغلیں جھانکنے لگے کیونکہ ہم تو بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس کو ہی جانتے تھے۔ہم نے کسی ماہر اور گھاگ سیاست دان کی طرح موضوع ہی بدل ڈالا۔ خیر جی اشعار تو اب تک سوشل میڈیا کی زینت بن رہے تھے لیکن پھر بھی تشنگی رہ جاتی۔ سوچا کہ چلو کوشش کرکے اب کوئی غزل بھی لکھ ڈالتے ہیں۔ کاغذ قلم سنبھالا اور لکھنا شروع کیا۔ خلاؤں میں گھورتے ہوئے کسی مستری کی طرح اشعار کی عمارت کھڑی کی لیکن مزا نہ آیا۔ جل بھن کر جو لکھا تھا وہ پھاڑ ڈالا۔ اور جناب کوئی چار گھنٹے کچھ نہ کچھ لکھنے کے باوجود ایک غزل تک لکھ نہ پائے۔ جھلا کر ایک پرانے شاعر دوست کو فون کیا اور ساری صورتحال بتائی‘ انہوں نے بھرپور قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا ’بھائی صاحب اشعار کی باقاعدہ ’ آمد‘ ہوتی ہے۔ یہ تخیل، وجود اور تخلیقی نوعیت والا ہنر ہے۔ اینٹیں اٹھانے والا کام تھوڑی ہے۔ کسی نے کہا اور آپ حکم بجا لائے۔انتظار کرو جب کوئی شعر ذہن میں گونجے تو اسے ذہن نشین کرلو۔ ممکن ہے ایک غزل مکمل ہونے میں ہفتہ لگ جائے لیکن انتظار کرو۔‘ یہ کہہ کر انہوں نے تو فون رکھ دیا، لیکن ہمارے خدشات کو اور زیادہ اٹھا دیا۔ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ لو بتاؤ ہمارا حافظہ تو اس قدر کمزور ہے کہ اگر کسی سے ایک مرتبہ قرض لے لیں تو اس کی بار بار یاد دہانی کے بعد جا کر ادا کرتے ہیں۔ اب یہ اشعار، مہنگے بادام کھا کر کیا ذہن نشین کرنے ہوں گے؟۔ ہماری طرح کے ایک دو نمبری شاعر سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ہماری مشکل آسان کرنے کی ٹھانی۔ کہنے لگے کہ ’ چالیس چالیس پرانے جریدے خریدو، ان میں کم معروف شاعروں کی نگارشات اٹھاؤ، ترتیب آگے پیچھے کرکے کسی اور جریدے کو روانہ کردو، دیکھو کیا کامیاب شاعر بنو گے۔‘ ہم نے ہونقوں کی طرح سوال داغا کہ ’ اگر پکڑے گئے تو۔ ؟ ‘ توانہوں نے مسکراتے ہوئے فخریہ انداز میں کہا ’میاں آج تک ہم پکڑ ے گئے ہیں کیا ؟ چالیس پچاس سال پرانے جرائد اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ان میں سے اکثر شعرا اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے ہوں گے‘ اسی لیے ان کی ملکیت کا دعوے دار بھی کوئی سامنے نہیں آئے گا پھر ویسے بھی پرانے شعرا کرام سے کوئی اور نہیں ان کے گھر والے زیادہ تنگ رہتے تھے۔‘ کامیابی کی کنجی تو انہوں نے ہمیں تھما دی تھی۔ لیکن سچی بات بتائیں ان کے اس مشورے پر کسی صورت دل نہیں مانا۔ہم اپنے قلم اور خیالات کے سہارے کھڑا ہونا چاہتے تھے۔ اسی جہد مسلسل کے پیش نظر اب ہم نے ادبی تقریبات میں باقاعدگی سے جانا شروع کردیا۔ اگلی صف میں بیٹھتے اور سمجھ آئے یا نہ آئے ’واہ واہ‘ کی ایسی زور زور سے گردان کرتے کہ شاعر بے چارہ سمجھتا کہ واقعی اس نے کوئی تڑپتا، سلگاتا بلکہ پانی میں آگ لگاتا ہوا کوئی شعر تخلیق کردیا ہے ۔ ہماری اس ’واہ واہ‘ اور ’مکر ر مکرر‘ نے ایسا رنگ دکھایا کہ اب ہم مشاعروں کی جان سمجھے جانے لگے۔ اس عرصے میں ہم اس فن سے تو آشنا ہوگئے تھے کہ کون سا شاعر، کس قدر ’پاور فل‘ ہے اور کس کے کہنے پر کس شاعر کو کیا مقام ملتا ہے، اسی لیے ہم نے بدمست گائے کی طرح ادھر ادھر بھٹکنے کے بجائے انہی کے کھوٹے سے بندھنے میں عافیت جانی۔ ان کے اشعار پر فلک شگاف ’واہ واہ‘ ایسے کرتے وہ ہمیں بطور خاص مخاطب کرکے اپنا کوئی شعر مکرر کرتے۔ پہلے ہمیں ایسی تقریبات کی نظامت ملنے لگی پھر تعزیتی اجلاس ہو، کتب رونمائی ، فکری نشست ہو یا پھر مشاعرہ کم از کم ہمیں کوئی نہیں بھولتا اور دیکھتے ہی دیکھتے قربتیں کام آنے لگیں۔ فیس بک پر انہی مستند شعرا کرام کے ساتھ تصویریں لگا کر ہم نے ثابت کردکھایا کہ ہم بھی شاعر ہی ہیں۔۔سامعین کی منزلیں طے کرتے ہوئے چھلانگ ما ر کر ہم انہی شعرا کرام کے سنگ بیٹھک لگانے لگے۔۔ ایسی تقریبات کے دوران ہم اپنے اشعار بھی سنادیتے اور پھر نہ نہ کرتے ہمارا شماربھی شعرا میں ہونے لگا۔ وہ اور بات ہے کہ ’شمع محفل‘ بننے کا موقع نہیں ملا ۔ جبکہ ہم نے اپنا تخلص بھی ’شاعر‘ رکھ لیا۔ اور اسی مناسبت سے سب ہمیں ’شاعر صاحب‘ کہہ کر پکارنے لگے تو احساس ہوا کہ واقعی ہم شاعر ہو ہی گئے ہیں۔حالانکہ ایک بھی غزل ہم لکھ نہ پائے تھے۔ ہاں اشعار دھڑ ادھڑ کسی نئی فلم کی طرح فیس بک پر چپکاتے رہے۔ کئی بار دل میں یہ بھی خیال آیا کہ کسی شاعر کی شاگردی قبول کرلی جائے لیکن پھر سوچا کہ کچھ عجیب نہیں لگے گا کہ جب احباب کو معلوم ہوگا کہ ’شاعر صاحب ابھی بھی شاعری کے اسرار رو موز سیکھ رہے ہیں۔ اسی لیے اب ہم تھے اور ’بااثر شعر‘ جن کے ہم ’دم چھلے‘ نہیں بلکہ ان کے ساتھ ’کمبل کی طرح چپکے‘ رہتے۔ لیکن ایک بھرپور غزل لکھنے کی آرزو دل میں قلابازیاں کھاتی رہی۔کئی بار کوشش کی لیکن چار پانچ اشعار کے بعد ہمت اور سارا تخیل اڑن چھو ہونے لگتا۔ تبھی تھک ہار کر فیصلہ کیا چاہے کچھ بھی ہوجائے، اب غزل نہیں لکھیں گے، کیونکہ ابھی تک ہم خود یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ہم ہیں کس صنف کے شاعراس کی اب تک ہم پہچان نہیں بنا پائے۔ ہاں ایک پہچان ضرور ہ قائم کردی ہم نے‘ جس کے ذریعے آپ بھی ہمیں بخوبی تلاش کرسکتے ہیں، اور وہ یہ کہ کسی مشاعرے میں کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لگی شعرا کرام کی تصاویر میں ہنستے مسکراتے ہوئے ’مان نہ مان میں میرا مہمان‘ کی عکاسی کرتے ہوئے آپ اس خادم یعنی ’شاعر نامراد‘ کو ڈھونڈ ہی نکالیں گے۔ ٭