2024ء کا انتخاب جماعت اسلامی کے لیے اچھی خبر لایا ہے۔ جماعت کے امیر سراج الحق مقبولیت کے اعتبار سے قومی راہ نماؤں کے اسٹینڈ پر چوتھے نمبر پہنچ چکے ہیں۔
جماعت اسلامی کے جن قائدین کا سب سے زیادہ احترام کیا جاتا ہے، یہ ایک عمومی اتفاق رائے ہے کہ اس معاملے میں مولانا مودودی علیہ رحمہ کا کوئی ثانی نہیں۔ عوامی مقبولیت میں کون پہلے نمبر پر ہے، مقبول عام تاثر یہی ہے کہ قاضی حسین احمد مرحوم۔ قاضی صاحب نے جماعت کی قیادت سنبھالی تو وہ اپنی متحرک شخصیت کے باوصف جماعت جیسی سنجیدہ نظریاتی تحریک کو عوام میں لے آئے۔ ان سے پہلے ایسے مناظر دیکھنے کو شاید کبھی نہیں ملے تھے۔
جناب سراج الحق کے کاندھوں پر اس جماعت کی ذمے داری آئی تو انھوں نے مولانا مودودی اور میاں طفیل محمد مرحوم کی طرح سیاست کے مرکزی دھارے میں رہنے کے باوجود قاضی صاحب جیسی سرگرمیوں کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی اور نہ قاضی صاحب جیسی مہمات چلائیں لیکن اس کے باوجود وہ قومی قائدین کے درمیان مقبولیت میں چھوتھے نمبر پر ہیں تو یہ معمولی بات نہیں نیز یہ سمجھنے کی ضرورت بھی ہے کہ انھوں نے اگر ماضی کے دو ماڈل بھی اختیار نہیں کیے تو پھر ان کا ماڈل کیا ہے؟
یہ جائزہ اسی ماڈل کو سمجھنے کی کوشش ہے۔ پی ٹی آئی جیسی جماعت کے ابھرنے سے قبل جماعت اتحادوں کی سیاست سے لاتعلقی اختیار کر چکی تھی لیکن جماعت کے منظر پر آنے کے بعد جماعت کی سیاست میں بھی دو تبدیلیاں آئیں۔ جماعت کے حلقوں میں اس جماعت کے ساتھ اتحاد کی خواہش پیدا ہوئی۔ حفیظ اللہ نیازی اور جاوید ہاشمی کی گواہی کے مطابق عمران خان کی دھوکہ دہی کی وجہ یہ ممکن نہ ہو سکا۔
یہ بھی پڑھئے:
کیا مسلم لیگ ن لیگ کا منشور قابل عمل ہے؟
پاکستان کو نواز دو۔ مسلم لیگ ن نے منشور پیش کر دیا
مریم نواز نے ووٹروں کو کیا مشورہ دیا؟
بک کارنر کے شاہد حمید کون تھے؟ ایک حیرت انگیز تذکرہ
اس دھوکے کے باوجود جماعت کے نوجوان اور بعض صورتوں میں عمر رسیدہ حلقے میں عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے ہمدردی پائی گئی اور ایک قابل لحاظ تعداد بھی اس کی نذر ہوئی۔ شاید یہی سبب رہا ہو گا کہ دھرنے کے ایام اور دیگر مواقع پر بھی سراج الحق کی زبان سے عمران خان اور ان کی جماعت کے لیے کلمہ خیر برآمد ہوتا رہا تاکہ اپنے لوگوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ عمران خان کو جب بھی موقع ملا، انھوں نے جماعت اسلامی کی قیادت کی توہین سے کبھی گریز نہیں کیا۔
ان تجربات کے بعد جماعت اسلامی ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔ یہ وہی دور ہے جس میں گوادر میں ہمیں مولانا ہدایت الرحمان اور کراچی میں حافظ نعیم الرحمن ابھرتے ہوئے دکھائی دیے۔ ان دونوں قائدین نے مقامی مسائل کو نہایت مؤثر انداز میں اٹھایا۔ اس ضمن میں انھوں صرف ذرائع ابلاغ کا سہارا ہی نہیں لیا بلکہ عوام کو بھی متحرک کیا۔ یہ حکمت عملی کئی اعتبار سے کامیاب رہی جس کا سب سے اہم پہلو یہ تھا جماعت کے متعلقہ قائدین مقامی ابادی خاص طور پر نئی نسل کو متاثر کرنے میں کامیاب رہی۔ گوادر ہو یا کراچی دونوں جگہ یہ شواہد ملتے ہیں کہ عام آدمی جس کا جماعت کبھی کوئی تنظیمی یا نظریاتی تعلق نہیں رہا، وہ بھی ان سرگرمیوں میں دلچسپی لینے پر مجبور ہوا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکمت عملی ایسی تھی جو ماضی میں شاید اختیار نہیں کی گئی۔ کیا یہ حکمت عملی کامیاب رہی؟ اس کا ثبوت ہمیں کراچی اور گوادر کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں ملتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ اثر انگیزی کراچی کے مقابلے میں گوادر میں زیادہ کامیاب رہی ہو۔
جہاں تک سراج الحق کی مقبولیت کا تعلق ہے، اس کا سراغ بڑی سیاسی جماعتوں سے عوام کے ایک قابل لحاظ حصے کی مایوسی میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ سراج الحق چوں کہ بلا امتیاز تمام سیاسی جماعتوں اور قائدین کو ہدف تنقید بناتے ہیں، اس لیے ہو سکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں سے مایوس طبقات کو ان کی یہ حکمت عملی اپیل کر گئی ہو۔
اب آتے ہیں، اس سوال کی طرف کہ کیا سراج الحق صاحب کی یہ مقبولیت حالیہ انتخابات میں جماعت کو کوئی فائدہ پہچا سکے گی؟ گوادر کے بارے میں تو معلومات میسر نہیں ہیں لیکن رائے عامہ کے جائزے بتاتے ہیں کہ کراچی سے قومی اسمبلی کے جماعت کے ایک سے دو اور صوبائی اسمبلی کے سات سے آٹھ امیدوار کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اگر انتخابی نتائج ان اندازوں کے مطابق آتے ہیں تو یہ بہت بڑی پیش رفت ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ خیبر پختونخوا کے بعد جماعت اسلامی نے انتخابی میدان میں ایک بڑی جست بھری ہے۔
اس مقبولیت کا جائزہ ایک اور انداز میں بھی لیا جا سکتا ہے۔ وہ ہے ووٹوں کی مجموعی تعداد، گزشتہ انتخابات میں جماعت کے مجموعی ووٹوں کی تعداد چند لاکھ سے زائد کبھی نہیں رہی۔ لیکن اس بار یہ تعداد بڑھ کر دو فگرز یعنی بیس، تیس اور چالیس لاکھ کی طرف سفر کرتی ہے تو یہ ایک بڑی پیش رفت ہوگی۔ ان تجربات کی کامیابی کے بعد جماعت آئندہ انتخابات کے لیے ایک نئے عزم کے ساتھ کسی بڑے ہدف کی طرف بڑھ سکتی ہے۔